Express News:
2025-04-22@01:58:14 GMT

وقت گزر جاتا ہے

اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT

وقت کا مزاج بھی عجیب ہے۔ یہ کبھی نرم اور مہربان معلوم ہوتا ہے تو کبھی سخت اور بے رحم لگتا ہے۔ کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی خوشیوں سے بھر گئی ہے اور دنیا کے سارے رنگ ہماری جھولی میں ڈال دیے گئے ہیں تو کبھی یوں لگتا ہے جیسے ہر راستہ بند اور ہر امید دم توڑ چکی ہو۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ وقت کبھی ایک حال پر نہیں رہتا۔

جو لمحہ آج مسکراتا ہوا ہمارے ساتھ ہے، کل یہی لمحہ کسی اور کے حصے میں ہوگا اور جو دکھ، تکلیف اور آزمائش آج ہماری دہلیز پر دستک دے رہی ہے، کل وہ کسی اور کے دروازے پر جا کھڑی ہوگی۔ وقت کے قدم کبھی رکتے نہیں، نہ یہ کسی کے لیے ٹھہرتا ہے، نہ کسی کے کہنے پر اپنی رفتار بدلتا ہے۔

یہ اپنی مخصوص چال میں آگے بڑھتا رہتا ہے۔ خوشیوں کے لمحے ہوں یا دکھوں کی گھڑیاں، راحت ہو یا تکلیف، وقت سب کو بہا کر لے جاتا ہے، مگر انسان اکثر اس حقیقت کو بھول جاتا ہے۔ جب خوشی کا دور آتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ہمیشہ قائم رہے گا اور جب آزمائشوں کا سامنا ہوتا ہے تو لگتا ہے جیسے یہ کبھی ختم نہیں ہوں گی۔

زندگی کا اصول یہی ہے کہ ہر رات کے بعد صبح طلوع ہوتی ہے، ہر خزاں کے بعد بہار آتی ہے اور ہر مشکل کے بعد آسانی مقدر بنتی ہے۔ خوشی اور غم، کامیابی اور ناکامی، عروج اور زوال، سبھی وقت کے دھارے میں بہتے رہتے ہیں۔ کسی بھی انسان کی زندگی میں وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا، اگر ہم یہ حقیقت سمجھ لیں کہ ہر مشکل وقت کے بعد آسانی آتی ہے تو زندگی کے نشیب و فراز ہمیں زیادہ تکلیف نہیں دیں گے، بلکہ ان سے حوصلہ، استقامت اور ہمت ملے گی۔

 زندگی میں کئی بار ہمیں لگتا ہے کہ سب کچھ ختم ہوگیا، لیکن کچھ عرصہ بعد وہی مسئلہ اتنا معمولی محسوس ہوتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ ہم اس پر اتنا پریشان کیوں تھے؟ مشکل وقت ہمیں صبر، استقامت، حوصلہ اور بردباری کا سبق دیتا ہے۔

دنیا کے تمام کامیاب لوگ اپنی مشکلات کے دور میں ہمت نہیں ہارتے۔ آپ نے زندگی میں ایسے کئی افراد دیکھے ہوں گے جو کبھی شدید مشکلات میں تھے، مگر وقت بدلا اور وہ کامیابی کی بلندیوں پر پہنچے۔ نیلسن منڈیلا نے 27 سال قید و بند میں گزارے، مگر وہی شخص جنوبی افریقہ کا صدر بنا۔

ابراہام لنکن کئی بار انتخابی ناکامیوں کا سامنا کرنے کے بعد امریکا کا صدر بنا۔ انھوں نے اپنی زندگی میں بے شمار مشکلات دیکھیں، لیکن وہ جانتے تھے کہ مشکل وقت گزر جائے گا۔ زندگی میں بعض اوقات انسان کو لگتا ہے کہ اب کوئی راستہ نہیں بچا اور ہر دروازہ بند محسوس ہوتا ہے، لیکن جب ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کئی نئے دروازے کھول دیتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ انسان صبر کرے، ہمت نہ ہارے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے۔

 جس طرح مشکل وقت ہمیشہ نہیں رہتا، اسی طرح خوشی کے لمحات بھی مستقل نہیں ہوتے، جو لوگ کامیابی کی بلندیوں پر پہنچ کر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ وقت کبھی نہیں بدلے گا، وہ دراصل بہت بڑی غلط فہمی میں ہوتے ہیں، اگر آج زندگی میں سب کچھ اچھا چل رہا ہے تو ہمیں گھمنڈ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

بعض لوگ جب خوشحالی اور کامیابی حاصل کر لیتے ہیں تو وہ دوسروں کو کمتر سمجھنے لگتے ہیں، اپنی دولت اور شہرت پر فخر کرنے لگتے ہیں، مگر بھول جاتے ہیں کہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ کتنے ہی لوگ تھے جو کل تک تخت پر تھے، آج وہ زمین پر بھی نظر نہیں آتے۔

ہماری تاریخ ایسے بادشاہوں، سیاستدانوں اور دولت مند افراد سے بھری پڑی ہے جنھوں نے اپنی طاقت اور دولت کو ہمیشہ قائم رہنے والا سمجھا، مگر جب وقت بدلا تو ان کا نام تک مٹ گیا۔ جب ہم خوشی اور کامیابی کے وقت میں ہوتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم شکر گزار رہیں اور دوسروں کے ساتھ بھلائی کریں، اگر ہمیں یہ احساس ہو کہ یہ کامیابی اور خوشی بھی مستقل نہیں تو ہم غرور اور تکبر سے بچ سکتے ہیں۔

تاریخ میں بڑے بڑے بادشاہ، حکمران اور مالدار لوگ آئے، مگر وقت نے سب کچھ بدل دیا۔ آج ان کے نام صرف کتابوں میں ملتے ہیں، ان کا جاہ و جلال سب مٹی میں دفن ہوگیا، جو شخص دولت اور طاقت کے نشے میں مبتلا ہو کر دوسروں کو کمتر سمجھنے لگتا ہے، وہ بھول جاتا ہے کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ .

زندگی میں سب سے بڑی دانائی یہی ہے کہ ہم نہ تو خوشی میں خود کو ناقابلِ شکست سمجھیں اور نہ غم میں خود کو برباد محسوس کریں۔ ہر حال میں اعتدال اور توازن رکھنا سب سے بڑی کامیابی ہے، اگر ہم کسی مشکل میں ہیں تو ہمیں یہ سوچ کر حوصلہ رکھنا چاہیے کہ یہ وقت بھی ہمیشہ نہیں رہے گا۔ اسی طرح اگر ہم کسی کامیابی پر ہیں تو ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ کامیابی بھی ہمیشہ نہیں اور ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

انسان کو وقتی جذبات میں بہہ کر فیصلے نہیں کرنے چاہیے۔ زندگی کے نشیب و فراز میں سب سے زیادہ نقصان وہ لوگ اٹھاتے ہیں جو وقتی جذبات میں بہہ کر غلط فیصلے کر لیتے ہیں۔ کئی لوگ غصے، مایوسی یا بے بسی میں ایسے اقدامات کر بیٹھتے ہیں جو ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں، اگر وہ یہ سوچ لیں کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا تو وہ کبھی بھی وقتی جذبات میں غلط فیصلے نہیں کریں گے۔

اگر ہم زندگی کو ایک سفر سمجھیں تو ہمیں وقت کی حقیقت کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ کوئی بھی مسافر ہمیشہ ایک ہی جگہ نہیں رکتا، وہ چلتا رہتا ہے، کبھی دھوپ میں، کبھی چھاؤں میں، کبھی اونچائی پر، کبھی نشیب میں۔ یہی زندگی کا قانون ہے، اگر آج کوئی مشکل میں ہے تو وہ ہمیشہ نہیں رہے گی، اگر آج کوئی خوش ہے تو وہ ہمیشہ اسی حال میں نہیں رہے گا۔

بس ہمیں چاہیے کہ ہم ہر حال میں اللہ پر بھروسا رکھیں، محنت کرتے رہیں اور صبر و شکر کے ساتھ زندگی گزاریں۔ مایوسی دراصل انسان کے حوصلے کو ختم کردیتی ہے، جب کہ امید اس کی ہمت کو زندہ رکھتی ہے۔ جو لوگ مشکلات میں بھی امید کا دامن تھامے رکھتے ہیں، وہی اصل میں کامیاب ہوتے ہیں۔

درخت خزاں میں بے برگ و بار ہو جاتے ہیں، لگتا ہے جیسے وہ مرچکے ہیں، مگر بہار آتے ہی وہی درخت پھر سے ہرے بھرے ہو جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح، زندگی میں بھی کبھی خزاں آتی ہے، کبھی بہار۔ اگر آج وقت سخت ہے تو کل یقیناً بہتر ہوگا۔

کبھی سوچیں، وہ مشکل وقت جس نے آپ کو رلایا تھا، جس نے آپ کو بے چین کیا تھا، وہ بھی گزر گیا اور وہ خوشی کے لمحات جنھیں آپ نے ہمیشہ کے لیے سنبھالنا چاہا تھا، وہ بھی گزرگئے، یہی وقت کی فطرت ہے۔ اس لیے نہ غم میں مایوس ہوں، نہ خوشی میں مغرور۔ بس اللہ پر یقین رکھیں، اپنا کام کرتے رہیں اور صبر و شکر کے ساتھ زندگی گزاریں، کیونکہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: محسوس ہوتا ہے ہمیشہ نہیں زندگی میں نہیں رہتا کہ یہ وقت مشکل وقت چاہیے کہ ہوتے ہیں تو ہمیں بھی گزر جاتا ہے ہے جیسے لگتا ہے اگر ا ج اگر ہم کے بعد ہیں تو

پڑھیں:

پاکستانی میڈیا: سچ کے بجائے منظر نامے کا اسیر؟

کہا جاتا ہے کہ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے، لیکن جب یہی ستون اپنے بوجھ تلے دبنے لگے، جب سچائی کو مفادات کی چادر میں لپیٹ دیا جائے، اور جب خبر ایک تجارتی شے بن جائے تو قوم کا شعور بجھنے لگتا ہے۔

پاکستان میں صحافت کا وہ شاندار ماضی اب ایک دھندلے عکس کی مانند ہے، جہاں کبھی تحقیق، جستجو اور سچائی صحافی کے قلم کا سرمایہ تھیں، آج وہی قلم اشتہارات کی سیاہی سے تر ہے۔

ناظر کو اب وہ نہیں دکھایا جاتا جو دراصل وقوع پذیر ہوا، بلکہ وہ دکھایا جاتا ہے جو مخصوص حلقوں کو راس آتا ہو، میڈیا کی اس روش نے خبر اور تاثر کے درمیان لکیر مٹا دی ہے۔

ذرائع ابلاغ جو کبھی عوام کی آنکھ اور ریاست کی نگرانی کا ذریعہ تھے، اب ایک ایسی صنعت بن چکے ہیں جہاں ریٹنگز، اشتہارات اور سنسنی خیزی ہی اصل کرنسی ہے۔

خبروں کی وقعت اب ان کی صداقت سے نہیں، بلکہ ان کی فروخت پذیری سے متعین ہوتی ہے، صحافت جو کبھی ضمیر کی آواز تھی، اب تفریحی مواد میں ڈھل چکی ہے۔ سنجیدہ تجزیہ ایک نایاب جنس ہے، جبکہ شور شرابہ، چیختے اینکرز اور جذباتی مناظر وہ لوازمات ہیں جو بریکنگ نیوز کی پہچان بن چکے ہیں۔

یہ امر باعثِ حیرت نہیں کہ ریاستی ادارے بھی اکثر اسی میڈیا کے زیرِ اثر آ جاتے ہیں، جسے کبھی وہ اپنا معاون سمجھتے تھے۔ میڈیا بعض اوقات ریاستی بیانیے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، تو کبھی اسی بیانیے کو سبوتاژ کرنے کے لیے محاذ آرا ہو جاتا ہے۔ یہ دوغلا پن میڈیا اور ریاست کے درمیان ایک مصلحتی رشتہ قائم کرتا ہے، جو نہ مستقل ہوتا ہے، نہ معتبر۔ اسی لیے عوام اب یہ سوال کرتے ہیں کہ جو ہم دیکھ رہے ہیں، کیا وہ ریاست کی آواز ہے یا کسی اور کے مفاد کا عکس؟

سیاسی وابستگیاں بھی پاکستانی میڈیا کی ساخت کا اہم جزو بن چکی ہیں۔ ایک مخصوص جماعت کے حق میں نرم گوشہ، دوسری کے خلاف محاذ آرائی اور تیسری کے لیے مکمل خاموشی، یہ سب وہ رویے ہیں جو صحافت کے بنیادی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ اکثر اوقات تجزیہ تجویز بن جاتا ہے، اور رائے کو خبر کا جامہ پہنا دیا جاتا ہے، اس طرزِ عمل نے عوامی اعتماد کو شدید زک پہنچائی ہے۔

صحافی اب صرف خبر کے راوی نہیں رہے، وہ خود خبر بن چکے ہیں، عدالتوں کے فیصلے پہلے فیصلے صادر کر دینا، تحقیق سے پہلے فتوے دینا، اور مخالفین کو نشانہ بنانا یہ سب اس نئے صحافتی کلچر کا حصہ ہیں، جو کسی فکری یا اخلاقی نظام سے خالی ہے۔ صحافت کی نجی حیثیت کا کمرشلائزیشن نے گلا گھونٹ دیا ہے، اور سچائی اب نفع و نقصان کے ترازو میں تولی جاتی ہے۔

یہ وہ لمحہ فکریہ ہے جہاں ہمیں رک کر سوچنا ہوگا کہ کیا صحافت واقعی ریاست کے ساتھ ہے، یا صرف ریٹنگ کے ساتھ؟ کیا میڈیا عوامی شعور کو بیدار کررہا ہے، یا اسے مفلوج بنا رہا ہے؟ کیا اینکرز قوم کی رہنمائی کررہے ہیں، یا اسے اشتعال اور الجھن کی طرف دھکیل رہے ہیں؟ جب صحافت ضمیر کے بجائے بازار کی زبان بولنے لگے تو سمجھ لیجیے کہ معاشرہ سمت کھو چکا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم صحافت کو اس کے اصل مقام پر واپس لائیں۔ ایسا میڈیا تشکیل دیا جائے جو ریاست کا آلہ کار نہ ہو، اور نہ ہی سیاسی مفادات کا غلام، بلکہ ایک ایسا ادارہ ہو جو سچائی کی پاسداری کرے، تنقید کو تعمیری رخ دے، اور عوام کو صرف آگاہ نہ کرے بلکہ باشعور بھی بنائے۔ ہمیں ایک ایسی صحافت درکار ہے جو علامہ اقبال کے ’فکرِ بلند، گفتارِ دلنواز، اور روحِ حریت‘ کی ترجمان ہو۔

ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم وہ صحافت چاہتے ہیں جو بکتی ہے یا جو جگاتی ہے؟ جو جھنجھوڑتی ہے یا جو بہکاتی ہے؟ جو ریاست کے ساتھ ہے، یا صرف ریٹنگ کے ساتھ؟ یہ فیصلہ صرف میڈیا کا نہیں، پورے معاشرے کا ہے، اور شاید یہ فیصلہ ہی ہمارا مستقبل متعین کرے گا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر راسخ الكشميری

wenews پاکستانی میڈیا ذرائع ابلاغ ریاست ریاست کا ستون سچائی سنسنی خیزی صحافت مفادات وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • Rich Dad -- Poor Dad
  • کبھی نہیں کہا میرے خلاف مہم کے پیچھے علیمہ خان ہیں، شیر افضل مروت
  • ریاست اپنی جگہ لیکن کسی کی زندگی سےکھیلناقابل قبول نہیں:عظمیٰ بخاری
  •  دو ریاستی حل ہم کبھی بھی اسرائیل کو قبول ہی نہیں کرتے، فخر عباس نقوی 
  • پاکستانی میڈیا: سچ کے بجائے منظر نامے کا اسیر؟
  • تسخیر کائنات اور سائنسی ترقی کا لازم فریضہ
  • اور ماں چلی گئی
  • عمران خان سرخرو ہوں گے، کبھی ڈیل نہیں کریں گے: زرتاج گل
  • عمران خان سرخرو ہوں گے، وہ کبھی بھی ڈیل نہیں کریں گے: زرتاج گل
  • بانی پی ٹی آئی سرخرو ہوں گے، کبھی بھی ان سے ڈیل نہیں کریں گے: زرتاج گل