اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں صارفین کو میٹا کی مقبول کالنگ اور میسجنگ ایپ واٹس ایپ کے استعمال میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

صارفین کی جانب سے شکایات موصول ہوئی ہیں کہ واٹس ایپ پر نہ صرف پیغامات کی ترسیل میں تاخیر ہو رہی ہے بلکہ گروپ چیٹس میں بھیجے گئے پیغامات، تصاویر اور ویڈیوز بھی دوسرے صارفین تک نہیں پہنچ پا رہے۔ اس کے علاوہ اسٹیٹس اپلوڈ کرنے میں بھی مسائل درپیش ہیں۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ایکس (ٹوئٹر) اور فیس بک پر بھی صارفین نے شکایت کی کہ واٹس ایپ کی سروس میں خلل آ رہا ہے، اور میسجز بھیجنے یا موصول کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

پاکستان میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں، جہاں واٹس ایپ صارفین دن بھر سروس میں تعطل، پیغامات کی تاخیر اور ڈیلیوری میں مسائل کی شکایات کرتے نظر آئے۔

تاحال میٹا کی جانب سے واٹس ایپ سروس کی بندش پر کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا، تاہم عالمی سطح پر یہ تعطل صارفین کے لیے تشویش کا باعث بن گیا ہے۔
مزیدپڑھیں:میرپور: تمباکو مصنوعات کی رات کے وقت ترسیل پر دفعہ 144 کے تحت پابندی عائد

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: واٹس ایپ

پڑھیں:

دنیا ایک اور جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی

دنیا کے نقشے پر کبھی کبھی کچھ ملک ایسے لگتے ہیں جیسے جلتے ہوئے کوئلوں پر رکھے گئے پھول۔ آج کا وینیز ویلا بھی انھی ملکوں میں سے ایک ہے، ایک ایسا خطہ جو اپنے زخموں کے ساتھ دنیا کو پکار رہا ہے کہ بس اب بہت ہوگیا۔

ہم ایک ایسے وقت میں جی رہے ہیں، جب ہماری آنکھیں ابھی تک غزہ کے ملبے سے اٹھتے دھویں اورآگ کو بھول نہیں سکی ہیں۔ وہاں کے بچوں کی چیخیں ہماری سماعت میں مسلسل گونجتی ہیں اور ہم ابھی تک ان معصوم چہروں پر جمی خاک کو صاف بھی نہیں کرپائے کہ دوسری طرف یوکرین کی جنگ ایک نئی بربادی کی کہانی لکھ رہی ہے اور اس سب کے بیچ وینیز ویلا کے آسمان پر امریکی جنگی جہازوں کی پروازیں ایک اور بربادی کی طرف قدم ہے۔

دنیا پہلے ہی لہو میں ڈوبی ہوئی ہے۔ کیا ہم ایک اور جنگ برداشت کر سکتے ہیں؟ کیا تہذیبیں اسی طرح فنا ہوتی ہیں۔ وینیز ویلا کے عوام جو برسوں سے پابندیوں معاشی بربادی سیاسی جبر اور تقسیم کا عذاب سہہ رہے ہیں۔

ملک کے اندر قحط بے روزگاری غیر معمولی مہنگائی بجلی اور پانی کی کمی جیسے بحران یہ لوگ برداشت کر رہے ہیں اورکوئی ان کی فریاد سننے کو تیار نہیں ہے۔ ایسے میں امریکا کی فوجی پروازیں اور وینیز ویلا کے عوام پر طاقت کا مظاہرہ اور ممکنہ مداخلت کی بازگشت نے اس خطے میں امن استحکام اور سلامتی کو ختم کردیا ہے۔

ہم نے جابر حکومتوں کے خلاف آوازیں بلند کی ہیں اور دنیا بھر کی آمریتوں پر سوال اٹھائے ہیں، مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بڑی طاقتوں کی مداخلتیں کبھی بھی جمہوریت کا دروازہ نہیں کھولتیں وہ صرف ایک نئی طرح کی غلامی چھوڑ جاتی ہیں۔ عراق، افغانستان، لیبیا، شام ان سب کا انجام ایک جیسا ہی تھا۔

آج وینیزویلا کی عوام اپنی زمین پرکھڑی ہے، ایک جبرکے سامنے مگر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر اس جبر کے مقابلے میں جنگ ہوئی تو وہ جنگ انھیں مزید کمزور، مزید تقسیم اور مزید بے گھر کر دے گی۔

ہمارے زمانے کا المیہ یہ ہے کہ ہر طاقتور ملک اپنے آس پاس کمزور ریاستیں تلاش کرتا ہے تاکہ اپنی عسکری طاقت اپنی سیاسی برتری اور اپنے سرمایہ دارانہ مفادات کی بھوک کو مٹا سکے۔ وینیز ویلا میں تیل کے ذخائر ہمیشہ سے عالمی طاقتوں کی نظر میں رہے ہیں۔ ایسے میں انسانی حقوق کی باتیں، جمہوریت کا نعرہ اور عوام کے لیے ہمدردی، اس کی فکر کس کو ہوتی ہے۔

دنیا کی سامراجی سیاست میں انسان کا خون اکثر خاموشی سے بہایا جاتا ہے، صرف اس لیے کہ بازار محفوظ رہیں اور سرمایہ داروں کے منافع میں کمی نہ آئے۔

وینیز ویلا کی موجودہ صورتحال بھی اسی پالیسی کا ایک باب ہے، اب اگر سمجھ بوجھ کا مظاہرہ نہیں کیا گیا تو یہ صورتحال بہت خطرناک ہوسکتی ہے کیونکہ اس بار ہم ایک ایسے موڑ پرکھڑے ہیں جہاں ہر نئی جنگ انسانیت کے وجود کو ہلا دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر تنازع میں سب سے پہلے غریب مرتا ہے۔ جنگ ہمیشہ کمزوروں کے خون سے لکھی جاتی ہے اور طاقتور میز پر بیٹھ کر معاہدے کرتے ہیں۔ کچھ نئے نقشے کھینچتے ہیں اور دنیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان تباہیوں کو نئے عالمی حالات سمجھ کر قبول کیا جائے۔

دنیا کے ترقی پسند حلقوں، بائیں بازو کے کارکنوں اور امن کے علمبرداروں کی ذمے داری پہلے سے کہیں بڑھ چکی ہے۔ وینیز ویلا کے بحران کا حل سفارت کاری، مکالمہ، علاقائی تعاون اور عالمی ہمدردی میں ہے نہ کہ بارود میں۔

ہم سب کو یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کیسا مستقبل اپنے بچوں کے لیے چھوڑکر جائیں گے۔ کیا ہم ان کے سروں پہ جنگ کا خوف مسلط کر کے جائیں گے یا ایک ایسا کل جس میں امن، انصاف اور انسانی وقار موجود ہو۔ ہمیں بہت سنجیدگی سے نہ صرف سوچنا ہوگا بلکہ اس کے لیے آج اور ابھی سے کام کرنا ہوگا۔

وینیز ویلا اگر ایک اور محاذ بن گیا تو یہ محاذ صرف لاطینی امریکا کی سرحدوں تک محدود نہیں رہے گا۔ یہ محاذ عالمی سیاست کو اس آگ میں جھونک دے گا جس میں سب کچھ جل کر راکھ ہو سکتا ہے۔

آج یہ سوچنا ناگزیر ہوگیا ہے کہ دنیا کی سیاست کب تک سرمایہ دارانہ مفادات کے گرد گھومتی رہے گی۔ کب تک وسائل کی ہوس انسانوں کے خون پر غالب رہے گی؟

بڑی طاقتیں ہمیشہ جمہوریت کے نام پر مداخلت کرتی رہی ہیں مگر آخر میں نہ جمہوریت بچتی ہے نہ انسان۔ صرف راکھ بچتی ہے اور اس راکھ میں دفن ہوجاتے ہیں وہ خواب جو کبھی آزادی کے لیے دیکھے گئے تھے۔

اسی لیے ضروری ہے کہ عالمی برادری جنگی نعروں کے بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کریں، اگر ایک بار یہ شعلہ بھڑک اٹھا تو یہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ ایسے میں امن کی آوازیں بلند کرنا، مکالمے کے دروازے کھولنا اور عوامی مشکلات کو سیاسی جنگ سے الگ سمجھنا ہماری مشترکہ انسانی ذمے داری ہے۔

دنیا کا مستقبل اسی وقت محفوظ ہو سکتا ہے جب طاقتورکمزورکو روندنے کے بجائے اس کا ہاتھ تھامیں۔ اگر ہم نے اس لمحے کو ضایع کردیا تو کل تاریخ ہم سب کو اس بربادی کا ذمے دار ٹھہرائے گی۔

وینیزویلا جو کبھی لاطینی امریکا کی مضبوط معیشتوں میں شمار ہوتا تھا برسوں سے جاری پابندیوں کرپشن بد انتظامی اور خارجی دباؤ نے اس ملک کے عام شہریوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ خوراک کی قلت، ادویات کی کمی، پانی کے بحران نے لوگوں کو شدید مشکلات میں مبتلا کر رکھا ہے۔

لاکھوں لوگ بہتر زندگی کی تلاش میں ہمسایہ ممالک کی طرف ہجرت کر چکے ہیں اور جو باقی رہ گئے ہیں، وہ خوف غیر یقینی اور غربت کے ساتھ روزانہ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔دنیا میں اس وقت پہلے ہی کئی محاذ سلگ رہے ہیں۔

ایسے میں وینیز ویلا کا بحران اگر شدت اختیارکرتا ہے، تو یہ صرف ایک ملک کا مسئلہ نہیں رہے گا بلکہ پورے خطے اور عالمی امن کو متاثرکرے گا۔

وینیز ویلا کے عوام کو مزید زخم دینے کے بجائے یہ اہم ہے کہ ان کے ملک میں سیاسی استحکام ہو اور عوام کو معاشی بحران سے نکالنے کی ضرورت ہے۔ جنگ کبھی کسی مسئلے کا حل نہیں رہی۔ اس نے صرف گھر، شہر اور خواب جلا کر راکھ کیے ہیں۔

امن کی راہیں تلاش کرنا، اختلافات کو سیاسی طریقے سے حل کرنا اور کمزور اقوام کے حقِ خود مختاری کا احترام کرنا ہی وہ راستہ ہے جس سے دنیا کو بچایا جاسکتا ہے، ورنہ تاریخ ایک بار پھر لکھے گی کہ انسان نے اپنی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا۔

متعلقہ مضامین

  • دنیا ایک اور جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی
  • ایک عام سی بات
  • میرپورخاص،ماڈل اور ماروی ٹائون کے صارفین بجلی سے محروم
  • کسی نام نہاد سیاست دان کو پاک فوج کے خلاف بات کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، علامہ ضیاء اللہ
  • واٹس ایپ نے مس کالز میسجز اور اے آئی امیج ٹولز کے نئے فیچرز متعارف کروا دیے
  • عمران، فیض حمید گٹھ جوڑ تباہی، عوام کو تقسیم کیا: طارق فضل چوہدری
  • واٹس ایپ میں وائس میل جیسے مسڈ کالز میسجز سمیت متعدد نئے فیچرز متعارف
  • واٹس ایپ نے فارورڈنگ انٹرفیس کو نیا روپ دے دیا، شیئرنگ مزید آسان
  • ویڈیو ایڈیٹنگ کیلئے اب کیپ کٹ کی ضرورت نہیں، گوگل فوٹوز کی نئی اپدیٹ
  • پابندی کا شکار حیدر علی کو پی سی بی کی طرف سے بڑا ریلیف مل گیا