سید عباس عراقچی نے امریکہ کو منتقل کرنے کیلئے عمانی وزیر خارجہ کو ایران کا موقف پیش کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
ایرانی وزیر خارجہ سے اپنی ایک ملاقات میں بدر البوسعیدی نے امریکہ کیساتھ مذاکرات کیلئے اسلامی جمہوریہ ایران کیجانب سے عمان پر اعتماد کرنے کیلئے اظہار تشکر کیا۔ اسلام ٹائمز۔ ظالمانہ و غیر قانونی امریکی پابندیوں کے خاتمے اور جوہری پروگرام پر وائٹ ہاوس کے ساتھ ایران کے بالواسطہ مذاکرات شروع ہو چکے ہیں، جس کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی" ایک وفد کی سربراہی کرتے ہوئے "مسقط" میں موجود ہیں۔ جہاں انہوں نے ابھی کچھ ہی دیر قبل اپنے عمانی ہم منصب "بدر البوسعیدی" سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں سید عباس عراقچی نے تمام شعبوں میں دونوں ممالک کے درمیان مستحکم تعلقات اور علاقائی مسائل و صورت حال پر عمان کے ذمے دارانہ کردار کو سراہا۔ انہوں نے امریکہ و ایران کے مابین بالواسطہ مذاکرات کی میزبانی کو اسی ذمے داری کی کڑی قرار دیا۔ سید عباس عراقچی نے ایران_امریکہ تناو میں کمی کے موضوع پر توجہ دینے کے لئے اپنے عمانی ہم منصب کا شکریہ بھی ادا کیا۔
دوسری جانب بدر البوسعیدی نے ایرانی وفد کو عمان آنے پر خوش آمدید کہا۔ انہوں نے عمان اور ایران کے درمیان تعلقات کو بے مثال قرار دیا۔ انہوں نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے عمان پر اعتماد کرنے پر اظہار تشکر کیا۔ اس موقع پر عمانی وزیر خارجہ نے سید عباس عراقچی کو آج کے بالواسطہ مذاکرات کے متوقع انتظامات اور مقدمات سے آگاہ کیا۔ اسی طرح ایران و امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے سلسلے میں سید عباس عراقچی نے امریکی فریق کو منتقل کرنے کے لیے عمانی وزیر خارجہ کو تہران کا موقف اور نقطہ نظر فراہم کیا۔ یاد رہے کہ آج مسقط میں امریکہ و ایران کے درمیان باضابطہ طور پر بالواسطہ مذاکرات شروع ہو چکے ہیں۔ ایرانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ سید عباس عراقچی اور امریکی وفد کی قیادت ڈونلڈ ٹرامپ کے نمائںدہ برائے مشرق وسطی امور "اسٹیو ویٹکاف" کر رہے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سید عباس عراقچی نے بالواسطہ مذاکرات نے امریکہ کے درمیان ایران کے انہوں نے
پڑھیں:
تہران یورینیم افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار
تہران(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 اپریل ۔2025 ) اعلیٰ ایرانی عہدیدار نے بتایا ہے کہ تہران امریکا کو واضح کرچکا ہے کہ یورینیم کی افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار ہیں لیکن اس کے لیے مضبوط ضمانتوں کی ضرورت ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نئے جوہری معاہدے سے دوبارہ دستبردار نہیں ہوں گے.(جاری ہے)
عرب نشریاتی ادارے نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان روم میں ہونے والے مذکرات کے دوسرے دور کو دونوں فریقوں نے مثبت قرار دیا ہے صدر ٹرمپ نے فروری سے تہران پر”زیادہ سے زیادہ دباﺅ“ کی مہم دوبارہ نافذ کی ہے اپنی پہلی مدت کے دوران 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے ایٹمی معاہدے سے 2018 میں دستبردار ہو گئے تھے اور ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں.
ٹرمپ کی دو شرائط کے درمیان کے سالوں میں تہران نے 2015 کے معاہدے کے تحت اپنے ایٹمی پروگرام پر عائد پابندیوں سے مسلسل تجاوز کیا ان پابندیوں کا مقصد ایٹمی بم تیار کرنا مزید مشکل بنانا تھا سابق امریکی صدر جو بائیڈن، جن کی انتظامیہ نے 2015 کے معاہدے کو بحال کرنے کی ناکام کوشش کی تھی تاہم وہ تہران کی جانب سے اس ضمانت کے مطالبے کو پورا کرنے میں ناکام رہے کہ آئندہ کوئی امریکی انتظامیہ معاہدے سے دستبردار نہیں ہوگی. تہران احتیاط کے ساتھ مذاکرات کے قریب پہنچ رہا ہے وہ کسی معاہدے تک پہنچنے کے امکان کے بارے میں شکوک اور ٹرمپ کے موقف پر شکوک و شبہات کا شکار ہے ٹرمپ نے بارہا دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے یورینیم کی افزودگی کے تیز رفتار پروگرام کو روکا نہیں تو ایران پر بمباری کی جائے گی ایران کا مسلسل کہنا ہے کہ اس کا پروگرام پرامن ہے. تہران اور واشنگٹن کہہ چکے ہیں کہ وہ سفارت کاری کو جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں لیکن دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے جاری تنازع پر ان کے موقف ایک دوسرے سے الگ ہیں ایرانی عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ تہران کی ریڈ لائنز جو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی طرف سے لگائی گئی ہیں کو مذاکرات میں عبور نہیں کیا جا سکتا. ایرانی عہدیدار نے کہا کہ ایران کی ریڈ لائنز کا مطلب ہے کہ وہ اپنے یورینیم کی افزودگی سینٹری فیوجز کو ختم کرنے، افزودگی کو مکمل طور پر روکنے یا افزودہ یورینیم کی مقدار کو اس سطح تک کم کرنے پر راضی نہیں ہوگا جو 2015 کے معاہدے میں طے پایا تھا انہوں نے کہا کہ وہ اپنے میزائل پروگرام پر بات چیت نہیں کرے گا جسے وہ کسی بھی ایٹمی معاہدے کے دائرہ کار سے باہر سمجھتا ہے ایرانی عہدیدار نے کہا کہ ایران کو عمان میں بالواسطہ بات چیت میں معلوم ہوا کہ واشنگٹن نہیں چاہتا کہ وہ اپنی تمام ایٹمی سرگرمیوں کو روکے یہ ایران اور امریکہ کے لیے منصفانہ مذاکرات شروع کرنے کی بنیاد ہو سکتی ہے یہ اس وقت سامنے آیا ہے جب ایران نے گزشتہ روز کہا کہ امریکہ کے ساتھ سمجھوتہ ممکن ہے اگر وہ سنجیدہ ارادوں کا مظاہرہ کرے اور غیر حقیقی مطالبات نہ کرے. امریکہ کے مذاکرات کار سٹیو وِٹکوف نے کو”ایکس“پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ ایران کو امریکہ کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے کے لیے اپنی ایٹمی افزودگی روکنا اور قریب ترین ہتھیاروں کے درجے کے یورینیم کے ذخیرے کو ختم کرنا ہوگا . ایرانی عہدیدار نے بتایا کہ ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے ایران اس ادارے کو اس عمل میں واحد قابل قبول ادارہ سمجھتا ہے انہوں نے بتایا کہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے امریکیوں کو آگاہ کیا ہے کہ امریکہ کو اس تعاون کے بدلے ایران کے تیل اور مالیاتی شعبوں پر عائد پابندیاں فوری طور پر ہٹانی ہوں گی.