پاکستان، قرآن اور ہمارا امتحان
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
بہرکیف فرقت ِیارکے غم میں آنکھیں نم ، جذبات متلاطم،روح آہ وزاری میں رقصاں، لب آہ وفغان میں لرزاں دیکھ کرروح کو دلاسہ دیا، بے شک وداع کی یہ دل فگارگھڑیاں اللہ کے چہیتوں پرشاق گزرنی چاہئیں،انہیں کوچہ جانان سےجدائی کاغم ماہی بے آب کی مانند تڑپانا چاہیے،ان کی ہچکیاں بندھنی چاہیے،انہیں سینہ کوبیاں کرنی چاہئیں،کیاپتہ اب کبھی یہاں دوبارہ سربسجدہ ہونےکاشرف ملے گا،کیامعلوم اللہ اپنے گھر کاطواف کرنے کاکوئی نیا بلاوا بھیجےگا، کونسی ضمانت ہے کہ کعبتہ اللہ،حجراسود،رکن یمانی، ملتزم، درِکعبہ، مقامِ ابراہیم، زمزم، صفاومروہ اورمقدساتِ مکہ کے دیدارکا قرعہ فال ہمارے نام دوبارہ نکلے گا بھی؟ یہ خیال آتے ہی یہاں پل پل غنیمت لگتا ہے،لمحے صدیوں میں بدل جاتےہیں اورایک مرتبہ پھررب ِکعبہ سے مانگنے،آہ وزاری کے ساتھ حاجت روائی،گناہوں سے بخشش اور عفوودرگزر والدین اوردوسرے مرحومین کیلئے گڑاگڑا کر مغفرت کی دعائیں،اپنوں اورغیروں کی بھلائی کیلئےدعائے خیر،طبیبِ ازلی سے ہرمریض کیلئےاورہرمرض سے شفایابی،قرضوں کی ادائیگی کیلئےغیبی مدد، بےروزگاری کی ذِلت سےنجات،عذابِ جہنم سے خلاصی،جنت کے انعامات و عطا،بیٹیوں کے موزوں بر،مناسب جوڑطلب اوران کےبہتر نصیب ، فتنہ ہائےزمانہ میں ایمان وامان کی عافیت، مسجداقصٰی کی فریاد،غزہ اورمقبوضہ کشمیرکے شہدا کی مناجات،ملت کی آبرومندی کی بھیک،ارضِ پاکستان کےہر ذرےکی خیر،پوری انسانیت کی بھلائی، بار بار حرمین کی زیارت سےحصولِ فیوضات وبرکات کی اشک باردعائوں کی درخواستیں اور التجائیں پیش کرتے ہوئے ساراجسم کپکپارہا ہوتا ہے۔
دنیاوآخرت میں بہترمعاملےکیلئےاپنی تردامنی پرندامت کےاشک بہاکروحدہ ولاشریک سے سرگوشی کرنےکاوقت آن پہنچتاہے:اے ربِ ارض وسما!کعبہ مطہرہ تمہاراگھرانہ،
تیرےخلیل کانذرانہ،تیرے حبیبﷺ کیلئے وجہ قرار،یہ تمہاری شانِ کریمی کہ تمام اہل ایمان بیت اللہ کے وارثین بنادیئے ہیں،میں حقیروناکارہ،خطاونسیاں،گناہ وبرائی کامجموعہ لیکن ہوں توتیراہی بندہ،میری توبہ قبول کرلے،اب سے میرے ایمان وکردارکوایسالعل وگوہربنادے کہ بیت اللہ کے ورثا میں میرابھی نام جڑجائے،میں عمربھرکعبے کی طرف رخ کرکے جیوں،اسی کی جانب رخ کرکے مروں ۔اے رحیم ورحمن!اپنے اس گھرکومیرے قلب وجگرکے نہاں خانے میں ایسے بسادے کہ کبھی اس سے جدائی کاکھٹکالگے نہ دوری مسافت کی دیوارحائل رہے،میرے اعمال سے ہمیشہ غلافِ کعبہ کی زینتیں اورملتزم وسنگ ِاسودکی عظمتیں جھلکیں۔آمین یارب العالمین!
لگتا تھاکہ کعبہ شریف کے گردجسم نہیں روح بھی چکرلگارہی تھی،اللہ سے پیاراس قدرامڈ رہا تھاکہ ساحلوں اورکناروں کے بندٹوٹ رہے تھے۔ طواف سے فارغ ہوئے توملتزم کے سامنے اللہ کے حضوردست بدعا ہوگیا، حجراسود کو آنکھوں آنکھوں میں چوما،یادآیاکہ رسولِ کائنات ﷺ نے جنت کے اس پتھرکوبوسہ دیتے ہوئے حضرت عمرؓ سے فرمایاتھاکہ یہ جگہ آنسو بہانے کیلئے ہے۔یہاں جوبھی اپنی نافرمانیوں اور روگردانیوں پہ بلک بلک کر روئے،اس کے گناہوں کے داغ دھبے یکسر دھل جائیں گے۔ حجراسودسے گزرکر رکن یمانی کی زیارت سے حریم قلب آسودہ کیا،حطیم سےتھوڑا سالپٹ گئے، میزابِ رحمت پرنظریں مرکوز کیں، غلافِ کعبہ کی کشش وجاذبیت میں کھوگئے۔ دعاومناجات سے فارغ ہوئے تو زمزم کے جام ِشریں سے روح کی پیاس بجھائی۔یہ پانی اللہ کاعطیہ اور حضرت ذبیح اللہ کاصدقہ ہے،اس کے گھونٹ گھونٹ میں پینے والے کیلئے علم ِنافع،رزق ِواسع اورشفائے امراض کی ضمانت پنہاں ہے۔
اذانِ مغرب ہوئی تودل میں ہوک سی اٹھی کہ یہ کعبہ مشرفہ میں فی الوقت آخری نماز ہے،بس کچھ ہی پل بچے ہیں،کچھ گنی چنی سانسیں اس خلد بریں میں لیناباقی ہیں۔بیت اللہ کاصحن ِمبارک جہاں سعیدروح انسانوں کے اژدھام سے ہمہ وقت بھرارہتاہے،وہاں اللہ کے70ہزار فرشتوں کاہمیشہ ہجوم اکھٹاہوتاہے۔خودہی سوچیے برکت ورحمت کے اس منبع و مرکز اور سرکارِ دوعالم ﷺ کےمولدو مسکن سےجب مفارقت کالمحہ قریب آجائے تودل کا کیاحال ہوگا۔بہرحال نماز مغرب کے فرض سے فارغ ہوتے ہی ہم نے طواف ِ وداع کا فریضہ انجام دیا۔اللہ کالاکھ لاکھ شکرکہ ساتوں اشواط میں تھوڑاہی وقت صرف ہواکیونکہ کعبہ کے بالکل قریب ہی یہ سعادت پائی۔خوش قسمتی سے سنتیں اداکرنے کیلئے مقام ِابراہیم پر مصلیٰ ملا،سنتیں اداکیں،دعاکیلئے ہاتھ اٹھے ضرورمگریکایک روح کی زبان گنگ ہوگئی کہ کعبے سے رخصتی پرافسردہ خاطرتھا،جگرنوحہ کناں تھامگرمدینہ منورہ روانہ ہونے کی مسرت سے شادی مرگ ہونے کا اندیشہ بھی بڑھ رہا تھا۔ان کیفیات کی رومیں بہہ کراللہ سے کس منہ سے کہتاکہ الٰہی!اِدھرکاقیام بڑھادےیا جلدازجلد گنبد ِخضراپہنچادے۔ بےشک اللہ رحمن ورحیم کا ہم پریہ خاص لطف وکرم تھاکہ اس ذاتِ اقدسﷺکے بقعہ نور،پناہ گاہِ مہاجرین اور شہر انصارکی خوشبوں سے مشام ِجان معطرومسحورہونے کا زریں موقع ہمیں نصیب ہوا۔ خیرکعبہ پرپہلی نظر پڑتے وقت اورپھر رخصت لینے کی گھڑی پر بصدجان ودل اللہ سے لبوں پردعامچلنے لگتی ہے: بارالہا!مجھےاورمیرے اہل وعیال کواپنےگھراور اپنے محبوبِ کبریا ﷺ کےشہرشریں میں باربارو لگاتار بلانا۔دعاؤں کووردِلب کرتے ہوئے اور نیک خواہشات اورتمنائوں کانخلستان دل میں سجاتے ہوئے کعبہ شریف پرحسرت بھری نگاہیں مکرر، سہ کر ڈالیں اوربوجھل قدموں سےمطاف چھوڑدیا،کئی بارپلٹ کردیکھاتوایسےلگاجیسے کعبہ مہربان رخصت کرتےہوئےکہہ رہاتھا:میری حیات بخش تجلیات وانوارات ایمانِ قوی،اعمالِ صالح،خوفِ خدا، جوابدہی آخرت کی نہ ختم ہونے والی عظیم پونجی ہیں،جوبھی اس پونجی سے توحیدوسنت کےبازارسے زندگی کاسودا سلف لائے،وہی لاریب زائرالحرمین کہلانے کےلائق ہے،دنیاکی بھلائی اورآخرت کے عزوشرف کابھی وہی حق دارہے۔
کتاب ِ ہستی کے سرورق پرجونام احمدؐ رقم نہ ہوتا
تونقش ِہستی ابھرنہ سکتا،وجودِلوح وقلم نہ ہوتا
اب دل وجاں اورروح ایک عجیب سی خوشی سےسرشاراوربےچین ہےکہ آنکھیں بند کرکے کھولوں توسامنے گنبدِخضراہو،جس کیلئےآقائے نامدارﷺکےشہرکی طرف رخصت سفر شروع کیاتواچانک میرے آقاﷺ کے فرامین یادآگئے کہ آپ نے فرمایا:تم میں سے جس شخص کومدینہ میں موت آسکتی ہو،اسےچاہیےکہ وہ یہ سعادت حاصل کر ے،چونکہ یہاں مرنے والوں کی گواہی میں دوں گا۔(سنن ابن ماجہ)
بہشت ِمدینہ کی عظمت وسطوت ناپنےکاکوئی پیمانہ ہی نہیں مگراس مقدس شہرکی برتری وبالادستی کاایک اہم اشارہ یہ بھی ہےکہ خلیفہ ثانی حضرت عمرؓفاروق دعا کیا کرتے:اے اللہ! مجھےاپنے راستے میں شہادت عطاکراوراپنےرسول کےشہر میں موت عطا کر (صحیح بخاری)
اس پرشوق سفرکاپنچھی دل کی کتاب لئے بیٹھایہ سوچنے لگاکہ یہ دعامانگنے والی ہستی تاریخ اسلام کی ماتھے کاجھومرتھی،وہ جن کی آرااور مشوروں کی بارگاہ ِ الہیٰہ میں اتنی پذیرائی ہوتی کہ وحی بن کراللہ کےرسول پرنازل کی جاتی،وہ فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ جس کی تعریفوں میں دوست تودوست دشمن بھی رطب اللسان ہیں۔ یہ خاص دعامانگ کراس فنافی الرسول شخصیت نے ہمیں جینے میں ہی نہیں بلکہ مر نے میں بھی ہمسائیگی رسول اختیارکرنےکی آرزوسکھادی ۔ آپ بالمعنی فرماتےہیں اپنے نصیبے سےجو بہشت مدینہ میں داعی اجل کو لبیک کہے،سمجھو اس کابیڑہ پار ہوگیا۔ امیرالمومنین کی یہ دعااللہ کی بارگاہ میں یک بارقبول ہوگئی!
حبِ نبیﷺکے نادرنمونے ہمیں صحابہ کی پاک زندگیوں میں کہاں نہیں ملتے؟ایک برگزیدہ صحابی حضرت ثوبانؓ کےبارےمیں آتاہےکہ آپ اکثر بیماررہنے لگے،طبیعت کی ناسازی روز بروز بڑھتی چلی گئی۔صحابہ کباربیمارپرسی کرتے تویہ اپنے دل کاحال ان قدسی صفات پربھی ظاہرنہ کرتے،شکریہ کرکےبات ٹال دیتے۔ آخر پیغمبردوجہاںﷺنے پوچھاتوصاف صاف عرض کی:یارسول اللہﷺ!ایک خیال دل میں آتے ہی طبیعت خراب ہوجاتی ہے۔سروردوعالم ﷺنےپوچھا:کیاخیال آتاہے؟ عرض کی:اےاللہ کےرسولﷺ!اب زندگی میں جب تک آپ ﷺکادیدارنہ ہوچین نہیں آتا۔سوچتاہوں مرنے کے بعدکیاہوگا؟اگراللہ نےاپنے فضل عنایت سے مجھےجنت عطابھی کی تب بھی معلوم نہیں آپﷺکہاں ہوں گے اورمیں آپﷺکے روئے نازنین کی زیارت کئےبغیرجنت میں کیوںکرتسکین وطمانیت پائوں گا؟ معلوم ہی نہیں وہاں آپﷺکےچہرہ انورکادیدارکرنےکیلئےمجھے کیاکیا پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔حضورﷺنے فرمایا: ثوبان!تم جس سے محبت کرتے ہواسی کے ساتھ رہوگے۔ پھر آپﷺنے قرآن کریم کی وہ آیت تلاوت فرمائی جواسی موقع پرعرش ِمعلی سے نازل ہوئی: جواللہ اوراس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتےہیں وہ ان لوگوں کےساتھ ہی رہیں گے جنہیں اللہ تعالی نےنعمتوں سے نوازاہوگا ۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اللہ کے
پڑھیں:
آئی ایس او کے زیراہتمام ملتان پریس کلب کے اسرائیل کے خلاف احتجاجی ریلی
احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے آئی ایس او کے رہنمائوں کا کہنا تھا کہ غزہ و فلسطین میں بہتا ہوا بے گناہ مسلمانوں کا خون، چیخیں مارتی ماں، معصوم بچوں کی لاشیں، اور تباہ شدہ گھروں کے یہ سب صرف ایک خطے کا المیہ نہیں بلکہ یہ پوری مسلم امہ کے ضمیر پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے زیراہتمام ملتان پریس کلب کے سامنے احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا گیا، جس میں غزہ میں جاری حالیہ جارحیت ،او آئی سی قرار داد اور شراکہ تنظیم اسرائیل کے خلاف نعرے بازی کی گئی، فلسطینی شہدا بچے، مردوں اور خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کی گئی، شرکاء ریلی سے صوبائی رہنما حسن رضا اور ضلعی صدر علی مصدق نے کہا کہ غزہ و فلسطین میں بہتا ہوا بے گناہ مسلمانوں کا خون، چیخیں مارتی ماں، معصوم بچوں کی لاشیں اور تباہ شدہ گھروں کے یہ سب صرف ایک خطے کا المیہ نہیں بلکہ یہ پوری مسلم امہ کے ضمیر پر ایک سوالیہ نشان ہے، ہر دن ایک قیامت ہے جو فلسطینی مسلمانوں پر ٹوٹتی ہے اور ہر رات ایک اندھیرا ہے جو ہماری بے حسی کو مزید عیاں کرتا ہے لیکن سب سے زیادہ تکلیف دہ منظر وہ نہیں جو غزہ میں ہے بلکہ وہ خاموشی ہے جو مسلم وعرب حکمرانوں کے محلات میں گونج رہی ہے، وہ زبانیں جو کبھی اسلام کے دفاع کی بات کرتی تھیں آج سامراجی طاقتوں کے تلوے چاٹنے میں مصروف ہیں۔
رہنمائوں نے کہا کہ وہ ہاتھ جو مظلوم کی مدد کیلئے اٹھنے چاہیے تھے آج صرف کاروباری معاہدوں پر دستخط کرنے کیلئے حرکت میں آتے ہیں، قرآن ہمیں بار بار یاد دلاتا ہے اللہ کو ظالموں کے اعمال سے غافل نہ سمجھو، غزہ کی مائیں اپنے بچوں کو کفن پہنا کر دفنا رہی ہیں اور تم چمکتی میزوں پر بیٹھ کر سودے طے کر رہے ہو تمہاری فوجیں اپنے ہی عوام کو دبانے میں مصروف ہیں، لیکن فلسطین کیلئے ایک قدم نہیں اٹھتا، جان لو وقت قریب ہے جب یہ خاموشی تمہارے لیے وبال بنے گی، جب زمین کانپے گی اور اللہ کا قہر تم پر نازل ہوگا یہ وقت ہے جاگنے کا، ابھی بھی وقت ہے کہ اپنے دلوں کو جھنجھوڑو ظلم کے خلاف کھڑے ہو جاو، مظلوم کا ساتھ دو ورنہ وہ دن دور نہیں جب تاریخ تمہیں رسوائے زمانہ قرار دے گی۔