نئی صبح کی نوید،پاکستان کا اقتصادی استحکام
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
پاکستان ایک طویل عرصےسےسیاسی بےیقینی، معاشی اورتوانائی کے بحران اور بد انتظامی کی زد میں رہا ہے۔ عوام پر مہنگائی، بیروزگاری اور بےیقینی کا بوجھ اس قدر بڑھ چکا تھاکہ ہرپاکستانی کادل بےچین، دماغ منتشر اورامیدیں مدھم ہوچکی تھیں لیکن اندھیروں میں بھی جب کوئی چراغ روشن ہوتا ہے تو نہ صرف راستہ دکھائی دیتا ہے بلکہ نئی صبح کی امید بھی جنم لیتی ہے۔ایسے ہی نازک وقت میں، وزیراعظم محمد شہباز شریف نے جس بصیرت، عزم اور قائدانہ مہارت سے ملک کو ایک مستحکم اور متوازن راستے کی جانب موڑنےکی کوشش کی ہے،وہ قابلِ تحسین ہی نہیں بلکہ تاریخ میں سنہرے الفاظ سےلکھےجانے کے قابل ہے۔انہوں نے نہ صرف وعدہ پورا کیا، بلکہ ان مشکلات اور چیلنجز کو بھی خندہ پیشانی سے قبول کیا جو گزشتہ حکومتوں کے غیرذمہ دارانہ فیصلوں کا نتیجہ تھے۔ انہوں نے بجاطورپر کہاکہ یہ 77سال کابوجھ ہے، جس تلے یہ قوم دبی ہوئی تھی۔ پاکستان کی معیشت، جو کئی دہائیوں سے اقتصادی چیلنجز کا شکار تھی، حالیہ برسوں میں ایک نیا رخ اختیار کر چکی ہے۔ معاشی اصلاحات،حکومتی پالیسیاں اورعوامی بہبود کے لئے اٹھائےجانے والے اقدامات اس بات کا غماز ہیں کہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔پاکستان کے توانائی کے شعبے میں قیمتوں کا مسئلہ ایک طویل عرصے سے عوام اور معیشت کے لیے تشویش کاباعث رہا ہے۔ مہنگی بجلی نے عوام کی زندگی کو مشکل بنا دیا تھا، جبکہ صنعتی شعبے میں بھی پیداوار کے اخراجات میں اضافے نے کاروباری ماحول کو متاثر کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے عوامی ریلیف کے لئےجو فیصلہ کیا، وہ نہ صرف ایک فوری اقدام تھا بلکہ ایک طویل المدتی حکمت عملی کاحصہ تھا۔ 3 اپریل کواپنےخطاب میں وزیراعظم نےگھریلو صارفین کے لیے 7 روپے 41 پیسےفی یونٹ اور صنعتی صارفین کے لیے 7 روپے 69 پیسےفی یونٹ بجلی کی قیمتوں میں کمی کااعلان کیا۔ اس اقدام سے نہ صرف عوام کو براہ راست فائدہ پہنچےگابلکہ معیشت میں بھی تیزی آئےگی۔ان کاکہنا ہےکہ یہ صرف ابتدائی قدم ہے،اور آئندہ پانچ سالوں میں مزیدقیمتوں میں کمی کی توقع کی جارہی ہے۔ اس کمی کامقصد معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینا، صنعتی پیداوار میں اضافہ کرنا، اور عوام کو مہنگائی کے بوجھ سے نجات دلاناہے۔ ان اقدامات سے توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی بنیاد رکھی جا رہی ہے، جو پاکستان کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گی۔ پاکستان کے توانائی کے شعبے میں ایک اور بڑاچیلنج گردشی قرضے کاتھا۔ گردشی قرضہ،جو اس وقت 2393 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے، پاکستان کے توانائی کےشعبے کی سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ وزیراعظم نےاس بات کا عندیہ دیاکہ اس مسئلے کامستقل حل تلاش کرلیاگیاہےاورآئندہ پانچ سالوں میں یہ قرضہ بتدریج ختم ہوجائے گا۔یہ ایک بہت بڑاچیلنج ہے۔پاکستان کےتوانائی کے شعبےمیں سب سےبڑا مسئلہ سرکاری توانائی پلانٹس (جنکوز) کاہے،جو کئی سالوں سےبند پڑے ہیں۔ ان جنکوز پر ہر سال اربوں روپے کا خرچ آرہا ہے،مگران سے کوئی توانائی پیدا نہیں ہو رہی۔ وزیراعظم نے اس بات کااعتراف کیاکہ یہ سرکاری پاور پلانٹس ملک کی توانائی کی ضروریات کوپورا کرنے میں ناکام ہوچکےہیں اوران کےنقصانات کابوجھ عوام کواٹھاناپڑ رہا ہے۔ ان جنکوز کو شفاف طریقےسےفروخت کیاجائےگا تاکہ ان کے نقصان کابوجھ عوام پرنہ پڑےاورتوانائی کےشعبے میں مزید اصلاحات کی جا سکیں۔وزیراعظم نے بجلی چوری کے مسئلے پر بھی بات کی۔ پاکستان میں ہر سال 600 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے، جو توانائی کے شعبے کے لئے ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس چوری کو روکنے کے لئے حکومت نے سخت اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے لئےحکومت نے جدید ٹیکنالوجی اور مانیٹرنگ سسٹمز متعارف کرانےکا فیصلہ کیا ہے، تاکہ بجلی چوری کوروکاجاسکےاورتوانائی کےشعبے کو منافع بخش بنایاجاسکے۔انہوں نے اپنی تقریرمیں نجکاری اور اصلاحات کےحوالے سے بھی بات کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں سرکاری اداروں کی کارکردگی کے مسائل نے معیشت کی ترقی کو سست کردیا ہے۔ معاشی اصلاحات کے لئےسرکاری اداروں کی نجکاری اوررائٹ سائزنگ ضروری ہے۔ جب تک یہ ادارے منافع بخش نہیں بنتے،پاکستان کی معیشت میں پائیدار ترقی ممکن نہیں۔ ان اداروں کی نجکاری سےحکومت کو مالی فوائد حاصل ہوں گےاوران اداروں کی کارکردگی میں بھی بہتری آئے گی۔
انہوں نے آئی پی پیز (آزاد پاور پروڈیوسرز) کے ساتھ کیے جانے والے مذاکرات کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ان مذاکرات کا مقصد آئی پی پیز کو قائل کرناہے کہ وہ زیادہ منافع نہ لیں اور قوم کے فائدے کے لیے اپنی قیمتیں کم کریں اور ان مذاکرات کے نتیجے میں آنے والے سالوں میں جو 3 ہزار 696 ارب روپےکی ادائیگیاں قوم کو کرنی تھیں، اب وہ ادائیگیاں نہیں کرنی پڑیں گی۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہے جو نہ صرف توانائی کے شعبےکو بہتربنانے میں مددگار ثابت ہوگی بلکہ ملک کی مالی پوزیشن کو بھی مستحکم کرے گی۔وزیراعظم شہباز شریف نے معیشت کے استحکام کے لئےعالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں بھی بات کی۔ حتیٰ کہ آئی ایم ایف سےبات چیت ایک مشکل عمل تھا،لیکن اس کےباوجود حکومت نے ملک کی بہتری کے لئے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی تمام شرائط پر عمل کرنے کاعزم کیا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرتےہوئے حکومت نے معاشی استحکام کے لئے جو اقدامات اٹھائےہیں، ان کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت نے بہتری کی جانب قدم بڑھایا ہے۔ ان اقدامات میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی، پالیسی ریٹ میں کمی، اور سرکاری اداروں کی نجکاری شامل ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے متاثر ہو سکیں ۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے عوام نے سخت ترین حالات کا مقابلہ کیا ہے اور اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنے ملک کی ترقی کی طرف قدم بڑھائیں۔ ان کی قیادت میں کیے گئے فیصلے،اصلاحات، اوراقدامات ایک روشن مستقبل کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔عوام کو فوری ریلیف دیناکسی بھی حکومت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے،لیکن اکثر یہ صرف نعروں اور وعدوں تک محدود رہتی ہے۔ شہباز شریف نے اسے عملی جامہ پہنایا اور اس سے یہ پیغام دیا کہ وہ عوامی خدمت کو سیاسی نعرے نہیں بلکہ حقیقی مشن سمجھتے ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: توانائی کے شعبے شہباز شریف نے ا ئی ایم ایف پاکستان کے پاکستان کی اداروں کی حکومت نے انہوں نے میں بھی عوام کو ملک کی کے لئے کیا ہے رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
معیشت، ڈرائیونگ فورس جو پاک افغان تعلقات بہتر کر رہی ہے
پاکستان کے ڈپٹی وزیراعظم اور وزیرخارجہ ایک روزہ دورے پر کابل پہنچے۔ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ انہوں نے ایک مشترکہ پریس ٹاک کی۔ سفارتی دوروں میں اگر مشترکہ بیان جاری کیا جائے، اس سے مراد دونوں ملکوں کا اتفاق رائے ہونے سے لیا جاتا ہے۔ الگ الگ پریس نوٹ جاری کرنے سے مراد ہوتی ہے کہ اتفاق رائے نہیں ہوا۔ مشترکہ پریس کانفرنس اتفاق رائے کے مثبت اظہار کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
پاکستانی وفد کے استقبال کے لیے امیر خان متقی خود ائیر پورٹ نہیں آئے تھے۔ ڈپٹی وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر نے اسحق ڈار سے طے شدہ ملاقات سے گریز کیا۔ رئیس الوزرا ملا حسن اخوند سے البتہ ان کی ملاقات ہو گئی۔
ڈار نے کابل میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے بہت اہم باتیں کی۔ ٹرانس افغان ریلوے پراجیکٹ پر کام شروع کرنے اعلان کیا۔ ازبکستان سے آنے والا ریلوے ٹریک خرلاچی (کرم ایجنسی) کے راستے پشاور سے مل جائے گا۔ افغانستان کو گوادر اور کراچی دونوں بندرگاہوں تک رسائی مل جائے گی۔
افغانستان کے لیے 1621 آئٹمز پر پاکستان 10 فیصد ڈیوٹی وصول کرتا تھا۔ اس لسٹ سے 867 آئٹم کو ڈیلیٹ کرنے کے ایک بڑے ریلیف کا بھی اعلان کیا گیا۔ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ جو 2021 میں ختم ہو چکا ہے، اسے بھی اسی سال فائنل کرنے کا اعلان کیا گیا۔ خیبر پختون خوا حکومت افغان آئٹم پر 2 فیصد سیس ڈیوٹی عائد کرتی تھی اس کو کم کر کے ایک فیصد کر دیا گیا ہے۔ افغان تاجروں کو امپورٹ کے لیے زرضمانت جمع کرنا پڑتا تھا اس کا بھی خاتمہ کرکے بینک گارنٹی لینے کی افغان حکومت کی تجویز مان لی گئی ہے۔ این ایل سی کے علاوہ بھی 3 مزید کمپنیوں کو تجارتی سامان کی ترسیل میں شامل کرنے کی افغان تجویز بھی مان لی گئی ہے۔
پاکستان، افغانستان اور چین کا سہ ملکی فارمیٹ بحال کرنے کا بھی اعلان ہوا۔ دونوں ملکوں کی قائم کردہ جوائنٹ کو آرڈینیشن کمیٹی کی تعریف کرتے ہوئے اسحق ڈار نے سیاسی امور کے لیے بھی فوری طور پر ایک رابطہ کمیٹی بنانے کا اعلان کیا۔ افغان مہاجرین کی واپسی ان کے ساتھ زیادتیوں اور جائیداد کے معاملات کے حل کے لیے بھی ہیلپ لائن بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔
اس مشترکہ پریس ٹاک میں ہونے والے اعلانات کو دیکھا جائے تو زیادہ تر باتیں تجارتی اقتصادی حوالے سے کی گئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کے وزیر صنعت و تجارت نورالدین عزیزی نے تعلقات بحالی کے لیے بہت محنت کی ہے۔ ایک ہی دن 16 اپریل کو پاکستان اور افغانستان کے اعلیٰ سطحی وفود کابل اور اسلام آباد پہنچے تھے۔ نورالدین عزیزی کی قیادت میں وفد پاکستان آیا تھا۔ افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے صادق خان ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ کابل پہنچے ہیں۔
17 ماہ کے طویل وقفے کے بعد پاک افغان جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس کابل میں ہو سکا تھا۔ امارت اسلامی افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جے سی سی اجلاس کے موقع پر کہا کہ اس فورم نے ہمیشہ مسائل حل کیے ہیں۔ اس بار سیکیورٹی ایشوز، تجارت، ڈیورنڈ لائن پر ٹینشن ( ٹی ٹی پی، لوگوں کی آمد و رفت اور افغان مہاجرین ) کے ساتھ لوگوں کی آمد و رفت کو آسان بنانے پر بات چیت ہو گی۔
جے سی سی میں افغان وفد کی قیادت ملا عبدالقیوم ذاکر نے کی تھی۔ ذاکر امریکا اور اتحادیوں کے خلاف لڑائی کے دوران افغان طالبان کے ملٹری کمیشن کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ ملا اختر منصور کے بعد طالبان کا نیا امیر بننے کا مضبوط امیدوار بھی سمجھا جا رہا تھا۔ عبدالقیوم ذاکر جے سی سی اجلاس میں افغانستان کی نمائندگی کے لیے ایک ہیوی ویٹ شخصیت ہیں۔ اس کا پتہ تب لگے گا جب آپ ان کا پروفائل دیکھیں گے، ان کا نام اور کام ایران بلوچستان امریکا اور شمالی افغانستان تک دکھائی دے گا۔
پاکستان افغانستان مہاجرین کی واپسی، ٹی ٹی پی اور دوسرے اختلافی امور کو سائیڈ پر رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان اختلافی امور کا حل ضروری ہے۔ معیشت وہ پوائنٹ ہے جہاں موجود امکانات دونوں ملکوں کو دوبارہ قریب لائے ہیں۔ پاکستان دہشتگردی کے ساتھ اپنے انداز میں نپٹنے کے لیے تیار ہے۔ پاک افغان باڈر پر اب ریموٹ کنٹرول چیک پوسٹیں قائم کی جا رہی ہیں۔ افغان طالبان حکومت مہاجرین کی واپسی کو برداشت کرے گی۔ معیشت اب وہ ڈرائیونگ فورس ہے جو بہت متنازعہ معاملات کو بھی غیر متعلق کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔