Daily Ausaf:
2025-04-22@01:58:52 GMT

مادیت کی زنجیروں سے نجات

اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT

مملکتِ عشق ایک وقت تھاجب دنیا کی چمک آنکھوں کو خیرہ کرتی تھی۔ شہرت، دولت اور مقام کو میں اپنی کامیابی کی معراج سمجھتا تھا۔ میں انسانی حقوق کا وکیل تھا، کمزوروں کے لیے آواز بلند کرتا، بڑے بڑے مقدمات جیتتا، اور ظاہری طور پر ایک کامیاب انسان کہلاتا۔ مگر اس ظاہری چمک کے پیچھے ایک تاریک سچائی چھپی ہوئی تھی، میں خود غلام تھا۔
16 گھنٹے کی مشقت، بے رحم بلز، ٹیکسز اور معاشرتی توقعات کی زنجیریں میرے وجود کو جکڑے ہوئے تھیں۔دنیا کے سامنے میرے پاس گاڑیاں تھیں، ایک عالیشان بنگلہ تھا، میرا نام تھالیکن اندر ایک شور، ایک تھکن، ایک خلا تھا۔45 سال کی عمر میں میں خود کو 100 سالہ تھکا ہوا بوڑھا محسوس کرتا تھا۔یہی درد میری تحریر ’’جدید انسان، جدید غلام کی بنیاد بنا‘‘۔ زلزلہ، وہ لمحہ جو سب کچھ بدل گیاپھر زندگی میں ایک لمحہ آیا, ایسا روحانی زلزلہ جو سب کچھ ہلا کر رکھ گیا۔مادی خواہشات صبح کی دھندکی طرح تحلیل ہو گئیں۔میں نے غرور، دولت اور دکھاوے کی زندگی کو خیرباد کہہ دیا۔پہلی بار میں نے حقیقی آزادی کا ذائقہ چکھا۔غفلت کی نیند سے بیداری ہوئی، باطن کی آنکھ کھلی، اور معرفت کی روشنی دل میں اترنے لگی۔ میں نے اس دوڑ کو چھوڑ دیا جس نے انسان کو بےسکون کر دیا ہے۔زندگی کا مقصد مقابلہ بن چکا تھا، اور سکون دل سے رخصت ہو چکا تھا۔ روحانی بیداری نے اللہ کے کرم سے میری زنجیریں توڑ ڈالیں۔اب ایک نئی دنیا میرے سامنے تھی، جہاں کامیابی دل کے سکون میں تھی، نہ کہ بینک بیلنس میں۔جہاں اصل کمائی عاجزی، قناعت، خدمتِ خلق اور محبت میں تھی۔ میری دولت، بے نیازی، میری پنشن‘ قلبی سکون، اب میں اس خزانے کا مالک ہوں جس کے پیچھے لوگ پوری زندگی بھاگتے ہیں، مگر پھر بھی خالی رہتے ہیں۔آج میری دولت بے نیازی ہے،میری کامیابی اللہ کی رضا ہے،میری پنشن، قلبی اطمینان ہے۔
آزادی کا تضاد، کافی کی تلاش دنیا ہمیں سکھاتی ہے، مزید اور مزید حاصل کرو!مہنگے لباس، عیش و عشرت کی محفلیں، عالی شان گھر مگر دل پھر بھی ویران۔وہ مکان تو بناتے ہیں، مگر دل ویران رہتے ہیں۔وہ پیسہ کماتے ہیں، مگر سکون گنوا بیٹھتے ہیں۔
قرآن خبردار کرتا ہے:(التکاثر )
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:دینار کا غلام ہلاک ہو،درہم کاغلام ہلاک ہو اگر دیا جائے تو خوش، نہ دیا جائے تو ناراض!(صحیح بخاری، 2887) رومی اور شمس، ایک نئی دنیا کی روشنی مولانا رومی کہتے ہیں، تم پرواز کےلیے پیداہوئے ہو،زمین پررینگنےکو کیوں ترجیح دیتےہو؟ شمس تبریزی فرماتے ہیں:پانی مت تلاش کرو، پیاس تلاش کرو،پیاس ہی تمہیں سمندر تک لے جائے گی۔یہی پیغام میری زندگی کا انقلاب بنا۔میں نے پیاس کو محسوس کیا،سچائی کو تلاش کیا،اور رب کی طرف لوٹ آیا۔
قناعت: وہ دولت جو ختم نہیں ہوتی، نبی کریم ﷺ نےفرمایا:اصل دولت دل کی بےنیازی ہے۔(بخاری 6446؛ مسلم 1051)۔ قرآن کہتا ہے:اور اپنی نگاہیں ان چیزوں کی طرف نہ اٹھاجو ہم نے ان میں سے بعض لوگوں کو دنیاوی زینت کے طور پر دی ہیں اور آپ کے رب کا رزق بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ (طہ 20:131) میں نے سادگی میں سکون پایا،خاموشی میں حکمت،اور خدمت میں روحانی بلندی۔صحت اور وقت: انمول خزانے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:دو نعمتیں ہیں جن کی اکثر لوگ قدر نہیں کرتے:صحت اورفارغ وقت۔(بخاری 6412) لوگ عمر بھر دولت جمع کرتے ہیں اور پھر بڑھاپےمیں ڈاکٹرز پرخرچ کردیتے ہیں۔مگرسادہ، با مقصد، اور قناعت بھری زندگی وہ سکون دیتی ہے جس کی تلاش میں پوری دنیا بھٹکتی ہے۔ حقیقی آزادی: اللہ پر توکل، قرآن کا وعدہ ہے:اورجو اللہ سےڈرے گا، اللہ اس کے لیے نکلنے کاراستہ بنا دےگا، اور اسے وہاں سے رزق دے گاجہاں سے اسےگمان بھی نہ ہو۔ اورجو اللہ پر بھروسہ کرے، اللہ اس کے لیےکافی ہے۔ الطلاق 65:2-3)) آج میں اسی یقین، توکل، اور قلبی اطمینان کے ساتھ جی رہا ہوںجو نہ کسی بینک میں ہے،نہ کسی جائیدادمیں۔ خلاصہ: سادہ زندگی،بلند روحقیقی آزادی تب حاصل ہوتی ہےجب انسان خودی کو ترک کر کے عبدیت کواپنالیتا ہے۔جب میں نےنفس کی غلامی سےخود کو آزاد کیاتب اللہ کی محبت،اس کی مخلوق کی خدمت،اور قناعت سے بھرپور زندگی میں مجھے وہ سکون نصیب ہوا جس کی تلاش میں لوگ دنیا بھر کی خاک چھانتے ہیں۔ مولانارومی فرماتے ہیں:جب روح اس سبز میدان میں جا کر لیٹتی ہے، تو دنیا اتنی بھرپور ہو جاتی ہے کہ الفاظ باقی نہیں رہتے میں اور تم کا فرق مٹ جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں مادیت کے دھوکے سے نجات دے اور قناعت، روحانی سکون، خدمتِ خلق، اور اپنی یاد کے ذریعے ہمیں حقیقی کامیابی عطا فرمائے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

پڑھیں:

یہودیوں کا انجام

دنیا ایک بار پھر ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں حق اور باطل کی جنگ واضح ہو چکی ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر بہنے والا معصوم خون، بچوں کی لاشیں، ماں کی آہیں اور بے گھر ہوتے خاندان ہمیں ایک بار پھر اس یاد دہانی کی طرف لے جا رہے ہیں کہ ظلم جب حد سے بڑھ جائے تو اللہ کی پکڑ بھی قریب آ جاتی ہے۔ آج جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہ صرف ایک انسانی المیہ نہیں بلکہ ایک روحانی اور ایمانی آزمائش بھی ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق یہودیوں کا ماضی، حال اور مستقبل واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کی سرکشی، ان کی نافرمانیاں اور اللہ تعالیٰ کے نبیوں کے ساتھ ان کے سلوک کا بارہا ذکر آیا ہے۔ ان کی فطرت میں دھوکہ، فریب، اور سازش شامل ہے۔ انہوں نے نہ صرف اللہ کے انبیا ء کو جھٹلایا بلکہ انہیں قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک وقت کی نشاندہی فرمائی ہے جب یہودیوں کا مکمل خاتمہ ہو گا۔ اس وقت حق اور باطل کا آخری معرکہ ہو گا جسے ’’ملحمہ کبریٰ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس معرکے میں مسلمان غالب آئیں گے اور اللہ کے وعدے کے مطابق زمین پر عدل اور انصاف قائم ہو گا۔
حدیث مبارکہ میں آتا ہے ۔ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک مسلمان یہودیوں سے جنگ نہ کر لیں، اور مسلمان انہیں قتل کریں گے یہاں تک کہ یہودی پتھروں اور درختوں کے پیچھے چھپیں گے مگر وہ درخت اور پتھر بھی پکار اٹھیں گے: اے مسلمان! اے اللہ کے بندے! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، آئو اور اسے قتل کرو، سوائے ’’غرقد‘‘ کے درخت کے، کیونکہ وہ یہودیوں کا درخت ہے۔(صحیح مسلم: 2922)
یہ حدیث نہ صرف مستقبل کے ایک یقینی واقعے کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ یہودیوں کا انجام عبرتناک ہو گا۔ وہ جہاں بھی چھپیں گے قدرت انہیں بے نقاب کر دے گی۔یہ حدیث ہمیں نہ صرف یہ بتاتی ہے کہ یہودیوں کا انجام تباہی ہو گا بلکہ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ اس معرکے میں اللہ کی قدرت براہِ راست کام کرے گی۔ یہاں تک کہ جمادات(درخت اور پتھر) بھی بول اٹھیں گے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ایک الہامی سچائی ہے جس پر ہمیں کامل یقین رکھنا ہے کیونکہ یہ بات بات دنیا کے سب سے عظیم ، سچے انسان اور خاتم النبیین جناب محمد الرسول اللہ نے ارشاد فرمائی ہے۔
فلسطین میں ہونے والی نسل کشی انسانی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب بن چکی ہے۔ ہزاروں بچوں، عورتوں اور معصوم لوگوں کا قتلِ عام، ہسپتالوں، مساجد اور سکولوں پر بمباری، اور عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جنگ صرف زمینی نہیں بلکہ ایمانی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ وہ طاقت کب، کہاں اور کیسے مسلمانوں کو حاصل ہو گی جس کے ذریعے وہ یہودیوں کو شکست دیں گے؟ اس کا جواب بھی قرآن اور سنت میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہیں’’ان تنصروا اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم‘‘ (سورۃ محمد: 7)
ترجمہ: اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا۔یعنی جب مسلمان دین اسلام پر مکمل عمل پیرا ہوں گے، جب وہ فرقوں، تعصبات، اور دنیاوی لالچ سے نکل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں گے تب ہی اللہ کی نصرت نازل ہو گی۔میرا رب وہ ہے جو تقدیر بھی بدلتا ہے اور حالات بھی۔ غم کا موسم کبھی ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا۔ مگر یہ معرکہ جسے ہم دیکھ رہے ہیں اس نے نہ صرف دشمن کو بے نقاب کیا ہے بلکہ ہمارے اپنے مسلمان حکمرانوں کو بھی۔ وہ حکمران جن کی زبانیں خاموش، ضمیر مردہ اور آنکھیں بند ہیں۔ جن کے محلات تو چمک رہے ہیں مگر ان کے دل سیاہ ہو چکے ہیں۔ وہ یہودیوں کے سامنے اس لیے جھک چکے ہیں کیونکہ انہیں مسلمانوں کی جانیں اور عزتیں نہیں بلکہ اپنی بادشاہتیں، اپنی دولت اور دنیاوی آسائشیں عزیز ہیں۔یہی معرکہ ہم عام مسلمانوں کے ایمان کا بھی امتحان ہے۔ اربوں کی تعداد میں ہم مسلمان دنیا بھر میں بستے ہیں مگر افسوس کہ ہمارا طرزِ زندگی، ہماری خریداری، ہماری ترجیحات سب اسرائیل کی مدد کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ہم ان ہی یہودی مصنوعات کو خریدتے ہیں جن کا منافع اسرائیل کے فوجی بجٹ میں شامل ہوتا ہے۔ہم میں سے کتنے ہی افراد روزانہ یہودی مصنوعات کا استعمال کرتے ہیں۔ ہم انہی کمپنیوں کی چیزیں خریدتے ہیں جن کا منافع اسرائیلی فوج کے اسلحہ اور بارود پر خرچ ہوتا ہے۔ ہم اپنی لاعلمی، غفلت یا لاپرواہی کے باعث اس ظلم میں شریک ہو رہے ہیں۔ ہم خود اپنے ہاتھوں سے ان ظالموں کی پشت پناہی کر رہے ہیں جو ہمارے ہی بھائیوں کا خون بہا رہے ہیں۔افسوس، صد افسوس! کہ ہم صرف سوشل میڈیا پر پوسٹس اور احتجاج تک محدود ہو چکے ہیں جبکہ عمل کے میدان میں ہماری موجودگی ناپید ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سب سے پہلے خود کو بدلیں، اپنی ترجیحات کو ایمان کی روشنی میں دیکھیں، اور ہر وہ قدم اٹھائیں جو ظالم کی طاقت کو کمزور کرے۔اللہ کی مدد صرف انہی کو حاصل ہوتی ہے جو خود کو اس کے دین کے لیے وقف کرتے ہیں۔ ہمیں آج سے یہ عہد کرنا ہو گا کہ ہم صرف باتوں سے نہیں، بلکہ عمل سے اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اپنے گھر سے، اپنی خریداری سے، اپنی دعائوں سے اور اپنی زندگی کے ہر شعبے میں ہم ظالم کے خلاف اور مظلوم کے ساتھ ہوں گے۔دنیا اس وقت ظلم، فتنہ اور نفاق کے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر جو خون بہایا جا رہا ہے جو لاشیں گرائی جا رہی ہیں اور جو بچے ماں کی گود سے چھینے جا رہے ہیں تاریخِ انسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک منظم نسل کشی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور دنیا بالخصوص مسلم حکمران تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔یہودیوں کا انجام اللہ کے فیصلے کے مطابق ہونا ہے۔ مگر وہ دن کب آئے گا؟ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم مسلمان کب جاگتے ہیں؟ کب ہم دنیا کی محبت اور موت کے خوف کو ترک کر کے اللہ کی راہ میں نکلتے ہیں؟ کب ہم قرآن کو صرف ثواب کے لیے نہیں بلکہ رہنمائی کے لیے پڑھنا شروع کرتے ہیں؟یقین رکھیں! وہ وقت ضرور آئے گا جب ہر درخت اور پتھر بھی گواہی دے گا، اور مظلوموں کے آنسو ظالموں کے لیے آگ بن جائیں گے۔یہودیوں کا انجام طے شدہ ہے لیکن اس انجام کو لانے کے لیے ہمارا کردار کیا ہو گا؟ یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • Rich Dad -- Poor Dad
  • کراچی میں رواں سال کے 110 روز میں مجموعی ٹریفک حادثات میں 289 شہری جاں بحق
  • علامہ اقبال کا پیغام حریت آج بھی ہمارے لیے راہ نجات ہے، علامہ مقصود ڈومکی
  • میری وائرل ہونے والی نازیبا ویڈیوز سابق بوائے فرینڈ نے پھیلائیں؛ ٹک ٹاکر سامعہ
  • ریاست اپنی جگہ لیکن کسی کی زندگی سےکھیلناقابل قبول نہیں:عظمیٰ بخاری
  • یہودیوں کا انجام
  • ڈیتھ بیڈ
  • نوجوانوں میں مشہور ہوتا ’ہرے ناخنوں‘ کا رجحان کیا ہے؟
  • تسخیر کائنات اور سائنسی ترقی کا لازم فریضہ
  • اور ماں چلی گئی