قوانین کی خلاف ورزی کیخلاف زیرو ٹالرنس پر کارروائی جاری ہے ‘ ایڈیشنل آئی جی ٹریفک
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 اپریل2025ء)ایڈیشنل آئی جی ٹریفک مرزا فاران بیگ کے احکامات پر لائسنس کی فوری فراہمی اور قانون کی پاسداری پر سختی سے عمل درآمد جاری ہے ۔ ترجمان کے مطابق 24 گھنٹوں میں 25 ہزار 900سے زائد شہریوں نے لائسنسنگ سہولیات سے فائدہ اٹھایا،8 ہزار 800 سے زائد شہریوں نے لرننگ ڈرائیونگ لائسنس جبکہ 9 ہزار600 سے زائد شہریوں نے ریگولر ڈرائیونگ لائسنس بنوائے،7 ہزار زائد شہریوں نے لرننگ اور ریگولر لائسنس کی تجدید کروائی۔
ترجمان کے مطابق 24 گھنٹوں میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر 34 ہزار 780 شہریوں کو چالان ٹکٹ جاری کئے گئے ۔بغیر ڈرائیونگ لائسنس گاڑی چلانے والے 4 ہزار 900سے زائد ،بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل سواروں کو 2 ہزار 800 سے زائد کے چالان ٹکٹ جاری کئے گئے،2ہزار 200 سے زائد کم عمر ڈرائیور کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی گئی جبکہ دیگر سنگین ٹریفک وائلیشن پر 6 ہزار سے زائد شہریوں کو چالان ٹکٹ جاری کیے گئے۔(جاری ہے)
ایڈیشنل آئی جی ٹریفک مرزافا ران بیگ نے کہا کہٹریفک قوانین کی پاسداری ہم سب کی قومی ذمہ داری ہے،ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف زیرو ٹالرنس پر صوبہ بھر میں کارروائی جاری ہے ،صوبہ بھر میں بغیر ڈرائیونگ لائسنس گاڑی چلانے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جا رہی ہے،بھاری جرمانوں اور قانونی کاروائی سے بچنے کے لیے ٹریفک قوانین کی پاسداری کریں۔ انہوںنے کہاکہ شہری ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے لیے خدمت مراکز لائسنسنگ سینٹر آن لائن لائسنسنگ پورٹل سے فائدہ اٹھائیں۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈرائیونگ لائسنس ٹریفک قوانین کی سے زائد شہریوں زائد شہریوں نے جاری ہے
پڑھیں:
اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے:وزارت داخلہ
وزارت داخلہ نے بتایا ہے کہ افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز (اے سی سی) کے ملک چھوڑنے کی حکومتی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد گزشتہ 3 ہفتوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد افغان شہری پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق پاکستان میں حالیہ دنوں میں سینکڑوں افغان شہریوں کو اپنے سامان کے ساتھ طورخم اور چمن بارڈر عبور کرتے دیکھا گیا۔حکومت پاکستان کی جانب سے 31 مارچ سے ان افغان شہریوں کی ملک بدری کی دوسری مہم کا آغاز کیا تھا جن کے پاس افغان سٹیزن کارڈ تھا (ایک شناختی دستاویز جو 2017 میں پاکستانی اور افغان حکومتوں نے مشترکہ طور پر جاری کی تھی)۔
دراصل یہ 2023 میں شروع کی گئی مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں کی وطن واپسی تھا جس کے تحت پہلے مرحلے میں ان تمام افغان باشندوں کو ملک بدر کیا گیا جن کے پاس شناختی ثبوت موجود نہیں تھے۔تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی جانب سے کی جانے والی یہ ملک بدریاں افغانستان میں طالبان حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے، جنہیں اسلام آباد کی جانب سے سرحد پار حملوں میں اضافے کا ذمہ دار ٹہراتا جاتا ہے۔وزارت داخلہ کے مطابق ’اپریل 2025 کے دوران ایک لاکھ 529 افغان شہری پاکستان سے واپس اپنے ملک جاچکے ہیں۔27 سالہ اللہ رحمٰن نے ہفتے کے روز طورخم بارڈر پر اے ایف پی کے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے کہا ’میں پاکستان میں پیدا ہوا اور کبھی افغانستان نہیں گیا، مجھے ڈر تھا کہ کہیں پولیس مجھے اور میرے خاندان کو ذلیل نہ کرے اور اب ہم بے بسی کے عالم میں افغانستان واپس جا رہے ہیں‘۔افغانستان کے وزیر اعظم حسن اخوند نے ہفتے کے روز پڑوسی ملک پاکستان کے ’یک طرفہ اقدامات‘ کی سخت مذمت کی جب کہ اس سے ایک روز قبل وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے افغان شہریوں کی واپسی کے معاملے پر کابل کا دورہ کیا تھا۔افغان شہریوں کی اکثریت رضاکارانہ طور پر واپس جارہی ہے تاکہ زبردستی ملک بدری سے بچ سکیں، لیکن اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے مطابق صرف اپریل میں پاکستان میں 12 ہزار 948 گرفتاریاں کی گئی جو گزشتہ پورے سال کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران لاکھوں افغان شہری اپنے ملک کی صورتحال سے فرار ہوکر پاکستان میں داخل ہوئے جب کہ 2021 میں طالبان حکومت کی واپسی کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری پاکستان آئے۔افغان شہریوں کی ملک بدری کی اس مہم کو وسیع پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہے کیوں کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد افغان آبادی کی میزبانی سے اکتاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔41 سالہ حجام تنویر احمد نے اے ایف پی کو بتایا کہ افغانی یہاں پناہ لینے آئے تھے لیکن پھر نوکریاں کرنے لگے، انہوں نے کاروبار کھول لیے اور پاکستانیوں سے نوکریاں چھین لیں جو پہلے ہی جدوجہد کر رہے ہیں۔دوسری جانب یو این ایچ سی آر نے کا کہنا ہے کہ ملک بدر کیے جانے والے افغان شہریوں میں نصف سے زائد بچے ہیں جب کہ سرحد عبور کرنے والوں میں خواتین اور لڑکیاں بھی شامل ہیں جو ایک ایسے ملک میں داخل ہورہی ہیں جہاں انہیں سیکنڈری تعلیم کے بعد تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے اور انہیں کئی شعبوں میں کام کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔
2023 میں واپسی کے پہلے مرحلے کے دوران، دستاویزات نہ رکھنے والے لاکھوں افغانوں کو زبردستی سرحد پار بھیج دیا گیا تھا۔مارچ میں اعلان کردہ دوسرے مرحلے میں حکومت پاکستان نے 8 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کے رہائشی پرمٹ منسوخ کر دیے اور ان ہزاروں افراد کو بھی خبردار کیا جو کسی تیسرے ملک میں منتقلی کے منتظر ہیں کہ وہ اپریل کے آخر تک ملک چھوڑ دیں۔ایک دکاندار نے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغان وہ کام کرتے ہیں جسے کرتے ہوئے پاکستانیوں کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے، جیسے کچرا اٹھانا وغیر لیکن جب وہ چلے جائیں گے تو یہ کام کون کرے گا؟