کراچی میں پی ٹی آئی کامینڈیٹ چھینا گیا،سلمان راجہ
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
عمران خان کا مقصد اقتدار نہیں ، عوامی فلاح و بہبود اور ملک کی ترقی میں کردار ادا کرنا ہے
ہمارا منشور عوام کی خدمت ہے، سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی کی چیئرمین صدر ٹاؤن سے ملاقات
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے مرکزی سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ سے پی ٹی آئی کراچی کے سینئر نائب صدر اور چیئرمین صدر ٹاؤن منصور احمد شیخ نے کراچی میں ایک اہم ملاقات کی۔ اس ملاقات میں کراچی کی موجودہ سیاسی صورتِ حال اور صدر ٹان میں جاری ترقیاتی منصوبوں پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔منصور احمد شیخ نے ملاقات کے دوران بتایا کہ صدر ٹاؤن کراچی کا سب سے بڑا ٹاؤن ہے، جہاں کے عوام نے پی ٹی آئی پر بھرپور اعتماد کرتے ہوئے انہیں بطور چیئرمین منتخب کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کے عوامی خدمت کے منشور پر عمل کرتے ہوئے صدر ٹاؤن میں ریکارڈ ترقیاتی منصوبے مکمل کروائے گئے، جن میں سڑکوں کی تعمیر، اسٹریٹ لائٹس کی مرمت و بحالی، شجر کاری مہم، پارکوں کی بحالی، اور پانی کی فراہمی کے مسائل کا حل شامل ہے۔منصور شیخ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے قائد عمران خان کا مقصد صرف اقتدار نہیں بلکہ عوامی فلاح و بہبود اور ملک کی ترقی ہے۔ کراچی کے عوام نے پی ٹی آئی کو واضح اکثریت سے کامیاب کرایا، لیکن بدقسمتی سے اس مینڈیٹ کو چھینا گیا۔انہوں نے مزید کہا کہ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے، اور ہم رنگ، نسل یا مذہب سے بالاتر ہو کر عوامی خدمت میں مصروف ہیں۔ میری کوشش ہے کہ اپنی مدتِ چیئرمن شپ کے دوران صدر ٹان کو کراچی کا دل بنا دوں۔ تعلیم، صحت، صاف پانی اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے عملی اقدامات کیے جا چکے ہیں، اور ترقی کا یہ سفر جاری ہے۔مرکزی سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے منصور احمد شیخ کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کے عوامی فلاحی کاموں کی تعریف کی اور ہدایت کی کہ پی ٹی آئی کے منشور کو اسی جذبے سے آگے بڑھایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی پی ٹی آئی کا تھا، ہے اور رہے گا۔ مینڈیٹ چوروں کا وقت ختم ہو چکا ہے، پورے ملک کی طرح سندھ میں انصاف کی حکمرانی واپس آئے گی، اور بہت جلد عمران خان ہمارے درمیان ہوں گے۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: پی ٹی آئی صدر ٹاو ن
پڑھیں:
بھگوڑا یوٹیوبر برطانوی عدالت کے کٹہرے میں
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جھوٹ اور فریب کاری سے ڈالر کمانے والے جعل ساز اب قانون کی گرفت میں آتے جا رہے ہیں۔ ایک مفرور کورٹ مارشل شدہ بھگوڑا فوجی افسر آج کل برطانوی عدالتوں کے چکر کاٹ رہا ہے۔ یہ موصوف گزشتہ تین برسوں سے تحریک انصاف کے سادہ لوح حامیوں کو انقلاب کا چورن چٹا رہے تھے۔ ان کی پہلی خوبی یہ ہے کہ موصوف پاکستان کے قوانین کے مطابق مفرور قرار دیے جا چکے ہیں ۔ ان کی دوسری خوبی یہ ہے کہ ریاست اور فوجی اداروں کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرنے کے جرم میں ان کا کورٹ مارشل ہو چکا ہے۔ ان کی تیسری خوبی یہ ہے کہ موصوف جعلسازی اور مالیاتی فراڈ کے مقدمات میں پاکستانی عدالتوں کو مطلوب ہیں ۔ ان کی چوتھی خوبی یہ ہے کہ ان کے ساتھ تحریک انصاف کے بعض بھگوڑے رہنما اور چند مٹھی بھر کورٹ مارشل شدہ فوجی گاہے بگاہے بیرون ملک اپنی پناہ گاہوں سے ریاستی اداروں کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کا بازار گرم رکھتے ہیں ۔کچھ عرصہ قبل آئی ایس آئی کے اہم عہدے دار بریگیڈئر راشد نے بھگوڑے یوٹیوبر عادل راجہ کے خلاف برطانوی عدالت میں ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا تھا ۔کچھ عرصہ قبل اس مقدمے میں شواہد کی بنیاد پر عادل راجہ پر مالی جرمانہ عائد کیا گیا تھا ۔دستیاب اطلاعات کے مطابق موصوف جرمانہ ادا کر نے میں تاخیری حربے استعمال کرتے رہے ۔تاہم سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس مقدمے میں اپنے دفاع کے لیے روایتی مکاری کے ذریعے لگ بھگ ایک لاکھ پائونڈ جمع کر چکے ہیں۔ اس مقدمے کی حالیہ سماعت میں عدالت نے عادل راجہ پر مزید مالی جرمانہ عائد کر دیا ہے۔ میڈیا پہ دستیاب اطلاعات کے مطابق آئی ایس آئی کے سابق اہلکارگزشتہ ہفتے ہتکِ عزت کے مقدمے میں یوکے ہائی کورٹ میں ذاتی طور پر پیش ہوئے۔ یہ سماعت ماسٹر ڈیوسن کے روبرو مقرر تھی، جس کا مقصد مکمل ٹرائل سے قبل تین اہم درخواستوں پر فیصلہ کرنا تھا۔ مکمل ٹرائل رواں سال جولائی میں ہوگا۔عدالت نے ایک بار پھر حکم دیا کہ عادل راجہ مدعی کو قانونی اخراجات ادا کرے۔ اس سے قبل وہ 23,000 ادا کر چکے ہیں، اور اب عدالت نے مزید 6,100 ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔اس سلسلے میں پہلی درخواست عادل راجہ کی طرف سے تھی، جس میں انہوں نے خود اور اپنے گواہوں شاہین صہبائی، کرنل (ر) اکبر حسین، اور مرزا شہزاد اکبر کے لیے ریموٹ ٹرائل کی اجازت مانگی۔ مدعی راشد نذیر کو اصولی طور پر اس پر کوئی اعتراض نہ تھا، لیکن انہوں نے شواہد کی صداقت پر سوال اٹھایا۔جج نے حیرت کا اظہار کیا کہ شاہین صہبائی اور اکبر حسین کے لیے درخواست کیوں دی گئی، کیونکہ عدالت عام طور پر امریکہ سے آن لائن شہادت کی اجازت دے دیتی ہے۔شہزاد اکبر اور عادل راجہ کے لیے درخواست سننے سے جج نے انکار کیا اور کہا کہ یہ فیصلہ ٹرائل جج کرے گا جو جون کی پری ٹرائل سماعت میں ہوگا۔دوسری درخواست ایک گمنام گواہ کے لیے تھی، جس کے بارے میں عادل راجہ نے دعویٰ کیا کہ وہ فوج کا فرد تھا لیکن اس نے گواہی دینے سے انکار کر دیا۔عادل راجہ چاہتے تھے کہ اس درخواست کی لاگت راشد نذیر ادا کریں، لیکن راشد نذیر نے کہا کہ اگرچہ وہ اصولی طور پر اعتراض نہیں رکھتے، مگر چونکہ عادل راجہ نے یہ درخواست واپس لے لی ہے، اس لیے انہیں ہی لاگت ادا کرنی چاہیے۔جج نے فیصلہ دیا کہ اس درخواست کے اخراجات مقدمے کے اختتام پر طے ہوں گے۔ عادل راجہ نے پہلے دیے گئے 23,000 اخراجات وقت پر ادا نہیں کیے تھے ۔ مدعی چاہتا تھا کہ ان اخراجات کی وصولی کی درخواست پر آنے والے قانونی اخراجات بھی عادل راجہ ادا کریں۔عادل راجہ کے وکلا نے اس پر اعتراض کیا، مگر جج نے مدعی کے وکلا سے اتفاق کیا اور عادل راجہ کو 6,100 کی مزید ادائیگی کا حکم دیا جو 14دن میں کی جانی لازم ہے۔عادل راجہ نے ان کارروائیوں کے دوران ایک بیان میں کہا کہ وہ لندن میں مقیم ایک پاکستانی صحافی کو سمن جاری کرنے جا رہے ہیں تاہم ان کے وکیلوں نے اس معاملے پر کوئی واضح موقف اختیار کرنے کے بجائے ہچکچاہٹ کا اظہار کیا۔ مقدمے میں صاف دکھائی دے رہا ہے کہ بھگوڑا یوٹیوبر قانونی مو شگافیوں کی تلاش میں ہے ۔تاہم قانونی کارروائی کے شکنجے میں آنے کے بعد یوٹیوب پر جعلی پروپیگنڈے کے سحر میں مبتلا ہونے والے سادہ لوح فالوورز کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ بھگوڑے کورٹ مارشل شدہ یوٹیوبر کے علاوہ بیرون ملک مقیم بعض مفرور صحافی سنسنی خیز جعلی خبروں اور جھوٹے الزامات کے ذریعے ایک جانب تحریک انصاف کے حامیوں کو غلط راہ پر لگاتے رہے ہیں تو دوسری طرف ملک میں عدم استحکام کے بیج بوتے رہے ہیں۔ اس منفی طرز عمل کے برے اثرات کا کچھ اندازہ اب تحریک انصاف کی قیادت کو بھی ہوتا جا رہا ہے دو ہفتے قبل پشاور میں شعلہ بیانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے واضح الفاظ میں یہ ذکر کیا کہ بیرون ملک مقیم بہت سے یوٹیوبرز اور وی لاگرز جھوٹی خبروں کی شرلیاں چھوڑتے رہتے ہیں ۔یہ پہلو نہایت توجہ طلب ہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے ان تمام یوٹیوبرز اور وی لاگرز کی نہ صرف مذمت کی بلکہ ان سے باقاعدہ تعلق کا انکار بھی کیا ۔جو کچھ بھگوڑے یوٹیوبر عادل راجہ کے ساتھ اس وقت برطانوی عدالت میں ہو رہا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ جعلسازی، جھوٹے پروپیگنڈے اور زہریلے الزامات عائد کرنے کا مذموم دھندہ زیادہ دن نہیں چل سکے گا۔