وزیر دفاع نے 5.1 ارب ڈالر کے 15 معاہدوں کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے ختم کردیا ہے، ان کانٹریکٹس میں امریکی ڈیفنس ہیلتھ ایجنسی، ائیرفورس، نیوی اور تحقیقاتی ادارے ڈارپا (DARPA) جیسے اداروں کے مختلف پروجیکٹس شامل ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی محکمہ دفاع نے بچت کے لیے اربوں ڈالرز کے معاہدے ختم کردیے۔ تفصیلات کے مطابق امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے محکمہ دفاع میں اربوں ڈالرز کے معاہدے فضول خرچی قرار دے کر فوری طور پر منسوخ کردیے۔ امریکی وزیر دفاع نے 5.

1 ارب ڈالر کے 15 معاہدوں کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے ختم کردیا ہے، ان کانٹریکٹس میں امریکی ڈیفنس ہیلتھ ایجنسی، ائیرفورس، نیوی اور تحقیقاتی ادارے ڈارپا (DARPA) جیسے اداروں کے مختلف پروجیکٹس شامل ہیں۔

ڈیفنس ہیلتھ ایجنسی کے مشاورتی معاہدے منسوخ کردیے گئے ہیں جن میں نجی کمپنیوں جیسے ایکسنچر، ڈیلائٹ اور بوز ایلن کی خدمات شامل تھیں۔ محکمہ دفاع کے اعلامیے کے مطابق امریکی ائیر فورس کا کلاؤڈ آئی ٹی سروسز کا معاہدہ بھی ختم کردیا گیا ہے جسے موجودہ دفاعی وسائل کے ذریعے پورا کیا جا سکتا تھا۔ امریکی نیوی کے انتظامی دفاتر کے لیے بزنس پراسیس کنسلٹنگ کے معاہدے بھی منسوخ کردیے گئے ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع کے مطابق ان اقدامات کے نتیجے میں 4 ارب ڈالر کی بچت ہو گی۔

امریکی ادارے ڈارپا (DARPA) یعنی ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی جو امریکی محکمہ دفاع کا ایک جدید تحقیقاتی ادارہ ہے اور نئی اور انقلابی ٹیکنالوجیز کی ترقی پر کام کرتا ہے اس کے آئی ٹی ہیلپ ڈیسک سروسز کے کانٹریکٹ کو ختم کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ سروسز امریکی محکمہ دفاع کے پہلے سے موجود عملے اور وسائل سے انجام دی جاسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلی، ڈائیورسٹی، کووڈ-19 رسپانس اور غیر ضروری سرگرمیوں سے متعلق 11 مشاورتی معاہدے بھی ختم کردیے گئے ہیں۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: امریکی محکمہ دفاع

پڑھیں:

ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل

اسلام ٹائمز: ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔ تحریر: آتوسا دینیاریان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے من پسند پالیسیوں پر انحصار کرتے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک خصوصاً چین کے خلاف ٹیرف کی ایک وسیع جنگ شروع کی ہے، اس طرزعمل کے نتائج نے موجودہ امریکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور عوام کے عدم اطمینان میں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ریاستہائے متحدہ میں معاشی حالات خراب ہوئے ہیں اور حالیہ مہینوں میں ٹرمپ کے فیصلوں کی وجہ سے امریکی صارفین کے لیے قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ تحفظ پسند پالیسیوں کو نافذ کرکے اور چین اور دیگر ممالک کے خلاف تجارتی محصولات میں اضافہ کرکے "عظیم امریکی خواب" کے نظریے کو بحال کر رہے ہیں۔ لیکن عملی طور پر ان پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ، معاشی ترقی کی رفتار میں کمی اور وسیع پیمانے پر عدم اطمینان پیدا ہوا ہے۔

ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی:
اس وقت صرف 44% امریکی ان کے معاشی انتظام سے مطمئن ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو ان کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے آئے گا۔

افراط زر اور بڑھتی ہوئی قیمتیں:
افراط زر کی شرح 3% تک پہنچ گئی ہے، جبکہ فیڈرل ریزرو کا ہدف 2% ہے۔ یہ وہ علامات ہیں، جو کسی ملک میں کساد بازاری کو دعوت دینے کے مترادف سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ترقی کی رفتار رک جاتی ہے اور سست اقتصادی ترقی کا سایہ منڈلانے لگتا ہے۔ تجارتی پالیسی کے عدم استحکام کی وجہ سے سرمایہ کار طویل مدتی سرمایہ کاری سے گریز کرنے لگتے ہیں۔

بڑے پیمانے پر احتجاج:
 ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف ہزاروں امریکیوں نے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے متوسط ​​طبقے اور محنت کشوں کی ان پالیسیوں سے عدم اطمینان کی عکاسی کرتے ہیں، جو دولت مند اور بڑی کارپوریشنز کے حق میں ہیں۔ ادھر فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول نے خبردار کیا ہے کہ نئے ٹیرف مہنگائی اور سست اقتصادی ترقی کو بڑھا سکتے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ کے معاشی فیصلے ظاہری طور پر امریکی معاشی حالات کو بہتر بنانے اور ملکی پیداوار کو سپورٹ کرنے کے دعوے کے ساتھ کیے گئے تھے، لیکن عملی طور پر وہ مسابقت میں کمی، قیمتوں میں اضافے، معاشی ترقی میں سست روی اور مارکیٹ میں عدم استحکام کا باعث بنے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • تجارتی معاہدے کے پہلے مرحلے پر مذاکرات میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے.بھارتی وزیراعظم اورامریکی نائب کی ملاقات
  • غزہ جنگ کے خلاف احتجاج پر امریکہ میں قید خلیل، نومولود بیٹے کو نہ دیکھ سکے
  • اسرائیل کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے امریکی سفیر نے حماس سے کیا مطالبہ کیا ؟
  • امریکی حملے کا منصوبہ ایک اور چیٹ روم میں لیک ہونے کا انکشاف
  • ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
  • ٹیرف کے اعلان کے بعد تجارتی معاہدے پر مذاکرات، امریکی نائب صدر کا دورہ انڈیا
  • امریکی سیکرٹری دفاع نے نجی گروپ میں بھی یمن حملوں کی تفصیلات شیئر کیں، امریکی اخبار
  • افریقہ میں امریکہ کا غیر ضروری سفارت خانے اور قونصل خانے بند کرنے پر غور
  • امریکی وزیر دفاع نے حساس معلومات نجی چیٹ گروپ میں شیئر کیں، ملکی میڈیا
  • تہران یورینیم افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار