وزیراعلیٰ بلوچستان سے مولانا عبدالغفور حیدری کی سربراہی میں جے یو آئی کی وفد سے ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT
کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 11 اپریل2025ء) وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی سے جمعہ کو یہاں جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری کی سربراہی میں جے یو آئی کے سنیئر نمائندہ وفد نے ملاقات کی وفد میں جمعیت علمائے اسلام کے صوبائی امیر سینیٹر مولانا عبدالواسع، اپوزیشن لیڈر یونس عزیز زہری، اراکین صوبائی اسمبلی ظفر آغا، اصغر خان ترین ، سابق صوبائی وزیر مولانا حسین احمد شرودی سمیت سینئر صوبائی اکابرین بھی شریک تھے ۔
ملاقات میں بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال، مجموعی سیاسی حالات اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے جاری دھرنے سے متعلق تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا ۔اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام کے وفد نے موجودہ صورتحال میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی۔(جاری ہے)
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے وفد کو حکومت کے مؤقف سے آگاہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ بلوچستان میں امن و امان کی بحالی کیلئے حکومت اور اپوزیشن دونوں کی ذمہ داری یکساں طور پر اہم ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام ایک ذمہ دار سیاسی قوت ہے جس نے حکومت ہو یا اپوزیشن میں، ہمیشہ اپنا مثبت کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام کا تعمیری اور جمہوری سیاسی کردار لائقِ تحسین ہے ۔ملاقات کے دوران وزیر اعلیٰ بلوچستان نے واضح کیا کہ حکومت تمام سیاسی مسائل کا حل سیاسی مشاورت کے ذریعے چاہتی ہے اور اس ضمن میں ہر مثبت پیش رفت کا خیرمقدم کیا جائے گا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جمعیت علمائے اسلام وزیر اعلی
پڑھیں:
وزیر اعلیٰ کے مشیر کا بیان خطے کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے، شیعہ علماء کونسل گلگت
شیعہ علما کونسل گلگت کے جنرل سیکرٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا کہ کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل ضلع گلگت کے جنرل سکریٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مورخہ 19 اپریل 2025ء کو جاری ہونے والی مشیر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان مولانا محمد دین کی پریس ریلیز محض ایک بیان نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے کی شناخت پرامن بقائے باہمی، مذہبی رواداری اور اجتماعی شعور ہے۔ ایسے میں کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سے ہمارا سوال ہے کہ کیا مشیر موصوف کی یہ پریس ریلیز آپ کی منظوری سے جاری کی گئی؟ اگر ہاں، تو یہ طرز حکمرانی پر سوالیہ نشان ہے کہ ایک حکومت اپنے عوام سے اس انداز میں مخاطب ہو رہی ہے جو نفرت، تقسیم اور اشتعال کو ہوا دے رہا ہے۔ اور اگر یہ بیان آپ کی اجازت یا علم کے بغیر جاری کیا گیا ہے تو آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے غیر سنجیدہ اور نالائق مشیروں کو فوراً برطرف کریں تاکہ حکومت کی نیک نامی، شفافیت اور سنجیدگی پر عوام کا اعتماد قائم رہ سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشیر موصوف نے خطیب جامع مسجد امامیہ گلگت جناب آغا سید راحت حسین الحسینی جیسے محترم، سنجیدہ اور باوقار عالم دین کے خلاف جو زبان استعمال کی، وہ گلگت بلتستان کے مہذب سیاسی و سماجی کلچر سے متصادم ہے۔ ان کی باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اختلاف رائے کو ذاتی حملے سمجھتے ہیں اور سنجیدہ تنقید کا جواب اخلاقیات کے دائرے سے باہر نکل کر دینا مناسب سمجھتے ہیں۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید اور سوال اٹھانا ہر باشعور شہری، خصوصاً اہل علم کا آئینی، اخلاقی اور سماجی حق ہے۔ اگر حکومت کی پالیسیاں واقعی عوامی مفاد پر مبنی ہیں تو دلیل و حکمت سے عوام کو مطمئن کیا جائے، نہ کہ ان پر الزام تراشی کر کے ان کی زبان بند کرنے کی کوشش کی جائے۔ مشیر موصوف کا یہ کہنا کہ "دین کو سیاست سے الگ رکھا جائے" نہ صرف فکری گمراہی کی نشانی ہے بلکہ اس قوم کے نظریاتی اساس سے انحراف بھی ہے۔ پاکستان کا قیام ہی کلمہ طیبہ ”لا الہ الا اللہ“ کے نام پر ہوا تھا، اور اس ملک کی بقاء اسی وقت ممکن ہے جب دین اور سیاست کو ہم آہنگی سے مربوط کیا جائے۔