Daily Ausaf:
2025-04-22@14:31:42 GMT

قرآن کی برکتیں

اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT

اللہ وحد ہ، لاشریک نے انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اپنے رسولوں کے ساتھ اپنی کتابیں بھی بھیجیں کہ رسول ان کتابوں کے ذریعہ اپنی اپنی امتوںکو دنیا میں زندگی بسر کر نے کے طریقے سکھائیں۔ ایسے کاموں کے کرنے کا حکم دیں جو خالق انسان کی رضا کا ذریعہ ہو ں اور ان کامو ں سے بچنے کی تاکید کریں جو مالک حقیقی کی مرضی کے خلاف ہو ں ،یعنی خداکی کتابیں ،آسمانی کتابیں ، انسانوں کے لئے دستور العمل ،ضابطہ حیات ، قانون زندگی ہیں،جن کا معلم انبیا ء کرام ورسل عظام علیہم السلام ہیں ۔ رسول صرف ان کتابوں کے پہنچانے والے نہیں بلکہ ان کو سکھانے والے اور عملی طور پر ان کی تعلیم دینے والے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ رسول کی تعلیم و تربیت خود خدائے بالاوبرتر فرماتا ہے۔ رسول نہ تو دنیا کے عالموں سے علم حاصل کر تا ہے اور نہ وہ دنیا کی کتابوںکا محتاج ہو تا ہے ۔ وہ تو خداکی کتاب کا معلم ہوتاہے، لہذا خداہی اس کو ا س منصب کا اہل بناتا ہے ،ایسا علم عطا فرماتا ہے کہ امت کا کوئی فرد اس کے علم کا مقابلہ کرنے کی جرات نہیں کرپاتا ، رسول کا ہر عمل ، اس کی ہر ادا خداکی کتاب کاعملی نمونہ ہوتی ہے ۔ فرمایا گیا (پ۱۲،الاحزاب۱۲) ترجمہ: ’’بے شک تمہاری رہنمائی کے لئے اللہ کے رسول کی زندگی بہترین نمونہ ہے‘‘ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے حضور علیہ السلام کی عادات و اطوار کے متعلق معلوم کر ناچاہا تو آپ نے یہی فرمایا کہ ،ترجمہ’’کردار رسول ﷺ قرآن کے عین مطابق تھا‘‘انسان کی ضرورت کے مطابق ہر دور میں خدانے اپنی کتابیں نازل فرمائیں ۔
حضرت دائود علیہ السلام کو ’’زبور‘‘دی گئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ’’تورات‘‘ملی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ’’انجیل‘‘ لے کر آئے۔ ان کتابوں پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ۔ہمارا ایمان ہے کہ یہ اللہ کی کتابیں تھی ،لیکن یہ کتابیں ہمیشہ کے لئے نہیں بلکہ خاص زمانے اور خاص امتوں کے لئے تھیں ،جو رسول یہ کتابیں لے کر آئے ، انہوں نے خود کبھی یہ دعویٰ نہ کیا کہ ان کی کتا بیں ہر دور سے انسانوں کے لئے دستور العمل ہیں۔ ا نہو ں نے تو یہ بھی دعویٰ نہیں کیا کہ ان کی رسالت عام ہے۔ وہ قیامت تک کے انسانوں کے لئے رسول ہیں ،بلکہ ان کی کتابوں نے نبی آخر الزماں کی آمد کی خبر دی ۔ غرض کہ اس میں شک نہیں کہ سب کتابیں اللہ ہی کی کتابیں تھیں ،لیکن محدود وقت اور مخصوص قوم کے لئے ،یہی وجہ ہے کہ آج یہ کتابیں اپنی اصل حالت میں کہیں نہیں نہ ان کی تاریخ کا پتہ ہے اور نہ اس کے اصل نسخے کہیں پائے جاتے ہیں ،حتیٰ کہ جس زبان میں یہ کتابیں نازل ہو ئی ،آج دنیا میں ان زبانوں کا بولنے والا ،جاننے والا کوئی نہیں رہا ، پس اب خدا کے بندوں کے پا س خداکی صرف ایک ہی کتا ب ہے ، جوآخری کتاب ہے ، جو خدا کے آخری رسول ، حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوئی، یہی مسلمانوں کا ضابطہ حیات اور دستور العمل ہے اوریہ آج تک امت مسلمہ کے پا س اصلی حالت میں موجود ہے ،اس کاایک ایک حرف وہی ہے جو خدانے اپنے آخری نبی محمدمصطفی ﷺپر نازل فرمایایہ نبی کریم ﷺکا صدقہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس خداکی کتاب اصل حالت میں موجود ہے ۔ہم بڑے خوش نصیب ہیں ہمیں چاہیے خدا کی اس نعمت کی قدر کر یں ،اس کا ادب کریں ،احترام کریں ، اس کی تلاوت کریں، اس کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں ۔ اس کی تاریخ کو جانیں تاکہ اس کی حفاظت کا ہمیں بھی ثواب ملے ۔
قرآن کریم اللہ کی آخری کتاب ہے ،جو آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے ذریعہ ہمیں ملی۔ آپ کی عمر شریف چالیس سال چھ ماہ کی ہو چکی تھی۔ آپ غار حرا میں اپنے رب کی عبادت کر رہے تھے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام خداکا پہلا پیغام آپ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے۔ یہیں سے قرآن کریم نازل ہونے کی ابتدا ہو ئی اور تیئیس سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس کو نازل فرمانے والا،خدا وحدہ،لاشریک ،اس کا لانے والافرشتہ بڑی خوبیوں والا معززمحترم اور امانت دار ، حضور علیہ السلام کا جاناپہچانا ، اس کو لینے والے محمد ابن عبداللہ ﷺ نبیوں کے سردار ،آخری نبی (ﷺ) ہیں۔قرآن کریم کی ان آیات پر غور کیجئے ۔ترجمہ:’’فرمادیجئے ، نازل کیا ہے اسے روح القدس نے آپ کے رب کی طرف سے حق کے ساتھ ، تاکہ ثابت قدم رکھے انہیں جو ایمان لائے ہیں یہ ہدا یت اور خوشخبری ہے مسلمانوں کے لئے‘‘(پ ۴۱ ،النحل ، ۲۰۱) یہ سورہ نحل کی آیا ت ہے ،دوسرے مقام پر سورہ شعرا میں فرمایا جارہا ہے ، ترجمہ ’’اور بے شک یہ کتاب رب العلمین کی اتاری ہو ئی ہے اسے لے کر روح الامین اترے ہیں (اے محمدﷺ ) آپ کے قلب پر تاکہ آپ لوگوں کو ڈرانے والے ہو جائیں یہ ایسی عربی زبان میں ہیں جو بالکل واضح ہے اوراس کا ذکر پہلے لو گو ں کی کتابوں میں بھی ہے ‘‘ (پ ۹۱ ، الشعرا ،۲۹۱،۶۹۱)سورہ تکویر کی آیا ت سے مزید وضاحت ہو تی ہے ،ترجمہ ’’بے شک یہ(قرآن) معزز قاصد (جبرئیل)کا (لایا) ہو ا قول ہے جو قوت والا مالک عرش کے یہا ں عزت والاہے سب (فرشتوں)کے سردار اور وہاں کا امین ہے اور تمہا را یہ ساتھی (محمد ﷺ) کوئی مجنون تو نہیں ہے اور بلا شبہ اس (رسول)نے اس قاصد (جبرئیل)کو روشن کنارے پر دیکھا ہے اور یہ نبی غیب بتانے میں ذرا بخیل نہیں اور یہ (قرآن)کسی شیطان مردود کا قول نہیں پھر تم کدھر چلے جارہے ہو یہ صرف تمام جہا ںوالو ں کے لئے نصیحت ہے جو تم میں سے سیدھی راہ چلناچاہے ‘‘ (پارہ۰۳ ،التکویر ، ۹۱،۸۲)
بالکل واضح ہو گیا کہ قرآن کریم نازل کر نے والا تمام جہانوں کا پر ور دگار ہے اس کو دنیا میں پہنچانے کا کا م ایک ایسے فرشتے کے سپرد کیا گیا جو روح القدس ہے ،روح الامین ہے ، بڑی قوت والا ہے۔ خدا کے نزدیک اس کی بڑی عزت ہے ، فرشتوں کا سردار اور فرشتوں میں نہایت امانت دار ہے ۔جس پر یہ کتاب نازل ہو ئی اس کو فرشتے سے لینے کی روحانی قوت اور انسانوںکو دینے سکھانے کی مادی صلاحیت سے پو ری طرح نوازاگیا ہے ۔ اس نے زندگی کے چالیس برس اہل مکہ میں بڑی عزت کے ساتھ امین ،صادق کی حیثیت سے بسر کئے ہیں۔ اس کی زندگی دیکھنے والے ذرا بھی انصاف سے کا م لیں تو اس کو مجنوں و دیوانہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: علیہ السلام یہ کتابیں ں کے لئے نازل ہو یہ کتاب نے والا ہے اور

پڑھیں:

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

کسی شاعر نے توکہا تھا کہ

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

مگر حادثہ کا شکار ہونے والوں سے جب پوچھا جاتا ہے تو وہ بتاتے ہیں کہ اْنہیں تو پتہ ہی نہیں چلا ، اگر اْنہیں علم ہوتا کہ اْن کے ساتھ کوئی حادثہ ہونے والا ہے تو وہ گھر سے نکلتے ہی نہیں جبکہ اْسی حادثے میں جو لوگ کچھ بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے اْن کے لواحقین بتاتے ہیں کہ اِس حادثے میں زخمی ہونے یا جان بحق ہونے سے پہلے اْنہوں نے کتنے جتن کئے تھے اور وہ کون کون سی رکاوٹ پھلانگ کر حادثے کا حصہ بنے تھے ۔ بہرحال اللہ تعالی ہم سب کو ہر قسم کے حادثے سے محفوظ رکھے۔

پرانے زمانے میں حادثات کی خبروں کے حصول کا واحد ذریعہ اخبارات ہوتا تھا اور عموما صفحہ اول پر ہی ٹریفک حادثات کی خبریں شائع ہوا کرتی تھیں۔ آج کے برعکس ریڈیو اور ٹی وی پر ایسی خبریں نشر نہیں ہوتی تھیں۔ آج تو معمولی سے معمولی حادثے کی خبر بھی ٹی وی پر دیکھی اور سنی جا سکتی ہے۔ لوگ پوری ذمہ داری اور دلچسپی کے ساتھ وہ خبریں دیکھتے بھی ہیں اور ساتھ ساتھ یہ تبصرہ بھی کرتے ہیں کہ اگر یہ خبر نشر نہ کرتے تو کیا حرج تھا ۔

چند سال پہلے تک صورتحال یہ تھی کہ کوئی ٹریفک حادثہ ہونے کے بعد یہ طے کرنا مشکل ہوتا تھا کہ حادثہ کس کی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے، جبکہ آج یہ بات طے کرنا مشکل نہیں رہا کہ حادثے کا اصل ذمہ دار کون ہے ۔ کیونکہ اکثر گاڑیوں میں لگے کیمرے یہ راز کھول دیتے ہیں اور اگر کسی گاڑی میں کیمرہ نہ بھی ہو تو آس پاس کے کلوز سرکٹ کیمرے یہ راز فاش کر دیتے ہیں۔ اس سب کے باوجود بھی آج بھی ایسے کئی حادثات ہوتے رہتے ہیں جن کے ذمہ داروں کا تعین نہیں کیا جا سکتا یا نہیں ہو پاتا ۔( خصوصا ہمارے ہاں)

 شدید دھند کے موسم میں ہمارے ہاں تو بے شک موٹرویز اور ایکسپریس ویز بند کر دی جاتی ہیں مگر کئی ممالک میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا تاہم ڈرائیورز کو بہت زیادہ محتاط رہنے کی تلقین کی جاتی ہے ، مگر پھر بھی حادثات ہو ہی جاتے ہیں ۔ اس صورتحال میں عموماً غلطی تو کسی ایک ڈرائیور کی ہوتی ہے مگر اْس کے پیچھے آنے والے کئی ڈرائیورز اِس سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ اچانک بریک لگانے سے پیچھے آنے والی گاڑیاں ایک دوسرے میں دھنستی چلی جاتی ہیں ۔ امریکہ کی ریاست لوزیانہ کی ہائی وے پر چند سال پہلے ایسی صورت میں چند منٹوں میں کم از کم ڈیڑھ سو سے زیادہ گاڑیاں ایک دوسرے میں دھنس جانے کی وجہ سے سات افراد جان بحق ہو گئے۔

شدید سردی کے موسم میں جبکہ دھند کے باعث حدِ بصارت بہت کم ہو جاتی ہے تو ایسے میں موٹرویز تو بند ہو جاتی ہیں مگر ہائی ویز پر ٹریفک کا دباؤ پہلے سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے اور وہاں حادثات کی شرح خاصی بڑھ جاتی ہے ۔ ایسے میں زیادہ تر حادثات رات کے وقت ہوتے ہیں جب ڈرائیور کو یہ اندازہ کرنے میں غلطی لگ جاتی ہے کہ اْسے کہاں سے مڑنا ہے۔ ایسے میں وہ بعض اوقات گاڑی کو سڑک کے درمیان بنی دیوار سے ٹکرا دیتا ہے ۔ بعض اوقات اچھے خاصے خوشگوار موسم میں جب سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہوتا ہے تو کوئی جانورکسی بھی طرح سے موٹروے کی ’سیر و سیاحت‘ کے لیے آ جائے تو اْس سے بچنے یا اْس کو بچانے کے لیے ڈرائیور یکدم بریک لگا دیتا ہے تو اِس سے بھی اْس کے پیچھے آنے والی گاڑیاں اْس میں آ کر لگنے لگتی ہیں ۔

 ہمارے ہاں ٹریفک حادثات کو مقدر کا لکھا ہی تصور کیا جاتا ہے، بہت پہلے جبکہ موٹرویز ، ایکسپریس ویز اور ون ویز نہیں ہوتی تھیں اور ایک ہی سڑک پر دونوں اطراف سے گاڑیاں آ جا رہی ہوتی تھیں تو سامنے سے آنے والی گاڑی کو دیکھ کر زبان پر بے ساختہ کلمہ طیبہ کا ورد شروع ہو جاتا تھا ۔ اْس وقت دوسرے شہر جانے کے لیے زیادہ تر لوگ بسوں پر ہی سفر کیا کرتے تھے۔ سنگل سڑک پر اوورٹیک کرتے ہوئے یا سامنے سے آنے والی ٹریفک سے بچتے ہوئے بعض اوقات بس بے قابو ہو کر سڑک سے نیچے اْتر جاتی اور سامنے آئے کسی درخت سے ٹکرا کر رک جاتی ۔ ایسے ہی کسی حادثے میں بچ جانے والی ایک بڑھیا نے ڈرائیور سے سوال کیا ؛ "بیٹا جہاں درخت نہیں ہوتے، تم بس کو کیسے روکتے ہو؟‘‘۔

 اْن دنوں میں زمینی علاقوں میں سفر پہاڑی علاقوں میں سفر کی نسبت زیادہ محفوظ ہوتا تھا۔ پہاڑی راستے چونکہ تنگ اور بل کھاتے ہوئے جاتے ہیں ، اِس لیے وہاں پر گاڑی چلانے کے لیے اضافی مہارت کی ضرورت ہوتی تھی ، بلکہ آج بھی ہے۔ ایسے میں معمولی سی غفلت گاڑی کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی تھی۔ پہاڑوں میں بل کھاتی سڑکوں کے کسی موڑ سے نیچے کھائی کی طرف دیکھیں تو کوئی گری ہوئی گاڑی یا بس نظر آ جاتی ہے۔

پرانے زمانے میں تو بسیں ہی گری ہوئی نظر آتی تھیں مگر اب کاریں ، خصوصاً چھوٹی اور کم طاقت والی کاریں گرتی ہیں خصوصاً جن کے ڈرائیورز نا تجربہ کار ہوتے ہیں ۔ ایسی گاڑیاں اگر ناقابل مرمت ہوں یا اْن کی ملکیت کا کوئی دعوی دار نہ ہو تو متعلقہ ادارے ایسی گاڑیاں کھائی سے نکال کر کسی ایسی جگہ رکھ دیتے ہیں کہ جہاں ہر آنے جانے والے ڈرائیور کی نظر پڑے اور وہ اْس گاڑی کی حالت سے عبرت پکڑتے ہوئے محتاط ڈرائیونگ کرے مگر اِس کے باوجود بھی جو حادثات رونما ہونا ہوتے ہیں ہو کر ہی رہتے ہیں ۔

 گاڑیوں کی ریس کو دنیا کا مہنگا ترین کھیل تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اِس میں استعمال ہونے والی عام سی گاڑی بھی پاکستانی کرنسی کے اعتبار سے کئی کروڑ روپے کی ہوتی ہے اور اْس میں بیٹھے ڈرائیور کی زندگی کی کیا قیمت ہو گی ،آپ خود اندازہ لگا لیں ۔ پھر بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ کروڑوں کی گاڑی دوسری مرتبہ ریس میں حصہ لینے کے قابل بھی نہیں رہتی۔ ایسے میں بعض اوقات تو دہرا نقصان بھی ہو جاتا ہے کہ ایک تو کار بیکار ہو گئی اور دوسرا اعزاز بھی ہاتھ نہیں آیا ۔ منظم کار ریس میں عام طور پر نقصان کار کا ہی ہوتا ہے، ڈرائیور بہرحال محفوظ ہی رہتا ہے۔ یہ ریس شائقین کو دکھانے کے لیے عام طور پر مختلف کیمروں کی مدد سے بڑی سکرینوں کا سہارا لیا جاتا ہے ۔

بعض اوقات اِس کی فلم بندی میں مصروف فوٹوگرافر کسی حادثے کی صورت میں ڈرائیورز سے زیادہ زخمی ہو جاتے ہیں ۔ عام لوگ دوران ریس گاڑیوں کے اْلٹنے اور ٹوٹنے کے مناظر سے بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اْن کا لطف بے شک ویسا ہی ہوتا ہے جیسا ریسلنگ، فٹبال ، کرکٹ یا کسی بھی میچ کے دوران شائقین کا ہوتا ہے۔ گاڑیوں کے اْلٹنے کی خبریں، فوٹو یا ویڈیوز تو اکثر لوگوں نے دیکھ رکھی ہیں اور اْس سے حسبِ ضرورت لوگ عبرت بھی حاصل کرتے ہیں اور لذت بھی۔ مگر اْلٹی ہوئی بس ہو یا ٹرین ، اس سے تو لوگوں نے ہمیشہ عبرت ہی حاصل کی ہے ۔

 بسوں اور گاڑیوں کے بعد زیادہ تر حادثات ٹرینوں کے ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ایک مرتبہ ریل گاڑی کا کانٹا بدلنے والی کسی پوسٹ کے لیے انٹرویو ہو رہے تھے۔ انٹرویو لینے والے نے پہلے سے سوچ رکھا تھا کہ اْس نے کسے چننا ہے اور وہ حاضر امیدواروں میں موجود بھی نہیں تھا ۔ اْس نے ایک امیدوار سے پوچھا کہ اگر اْسے معلوم ہو جائے کہ دو گاڑیاں ایک ہی ٹریک پر آمنے سامنے سے آرہی ہیں تو تم کیا کرو گے؟

 اْس نے جواب دیا کہ میں اسٹیشن ماسٹر سے کہوں گا کہ وہ اِس کا کوئی بندوبست کرے ۔

انٹرویو لینے والے نے کہا کہ اگر وہ موجود نہ ہو تو؟

امیدوار نے کہا پھر میں اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر سے کہوں گا۔

 اور اگر وہ بھی نہ ملے تو پھر ۔۔

پھر میں سگنل مین سے کہوں گا کہ وہ دونوں گاڑیوں کو دور دور رْک جانے کا سگنل دے۔

اور اگر وہ بھی نہ ملے تو پھر؟

 امیدوار نے کہا میں اپنی دادی کو بلا لاؤں گا۔

 تمہاری دادی وہاں کیا کرے گی؟ انٹرویو لینے والے نے حیرت سے پوچھا

اْنہیں ٹرینوں کی ٹکر خصوصاً ہیڈ کولیڑن دیکھنے کا بڑا شوق ہے ، وہ اپنا شوق پورا کر لیں گی ۔ امیدوار نے جواب دیا۔

 ٹرینوں کا ہیڈ کولیڑن یا ٹیل کولیڑن پاکستان میں ہوتا ہی رہتا ہے ۔ اس طرح کے حادثات پہلے تو جنوری کے مہینے میں جب کہ دھند کا راج ہوتا ہے ، ہوا کرتے تھے مگر اب جنوری تا دسمبر کسی بھی مہینے کی کسی بھی تاریخ کو رونما ہو جاتے ہیں ۔ اِن حادثات کی وجوہات اور تفصیلات بیان کرنا چونکہ اِس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے اِس لیے آگے بڑھتے ہوئے یہ بتاتے ہیں کہ ہیڈ کولیڑن یا آمنے سامنے سے ٹکر کاروں، بسوں اور ٹرینوں کے علاوہ جہازوں کی بھی ہو جاتی ہے۔

چند سال پہلے تک صورتحال یہ تھی کہ ہوائی جہازکے حادثات عموماً دورانِ لینڈنگ یا ٹیک آف رن وے پر ہی رونما ہوتے تھے، پھر پرندوں کے ٹکرانے کی وجہ سے حادثات کی خبریں آنے لگیں ۔ پھر 9/11 کو جب امریکہ کے ٹوین ٹاورز سے دو جہاز ٹکرائے تو بعد میں اونچی عمارتوں سے جہاز ٹکرانے کی خبریں بھی ملتی رہیں۔ مگر گزشتہ چند سالوں سے" کند ہم جنس باہم پرواز کبوتر با کبوتر باز با باز" کے مصداق دو ایک جیسے طیارے آپس میں ٹکرانے کی خبریں بھی آنا شروع ہو گئی ہیں یعنی مسافر اور کمرشل طیاروں کی ٹکریں رن وے کے علاوہ کھلی فضا میں بھی ہوتی ہیں ۔

 ہوائی جہاز کا سفر بے شک سب سے تیز سفر ہوتا ہے یعنی ٹرین یا بس کے ذریعے دنوں کا سفر محض چند گھنٹوں میں ہو جاتا ہے ۔ یوں تو فضائی سفر کی کمپنیاں دعوی کرتی ہیں کہ ہوائی سفر ہی سب سے زیادہ محفوظ سفر ہے اور اس کے لیے وہ مختلف تجربات بھی کرتی رہتی ہیں اور نئی نئی ٹیکنالوجیز بھی استعمال کرتی رہتی ہیں مگر پھر بھی حادثات جو ہونا ہوتے ہیں وہ ہو ہی جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں امریکہ میں اوپر تلے کئی ہوائی حادثات رونما ہوئے تو لوگوں نے اِس کی ذمہ داری بھی نو منتخب صدر ٹرمپ پر ڈال دی مگر پھر دوسرے ممالک میں بھی ہوائی جہازوں کے حادثات ہوئے تو خاموشی چھا گئی کہ یہ تو ہوتے ہی رہتے ہیں ۔

چند سال قبل عید سے ایک دن پہلے پی آئی اے کی لاہور سے کراچی جانے والی پرواز کو کراچی لینڈ کرنے سے پہلے ایسا حادثہ پیش آیا کہ ایک کے سوا مسافروں اور عملے کے تمام افراد جان بحق ہوگئے۔ اِس کے علاوہ جہاز کا ملبہ آس پاس کی عمارتوں کی چھتوں پر گرنے سے الگ نقصان ہوا۔ اس حادثے کے بعد معلوم ہوا کہ قومی ائیر لاین کے بہت سے پائلٹس کی تربیت معیار کے مطابق نہیں ہے تو وزیراعظم نے اس کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے ایسے پائلٹس کو گراؤنڈ کر دیا جس سے قومی ائیر لائن کی مقبولیت کا گراف خاصا گر گیا ، بہت سے ممالک نے تو قومی ائیر لائن کا داخلہ ہی بند کر دیا تھا۔ اْس وقت کی اپوزیشن نے اعتراض کیا کہ وزیراعظم کے اس اقدام سے پاکستان کی معیشت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔

فضائی حادثات کی فہرست بنائی جائے تو بہت طویل بن سکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجوہات میں تو مماثلت ہو سکتی ہے مگر فضائی حادثات کی صورت میں ہمیشہ نئی صورت حال ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں کینیڈا ٹورنٹوکے پیرسون ائیر پورٹ پر ڈیلٹا ائیر کاطیارہ شدید سردی کے موسم میں لینڈ کرنے کے بعد اِس طرح اْلٹ گیا کہ اِس سے پہلے کسی طیارے کو اِس حالت میں نہیں دیکھا گیا تھا۔ اِس حادثے میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا مگر طیارہ ناصرف ناکارہ ہو گیا بلکہ کئی دنوں تک اْس کا ملبہ ائیر پورٹ پر ایسے پڑا رہا کہ حادثہ کینیڈا جیسے ترقی یافتہ ملک میں نہیں ہوا بلکہ کسی انتہائی پسماندہ ملک میں ہوا ہے۔ جہاز ساز کمپنیاں ایسے حادثات کی وجوہات کو عوام سے چھپانے میں عموماً کامیاب ہو ہی جاتی ہیں ، ممکن ہے اِس مرتبہ بھی اْنہیں کامیابی ہو جائے ۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
  • حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
  • حیا
  • بجلی
  • کوفہ، گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی حضرت علی علیہ السلام کے گھر ’’دار امام علی‘‘ پر حاضری
  • نجف، گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی حضرت علی علیہ السلام کے گھر ’’دار امام علی‘‘ پر حاضری
  • پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان
  • فلسطین: انسانیت دم توڑ رہی ہے
  • دارارقم سکولز خیابان قائد کی سالانہ تقریب تقسیم انعامات کا منصورہ آڈیٹوریم میں انعقاد
  • دارارقم منصورہ برانچ لاہور میں طلبہ وطالبات کے اعزاز میں تکمیل حفظ قرآن کی تقریب