Daily Ausaf:
2025-04-22@07:32:29 GMT

وہ دن جس کا وعدہ ہے

اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT

بعض لوگوں کا یہ وصف رہا کہ وہ سوئے ہوئے زخموں کو جگاتے ہیں اور بس چلے تو ان زخموں پر نمک پاشی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ پاکستان کے عوام ان لوگوں کو سیاسی پیش منظر سے ہٹانا بھی چاہیں تو نہیں ہٹا سکتے کہ ان کی بے اندازہ دولت دیوار بن جاتی ہے جس سے وہ ہر ایک کو خرید لینے کی قدرت رکھتے ہیں،کسی کو یاد نہ ہوتو میاں نواز شریف شریف کا یہ جملہ تو تاریخ پاکستان میں آہنی حروف سے لکھا ہوا ہے کہ ’’میں وہ تاجر ہوں جو اشیاء ہی کی نہیں ہر انسان کی قیمت بھی جانتا ہوں‘‘ اس جملے پر ولی خان مرحوم نے کہا تھا ’’جتنے قومی اسمبلی کے اراکین ہیں میرے پاس اتنے دو کروڑ ہوں تو میں اس ملک کا وزیراعظم بن سکتا ہوں‘‘ یہ بات بر سبیل تذکرہ آگئی وگرنہ آج کا موضوع تو میرے پیارے پاکستان کے قدرتی وسائل ہیں۔ چار موسم، سرسبزو شاداب سونا اگلتی زمینیں ،برف سے ڈھنپے کہسار،گہرے سمندر اور زمین کے سینے میں پوشیدہ بے انتہا خزانے جو کسی ملک کی ترقی و خوشحالی کی ضمانت ہوتے ہیں ۔ہم مقدر کے اتنے دھنی ہیں کہ آبی وسائل، معدنی دولت اور آبی ذخائر سے لے کر زرعی استعداد اور توانائی کے ذرائع تک ہماری رسائی میں ہیں، لیکن ان بے بہا اور بیش قیمت وسائل کے استعمال کا صحیح سلیقہ ہمیں نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے سروں سے معاشی بد حالی کے سائے نہیں ٹلے۔
توانائی کا بحران ہو یا بیرونی قرضوں کا بوجھ یہ ہمارے پیدا ہونے والے نوزائیدہ بچے کی کمر پر اس وقت ہی لد جاتا ہے جب ابھی وہ رحم مادر ہی میں ہوتا ہے ۔آج پھر ہمیں بتایا جارہا ہے کہ ’’پاکستان معدنیاتی صنعت کے حوالے سے 300 ارب ڈالرز کی صلاحیت رکھتا ہے‘‘ یہ ایک معمولی اعتراف ہے وگرنہ پاکستان تو معدنی حوالے سے کرومائیٹ ،جپسم ،ماربل ،چونے کا پتھر، گیس وتیل کے وسائل بھی اس سے بڑھ کر رکھتا ہے ۔ زرخیز زمین ،دریائی و نہری نظام ،گندم ، کپاس،گنا اور چاول سوا ہیں، اس پر مستزاد دریا، بارشیں، گلیشئرز اور جنگلات و ماہی گیری کے وسائل، مگر یہ کب فائدہ آزمارہے ہیں
ملکی ترقی اور عوامی خوشحالی کے کتنے منصوبے ان سے مستفید ہوئے ہیں اور کس دور میں ؟ریکوڈک (بلوچستان) گیس منصوبہ TAPI,CPRC منصوبہ،سینڈک ،کوہ دلانہ اور دیگر منصوبے کس کس کے شکم کی آگ بجھانے کے کام آئے ۔2008 ء سے لے کر 2013 ء تک پی پی پی کی حکومت رہی اور رینٹل پاور منصوبوں میں اربوں کی بدعنوانیاں منصہ شہود پرآئیں اوگرا کے چیئرمین کا اسکینڈل اسی زریں دور کا شاخسانہ ٹھہرا ۔2013ء سے 2018 ء تک پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کا سکہ چلا ۔شفافیت اتنی کہ چینی کمپنیز کو بغیر مسابقتی بولی کے منصوبے دان کر دیئے گئے۔ 2018ء میں انصاف کے دعویداروں کو اقتدار سونپا گیا ۔ایک ریکوڈک کے تنازع کے سفارتی حل کے سوا کوئی سہرا اس کے سر نہیں بندھا اور بے اعتدالیوں کا عالم یہ کہ بجلی اور گیس کے بحران نے ایسی شدت پکڑی کہ ابھی تک جوں کا توں ہے۔ پالیسیز میں تسلسل کے فقدان کی کوئی حد نہ رہی اور بیشتر اداروں میں بہت سارے فیصلے تاخیر کی سان پر چڑھا دیئے گئے۔
2022 ء سے 2024 ء تک وجود میں آنے والی حکومتیں معاشی بحران، قرضہ جات اور شفافیت،کی ساری حدیں پار کرگئیں اور گوادر تک سنبھلنے میں نہیں آرہا کہ ماہی گیروں میں بلا کی مایوسی سرایت کر چکی ہے ۔بدعنوانیوں اور بے اعتدالیوں میں پی پی پی کی حکومت پہلے درجے پر رہی اسی لئے اپنی نظریاتی شناخت مٹاتے ہوئے بے چہرہ لوگوں کی معاون و بہی خواہ ہے کہ ’’انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینے کو‘‘ بہر حال نئے سرے سے چین اور دیگر یاران بے راہ روہوں کے ساتھ معدنی وسائل کے حوالوں سے منصوبوں اور معاہدوں کی صلائے عام ہے مگر کیا اعتبار ہے کہ اب کی بار بھی سب منصوبوں اور معاہدوں کے بیچ مقامی لوگوں کے حقوق کا خیال بھی رکھا جائے گا یا وہ حسب معمول بے دخلی اور ماحولیاتی بے رحمیوں کی بھینٹ چڑھا دیئے جائیں گے ؟
ہم جو سونے اور تانبے کے دنیا کے بڑے ذخائر رکھتے ہیں۔دھاتوں کی کانیں (سینڈک) ہماری معاشی حالت بدلنے کا اہم اور بڑا ذریعہ ، تھرکول ہماری توانائی کا بحران کا خاتمہ کرنے اور ہمارے مقدر کے اندھیرے مٹانے کی ضمانت، تیل ،قدرتی گیس ہائیڈرو پاور ،شمسی اور ہوائی توانائیاں کب ہمارا لیکھ بنتی ہیں ۔ میں بھی دیکھوں ،تم بھی دیکھو۔’’ وہ دن جس کا وعدہ ہے ۔‘‘

.

ذریعہ: Daily Ausaf

پڑھیں:

ایران میں اقتصادی بحران سے سب سے زیادہ متاثر متوسط طبقہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) ایرانی ریال ایک سال کے اندر اندر اپنی نصدف سے زیادہ قدر کھو چکا ہے۔ مارچ 2024 میں ایک امریکی ڈالر چھ لاکھ ایرانی ریال کے برابر تھا۔ لیکن گزشتہ ماہ یہ شرح تبادلہ ایک ملین ریال فی ڈالر سے بھی زیادہ ہو گئی۔ ایرانی کرنسی کی قدر میں اتنی زیادہ کمی نے ملک میں مہنگائی کو مزید ہوا دی اور درآمدی اشیاء کا حصول اور بھی مشکل ہو گیا۔

یہ شدید مہنگائی ایران میں کم آمدنی والے شہریوں اور متوسط طبقے پر بہت زیادہ اضافی بوجھ کی وجہ بنی ہے۔

وسطی جرمنی کے شہر ماربرگ کی یونیورسٹی کے مشرق قریب اور مشرق وسطیٰ کے علوم کے مرکز سے منسلک ماہر اقتصادیات محمد رضا فرزانگان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا، ''معاشی بے یقینی کی صورت حال کا مطلب یہ ہے کہ اخراجات زندگی کے بارے میں خدشات زیادہ سامنے آ رہے ہیں اور سماجی سطح پر سیاسی اشتراک عمل کم ہوتا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

اقتصادی حوالے سے لیکن یہ بات مشکوک ہے کہ بین الاقوامی سیاسی دباؤ کے ذریعے جن مقاصد کے حصول کی کوشش کی جاتی ہے، انہیں مڈل کلاس کو کمزور کر کے حاصل یا آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘‘

ایران: کرنسی اصلاحات سے مہنگائی روکنے کی کوشش کیا ہے؟

محمد رضا فرزانگان نے حال ہی میں ایک نئی تحقیق بھی مکمل کی، جس کے لیے انہوں نے امریکہ میں برینڈیز یونیورسٹی کے ایک ماہر تعلیم نادر حبیبی کے ساتھ مل کر کام کیا۔

انہوں نے ڈی ڈؓبلیو کو بتایا کہ یہ نئی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ ایران کے خلاف 2012 سے عائد بین الاقوامی اقتصادی پابندیوں نے وہاں مڈل کلاس کی ترقی کی راہ میں بہت زیادہ رکاوٹیں ڈالی ہیں۔ تہران کے خلاف یہ پابندیاں ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کی وجہ سے لگائی گئی تھیں۔ ان کے ذریعے ایران پر اقتصادی اور سیاسی دباؤ بڑھانے کی کوشش کی گئی اور ایران کو ان پابندیوں کا سامنا آج بھی ہے۔

ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اگر ایران پر یہ بیرونی پابندیاں نہ لگائی جاتیں، تو اس ملک کی آبادی میں متوسط طبقے کا حجم ہر سال اوسطاﹰ گیارہ فیصد کی شرح سے بڑھتا رہتا۔

پابندیوں سے فائدہ ریاست سے جڑے اداروں کو

فرزانگان کا کہنا ہے کہ ایران میں متوسط طبقے کے سکڑتے جانے سے ریاست سے وابستہ اداروں پر معاشی انحصار بہت بڑھ چکا ہے۔

ایران کی کئی نجی کمپنیوں کو بھی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایسے میں ریاست سے وابستہ ادارے، خاص طور پر وہ جو پاسداران انقلاب سے تعلق رکھتے ہیں، ہمیشہ فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہتے ہیں۔
ایسے پیداواری اور تجارتی اداروں نے اپنے لیے متبادل تجارتی نیٹ ورکس کو وسعت دینے کے طریقے تلاش کر لیے ہیں اور مارکیٹ میں اپنی پوزیشن بھی مضبوط بنا لی ہے۔

اس طرح ان پابندیوں کے نتیجے میں ایرانی نجی شعبے کے مقابلے میں ریاست کی اقتصادی طاقت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

ایرانی تیل کی اسمگلنگ پاکستانی معیشت کے لیے کتنی مضر ہے؟

امریکہ کی الینوئے یونیورسٹی کے ماہر اقتصادیات ہادی صالحی اصفہانی کے مطابق ایرانی خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ دباؤ میں ہیں۔ ان کے لیے معاشی چیلنجوں کا سامنا کرنا، خاص کر ملازمتوں کی تلاش اور روزی کمانا اب بہت مشکل مرحلہ بنتا جا رہا ہے۔


ایرانی لیبر مارکیٹ کے بارے میں محمد رضا فرزانگان کی تازہ ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ کم اقتصادی ترقی اور کساد بازاری کے ساتھ ساتھ کئی ثقافتی عوامل اور روایتی رول ماڈل بھی ایرانی خواتین کے لیے ملازمتوں کے حصول کو مشکل بنا رہے ہیں۔ مثلاﹰ یہ روایتی سوچ بھی کہ کسی بھی خاندان کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ مردوں کو ہی ہونا چاہیے۔ یہ سب عوامل مل کر خواتین کو ایرانی لیبر مارکیٹ سے باہر دھکیلتے جا رہے ہیں۔

فرزانگان کے مطابق آئندہ مہینوں میں صورتحال میں بہتری کے امکانات کم اور خرابی کے خدشات زیادہ ہیں۔ اس لیے بھی کہ امریکی صدر ٹرمپ تہران حکومت پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی بحالی کے لیے قومی سلامتی کے ایک ایسے صدارتی میمورنڈم پر دستخط کر چکے ہیں، جس کا مقصد ایرانی تیل کی برآمدات کو مزید کم کرنا ہے، جو ایرانی ریاست کے لیے آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہیں۔

ایران نے ابھرتی ہوئی معیشتوں کی تنظیم 'برکس' میں شمولیت کی درخواست دی دے

تہران توانائی کے شعبے میں مالی اعانتوں میں کمی کی تیاری میں

ایرانی حکومت نے اس اضافی دباؤ کے باعث توانائی کے شعبے میں مالی اعانتوں میں کمی کے ذریعے ریاستی اخراجات کم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ایرانی بزنس رپورٹر مہتاب قلی زادہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس اقدام سے بھی اقتصادی صورتحال میں بہتری کا کوئی حقیقی امکان نہیں۔

قلی زادہ کے مطابق، ''21 مارچ کو شروع ہونے والے نئے فارسی سال کے بجٹ میں حکومت نے تیل کی برآمدات کا ہدف دو ملین بیرل روزانہ رکھا ہے۔ تاہم ٹرمپ کے دور صدارت میں ایسا ہونا تقریباﹰ ناممکن ہے۔‘‘

ایران امریکا کشیدگی: بھارت کو کونسے خطرات لاحق ہیں؟

مہتاب قلی زادہ نے کہا کہ ایرانی بجٹ میں خسارہ بڑھنے کے امکان اور سبسڈی میں کمی کے خاتمے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی ایک نئی بڑی لہر دیکھنے میں آئے۔

حالیہ برسوں میں ایرانی عوام میں ملکی سیاسی نظام کے خلاف عدم اطمینان میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اسی لیے وہاں 2019 اور 2022 میں بڑے پیمانے پر عوامی اجتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے، جنہیں سختی سے دبا دیا گیا تھا۔

ماہر اقتصادیات فرزانگان کے الفاظ میں، ''لازمی نہیں کہ عوامی عدم اطمینان میں اضافہ حکومت پر منظم سیاسی دباؤ کی وجہ بھی بنے۔

اس لیے کہ جو گھرانے معاشی طور پر کمزور ہو چکے ہیں، ان کے پاس تو سیاسی سطح پر متحرک ہونے کے لیے مالی وسال بہت ہی کم ہیں۔‘‘

امریکی پابندیوں کے باوجود ایران تیل بیچ رہا ہے، ایرانی نائب صدر

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ متوسط طبقے کو کمزور کر دینے والی بین الاقوامی پابندیاں حکومت پر خود بخود ہی مزید دباؤ کی وجہ نہیں بنیں گی۔ ''اس کے برعکس ایسی پابندیاں سیاسی طور پر سرگرم سماجی طبقات کی معاشی بنیادیں کمزور کرتی اور سیاسی نظام کی طاقت میں نسبتاﹰ اضافہ کر دیتی ہیں۔‘‘
شبنم فان ہائن (عصمت جبیں)

متعلقہ مضامین

  • نہری منصوبہ، پانی کی تقسیم نہیں، قومی بحران کا پیش خیمہ: مخدوم احمد محمود 
  • غزہ کے لوگوں کیلئے احتجاج وقت کی اہم ضرورت ہے، جماعت اسلامی بلوچستان
  • بلوچستان کا بحران اور نواز شریف
  • وسائل کے تحفظ کیلئے آغا راحت کا بیان حقیقت پر مبنی ہے، عارف قنبری
  • امن خراب کر کے پہاڑوں پر قابض ہونے کا جواز ڈھونڈنے کی سازش ہو رہی ہے، کاظم میثم
  • ایران میں اقتصادی بحران سے سب سے زیادہ متاثر متوسط طبقہ
  • وعدہ کرتا ہوں بلاول بھٹو زرداری اس ملک کے وزیراعظم بنیں گے، سردار سلیم حیدر
  • ریاست نے بہت مرتبہ بھٹکے ہوئے لوگوں سے مذاکرات کیے، سرفراز بگٹی
  • کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے
  • کراچی:کپڑے وقت پر نہ دینے پر شہری دکاندار کیخلاف عدالت پہنچ گیا