بلوچستان سے ڈاکٹر عبد المالک نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف سے لاہور میں ملاقات کی ہے۔ ملاقات میں میاں نواز شریف کو بلوچستان میں مفاہمت کے لیے کردار ادا کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ ابھی تو میاں نواز شریف بیرون ملک جا رہے ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ وہ بیرون ملک سے واپسی پر بلوچستان میں مفاہمت کے لیے کردار ادا کریں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ میاں نواز شریف کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں جو لوگ بھی بلوچستان میں پاکستان کے آئین کو مانتے ہیں، اس پر یقین رکھتے ہیں ان کی جدو جہد پاکستان کے آئین وقانون کے تابع ہے، ان سے پاکستان کے آئین کے دائرے میں بات ہوسکتی ہے۔ لیکن جو لوگ پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے، جن کی بات چیت پاکستان کے آئین سے باہر ہے ان سے کیسے بات ہو سکتی ہے۔ جو مسلح ہیں، جو جنگ کر رہے ہیں ان سے کیسے بات ہو سکتی ہے۔ جو پاکستان کے جھنڈے کو نہیں مانتے ان سے کیسے بات ہو سکتی ہے۔ جنھوں نے اپنے لیے کوئی اور الگ جھنڈا بنا لیا ہوا ہے ان سے کیسے بات ہوسکتی ہے۔
اسی طرح اگر بندوق اٹھائے لوگوں نے پہلے بندوق پھینکنی ہے، ریاست کے آگے سرنڈر کرنا ہے پھر ہی کوئی بات ہو سکتی ہے۔ ایک طرف بندوق چل رہی ہے دوسری طرف بات ہو رہی ہے ۔ ایسے نہیں ہو سکتا۔ ایسا دو ملکوں کی فوجوں کے درمیان تو ہو سکتا ہے کہ جنگ بھی جاری ہے اور مذاکرات بھی جاری ہیں۔ روس اور یوکرین کے درمیان ہو سکتا ہے، حماس اور اسرائیل کے درمیان ہو سکتا ہے۔ لیکن ایک ملک کے اندر کسی مسلح گروپ کے ساتھ ایسا نہیں ہو سکتا۔ جو ملک کو توڑنے کی بات کر رہے ہوں، جو الگ ملک کی بات کر رہے ہوں، ان سے کیسے بات ہو سکتی ہے۔ انھیں پہلے سرنڈر کرنا ہے۔ ان سے جنگ ہی ہو سکتی ہے۔
ماضی میں بلوچستان میں آئین نہ ماننے والوں اور بندوق اٹھانے والوں سے بات چیت ہوئی ہے۔ لیکن اس کے کوئی مثبت نتائج نہیں نکلے۔ ریاست پاکستان کو اس کا نقصان ہی ہوا ہے۔ ہم لوگوں کو افغانستان سے لائے اور انھیں حکمران بنایا۔ لیکن وہ پھر پہاڑوں پر چلے گئے۔ جب تک حکمرانی رہتی ہے تب تک پاکستان کے آئین کو مانتے ہیں جونہی حکمرانی چلی جاتی ہے۔ آئین سے وفاداری بھی چلی جاتی ہے۔ اس لیے میری رائے میں میاں نواز شریف کے لیے ایسی کسی فرد یا ایسے گروہ سے بات کرنا ممکن نہیں ہوگا جو آئین کو نہیں مانتا یا جس نے بندوق اٹھائی ہوئی ہے۔
سردار اختر مینگل کی بات کی جائے تو انھوںنے پاکستان کے آئین سے وفاداری کا حلف ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ اٹھایا ہے۔ جب جب وہ پارلیمان کے ممبر بنے ہیں انھوں نے پاکستان کے آئین سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہے۔ حلف کوئی وقتی نہیں ہوتا کہ جب تک آپ ممبر ہیں آپ آئین کے وفادار ہیں، پاکستان کے وفادار ہیں۔ ایک دفعہ وفاداری کا حلف اٹھا لیا تو اٹھا لیا۔ وہ ساری عمر قائم رہتا ہے۔ اس لیے میری رائے میں سردار اختر مینگل نے پاکستان کے آئین سے غیر مشروط وفاداری کا حلف متعدد دفعہ اٹھایا ہے۔
اس لیے وہ آئین کے تابع ہیں۔ ان کی جد و جہد بھی آئین کے تابع ہونی چاہیے۔ جہاں تک ان کے لانگ مارچ کا تعلق ہے وہ قانون کے تابع ہے۔ لیکن ان کے مطالبات قانون کے تابع نہیں ہیں۔ وہ ان لوگوں کی رہائی مانگ رہے ہیں جو پاکستان کے آئین کونہیں مانتے۔ وہ ان کی رہائی مانگ رہے ہیں جو پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں۔ دہشت گرد یا ان کے سہولت کاروں اور ہمدردوں کی رہائی کیسے کوئی آئینی مطالبہ ہو سکتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں میاں نواز شریف کو اگر ممکن ہو تو بلوچستان میں مفاہمت کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ لیکن ساتھ ساتھ انھیں یہ بھی شرط رکھنی چاہیے کہ وہ جس سے ملاقات کریں گے وہ پہلے بلوچستان میں پنجابیوں کے قتل کی مذمت کرے گا۔ جب تک کوئی پنجابیوں کے قتل کی مذمت نہ کرے اس سے بات نہیں ہونی چاہیے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بلوچ رہنما پنجابی سیاستدانوں سے ملتے ہیں۔اپنے مفادات کے لیے ان سے سیاسی تعاون بھی حا صل کرتے ہیں۔ ان سے شراکت اقتدار بھی کرتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب پنجابیوں کے قتل کی نہ تو مذمت کرتے ہیں بلکہ چونکہ ‘چنانچہ‘ اگر اور مگر کے انداز میں بات کر کے مٹی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیںاور اس کو جائز قرار دیتے ہیں ۔اس طرز سیاست کی حوصلہ شکنی اور روک تھام ہونی چاہیے۔
بلوچ رہنماء جب بھی پنجاب آئیں ان کو بلوچستان کی سرزمین پر پنجابیوں کے قتل پر معذرت کرنی چاہیے۔ پنجابی مزدور جنھیں بلوچستان میں قتل کیا جاتا ہے، ان کے گھروں میں جا کر ان کے گھر والوں سے تعزیت بھی کرنی چاہیے۔ جب تک کوئی بلوچ رہنما یہ نہ کرے اس سے بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔ پنجابیوں کے قتل کو جائز قرار دینے والوں سے کیسے بات ہو سکتی ہے۔
آپ دیکھیں پنجاب کے تعلیمی اداروں میں آج بھی بلوچ طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ وہ یہاں اپنی سیاسی سرگرمیاں بھی کرتے ہیں، ریلیاں بھی نکالتے ہیں، سیمینار بھی کرتے ہیں۔ عام پنجابی نے کبھی انھیں نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھا ہے۔
کسی نے پنجاب میں بلوچوں کا داخلہ بند کرنے کی بات نہیں کی۔ پنجاب حکومت بلوچ طلبہ کو پنجاب کے بجٹ سے اسکالر شپ دیتی ہے۔ وہ پنجاب میں آج بھی محفوظ ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پنجاب کے طلبہ بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں کیوں نہیں پڑھ سکتے۔ وہ وہاں کیوں محفوظ نہیں ہیں۔ کیا بلوچ رہنما اس پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ سوال تواس پر بھی ہونا چاہیے کہ کس قانون کے تحت پنجابی اساتذہ کو بلوچستان سے نکال دیا گیا تھا۔ کیا بلوچ اساتذہ پنجاب میں نہیں پڑھا رہے۔ بلوچ رہنماؤں کو اس تضاد کو ختم کرنا ہوگا۔
بلوچستان کی محرومیوں کی بہت بات کی جاتی ہے۔ لیکن ان محرومیوں کا ذمے دار کون ہے۔ کتنے سردار بلوچستان کے حکمران رہے ہیں۔ وہ کیوں نہیں ذمے دار؟ آپ حکمران ہیں تو کوئی محرومی نہیں۔ آپ کرسی سے اترتے ہیں اور محرومی کا گانا گانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ کیا سیاست ہے؟ یہ پاکستان سے وفاداری ذاتی حکمرانی سے کیوں مشروط ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی سیاسی حمائت بھی ایک فیشن بن گیا ہے۔ ہمیں واضع کرنا چاہیے علیحدگی پسندوں کی سیاسی حمائت بھی پاکستان دشمنی ہے۔ یہ کوئی سیاست نہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ان سے کیسے بات ہو سکتی ہے پاکستان کے ا ئین سے پاکستان کے ا ئین کو پنجابیوں کے قتل وفاداری کا حلف میاں نواز شریف بلوچستان میں سے وفاداری نے پاکستان ہو سکتا ہے کرتے ہیں ا ئین کے رہے ہیں کے تابع نہیں ہو کے لیے قتل کی کر رہے بات کر کی بات
پڑھیں:
بلوچستان کا بحران اور نواز شریف
بلوچستان کے حالات میں بہتر تبدیلی لانے کے لیے غیر معمولی اقدامات درکار ہیں ۔ حکمت عملی کا تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ طاقت کے ساتھ ساتھ سیاسی حکمت عملی کا بھی بھرپور استعمال کیا جائے۔ بلوچستان کے حالات اسی صورت میں بہتر ہوں گے جب ہم سیاسی حکمت عملی کو بالادستی دیں گے ، یہ ہی حکمت عملی ریاستی رٹ کو بھی مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوگی۔
پچھلے دنوں سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کی اس تناظرمیں ہونے والی ملاقات ایک اہم پیش رفت سمجھی جا سکتی ہے۔بہت سے سیاسی افراد اور اہل دانش نے یہ تجویز دی تھی کہ اگر نواز شریف آگے بڑھیں اور اپنا کردار ادا کریں تو حالات میں بہتری کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے۔خود نواز شریف نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ بلوچستان کے حالات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف ایک بڑی سیاسی شخصیت ہیں اور ان کو بلوچستان میں احترام کے طور پر دیکھا بھی جاتا ہے۔
بلوچستان کے حالات میں خرابیاں چند دنوں یا ہفتوں میں نہیں ہوئی ہیں بلکہ یہ برسوں کی کہانی ہے۔ بلوچستان کے حالات کی بہتری میں جو بڑا کردار بڑی سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کو ادا کرنا چاہیے تھا ، اس کا فقدان دیکھنے کو ملا ہے۔اس وقت بھی بلوچستان میں دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی و مسلم لیگ ن کی مشترکہ حکومت ہے ۔اس مشترکہ حکومت کا بھی کوئی بڑا کردار ہمیں حالات کی بہتری میں دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔
موجودہ حالات میں صوبائی حکومت کا کردار محدود نظر آتا ہے۔اصل میں بلوچستان میں موجود سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں موجودہ حالات میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں سے بھی مایوس نظر آتی ہیں۔ان کے بقول بلوچستان کے حالات کی خرابی میں جہاں دیگر عوامل موجود ہیں وہیں بڑی سیاسی جماعتوں کا صوبے کے حوالے سے لاتعلقی کا پہلو بھی ہے۔
بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتیں یہ بھی سمجھتی ہیں کہ بلوچستان کے صوبے میں حقیقی سیاسی لوگوں کی بجائے نمائشی سیاسی لوگوں کی بالادستی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں نے بلوچستان کے حالات کی درستگی میں کب عملی اقدامات اٹھائے ہیں اور ان کوعملی اقدامات کرنے سے کب روکا گیا ہے۔اصل میں ہماری بڑی سیاسی جماعتوں نے خود سے بھی بلوچستان کے حالات میں کچھ بھی نہ کرنے کی پالیسی اختیار کر لی ہے اور اس کا عملی نتیجہ بلوچستان کے حالات کی خرابی کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔
پاکستان میں جو پاپولر سیاست ہو رہی ہے، اس میں نواز شریف سرگرم نظر نہیں آرہے۔ قومی سیاست ایک طرف وہ مسلم لیگ ن ہی نہیں بلکہ پارلیمانی سیاست میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لے رہے اور نہ ہی وہ پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں۔اسی طرح پارٹی کے اجلاس ہوں یا پارلیمانی میٹنگز میں بھی ان کی غیر حاضری واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔مسلم لیگ ن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اہم افراد اور دانش وروں و تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نواز شریف موجودہ حالات سے مطمئین نظر نہیں آتے ہیں۔
اسی بنیاد پر جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ نواز شریف بلوچستان میں کوئی بڑا مفاہمانہ کردار ادا کرسکیں گے اس پر بہت سے سوالیہ نشان موجود ہیں۔ نواز شریف 8فروری کے انتخابات کے بعد بڑے بہت زیادہ فعالیت یا متحرک ہونے کی بجائے بیک ڈور بیٹھ کرخاموشی کے کردار کو ہی اپنے لیے بہتر سمجھتے ہیں تاکہ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کو کسی بڑی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اس وقت وزیراعظم میاں شہباز شریف بھی بلوچستان کے حالات کی بہتری میں کوئی بڑا بریک تھرو نہیں کراسکے ہیں۔جس انداز سے قومی سیاست میں سیاست دانوں،سیاسی جماعتوں سمیت سیاست وجمہوریت کی جگہ محدود ہوئی ہے وہاں ایک بڑے مجموعی سیاسی کردار کی جنگ بھی محدود ہی نظر آتی ہے۔ماضی میں نواز شریف کئی بار بلوچستان کے حالات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور اسی تناظر میں سابق وزیر اعلی ڈاکٹر عبدالمالک نے نواز شریف سے ملاقات بھی کی ہے۔
اگر ان تمام تر حالات کے باوجود نواز شریف خود سے آگے بڑھ کر بلوچستان کے حالات کی درستگی میں عملی طور پر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی یقیناً سیاسی قدر کی جانی چاہیے۔اسی طرح یہ سوال بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کیا نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور منشا کے بغیر بلوچستان کے حالات میں کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں یا ان کو اس تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہوگی۔
کیونکہ مسلم لیگ ن اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر آگے بڑھ سکے ۔بلوچستان کی بیشتر قوم پرست سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت بلوچستان کے تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی سیاست پر تحفظات رکھتی ہیں۔ایسے میں نواز شریف کیا اسٹیبلشمنٹ اور بلوچستان کے قوم پرستوں کے درمیان غلط فہمیوں پر ایک بڑے پل کا کردار ادا کر سکیں گے۔ان حالات میںجب بلوچستان کی سنگینی کافی حساس نوعیت کی ہے تو نواز شریف نے بلوچستان جانے کی بجائے اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ بیلا روس اور لندن کے دورے پر جانے کو ترجیح دی اور اب وہ اپنے علاج کے سلسلے میں لندن میں موجود ہیں۔اس دورے سے ان کی ترجیحات کو سمجھا جاسکتا ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس وقت بلوچستان میں شرپسندوں کے خلاف طاقت کی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اگر یہ درست ہے تو پھر سیاسی آپشن واقعی محدود ہو جاتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ نواز شریف کے بھی سیاسی آپشن محدود ہیں ۔ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں ،سیاسی قیادت اور اسٹیبلیشمنٹ کو مل کر سیاسی اور انتظامی حکمت عملی اختیارکرنا ہوگی تاکہ اس بحران کا حقیقی اور پائیدار حل سامنے آسکے۔بلوچستان کے مسائل کا بہتر حل قومی سیاست اور ایک بڑے سیاسی،معاشی اور سیکیورٹی استحکام کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے ۔
اس لیے ایک ایسے موقع پر جب خارجی یا علاقائی ممالک بالخصوص بھارت اور افغانستان کی مداخلت موجود ہے توایسے میں ہمیں داخلی سطح کے مسائل کا حل تلاش کرکے ایک بڑے سیاسی اتفاق رائے کو پیدا کرنا ہوگا اور اسی حکمت عملی کی بنیاد پر سیاسی حل تلاش کرکے ہمیں بلوچستان کا حل تلاش کرنا ہے۔