Express News:
2025-04-22@07:09:31 GMT

پاکستان کا عالمی برادری سے جائز مطالبہ!

اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT

آج کا پاکستان جن سنگین اور گمبھیر مسائل میں گرفتار ان میں دہشت گردی کا مسئلہ سرفہرست ہے۔ یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ ملک میں پائیدار بنیادوں پر امن و امان قائم کیے بغیر قومی معیشت کی بحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا اور نہ ہی سیاسی استحکام آ سکتا ہے۔ ملک کے دو اہم صوبے بلوچستان اور خیبرپختونخوا ان دنوں بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں۔

پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کا سامنا کر رہا ہے۔ دہشت گرد گروپوں نے بلوچستان اور کے پی کے ،کے مختلف علاقوں میں اپنے خفیہ ٹھکانے قائم کیے جہاں سے وہ وقفے وقفے سے مذکورہ صوبوں میں اپنی مذموم کارروائیاں کرتے چلے آ رہے ہیں۔ گزشتہ دو تین سالوں کے دوران دہشت گردوں نے اپنی کارروائیوں میں خاصی تیزی پیدا کر رکھی ہے۔ پاک فوج کے بہادر جوان اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئے ہیں۔

آپریشن ضرب عضب سے لے کر رد الفساد تک متعدد آپریشن میں سیکڑوں دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا جا چکا ہے۔ آرمی پبلک اسکول کے پی کے سے لے کر جعفر ایکسپریس بلوچستان پر حملے تک دہشت گردوں کے ہر منصوبے کو پاک فوج نے ناکام بنایا۔ فتنہ الخوارج کے خلاف انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

اگلے دنوں کورکمانڈر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ایک مرتبہ پھر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ بلوچستان میں کسی کو امن میں خلل نہیں ڈالنے دیں گے، ہر قیمت پر بلا تفریق دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے گا اور ملک دشمن عناصر اور ان کے سہولت کاروں کو کوئی معافی نہیں ملے گی۔ انھوں نے واضح کیا کہ نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ میں تمام ادارے اپنے تعاون کو یقینی بنائیں۔

پشاور میں16دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد سیاسی و عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا جس کے بعد ملک گیر سطح پر دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا گیا جس کے نتیجے میں ملک میں قدرے امن قائم ہوگیا تھا۔ تاہم گزشتہ دو تین برس کے دوران دہشت گردی نے دوبارہ سر اٹھا لیا ہے۔

گلوبل ٹیررازم انڈیکس کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے 163 ملکوں میں دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان دوسرے نمبر پر آگیا ہے جو بلاشبہ لمحہ فکریہ ہے۔ مسلسل کارروائیوں اور مختلف آپریشن کے باوجود ملک کے دو اہم صوبوں کے پی کے اور بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دہشت گرد عناصر عام آدمی سے لے کر سرکاری تنصیبات تک کو نشانہ بنا رہے ہیں جس کے باعث ملک کے عوام میں بے چینی اور اضطراب کا پایا جانا ناقابل فہم نہیں ہے۔

کور کمانڈرز کانفرنس میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے حوالے سے بڑی سنجیدگی سے غور و فکر کیا گیا ہے اور اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ تمام ریاستی ادارے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے قانون پر پوری یکسوئی اور ثابت قدمی سے عمل درآمد کریں گے۔فورم نے ملک خصوصاَ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں سرگرم ملک دشمن قوتوں، منفی اور تخریبی عناصر اور ان کے پاکستان مخالف اندرونی اور بیرونی سہولت کاروں کی سر گرمیوں اور اس کے تدارک کے لیے کیے جانے والے متعدد اقدامات پر بھی غور کیا۔’پاک فوج عوام کی غیر متزلزل حمایت سے انسداد دہشت گردی کے لیے قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دے گی۔

فوج ایک منظم ادارہ ہے جسکے ہر فرد کی پیشہ ورانہ مہارت اور وفاداری صرف ریاست اور افواج پاکستان کے ساتھ ہے۔‘ آرمی چیف نے واضح کیا کہ نیشنل ایکشن پلان پر حکومتی ہدایات کے مطابق تمام متعلقہ ادارے باہمی تعاون کو یقینی بنائیں۔دہشت گردی کے حوالے سے ملک کو جن چیلنجز اور مسائل و مشکلات کا سامنا ہے اس مکمل تدارک کے لیے ضروری ہے کہ تمام اسباب و عوامل کا بغور جائزہ لیا جائے۔ صوبے کے عوام کے دیرینہ مسائل اور ان کی محرومیوں کا ازالہ کر کے انھیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے سیاسی مشاورت کا عمل بھی شروع کیا جائے۔

صدر مملکت آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ بلوچستان میں ریاست کے خلاف منفی جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے وہاں سیاسی مشاورت کا عمل شروع کیا جانا چاہیے۔ بلوچستان کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے وہاں کی مقامی سیاسی قیادت کے ساتھ مل کر ناراض بلوچوں کے مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ بلوچستان میں بیرونی مداخلت کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ کلبھوشن یادیوکی صورت میں بھارت کی دراندازی اور افغانستان سے فتنہ الخوارج کے شرپسندوں کی کڑیاں ملنا نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

پاکستان نے حکومتی سطح پر باقاعدہ افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکے لیکن اب تک اس مطالبے کے کوئی خاطرخواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔ پاکستان نے اب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کے پاس اربوں ڈالر مالیت کا امریکا کا چھوڑا ہوا، اسلحہ موجود ہے جسے وہ پاک آرمی کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔

لہٰذا ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ عالمی برادری کو پاکستان کے مطالبے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ پاکستان خطے کا اہم ملک ہے یہاں امن کا قیام خطے میں امن کے مترادف ہے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی خطے کے امن کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ یہاں قیام امن کے لیے امریکا و اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دہشت گردوں کے بلوچستان میں دہشت گردی کے کے خلاف

پڑھیں:

مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی

اسلام ٹائمز: دوسری طرف مختلف یورپی ممالک جیسے جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں بھی ایسے طلبہ و طالبات کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں جنہوں نے 2023ء سے اب تک کسی نہ کسی صورت میں فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں بھی انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوری اقدار کی دعویدار تنظیمیں اور ادارے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ وہ بے پناہ طلبہ کی حمایت کرنے کی بجائے حکومتوں کے آمرانہ اور ظالمانہ برتاو کی حمایت کر رہے ہیں۔ نہ تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی ہنگامی اجلاس بلواتی ہے اور نہ ہی یورپی پارلیمنٹ اور کمیشن کے بیانات سامنے آتے ہیں۔ مغربی کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ امریکی، یورپی اور صیہونی حکمران بہت جلد اس حقیقت سے آگاہ ہو جائیں گے کہ تعلیمی مراکز پر دھونس جما کر وہ نئی نسل میں ظلم کے خلاف نفرت اور مظلوم سے ہمدردی کا جذبہ ختم نہیں کر سکتے۔ تحریر: حنیف غفاری
 
ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی اور اسٹنفورڈ یونیورسٹی سمیت کئی چھوٹے اور بڑے تعلیمی مراکز کے خلاف انتہاپسندانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے جس کا مقصد ان تعلیمی مراکز سے فلسطین کے حامیوں اور غاصب صیہونی رژیم کے مخالفین کا صفایا کرنا ہے۔ دوسری طرف مغرب میں انسانی حقوق، تعلیمی انصاف اور آزادی اظہار کے دعویداروں نے اس قابل مذمت رویے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ بہت سے غیر ملکی طلبہ و طالبات جو مکمل طور پر قانونی طریقے سے امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے اب نہ صرف انہیں تعلیم جاری رکھنے سے روک دیا گیا ہے بلکہ اف بی آئی اور امریکہ کی سیکورٹی فورسز نے انہیں حراست میں رکھا ہوا ہے۔ امریکی حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی سمیت ملک کی تمام یونیورسٹیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ فلسطین کی حمایت میں طلبہ و طالبات کی سرگرمیاں فوراً روک دیں۔
 
امریکی حکومت نے یونیورسٹیوں پر زور دیا ہے کہ وہ مغربی ایشیا خطے میں جاری حالات سے متعلق طلبہ و طالبان کو یونیورسٹی کے احاطے میں اجتماعات منعقد کرنے کی اجازت نہ دیں اور جو طلبہ و طالبان ان سرگرمیوں میں ملوث ہیں ان کی تمام معلومات سیکورٹی اداروں کو فراہم کریں۔ یوں امریکہ میں یونیورسٹی اور تعلیمی مراکز فوجی چھاونیاں بن کر رہ گئے ہیں۔ امریکہ کی وزارت داخلہ نے ہارورڈ یونیورسٹی کو وارننگ دی ہے کہ اگر اس کی انتظامیہ حکومتی احکامات پر عملدرآمد نہیں کرتی تو اس کا غیر ملکی طلبہ و طالبات کو داخلہ دینے کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔ امریکہ کی وزارت داخلہ اور وائٹ ہاوس جس انداز میں یونیورسٹیوں اور تعلیمی مراکز سے برتاو کر رہے ہیں وہ انسان کے ذہن میں "تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی" کا تصور قائم کر دیتا ہے۔
 
ریاستی دہشت گردی کی آسان تعریف یہ ہے کہ کوئی حکومت سیاسی اہداف کی خاطر عام شہریوں کے خلاف غیر قانونی طور پر طاقت کا استعمال کر کے انہیں خوفزدہ کرے۔ ہم ایک طرف غزہ کی پٹی میں بھرپور انداز میں جاری مسلسل نسل کشی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں شہداء کی تعداد 52 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے جبکہ غاصب اور بے رحم صیہونی رژیم کی جانب سے شدید محاصرے اور انسانی امداد روکے جانے کے باعث ہر لمحے معصوم بچے شہید ہو رہے ہیں۔ ایسے حالات میں امریکی حکمران یہودی لابی آئی پیک کی کاسہ لیسی کی خاطر ملک کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی مراکز کو بے حس، خاموش تماشائی بلکہ جرائم پیشہ صیہونی رژیم کی حامی بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ تعلیمی مراکز کے خلاف اس ریاستی دہشت گردی کا سرچشمہ وائٹ ہاوس، نیشنل سیکورٹی ایجنسی اور موساد ہیں۔
 
یہاں ایک اور مسئلہ بھی پایا جاتا ہے جو شاید بہت سے مخاطبین کے لیے سوال کا باعث ہو۔ یہ مسئلہ صیہونی رژیم اور امریکی حکومت کی جانب سے خاص طور پر ہارورڈ یونیورسٹی پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اس یونیورسٹی کو ملنے والا 2 ارب کا بجٹ روک دیا ہے۔ یہ کینہ اور دشمنی اس وقت کھل کر سامنے آیا جب غزہ جنگ شروع ہونے کے تین ماہ بعد ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک سروے تحقیق انجام پائی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس یونیورسٹی کے 51 فیصد طلبہ و طالبات جن کی عمریں 18 سے 24 سال تھیں جعلی صیہونی رژیم کے خاتمے اور جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپسی کے حامی ہیں۔ اس اکثریت کا خیال تھا کہ صیہونی حکمران آمر اور ظالم ہیں جبکہ فلسطینیی ان کے خلاف طوفان الاقصی آپریشن انجام دینے میں پوری طرح حق بجانب تھے۔
 
اسی وقت سے امریکی حکومت اور صیہونی حکمران ہارورڈ یونیورسٹی اور اس سے متعلقہ اداروں کے خلاف شدید غصہ اور نفرت پیدا کر چکے تھے۔ امریکہ میں صیہونی لابی آئی پیک (AIPAC) نے ہارورڈ یونیورسٹی میں اس سروے تحقیق کی انجام دہی کو یہود دشمنی قرار دے دیا۔ مزید برآں، اس سروے رپورٹ کے نتائج کی اشاعت نے یہودی لابیوں کو شدید دھچکہ پہنچایا۔ اب سب کے لیے واضح ہو چکا ہے کہ امریکہ میں نئی نسل نہ صرف غاصب صیہونی رژیم کے حق میں نہیں ہے بلکہ اس کے ناجائز وجود کے لیے چیلنج بن چکی ہے۔ اب صیہونی لابیاں امریکہ کے ایسے یونیورسٹی طلبہ سے انتقام لینے پر اتر آئی ہیں جنہوں نے مظلوم فلسطینیوں کی کھل کر حمایت کی ہے اور کسی قیمت پر بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکی ذرائع ابلاغ بھی اس واضح ناانصافی اور ظلم پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
 
دوسری طرف مختلف یورپی ممالک جیسے جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں بھی ایسے طلبہ و طالبات کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں جنہوں نے 2023ء سے اب تک کسی نہ کسی صورت میں فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں بھی انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوری اقدار کی دعویدار تنظیمیں اور ادارے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ وہ بے پناہ طلبہ کی حمایت کرنے کی بجائے حکومتوں کے آمرانہ اور ظالمانہ برتاو کی حمایت کر رہے ہیں۔ نہ تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی ہنگامی اجلاس بلواتی ہے اور نہ ہی یورپی پارلیمنٹ اور کمیشن کے بیانات سامنے آتے ہیں۔ مغربی کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ امریکی، یورپی اور صیہونی حکمران بہت جلد اس حقیقت سے آگاہ ہو جائیں گے کہ تعلیمی مراکز پر دھونس جما کر وہ نئی نسل میں ظلم کے خلاف نفرت اور مظلوم سے ہمدردی کا جذبہ ختم نہیں کر سکتے۔

متعلقہ مضامین

  • اسحاق ڈار کا دورہ کابل
  • مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی
  • ملک میں دہشت گردی کے نظریاتی مسائل کا حل فکر اقبال میں ہے: وفاقی وزیر
  • ملک میں دہشت گردی کے نظریاتی مسائل کا حل فکر اقبال میں ہے، وفاقی وزیر
  • جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت پھر ملتوی، وجہ بھی سامنے آگئی
  • بی ایل اے کی دہشت گردی کے خلاف کراچی میں خواتین کا احتجاج
  • مسیحی برادری کا پاکستان کی تعمیر و ترقی میں قابل تحسین کردار ہے: سرفراز بگٹی
  • اسحاق ڈارکے دورہ کابل میں اعلانات حوصلہ افزا
  • وقف قانون میں مداخلت بی جے پی کی کھلی دہشت گردی
  • اسد عمر کی 3 مقدمات میں عبوری ضمانت 13 مئی تک منظور