حُسن نیّت: ہم دردی، اخلاص و ایثار کا جوہر
اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT
اسلام میں اخلاص اور حُسن نیّت کو بڑی اہمیت حاصل ہے، اسلام اپنے ماننے والوں کو تمام حالات میں خلوصِ نیّت کی ترغیب دیتا ہے۔
قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ نے اور احادیث نبوی میں رسول اکرم ﷺ نے اہل ایمان کو تمام ظاہری و باطنی اقوال و افعال اور اعمال و احوال میں نیّت کو مستحضر رکھنے، اُس کو ٹٹولتے رہنے اور اُس میں اخلاص کی چاشنی کو باقی رکھنے کی تعلیم دی ہے۔ بلاشبہ! تمام اعمال کا دار و مدار اخلاصِ نیّت پر ہی ہوتا ہے اور اچھی نیّت ہی تمام اعمال و افعال کی جڑ اور بنیاد ہوتی ہے۔ چناں چہ نیّت اگر خالص ہوگی تو اعمال جان دار ہوں گے اور نیّت اگر خراب ہوگی تو اعمال میں وزن نہیں رہے گا۔
اچھی نیّت سے اعمال اچھے اور بُری نیّت سے اعمال بُرے ہوجاتے ہیں۔ نیّت صاف ہو تو انسان کی منزل اُس کے لیے آسان ہوجاتی ہے اور اگر نیّت خراب ہو یا اُس میں فتور واقع ہوجائے تو قدم قدم پر انسان کو ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں، ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے اور بالآخر منزل مقصود تک پہنچنا اُس کے لیے ناممکن ہوکر رہ جاتا ہے۔
اخلاصِ نیّت کی اہمیت پیش نظر قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم:
’’اور اُنہیں اِس کے سوا اور کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اﷲ کی عبادت اِس طرح کریں کہ بندگی کو بالکل یک سُو ہوکر صرف اُسی کے لیے خالص رکھیں، اور نماز قائم کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں اور یہی سیدھی سچی اُمت کا دین ہے۔‘‘ (سورۃ البینہ)
مفہوم: ’’اﷲ کو نہ اُن کا گوشت پہنچتا ہے، نہ اُن کا خون، لیکن اُس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘ (سورۃ الحج)
مفہوم: ’’اے رسول (ﷺ)! لوگوں کو بتا دو کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تم اسے چھپاؤ یا ظاہر کرو، اﷲ اسے جان لے گا۔‘‘ (سورۂ آلِعمران)
اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی اخلاصِ نیّت کی بڑی اہمیت وارد ہوئی ہے، چناں چہ ایک حدیث میں آتا ہے، حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ہر عمل کا دار و مدار نیّت پر ہے، اگر نیت درُست ہے تو اجر کا مستحق ہے، جو اﷲ اور رسول ﷺ کے لیے ہجرت کرتا ہے تو اُس کی ہجرت اﷲ اور رسول ﷺ کے لیے ہوتی ہے، لیکن اگر دُنیا یا کسی عورت کے لالچ میں ہجرت کرتا ہے تو جس غرض کے لیے ہجرت کرتا ہے اُس کی ہجرت اسی غرض کے لیے شمار کی جاتی ہے۔‘‘ (بخاری۔ مسلم)
حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ تعالیٰ وہی عمل قبول کرتا ہے، جس کی بنیاد خلوص پر ہو۔‘‘ (سنن نسائی)
حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’آخر زمانے میں ایک لشکر کعبہ پر چڑھائی کرے گا، لیکن جب یہ ’’بیداء‘‘ نامی مقام میں پہنچے گا تو زمین میں دھنسا دیا جائے گا، پھر یہ لوگ قیامت میں اپنی نیّتوں کے موافق اُٹھائے جائیں گے، اِس لشکر میں بعض لوگ ایسے بھی ہوں گے، جو زبردستی شریک کر لیے گئے تھے، اُن کی نیّت کعبہ پر حملہ کی نہ تھی، ایسے لوگوں سے کوئی مؤاخذہ نہ ہوگا۔‘‘ (بخاری۔ مسلم)
حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ایک شخص کے پاس مال بھی ہے اور علم بھی، اور یہ اچھے کام کرتا ہے اور غرباء کا حق سمجھتا ہے، تو قیامت میں یہ اعلیٰ منازل میں ہوگا، لیکن ایک شخص کے پاس مال اور علم تو نہیں، لیکن اُس کی یہ نیّت ضرور ہے کہ اگر میرے پاس مال اور علم ہوتا، تو میں بھی یہی کام کرتا جو فلاں شخص کر رہا ہے تو قیامت میں دونوں کو اَجر برابر ملے گا۔‘‘ (جامع ترمذی)
حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اگر کسی شخص نے نیکی کرنے کی نیّت کی، لیکن اُس کی نیکی کا وقوع نہیں ہُوا، تب بھی اُس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔‘‘ (بخاری۔ مسلم)
حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ایک شخص نے بستر پر لیٹتے وقت یہ نیّت کی کہ رات کو تہجّد کی نماز پڑھوں گا، مگر رات کو آنکھ نہیں کھلی، یہاں تک کہ صبح ہوگئی، تو اُس کے لیے تہجّد کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے، اور یہ سونا اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اُس بندے پر احسان کے طور پر رہا۔‘‘ (سنن نسائی)
جہانگیر بادشاہ نے اپنی ’’تزک‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک سلطان گرمی کے موسم میں ایک باغ کے دروازہ پر پہنچا، وہاں ایک بوڑھا باغبان کھڑا تھا، اُس کو دیکھ کر سلطان نے پوچھا: ’’ کیا اِس باغ میں انار ہے؟‘‘
باغبان نے کہا: ’’جی موجود ہے‘‘
سلطان نے کہا: ’’ایک پیالا انار کا رَس لاؤ!‘‘
باغبان کی ایک لڑکی جو صورت کے جمال اور سیرت کے حسن سے بھی آراستہ تھی، باغبان نے اُس سے انار کا رَس لانے کو کہا، وہ گئی اور ایک پیالا بھر کر انار کا رَس لے آئی، پیالے پر انار کی کچھ پتیاں رکھی ہوئی تھیں، سلطان نے اُس کے ہاتھ سے پیالا لیا اور پورا پی گیا، پھر لڑکی سے پوچھا: ’’پیالے کے رَس کے اوپر تم نے پتیاں کس لیے رکھ دی تھیں؟‘‘
لڑکی نے عرض کیا: ’’اِس گرمی میں آپ پسینے میں غرق تھے، رَس کا ایک سانس میں پی جانا آپ کے لیے مناسب نہ تھا، میں نے احتیاطاً اِس پر پتیاں ڈال دی تھیں کہ آپ آہستہ آہستہ اِس کو نوشِ جان فرمائیں۔
سلطان کو یہ حسن ادا بہت پسند آئی، اُس کے بعد اُس باغبان سے پوچھا کہ تم کو ہر سال اِس باغ سے کیا حاصل ہوتا ہے؟‘‘
اُس نے جواب دیا: ’’تین سو دینار‘‘
سلطان نے پوچھا: ’’حکومت کو کیا دیتے ہو؟‘‘
باغبان نے کہا: میرا بادشاہ درخت سے کچھ نہیں وصول کرتا، بل کہ کھیتی سے عشر لیتا ہے۔‘‘
سلطان کے دل میں یہ خیال گزرا کہ میری مملکت میں بہت سے باغ اور درخت ہیں، اگر باغ سے بھی عشر لیا جائے تو کافی رقم جمع ہوسکتی ہے اور رعیت کو بھی زیادہ نقصان نہیں پہنچے گا، اِس لیے میں حکم دوں گا کہ باغات کے محصولات سے بھی خراج لیا جائے، یہ سوچ کر اُس نے انار کا رَس پھر پینے کو مانگا، لڑکی رَس لانے گئی تو بہت دیر میں آئی، جب پیالا لائی تو سلطان نے کہا: ’’پہلی بار تم گئیں تو بہت جلد آئیں، اِس بار دیر بھی کی اور رَس بھی کم لائیں۔‘‘
لڑکی نے کہا: ’’پہلی بار ایک انار میں پیالا بھر گیا تھا، اِس بار میں نے پانچ چھے انار نچوڑے پھر بھی رَس پورا نہیں ہُوا۔‘‘
یہ سن کر سلطان کو حیرت ہوئی، باغبان نے عرض کیا: ’’محصول کی برکت بادشاہ کی نیک نیّت پر منحصر ہے، میرا خیال ہے کہ آپ باد شاہ ہیں، آپ نے جس وقت باغ کی آمدنی مجھ سے پوچھی، اُسی وقت آپ کی نیّت میں تبدیلی پیدا ہوئی اور پھل سے برکت چلی گئی۔‘‘
یہ سن کر سلطان متاثر ہُوا اور دل سے باغ کی آمدنی کا خیال دُور کردیا، اِس کے بعد پھر انار کا رَس مانگا ، لڑکی گئی اور جلد ہی پیالا بھر کر انار کا رَس لے آئی، تب سلطان نے باغبان کی فراست کی داد دی، اپنے دل کی بات بتائی اور اُس لڑکی کا خواست گار ہُوا۔ (بہ حوالہ: تزکِ جہانگیری)
یقیناً اِنسان کی نیّت کا اثر اُس کی زندگی کے تمام حالات پر پڑتا ہے، نیّت اچھی اور خالص ہوگی تو زندگی بھی اچھی اور آسان گزرے گی، اہل و عیال میں برکت نصیب ہوگی، مال و دولت میں فراوانی حاصل ہوگی، عبادات ادا کرنے کی توفیق ملے گی، اﷲ تعالیٰ کا دھیان اور اُس کا قرب نصیب ہوگا، اور اگر نیّت خراب ہوئی اور اُس میں فتور ہُوا تو زندگی سے سکون اُٹھ جائے گا، مال و دولت میں کمی واقع ہوجائے گی، عبادات کی توفیق چھن جائے گی، اور اﷲ تعالیٰ کی ناراضی اور اُس کی خفگی مقدر بنے گی اور انسان کو زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تنگ ہوتی نظر آئے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا انار کا ر س ا س کے لیے اﷲ تعالی کرتا ہے اور ا س کی نی ت نی ت کی نے کہا لیکن ا ہے اور سے بھی
پڑھیں:
یہودیوں کا انجام
دنیا ایک بار پھر ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں حق اور باطل کی جنگ واضح ہو چکی ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر بہنے والا معصوم خون، بچوں کی لاشیں، ماں کی آہیں اور بے گھر ہوتے خاندان ہمیں ایک بار پھر اس یاد دہانی کی طرف لے جا رہے ہیں کہ ظلم جب حد سے بڑھ جائے تو اللہ کی پکڑ بھی قریب آ جاتی ہے۔ آج جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہ صرف ایک انسانی المیہ نہیں بلکہ ایک روحانی اور ایمانی آزمائش بھی ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق یہودیوں کا ماضی، حال اور مستقبل واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کی سرکشی، ان کی نافرمانیاں اور اللہ تعالیٰ کے نبیوں کے ساتھ ان کے سلوک کا بارہا ذکر آیا ہے۔ ان کی فطرت میں دھوکہ، فریب، اور سازش شامل ہے۔ انہوں نے نہ صرف اللہ کے انبیا ء کو جھٹلایا بلکہ انہیں قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک وقت کی نشاندہی فرمائی ہے جب یہودیوں کا مکمل خاتمہ ہو گا۔ اس وقت حق اور باطل کا آخری معرکہ ہو گا جسے ’’ملحمہ کبریٰ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس معرکے میں مسلمان غالب آئیں گے اور اللہ کے وعدے کے مطابق زمین پر عدل اور انصاف قائم ہو گا۔
حدیث مبارکہ میں آتا ہے ۔ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک مسلمان یہودیوں سے جنگ نہ کر لیں، اور مسلمان انہیں قتل کریں گے یہاں تک کہ یہودی پتھروں اور درختوں کے پیچھے چھپیں گے مگر وہ درخت اور پتھر بھی پکار اٹھیں گے: اے مسلمان! اے اللہ کے بندے! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، آئو اور اسے قتل کرو، سوائے ’’غرقد‘‘ کے درخت کے، کیونکہ وہ یہودیوں کا درخت ہے۔(صحیح مسلم: 2922)
یہ حدیث نہ صرف مستقبل کے ایک یقینی واقعے کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ یہودیوں کا انجام عبرتناک ہو گا۔ وہ جہاں بھی چھپیں گے قدرت انہیں بے نقاب کر دے گی۔یہ حدیث ہمیں نہ صرف یہ بتاتی ہے کہ یہودیوں کا انجام تباہی ہو گا بلکہ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ اس معرکے میں اللہ کی قدرت براہِ راست کام کرے گی۔ یہاں تک کہ جمادات(درخت اور پتھر) بھی بول اٹھیں گے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ایک الہامی سچائی ہے جس پر ہمیں کامل یقین رکھنا ہے کیونکہ یہ بات بات دنیا کے سب سے عظیم ، سچے انسان اور خاتم النبیین جناب محمد الرسول اللہ نے ارشاد فرمائی ہے۔
فلسطین میں ہونے والی نسل کشی انسانی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب بن چکی ہے۔ ہزاروں بچوں، عورتوں اور معصوم لوگوں کا قتلِ عام، ہسپتالوں، مساجد اور سکولوں پر بمباری، اور عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جنگ صرف زمینی نہیں بلکہ ایمانی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ وہ طاقت کب، کہاں اور کیسے مسلمانوں کو حاصل ہو گی جس کے ذریعے وہ یہودیوں کو شکست دیں گے؟ اس کا جواب بھی قرآن اور سنت میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہیں’’ان تنصروا اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم‘‘ (سورۃ محمد: 7)
ترجمہ: اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا۔یعنی جب مسلمان دین اسلام پر مکمل عمل پیرا ہوں گے، جب وہ فرقوں، تعصبات، اور دنیاوی لالچ سے نکل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں گے تب ہی اللہ کی نصرت نازل ہو گی۔میرا رب وہ ہے جو تقدیر بھی بدلتا ہے اور حالات بھی۔ غم کا موسم کبھی ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا۔ مگر یہ معرکہ جسے ہم دیکھ رہے ہیں اس نے نہ صرف دشمن کو بے نقاب کیا ہے بلکہ ہمارے اپنے مسلمان حکمرانوں کو بھی۔ وہ حکمران جن کی زبانیں خاموش، ضمیر مردہ اور آنکھیں بند ہیں۔ جن کے محلات تو چمک رہے ہیں مگر ان کے دل سیاہ ہو چکے ہیں۔ وہ یہودیوں کے سامنے اس لیے جھک چکے ہیں کیونکہ انہیں مسلمانوں کی جانیں اور عزتیں نہیں بلکہ اپنی بادشاہتیں، اپنی دولت اور دنیاوی آسائشیں عزیز ہیں۔یہی معرکہ ہم عام مسلمانوں کے ایمان کا بھی امتحان ہے۔ اربوں کی تعداد میں ہم مسلمان دنیا بھر میں بستے ہیں مگر افسوس کہ ہمارا طرزِ زندگی، ہماری خریداری، ہماری ترجیحات سب اسرائیل کی مدد کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ہم ان ہی یہودی مصنوعات کو خریدتے ہیں جن کا منافع اسرائیل کے فوجی بجٹ میں شامل ہوتا ہے۔ہم میں سے کتنے ہی افراد روزانہ یہودی مصنوعات کا استعمال کرتے ہیں۔ ہم انہی کمپنیوں کی چیزیں خریدتے ہیں جن کا منافع اسرائیلی فوج کے اسلحہ اور بارود پر خرچ ہوتا ہے۔ ہم اپنی لاعلمی، غفلت یا لاپرواہی کے باعث اس ظلم میں شریک ہو رہے ہیں۔ ہم خود اپنے ہاتھوں سے ان ظالموں کی پشت پناہی کر رہے ہیں جو ہمارے ہی بھائیوں کا خون بہا رہے ہیں۔افسوس، صد افسوس! کہ ہم صرف سوشل میڈیا پر پوسٹس اور احتجاج تک محدود ہو چکے ہیں جبکہ عمل کے میدان میں ہماری موجودگی ناپید ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سب سے پہلے خود کو بدلیں، اپنی ترجیحات کو ایمان کی روشنی میں دیکھیں، اور ہر وہ قدم اٹھائیں جو ظالم کی طاقت کو کمزور کرے۔اللہ کی مدد صرف انہی کو حاصل ہوتی ہے جو خود کو اس کے دین کے لیے وقف کرتے ہیں۔ ہمیں آج سے یہ عہد کرنا ہو گا کہ ہم صرف باتوں سے نہیں، بلکہ عمل سے اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اپنے گھر سے، اپنی خریداری سے، اپنی دعائوں سے اور اپنی زندگی کے ہر شعبے میں ہم ظالم کے خلاف اور مظلوم کے ساتھ ہوں گے۔دنیا اس وقت ظلم، فتنہ اور نفاق کے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر جو خون بہایا جا رہا ہے جو لاشیں گرائی جا رہی ہیں اور جو بچے ماں کی گود سے چھینے جا رہے ہیں تاریخِ انسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک منظم نسل کشی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور دنیا بالخصوص مسلم حکمران تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔یہودیوں کا انجام اللہ کے فیصلے کے مطابق ہونا ہے۔ مگر وہ دن کب آئے گا؟ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم مسلمان کب جاگتے ہیں؟ کب ہم دنیا کی محبت اور موت کے خوف کو ترک کر کے اللہ کی راہ میں نکلتے ہیں؟ کب ہم قرآن کو صرف ثواب کے لیے نہیں بلکہ رہنمائی کے لیے پڑھنا شروع کرتے ہیں؟یقین رکھیں! وہ وقت ضرور آئے گا جب ہر درخت اور پتھر بھی گواہی دے گا، اور مظلوموں کے آنسو ظالموں کے لیے آگ بن جائیں گے۔یہودیوں کا انجام طے شدہ ہے لیکن اس انجام کو لانے کے لیے ہمارا کردار کیا ہو گا؟ یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے۔