Express News:
2025-04-22@07:42:19 GMT

تنہائی میں بھی پاکیزگی اختیار کیجیے۔۔۔ !

اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT

خلوت، عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی تنہائی اور علاحدگی ہے۔ دنیاوی زندگی میں خلوت یعنی تنہائی انسان کے لیے اچھائی اور برائی کے درمیان ایک کش مکش کا سبب ہوتی ہے۔

ایک طرف شیطان و شیطانی قوت بُرائی کی لذت کو خوب صورت و مزیّن صورت میں پیش کرتی ہے تو دوسری جانب ایمان و ایمانی طاقت اسے بتاتی ہے، اﷲ تعالیٰ تجھے دیکھ رہا ہے، تیری ہر بات کو سن رہا ہے، وہ تیرے ساتھ ہے۔ ’’تیری شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔‘‘ لہٰذا: ’’جہاں کہیں بھی ہو اﷲ سے ڈرو۔‘‘ (جامع ترمذی) اور: ’’اﷲ تعالیٰ جانتا ہے کہ کون اﷲ تعالیٰ سے غائبانہ ڈرتا ہے۔‘‘ (المائدہ) چناں چہ ان دو میں سے ایک ندا پر انسان لبیک کہتے ہوئے پھر یا تو اپنی نیکیوں کی بربادی کا راستہ اختیار کرتا ہے یا اﷲ تعالیٰ کے ہاں خوف و خشیت پر موعود تمام انعامات و بشارات کا مستحق بنتا ہے۔

اسی آزمائش کو اﷲ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ میں یوں ذکر فرمایا ہے، مفہوم:

’’اے ایمان والو! اﷲ ایسے شکار کے ذریعے تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور تمہارے نیزوں کی زد میں ہوں گے، یہ دیکھنے کے لیے کہ کون غائبانہ طور پر اﷲ سے ڈرتا ہے۔‘‘ (المائدہ)

عصر حاضر میں یہ شکاری جس کے ذریعے تنہائی میں ہر انسان ایک آزمائش میں مبتلا ہے وہ آج اس کے ہاتھ کا کنگن اسمارٹ فون ہے۔ جس کے صارفین کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق پانچ ارب کے لگ بھگ ہے اور اس کی رسائی برائی اور گناہ کے تمام اسباب و صورتوں تک اس قدر وسیع و سریع ہے کہ ایک کلک پر اس کی ہوش ربا صورتیں منکشف ہو کر اس کے ایمان و اعمال کواپنے گھیرے میں لے کر دیمک کی طرح چاٹ کر صاف کر دیتی ہیں۔ حتیٰ کہ بہت سے نیک، شریف النفس و سلیم الفطرت طبقات بھی نافرمانی، شہوت رانی کے ٹھاٹھیں مارتے سیلاب میں خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ کے مطابق، مفہوم: ’’یہی وہ لوگ ہیں جن کے تمام (نیک) اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہوگئے۔‘‘ کا مصداق بنتے ہیں۔

اﷲ تعالیٰ نے انسان میں طبعی طور پر یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ نیکی کے ماحول اور شرم و حیاء کے وصف کی بناء پر لوگوں کے سامنے بہت سے گناہوں سے صرف اس جذبہ کی بناء پر محفوظ رہتا ہے کہ ’’دیکھنے والے کیا کہیں گے‘‘ مگر تنہائی میں جب بہ ظاہر ہر نظر سے اوجھل ہوتا ہے اور صرف ایک اﷲ کی نظر کے سامنے ہوتا ہے، اپنے آپ کو برائی و گناہ کے سپرد کر بیٹھتا ہے۔ حقیقت میں یہی اس کی حقیقی کیفیت اور اصلی چہرہ ہوتا ہے۔ جو بہ ظاہر لوگوں سے پوشیدہ ہوتا ہے۔ اس لیے خلوت (تنہائی) میں کیا گیا عمل ہمیں ہماری پہچان دیتا ہے کہ ہم اصلاً اچھے ہیں یا بُرے۔

اسی کیفیت کا پردہ چاک کرتے ہوئے کسی نے کہا تھا:

بہت مشکل ہے بچنا بادۂ گلگوں سے خلوت میں

بہت آسان ہے یاروں میں معاذ اﷲ کہہ دینا

اور نبی کریم ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے، مفہوم: ’’اے اﷲ! میرے باطن کو میرے ظاہر سے اچھا کردے۔‘‘ آپ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’تین چیزیں باعث نجات ہیں، غضب اور خوشی دونوں صورتوں میں عدل کرنا، امیری اور فقیری میں میانہ روی اختیار کرنا اور خلوت (تنہائی) اور جلوت (ہجوم) میں اﷲ کا خوف قائم رکھنا۔‘‘ یہی تنہائی میں خوف و خشیت ’’صفت احسان‘‘ کا تقاضا ہے یعنی: ’’تم اﷲ تعالیٰ کی بندگی ایسے کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اﷲ تعالیٰ کو نہیں دیکھ رہے تو (یقین رکھو) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘ چناں چہ ظاہر میں نیک رہنا اور چھپ کر گناہ کرنا تقویٰ نہیں بل کہ ریاکاری ہے۔

حضرت عدی بن حاتمؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’قیامت کے دن کچھ لوگوں کو جنّت کی طرف لے جانے کا حکم ہوگا یہاں تک کہ جب وہ جنت کے قریب پہنچ کر اُس کی خوش بُو سونگھیں گے، اس کے محلات اور اس میں اہل جنّت کے لیے اﷲ تعالیٰ کی تیار کردہ نعمتیں دیکھ لیں گے تو آواز دی جائے گی: انہیں جنت سے لوٹا دو کیوں کہ ان کا جنت میں کوئی حصّہ نہیں۔ (یہ ندا سن کر ) وہ ایسی حسرت کے ساتھ لوٹیں گے کہ ان جیسی حسرت کے ساتھ ان سے پہلے لوگ کبھی نہ لوٹے ہوں گے۔ پھر وہ عرض کریں گے: اے ہمارے رب! اگر تو اپنا ثواب اور اپنے نیک بندوں کے لیے تیار کردہ نعمتیں دکھانے سے پہلے ہی ہمیں جہنم میں داخل کر دیتا تو یہ ہم پر زیادہ آسان ہوتا۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: میں نے ارادتاً تمہارے ساتھ ایسا کیا (اور اس کی وجہ یہ ہے کہ) جب تم تنہائی میں ہوتے تھے تو بڑے بڑے گناہ کرکے میرے ساتھ اعلان جنگ کرتے تھے اور جب لوگوں سے ملتے تھے تو عاجزی و انکساری کے ساتھ ملتے تھے اور لوگوں کو اپنی وہ حالت دکھاتے تھے جو تمہارے دلوں میں میرے لیے نہیں ہوتی تھی۔ تم لوگوں سے ڈرتے تھے مگر مجھ سے نہیں ڈرتے تھے۔ تم لوگوں کی عزت کرتے تھے مگر میری نافرمانی کرتے تھے۔ تم لوگوں کی وجہ سے بُرا کام کرنا چھوڑ دیتے تھے لیکن میری وجہ سے برائی نہ چھوڑتے تھے۔ آج میں تمہیں اپنے ثواب سے محروم کرنے کے ساتھ اپنے عذاب کا مزہ بھی چکھاؤں گا۔ (معجم الاوسط)

چناں چہ تنہائی کے گناہ اﷲ تعالیٰ کے غضب و قہر کے نزول کا سبب ہیں۔ اسی لیے حضرت علی ؓ فرمایا کرتے تھے: ’’تنہائی میں اﷲ تعالیٰ کی مخالفت کرنے سے ڈرو کیوں کہ جو گواہ ہے وہی حاکم ہے۔‘‘ (نہج البلاغہ) جب گواہ اور گرفت پر قادر ایک ہی ہستی ہوگی تو سزا سے نجات کا کوئی راستہ نہیں ہو سکتا۔ مزید برآں ابن ماجہ کی روایت میں تنہائی کے گناہ کی سزا میںسب نیک اعمال کے ضیاع و بے کار جانے کی وعید بھی مذکور ہے۔

حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’میں اپنی امت میں سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت کے دن تہامہ (مکہ مکرمہ کا ایک نام) کے پہاڑوں کے برابر نیکیاں لے کر آئیں گے اﷲ تعالیٰ ان کو فضا میں اڑتے ہوئے ذرّے کی مانند بنا دے گا۔‘‘ حضرت ثوبانؓ نے عرض کیا: اﷲ کے رسول ﷺ ان لوگوں کا حال ہمیں بیان فرمائیے اور کھول کر بیان فرمائیے تاکہ لا علمی اور جہالت کی وجہ سے ہم ان میں سے نہ ہوجائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جان لو کہ وہ تمہارے بھائیوں میں سے ہیں اور تمہاری قوم میں سے ہیں۔ وہ بھی رات کو اسی طرح عبادت کرتے ہوں گے جیسے تم عبادت کرتے ہو۔ لیکن وہ ایسے لوگ ہیں کہ جب تنہائی میں ہوں گے تو حرام کاموں کا ارتکاب کریں گے۔‘‘ (ابن ماجہ)

اگر ہم تنہائی میں درپیش خطرات ِگناہ اور ارتکاب معصیت پر نظر کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان روایات میں ہمارے زمانے کے موبائل فون کی تنہائی کی تباہ کاریوں کا بھی تذکرہ ہے۔ چناں چہ خلوت کی حفاظت کے متعلق آپ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’جو کام لوگوں کے سامنے کرنے کو ناپسند کرتے ہو وہ تنہائی میں بھی نہ کیا کرو۔‘‘ (جامع صغیر) جیسا کہ تنہائی میں گناہوں کے ارتکاب پر سخت و عیدیں منقول ہیں ایسے ہی تنہائی میں (برائی کے اسباب مہیا ہونے کے باوجود) یادِ الہٰی اور خشیت و تقویٰ پر اجر ثواب بھی بہت زیادہ ہے۔ حضرت قتادہ ؓ سے روایت ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص (تنہائی میں) کسی حرام کام پر قادر ہو پھر اسے صرف اﷲ کے خوف کی وجہ سے چھوڑ دے تو اﷲ تعالیٰ آخرت سے پہلے دنیا ہی میں اس کا ایسا بدل عطا فرماتا ہے جو اس حرام کام سے (بہ درجہ) بہتر ہو۔ (جامع الاحادیث)

حضرت کعب الاحبارؓ بیان فرماتے ہیں: ’’جس نے ایک رات بھی اﷲ تعالیٰ کی ایسے عبادت کی کہ اسے کوئی جاننے والا نہ دیکھے تو وہ گناہوں سے ایسے نکل گیا جیسے (سورج طلوع ہوتے ہی) اپنی رات سے نکل جاتا ہے۔ (حلیۃ الاولیاء)

ایسے ہی ایک دوسری روایت میں منقول ہے۔ حضرت ابو امامہؓ سے مروی ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جس شخص کو (تنہائی میں) کسی عورت نے برائی کی دعوت دی اور وہ محض اﷲ کے خوف کی وجہ سے اس سے باز رہا تو قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ اسے عرش کے سایے میں جگہ عطا فرمائے گا۔‘‘ (معجم الکبیر) ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’سات طرح کے لوگ وہ ہیں جنہیں اﷲ تعالیٰ اپنے سایہ میں پناہ دے گا ان میں ایک وہ شخص بھی ہے جس نے تنہائی میں اﷲ کو یاد کیا تو (خوف یا محبت کی وجہ سے) اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔‘‘ (بخاری) نیز حضرت علیؓ سے مروی ہے: ’’جس نے اﷲ تعالیٰ کے خوف سے اور اُس کی رضا حاصل کرنے کی خاطر (تنہائی میں) گناہ چھوڑ دیا تو اﷲ تعالیٰ اسے راضی فرمائے گا۔‘‘ (کنزالعمال)

چناں چہ جیسے اس موبائل فون کے غلط استعمال سے تنہائی میں نافرمانی باعث غضب الہٰی ہے، ایسے ہی ہر معصیت و نافرمانی کی صورت کو تنہائی میں اختیار کرنے پر قدرت کے باوجود محض رضا باری تعالیٰ کی خاطر اختیار نہ کرنے پر اجر و ثواب بھی بے حد و حساب ہے۔ البتہ اس حفاظت کو رحمت و فضل اﷲ رب العزت سمجھے۔ حدیث میں ظاہر و باطنی گناہوں سے بچنے کے لیے ایک دعا تعلیم فرمائی گئی ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ تنہائی کے گناہوں سے حفاظت کے لیے اسے اپنا معمول بنائے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے یہ دعا سکھائی، مفہوم:

’’اے اﷲ! میرے باطن کو میرے ظاہر سے اچھا کردے اور ظاہر کو نیک و صالح بنا دے۔ اے اﷲ! میں تجھ سے لوگوں کو عطا کی جانے والی بہترین چیزیں یعنی مال، اچھا گھربار اور وہ اولاد مانگتا ہوں جو نہ گم راہ ہو اور نہ گم راہ گر ہو۔‘‘ (ترمذی)

اسی لیے تنہائی کے لمحات ایک بیش قیمت خزانہ ہے جس کے خطرات اور ہلاکت کے ذرایع معصیت اور ارتکاب گناہ ہے اور اس کی حفاظت کا سامان خوف و خشیتِ باری تعالیٰ ہے۔

اﷲ  تعالی ہمیں ہر حال میں  رضائے الہی کا خُوگر بنائے رکھے اور ہم سے راضی ہوجائے۔ آمین

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ﷺ نے ارشاد فرمایا تنہائی میں سے مروی ہے گناہوں سے تنہائی کے کی وجہ سے اﷲ تعالی لوگوں کو کرتے تھے ہوتا ہے چناں چہ کرتے ہو کے ساتھ ہوں گے اور اس کے لیے

پڑھیں:

شہید علامہ عارف حسین الحسینی آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں، علامہ غلام حُر شبیری 

اسلام آباد میں منعقدہ تنظیمی کنونشن میں ''روش شہید علامہ عارف حسین الحسینی سیمینار'' سے خطاب کرتے ہوئے رفیق شہید حسینی کا کہنا تھا کہ آج وحدت اسلامی کے لیے مجلس وحدت مسلمین اپنا کردار ادا کررہی ہے، آج وحدت کا کردار شہید حسینی اور امام خمینی کا کردار ہے، وحدت اسلامی کو فروغ دینے کے لیے مجلس وحدت کا کردار لائق تحسین ہے۔  اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین یورپ کے مرکزی رہنما علامہ غلام حُر شبیری نے کہا ہے کہ قائد وحدت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری آج شہید قائد کے راستے پر گامزن ہیں، جنہوں نے اپنی کوششوں اور کاوشوں سے شہید کے افکار کو زندہ رکھا ہوا ہے، ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے اسلام آباد میں منعقدہ تنظیمی کنونشن میں ''روش شہید علامہ عارف حسین الحسینی سیمینار'' سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ علامہ غلام حُر شبیری نے مزید کہا کہ شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی وحدت کے عظیم داعی تھے، وہ وحدت ملی کی وجہ سے شہید ہوئے، آج وحدت اسلامی کے لیے مجلس وحدت مسلمین اپنا کردار ادا کررہی ہے، آج وحدت کا کردار شہید حسینی اور امام خمینی کا کردار ہے، وحدت اسلامی کو فروغ دینے کے لیے مجلس وحدت کا کردار لائق تحسین ہے، ہمارے ملک میں تکفیریت سر اُٹھا رہی تھی لیکن مجلس وحدت نے اپنی کوششوں سے تکفیریت کا قلعہ قمع کردیا، شہید قائد نے سیاسی منشور کو پیش کیا ملک میں اور قوم کو سیاسی حوالے سے باشعور بنایا۔

اُنہوں نے کہا کہ شہید علامہ عارف حسین الحسینی ہمیں سیاسی رموز سکھائے، یہی وجہ ہے کہ اُن کے دور میں ہم نے پارلیمانی سیاست کا آغاز کیا، اُس راستے کو جس نے دوبارہ زندہ کیا وہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری ہیں۔ الحمد اللہ آج قیادت بیدار ہے اور میدان میں موجود ہے، آج ہر سیاسی محفل اور پارلیمنٹ کی زینت ہم ہیں، سیاسی و سماجی اعتبار سے ہم باوقار ہیں، آج کوئی فیصلہ ہمارے بغیر ممکن نہیں، ہم فکر خمینی کو زندہ رکھیں گے۔ 

متعلقہ مضامین

  • غزہ کے لوگوں کیلئے احتجاج وقت کی اہم ضرورت ہے، جماعت اسلامی بلوچستان
  • امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ کو ایک بار پھر حساس فوجی معلومات کو غیر مجاز لوگوں سے شیئرکرنے کے الزمات کا سامنا
  •  خیبر پختونخوا کی بے اختیار بلدیاتی حکومتیں اور نمائندے 3 سال گزرنے کے باوجود فنڈز سے محروم
  • فلسطین اور غزہ کے نام پر لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچایا جارہا ہے: عظمیٰ بخاری
  • ریاست نے بہت مرتبہ بھٹکے ہوئے لوگوں سے مذاکرات کیے، سرفراز بگٹی
  • شہید علامہ عارف حسین الحسینی آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں، علامہ غلام حُر شبیری 
  • کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے