وزیرمملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا ہے کہ افغان باشندوں کی وطن واپسی کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن میں کسی قسم کی ایکسٹینشن نہیں ہونے جارہی۔

وزیرمملکت داخلہ طلال چوہدری نے اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پہلے مرحلے میں ان افغان باشندوں کو پاکستان سے واپس افغانستان بھیجا گیا جن کے پاس کوئی لیگل دستاویزات نہیں، اس کے بعد افغان سٹیزن کارڈ ہولڈر کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا، جس کے لیے 31 مارچ 2025 ڈیڈ لائن دی گئی۔ اس کے بعد پی او آر کارڈ رکھنے والے افغان باشندوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گزشتہ رات آپریشن کے دوران 37 افغان باشندے گرفتار، 45 گنز برآمد ہوئیں، عطاتارڑ

طلال چوہدری نے کہا کہ وزارت داخلہ نے تمام صوبوں بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو آن بورڈ لیا اور افغان باشندوں کی افغانستان واپسی کے حوالے سے پیشرفت کا جائزہ لیا گیا، افغان باشندوں کی وطن واپسی کے حوالے سے ڈیڈ لائن میں کسی قسم کی کوئی ایکسٹینشن نہیں ہونے جارہی،نہ ہوئی ہے اور نہ ہوگی

انہوں نے کہا کہ ابھی تک 8 لاکھ 57 ہزار 157 غیر قانونی اور اے سی سی کارڈ ہولڈرر افغان باشندوں کو پاکستان سے واپس افغانستان بھیجا گیا ہے، افغان ہمارے بھائی اور ہمسائے ہیں لیکن یہ فیصلہ کچھ زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے کرنا پڑا، اس وقت پاکستان میں ہونے والے بہت سے دہشتگردی کے واقعات کے کنیکشنز افغان شہریوں سے ملتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغان سیٹزن کارڈ والے باشندوں کی واپسی:اب تک کتنے افغان باشندے واپس جاچکے ہیں؟

طلال چوہدری نے کہا کہ ملک میں افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے شہریوں کی تعداد 8 لاکھ 15 ہزار 247 پاکستان میں رجسٹرڈ ہیں اور پی او آر، یہ پروگرام پاکستان میں 2006 سے شروع ہوا اور 2023 تک جاری رہا اس میں 15 لاکھ 69 ہزار 522 افغان شہری اس میں رجسٹرڈ ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں منشیات کی بہت بڑی کھیپ افغانستان سے آتی ہے، دنیا کی 40 فیصد منشیات افغانستان میں پیدا ہورہی ہیں، بہت زیادہ تعداد میں افغان شہری منشیات استعمال کرتے ہیں، ان منشیات کا پیسہ بعد میں کسی نہ کسی لنک سے کرائم یا دہشتگردی سے جڑا ہوتا ہے، اس بنا پر ہم نے یہ فیصلہ کئی سال تک اپنے افغان بہن بھائیوں کی مہمان نوازی کرنے کے بعد کیا، یہ فیصلہ پاکستان کے مفاد میں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: دہشتگردی میں اضافے کی وجہ افغان باشندے، وقت آ گیا ہے انہیں نکال باہر کیا جائے، جان اچکزئی

طلال چوہدری نے کہا کہ ون ڈاکومنٹ ریجیم کا آغاز کیا گیا کہ جس طرح کسی بھی ملک سے کوئی پاکستان میں مصدقہ ویزے یا پاسپورٹ پر آسکتا ہے، کاروبار کرسکتا ہے، رہ سکتا ہے اور وزٹ کرسکتا ہے، اس طریقے سے افغان شہری بھی اب پاکستان پاکستان آئیں گے، جن لوگوں کو ہم واپس بھیج رہے ہیں وہ پاسپورٹ بنوا کر اور ویزے لے کر پاکستان آئیں، مگر اب پاکستان میں غیر قانونی اور بغیر رجسٹرین کے پاکستان میں انہیں رکھنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

وزیر مملکت داخلہ نے کہا کہ حکومت کا فیصلہ ہے کہ ون ڈاکیومنٹ رجیم پر مکمل عملدرآمد کیا جائے گا، وہ افغانستان کے شہریوں ہوں یا کسی اور ملک کے، جیسے مغرب کا بارڈر ہے ویسے ہی مشرق کے سرحد کو بھی ویسے ہی ریگولیٹ کریں گے، 2 ہزار 600کلو میٹر کی یہ لمبی سرحد بہت مشکل ہے کیوں کہ دہشتگردی یہی سے ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان باشندوں کے لیے پاکستان چھوڑنے کی 31 مارچ کی ڈیڈلائن میں توسیع نہ کرنے کا فیصلہ

ان کا کہنا تھا کہ وزارت خارجہ اس معاملے پر افغان حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے اور جتنے بھی شہری واپس بھیجے جاتے ہیں، ان کا پورا ایک طریقہ کار ہے، ان کی رجسٹریشن ہمارے طرف سے بھی ہوتی ہے اور ان کی جانب سے بھی کی جاتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news افغان باشندے افغانستان ایکسٹینشن پاکستان طلال چوہدری وزیر مملکت داخلہ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغان باشندے افغانستان ایکسٹینشن پاکستان طلال چوہدری وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری نے کہا افغان باشندوں کی افغان باشندے پاکستان میں افغان شہری نے کہا کہ لائن میں ڈیڈ لائن کا فیصلہ کیا گیا ہے اور کے لیے

پڑھیں:

افغان سرزمین کسی بھی ملک کیخلاف دشمن سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں ہوگی، کابل

افغان سرزمین کسی بھی ملک کیخلاف دشمن سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں ہوگی، کابل WhatsAppFacebookTwitter 0 20 April, 2025 سب نیوز

اسلام آباد:افغانستان کے قائم مقام وزیر اعظم ملا حسن اخوند نے پاکستان کو یقین دلایا ہے کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف دشمن سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق افغان وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے پاکستانی وفد کو یقین دلایا کہ افغانستان کی سرزمین اپنے ہمسایوں سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی۔

ملا حسن اخوند نے زور دیا کہ عسکریت پسندی کی روک تھام کے لیے ان کی انتظامیہ کے ’قول و فعل‘ کے درمیان ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

اسحاق ڈارکا یہ دورہ کئی ماہ کے سفارتی تعطل، سرحدی جھڑپوں اور سلامتی کے بڑھتے ہوئے خدشات کے بعد اسلام آباد اور افغان طالبان انتظامیہ کے درمیان دوبارہ مذاکرات کے عمل کی ایک نئی بنیاد ہے۔

اسلام آباد کا الزام ہے کہ افغان عسکریت پسند گروہ سرحد پار حملے کرتے ہیں اور یہاں دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کرتے ہیں، اس کے جواب میں، پاکستان نے افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف فوجی حملے کیے ہیں اور افغان شہریوں کو نشانہ بناتے ہوئے بڑے پیمانے پر ملک بدری مہم شروع کی ہے۔

پاکستان اور افغانستان کی جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی (جے سی سی) نے رواں ہفتے کے اوائل میں کابل میں نئے مذاکراتی عمل کے تحت ملاقات کی تھی جس کا مقصد اعتماد اور تعاون کی بحالی ہے۔

اسحٰق ڈار کے دورے سے ایک روز قبل پاکستانی دفتر خارجہ نے دہشت گردی کو دونوں ممالک کے تعلقات میں ’اہم تشویش‘ قرار دیا تھا۔

افغان وزیر اعظم کے دفتر نے پاکستان میں مقیم افغانوں کی بے دخلی کے معاملے پر کہا کہ پاکستان کے یکطرفہ اقدامات مسئلے کو مزید شدت دے رہے ہیں اور حل کی طرف پیش رفت میں رکاوٹ بن رہے ہیں، بیان کے مطابق افغان وزیراعظم نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ افغان پناہ گزینوں کے ساتھ ناروا سلوک بند کرے۔

افغان وزارت خارجہ نے بھی اس معاملے پر اسی طرح کا موقف اختیار کیا ہے، وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پاکستان میں افغان مہاجرین کی صورتحال اور ان کی جبری وطن واپسی پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔

انسانی سلوک کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ اس وقت پاکستان میں مقیم یا واپس آنے والے افغان شہریوں کے حقوق کا تحفظ کریں، اسحٰق ڈار کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ملک بدری کی مہم میں تیزی آئی ہے جس کی وجہ سے ہزاروں افغانوں کو واپس جانے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔

اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کے مطابق یکم سے 13 اپریل کے درمیان طورخم اور اسپن بولدک سرحدی گزرگاہوں کے ذریعے تقریباً 60 ہزار افغان باشندے افغانستان واپس جانے پر مجبور ہوئے۔

یہ بے دخلی دوسرے مرحلے کا حصہ ہے جس کا مقصد 8 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کو نشانہ بنانا ہے جن کے پاس اب غیرقانونی قرار دیے جاچکے افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) اور دیگر دستاویزات کی کمی ہے۔

انسانی ہمدردی کے اداروں نے افغانستان کے سرحدی علاقوں پر دباؤ کے بارے میں متنبہ کیا ہے جو واپس آنے والے پناہ گزینوں کی میزبانی کررہے ہیں، جن میں سے بہت سوں کے پاس وسائل یا پناہ گاہوں کی کمی ہے۔

دریں اثنا، پاکستان نے یو این ایچ سی آر کے جاری کردہ پروف آف رجسٹریشن کارڈ رکھنے والے 1.3 ملین سے زائد افغانوں کو راولپنڈی اور اسلام آباد چھوڑنے کا حکم دیا ہے، حالانکہ انہیں 30 جون تک پاکستان میں رہنے کی اجازت ہے۔

دریں اثنا، مغربی ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ ان افغان باشندوں کی نقل مکانی کا عمل تیز کریں جن سے 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد مغربی ممالک میں آباد کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا، پاکستانی حکومت نے 30 اپریل کی ڈیڈ لائن مقرر کی ہے، جس کے بعد ان لوگوں کی ملک بدری شروع ہو جائے گی جو اس وقت تک کسی تیسرے ملک میں آباد نہیں ہوئے ہیں۔

اسحٰق ڈار نے اپنے بیان میں پناہ گزینوں کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے واپس بھیجے جانے والوں کے خدشات کو دور کرنے کے اقدامات کا اعلان کیا۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کا دورہ کرنیوالے پاکستانی صحافیوں پر پابندی لگ سکتی ہے،طلال چوہدری
  • افغان شہریوں کی واپسی، شکایات کے ازالے کیلئے کنٹرول روم قائم
  • مزید 4 ہزار سے زائد غیر قانونی افغان باشندے بے دخل
  • پشاور: مزید 4 ہزار سے زائد غیر قانونی افغان باشندے بے دخل
  • افغان سرزمین کسی بھی ملک کیخلاف دشمن سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں ہوگی، کابل
  • کاروبار پر حملہ کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا،طلال چوہدری
  • افغان مہاجرین کی باعزت واپسی، اپنی سرزمین ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہیں ہونے دینگے، پاکستان افغانستان کا اتفاق
  • غیرملکی فوڈ چین ٹیکس چوری نہیں کرتیں، طلال چوہدری
  • غیر قانونی افغان باشندوں کی واپسی جاری، مزید 5 ہزار سے زائد بے دخل
  • غیرقانونی افغان باشندوں کا انخلا، مزید 5 ہزار سے زائد افغانیوں کو بھیج دیا گیا