اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 اپریل 2025ء) بھارتی حکومت کے ایک سرکاری سرکلر کے مطابق دنیا کے دیگر ممالک کو سامان برآمد کرنے کے لیے نئی دہلی نے بنگلہ دیش کو جو اپنی بندرگاہیں اور کسٹم اسٹیشنز کے استعمال کی اجازت دے رکھی تھی، اس ٹرانس شپمنٹ کی سہولت کو ختم کر دیا ہے۔

بنگلہ دیش اس سہولت کو دنیا کے دیگر ممالک کو اپنا سامان برآمد کرنے کے لیے استعمال کیا کرتا رہا ہے اور بھارت کے اس اقدام سے ڈھاکہ کی برآمدات کے متاثر ہونے کا امکان ہے۔

بھارت نے شیخ حسینہ کی حکومت کے دور میں جون 2020 میں بنگلہ دیش کو یہ سہولت فراہم کی تھی۔

انقلاب کے بعد بنگلہ دیش اور بھارت کے رہنماؤں کی پہلی ملاقات

یونس کے متنازعہ بیان پر بھارت کا رد عمل؟

ڈھاکہ کی موجودہ انتظامیہ کے اہم مشیر محمد یونس نے مارچ کے اواخر میں چین کا دورہ کیا تھا، جہاں انہوں نے بھارت کے بجائے چین کے حق میں بعض متنازعہ بیانات دیے تھے اور ماہرین کا کہنا ہے نئی دہلی نے یہ اہم فیصلہ اسی تناظر میں کیا ہے۔

(جاری ہے)

چین کے دورے کے دوران محمد یونس نے کہا تھا کہ شمال مشرقی بھارت کا علاقہ "لینڈ لاک" ہے اور ڈھاکہ "اس سارے خطے کے لیے سمندر کا واحد محافظ" ہے۔ اس بیان کو بڑے پیمانے پر ڈھاکہ کی جانب سے شمال مشرقی بھارت تک رسائی پر اپنا فائدہ اٹھانے کی کوشش کے طور پر تعبیر کیا گیا، جو نئی دہلی کے لیے تشویش کا باعث ہے۔

محمد یونس نے چین کو ایک نئے اسٹریٹجک پارٹنر کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں کی ہیں، جس کی وجہ سے پہلے سے ہی کمزور بھارت-بنگلہ دیش تعلقات مزید پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔

یونس نے بیجنگ میں کہا تھا، "شمال مشرق کی بھارت کی سات ریاستیں، جنہیں سیون سسٹرز کے نام سے جانا جاتا ہے، خشکی سے گھری ہوئی ہیں اور ان کی سمندر تک براہ راست رسائی نہیں ہے۔"

وزیر اعظم مودی نے بنگلہ دیشی ہم منصب کو خط میں کیا لکھا ہے؟

انہوں نے کہا تھا، "ہم اس پورے خطے کے لیے سمندر کے واحد محافظ ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا موقع ہے۔

یہ چینی معیشت کی توسیع دے سکتا ہے، اشیا تیار کریں، چیزیں بنائیں، انہیں چین میں لائیں اور باقی دنیا کو برآمد کریں۔"

واضح رہے کہ بھارت کی شمال مشرقی کی ریاستیں صرف زمین کے ایک بہت ہی چھوٹے خطے سے ملک سے مربوط ہیں، جو چکن نیک کے نام سے، معروف ہے۔ یہ خطہ چین اور بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل ہے اور اگر یہ چکن نیک نامی خطہ اراضی بھارت کے ہاتھ سے نکل جائے تو پورا شمالی مشرقی علاقہ اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔

اس مناسبت سے بھارت کے لیے دفاعی نکتہ نظر سے یہ بہت ہی حساس معاملہ ہے اور وہ اس خطے سے چین کو دور رکھنا چاہتا ہے، جبکہ محمد یونس نے اسی علاقے میں چین کو اپنی معیشت پھیلانے کی دعوت دی ہے۔

جندل یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کی ماہر شری رادھا دت، جو بنگلہ دیش امور کی ماہر ہیں، نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں کہا کہ "فی الحال بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں جو رسہ کشی جاری ہے یہ اسی ایک اور حصہ ہے۔

"

وہ مزید کہتی ہیں، "محمد یونس نے شمال مشرقی بھارتی ریاستوں سے متعلق جو باتیں چین میں کہی تھیں، یہ اس کا ایک رد عمل بھی ہو سکتا ہے۔"

تاہم انہوں نے یہ بھی کہا، "مجھے نہیں لگتا کہ اس فیصلے سے بنگلہ دیش کی تجارت پر کوئی خاص اثر پڑے گا، کیونکہ وہ بھارت کی ان سہولیات کا استعمال صرف نیپال اور بھوٹان میں سامان پہنچنے کے لیے ہی کیا کرتا تھا۔

"

بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان براہ راست تجارت بحال

بھارت نے اس اقدام کے بارے میں کیا کہا؟

اس فیصلے کا اعلان بدھ کے روز بھارتی سینٹرل بورڈ آف بالواسطہ ٹیکس اور کسٹمز نے کیا تھا اور ایک باقاعدہ نوٹس جاری کیا تھا۔

بعد میں نئی دہلی میں وزارت خارجہ نے اس نئے اقدام پر وضاحت کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ بنگلہ دیش کو یہ سہولت فراہم کرنے کے سبب "ہمارے ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں پر کافی بھیڑ ہو رہی تھی۔

وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا، "لوجیسٹک تاخیر اور زیادہ لاگت ہماری اپنی برآمدات میں رکاوٹ بن رہی تھی اور بیک لاگز پیدا کر رہی تھی۔ اس وجہ سے یہ سہولت 8 اپریل 2025 سے واپس لے لی گئی ہے۔"

بیان میں مزید کہا گیا کہ اس بات کی وضاحت کی جاتی ہے کہ "یہ اقدام نیپال یا بھوٹان کے لیے بھارتی سرزمین سے گزرنے والی بنگلہ دیش کی برآمدات پر اثر انداز نہیں ہوں گے۔

"

بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی برآمد کنندگان نے، خاص طور پر ملبوسات کے شعبے سے تعلق رکھنے والے کاروباری افراد نے، حکومت سے اپیل کی تھی کہ وہ پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے یہ سہولت واپس لے لیں۔

بنگلہ دیشں: شیخ حسینہ مخالف طلبا گروپوں میں تصادم، 150 زخمی

بنگلہ دیشی برآمدات کے متاثر ہونے کا خدشہ

آٹھ اپریل کو سینٹرل بورڈ آف بالواسطہ ٹیکس اور کسٹمز کے سرکلر میں کہا گیا کہ مورخہ 29 جون، 2020 کو جاری کیے گئے سرکلر میں فوری طور پر ترمیم کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

البتہ بھارت میں پہلے سے داخل ہونے والے کارگوز کو اس سرکلر میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق بھارتی علاقے سے باہر نکلنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔

تھنک ٹینک گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشیٹو (جی ٹی آر آئی) کے بانی اجے سریواستو نے ایک بھارتی ٹی وی چینل سے بات چیت میں کہا کہ اس سہولت کی واپسی سے بنگلہ دیش کی برآمدات اور درآمدی رسد میں خلل پڑنے کی توقع ہے، جو تیسرے ملک کی تجارت کے لیے بھارتی انفراسٹرکچر پر منحصر ہے۔

ان کا کہنا تھا، "پچھلے طریقہ کار نے ٹرانزٹ کے وقت اور لاگت کو کم کرتے ہوئے بھارت کے ذریعے ایک ہموار راستے کی پیشکش کی تھی۔ اب، اس کے بغیر، بنگلہ دیشی برآمد کنندگان کو لاجسٹک تاخیر، زیادہ لاگت اور غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔"

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بنگلہ دیش کی محمد یونس نے شمال مشرقی نئی دہلی بھارت کے یہ سہولت میں کہا ہے اور کے لیے

پڑھیں:

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی آئندہ ہفتے دو روزہ دورے پر سعودی عرب جائیں گے

گزشتہ برسوں کے دوران بھارت اور سعودی عرب کی شراکت داری سیاست، دفاع، سکیورٹی، توانائی، تجارت، سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی، تعلیم، صحت اور ثقافتی تعاون تک مختلف شعبوں تک وسیع ہوئی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان کی دعوت پر اگلے ہفتے سعودی عرب کا دورہ کریں گے۔ وزارت خارجہ کے مطابق یہ دورہ 22، 23 اپریل تک ہوگا اور یہ نریندر مودی کا اپنی تیسری میعاد کے دوران سعودی کا پہلا دورہ ہوگا۔ مودی اس سے قبل 2016ء اور 2019ء میں دو بار سعودی عرب کا دورہ کر چکے ہیں۔ نریندر مودی کا یہ دورہ ستمبر 2023ء میں محمد بن سلمان کے ہندوستان کے سرکاری دورے کے بعد ہو رہا ہے، جس کے دوران انہوں نے G20 سربراہی اجلاس میں شرکت کی اور ہندوستان و سعودی عرب اسٹریٹجک پارٹنرشپ کونسل کے افتتاحی اجلاس کی شریک صدارت بھی کی تھی۔

بھارت اور سعودی عرب ثقافتی اور تجارتی تبادلوں کی میراث کے ساتھ تاریخی طور پر قریبی اور دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں۔ گزشتہ برسوں کے دوران ان دونوں ممالک کی شراکت داری سیاست، دفاع، سکیورٹی، توانائی، تجارت، سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی، تعلیم، صحت اور ثقافتی تعاون تک مختلف شعبوں تک وسیع ہوئی ہے۔ وزارت خارجہ کے مطابق گزشتہ دہائی کے دوران دو طرفہ تعلقات میں مزید مضبوطی آئی ہے۔ مودی کا یہ دورہ بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ہندوستان سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو اہمیت دیتا ہے۔ یہ دورہ ممکنہ طور پر اس کثیر جہتی شراکت داری میں اضافہ کرے گا اور مشترکہ دلچسپی کے اہم علاقائی اور عالمی معاملات پر بات چیت کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرے گا۔

یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب جغرافیائی سیاسی پیشرفت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ان میں تہران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے امریکہ اور ایران کے درمیان مذاکرات بھی شامل ہیں۔  بھارت نے 1947ء میں سعودی عرب کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے اور 2010ء میں یہ تعلقات اسٹریٹجک پارٹنرشپ میں تبدیل ہوگئے۔ 2024ء کے آغاز سے بھارت سے سعودی عرب کے 11 وزارتی سطح کے دورے ہوئے ہیں۔ مزید برآں سعودی عرب کے وزیر خارجہ اور وزیر صنعت و معدنی وسائل نے بالترتیب نومبر 2024ء اور فروری 2025ء میں ہندوستان کا دورہ کیا۔ سعودی عرب نے آپریشن کاویری کے دوران بھی معاون کردار ادا کیا اور سوڈان سے جدہ کے راستے ہندوستانی شہریوں کو نکالنے میں مدد کی۔

متعلقہ مضامین

  • امریکہ کے نائب صدر کا دورہ بھارت اور تجارتی امور پر مذاکرات
  • امریکی نائب صدر جے ڈی وینس تجارتی مذاکرات کے لیے بھارت پہنچ گئے
  • ’’امن 2025‘‘مشقوں کی گونج؛ پاک سری لنکا بحری اشتراک پر بھارت بوکھلاہٹ کا شکار
  • خلیل الرحمٰن پاکستان سے مایوس، بھارت کیلئے کام کریں گے؟
  • بھارتی وزیراعظم نریندر مودی آئندہ ہفتے دو روزہ دورے پر سعودی عرب جائیں گے
  • ایلون مسک سے ٹیکنالوجی میں امریکہ کے ساتھ تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا ہے.نریندرمودی
  • ظلم و جبر بھارت سے آزادی کا راستہ ہرگز نہیں روک سکتا
  • ظلم و جبر بھارت سے آزادی کا راستہ ہرگز نہیں روک سکتا, سرینگر میں پوسٹر چسپاں
  • بھارت کا 4 فٹ 8 انچ کا وہ اداکار جو پربھاس سلمان خان اور شاہ رُخ خان سے بھی آگے ہے
  • بنگلہ دیش سے تعلق سبوتاژ کرنے کی  بھارتی کوششیں ناکام ہونگی‘ دفتر خارجہ