آزادی کے اہداف اور درپیش خطرات
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
بنی اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کو کہتے ہیں جو اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس فلسطین سے مصر آ گئے تھے اور حضرت یوسف علیہ السلام اور بنی اسرائیل کی حکومت و بادشاہت کا سلسلہ قائم ہو گیا تھا۔ یہ اللہ تعالی کی بے نیازی ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام مصر میں غلام کی حیثیت سے آئے تھے، انہیں باقاعدہ منڈی سے خریدا گیا تھا مگر وہ غلامی اور قید و بند کے مراحل سے گزر کر مصر کی حکمرانی کے منصب پر فائز ہوئے اور ان کے خاندان کی حکومت کئی نسلوں تک چلتی رہی۔
یہ اللہ تعالی کا تکوینی نظام ہے کہ وہ کسی ایک طاقت کو ہمیشہ اقتدار پر نہیں رہنے دیتا اور توازن تبدیل کرتا رہتا ہے، جسے قرآن کریم نے ’’ولولا دفع اللہ الناس بعضہم ببعض‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ بنی اسرائیل کی کئی نسلوں تک مصر پر بادشاہت کے بعد حالات نے پلٹا کھایا، آل فرعون کی حکومت قائم ہوئی اور بنی اسرائیل غلام ہو گئے۔ ان کی یہ غلامی اور مظلومیت کئی نسلوں تک جاری رہی۔ فطری بات ہے کہ نئے حکمرانوں نے جن سے حکومت چھینی ہو ان کے جبر و تشدد کا نشانہ سب سے زیادہ وہی بنتے ہیں۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے ساتھ ایک عرصہ تک یہی کچھ ہوتا رہا، پھر اللہ تعالٰی نے ان کی ہدایت اور آزادی کے لیے حضرت موسٰی علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو مبعوث فرمایا، ان دونوں بھائیوں کو جب نبوت و رسالت دے کر اللہ تعالٰی نے بنی اسرائیل اور آل فرعون کی طرف بھیجا تو توحید و بندگی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ان کی دعوت و پیغام کا حصہ تھا کہ ’’فارسل معنا بنی اسرائیل ولا تعذبھم‘‘۔ اس میں فرعون سے کہا گیا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کو آزادی کے ساتھ ان کے وطن جانے دے اور غلامی کے عذاب سے نجات دے۔ گویا اپنی قوم کی آزادی کی جدوجہد بھی دو نبیوں کے اہداف میں شامل تھی اور اس کے لیے انہیں فرعون کے ساتھ طویل کشمکش سے گزرنا پڑا۔
پھر اللہ تعالٰی نے فرعون کو لشکر سمیت بحیرہ قلزم میں غرق کیا اور بنی اسرائیل کو سمندر پار کرا کے آزادی کی نعمت سے ہمکنار کر دیا۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کو حکم ہوا کہ اپنا وطن فلسطین آزاد کرانے کے لیے وہاں پر قابض قوم کے خلاف جہاد کرو۔ بنی اسرائیل نے یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا جس پر اللہ تعالی نے فلسطین میں بنی اسرائیل کا داخلہ چالیس سال تک حرام قرار دے دیا۔ اس دوران حضرت موسٰیؑ اور حضرت ہارونؑ انتقال فرما گئے اور ان کی جگہ حضرت یوشع بن نون علیہ السلام نے بنی اسرائیل کی قیادت سنبھالی، ان کی قیادت میں جہاد کر کے بنی اسرائیل نے فلسطین آزاد کرایا اور وہاں ان کی حکومت قائم ہوئی جو کئی نسلوں تک قائم رہی۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ صرف آزادی قوم کی اصل منزل نہیں ہوتی بلکہ اس کے نتیجے میں آزاد ریاست کا قیام اور آسمانی تعلیمات کی حکمرانی بھی اہل دین کی آزادی کے مقاصد میں شامل ہوتی ہے۔
اسی طرح ہمارے بزرگوں نے دینی جذبہ کے ساتھ جنوبی ایشیا کو ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی حکومت کے دو سو سالہ تسلط سے نجات دلانے کے لیے آزادی کی جنگیں لڑیں۔ نواب سراج الدولہؒ اور ٹیپو سلطان شہیدؒ سے لے کر شہدائے بالاکوٹ تک، بنگال میں حاجی شریعت اللہؒ کی فرائضی تحریک، پنجاب میں رائے احمد خان کھرلؒ کی جدوجہد، سرحد میں فقیر ایپیؒ اور حاجی صاحب ترنگ زئیؒ کی تحریکات، ۱۸۵۷ء کا معرکہ آزادی اور حضرت شیخ الہندؒ کی تحریک ریشمی رومال اسی تناظر اور تسلسل کی تحریکات ہیں۔ جن کے بعد تحریک خلافت اور دیگر پر اَمن سیاسی تحریکات کا دور شروع ہوا اور عدم تشدد پر مبنی سیاسی تحریکات کے تسلسل نے انگریزوں کو یہاں سے جانے پر مجبور کر دیا، جس کے نتیجے میں ہندوستان انگریزوں کے براہ راست تسلط سے آزاد ہوا اور وطن عزیز پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا یوم آزادی ہم ایک بار پھر کل چودہ اگست کو منا رہے ہیں۔
ہماری غلامی کا آغاز تجارت کے عنوان سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے اثرونفوذ کے فروغ کے ذریعے ہوا تھا جو بڑھتے بڑھتے پورے جنوبی ایشیا پر برطانوی استعمار کا تسلط قائم ہونے تک جا پہنچا۔ آج پھر تجارت کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیاں مغرب و مشرق دونوں طرف سے ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہیں بلکہ ہماری روزمرہ زندگی ان کی پراڈکٹس اور سروسز کے سہارے چل رہی ہے، اور عالمی معاہدات اور اداروں کے ذریعے بیرونی تسلط کا ایک نیا دور مسلط ہوتا نظر آ رہا ہے جس کا تقاضہ ہے کہ جس طرح آزادی کے حصول کے لیے دو سو سال محنت کی گئی تھی اور حضرات علماء کرام نے اس کی قیادت و راہنمائی کی تھی، اسی طرح آزادی کے تحفظ، غیر ملکی مداخلت کی روک تھام اور قومی خودمختاری کی بحالی کی ہمہ گیر منظم جدوجہد کا مرحلہ پھر ہمارے سامنے آگیا ہے جو قومی تقاضہ ہونے کے ساتھ ملی و دینی فریضہ بھی ہے اور اس میں علماء کرام، صوفیاء عظام اور دینی راہنماؤں کو کلیدی کردار ادا کرنا ہو۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کئی نسلوں تک علیہ السلام بنی اسرائیل ا زادی کے کی حکومت اور حضرت قائم ہو کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
کار مسلسل
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی( ایف آئی اے) پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر کے خلاف انکوائری کررہا ہے۔ انھیں عید الفطر کی تعطیلات سے قبل طلب کیا گیا تھا اور 11اپریل کو دفتری اوقات کے بعد ایک سوالنامہ ارسال کیا گیا، بتایا جاتا ہے کہ کسی نامعلوم شخص کی درخواست پر اس انکوائری کا آغاز کیا گیا ہے۔
یہ سوالنامہ 12نکات پر مشتمل ہے،انھیں ہدایت کی گئی تھی کہ 17اپریل تک سوالنامہ کے جوابات جمع کرائیں۔ اس سوالنامے میں ان کے سینیٹر کی حیثیت سے اور بعد میں ہونے والی آمدنی کے بارے میں پوچھا گیا ہے۔ ایف آئی اے کے طریقہ کار سے واقف صحافیوں کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کے تحقیقاتی افسر اب ایک چارج شیٹ تیار کریں گے، پھر مزید کارروائی کے بارے میں پتہ چل جائے گا۔
فرحت اللہ بابر بنیادی طور پر انجنیئر ہیں۔ وہ 70ء کی دہائی میں سابقہ صوبہ سرحد حکومت کے محکمہ اطلاعات میں شامل ہوئے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو بطور وزیراعظم صوبہ سرحد کے دورے پر پشاور آئے تو بھٹو صاحب نے صوبائی کابینہ میں تبدیلی کا فیصلہ کیا۔
احتیاط یہ کی گئی تھی کہ یہ خبر قبل از وقت افشا نہیں ہونی چاہیے اور شام کو پی ٹی وی کی خبروں میں یہ خبر شامل ہونی چاہیے۔ محکمہ اطلاعات کے اعلیٰ افسروں نے جونیئر افسر فرحت اللہ بابر کو گورنر ہاؤس بھیجا اور ہدایت کی کہ جلد سے جلد خبر کا ہینڈ آؤٹ تیار کر لیں۔ بابر صاحب نے یہ ہینڈ آؤٹ تیار کیا، یوں بھٹو صاحب ان کی صلاحیتوں کے معترف ہوئے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں وہ سرکاری نوکری کو خدا حافظ کہہ کر سعودی عرب چلے گئے اور وہاں کئی سال گزارے۔ وہ جونیجو دور میں واپس پاکستان آگئے اور پشاور سے شائع ہونے والے معروف انگریزی کے مینیجنگ ایڈیٹر بن گئے۔
اس اخبار کے ایڈیٹر معروف صحافی عزیز صدیقی تھے۔ یہ جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے آخری ایام تھے ۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر عزیز صدیقی اور فرحت اﷲ بابر کو اس اخبار سے رخصت ہونا پڑا۔ فرحت اﷲ بابر پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں میں شامل ہوگئے، وہ بے نظیر بھٹو حکومت کی پالیسی اور پلاننگ کمیٹی کے رکن رہے۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف زرداری صدر پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے، تو انھوں نے انھیں اپنا پریس سیکریٹری مقرر کیا۔ وہ پیپلز پارٹی کی جانب سے کئی دفعہ خیبر پختون خوا سے سینیٹ کے رکن رہے۔ انھوں نے خواتین، ٹرانس جینڈر اور مظلوم طبقات کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہونے والی قانون سازی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
انھوں نے اطلاعات کے حصول کے قانون کی تیاری میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ انسانی حقوق کے مقدمات کی پیروی بھی کی۔ وہ ایچ آر سی پیP کے بانی ارکان میں شامل ہیں اور کمیشن کے بنیادی ادارے کے منتخب رکن بھی ہیں۔ وہ اس ادارے کو فعال کرنے میں ہمیشہ متحرک رہے اور انھوں نے اپنے اس مقصد کے لیے کبھی کسی بڑی رکاوٹ کو اہمیت نہیں دی۔
فرحت اللہ بابر لاپتہ افراد کے حوالے سے آئین کے تحت دیے گئے انسانی حقوق کے چارٹر اور سول و پولیٹیکل رائٹس کنونشنز جس پر پاکستان نے بھی دستخط کیے ہیں کے تحت اس مسئلے کے لیے کبھی سینیٹ میں آواز اٹھاتے ہیں تو کبھی عدالتوں کی سیڑھیوں پر اور کبھی نیشنل پریس کلب کے سامنے بینر اٹھائے نظر آتے ہیں۔
گزشتہ دفعہ پیپلز پارٹی نے فرحت اللہ بابر کو سینیٹ کا ٹکٹ دیا تو بابر صاحب کے پاس انتخابی فارم کے ساتھ زرِ ضمانت جمع کرانے کے لیے رقم موجود نہیں تھی۔ ان کے چند دوستوں نے چندہ جمع کر کے زرِ ضمانت کی رقم جمع کرائی تھی۔
فرحت اللہ بابر نے ہمیشہ پیپلز پارٹی میں رہ کر مظلوم طبقات کے لیے آواز اٹھائی مگر پیپلز پارٹی کی قیادت کی خاموشی سے بہت سے پوشیدہ حقائق آشکار ہورہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ بنانے پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے ۔ فرحت اللہ بابر پاکستان کی سول سوسائٹی کا استعارہ ہیں۔ رئیس فروغ کا یہ شعر بابر صاحب کی شخصیت پر پورا اترتا ہے:
عشق وہ کارِ مسلسل کہ ہم اپنے لیے
کوئی لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے