غزہ انسانیت کی قتل گاہ اور پیغام فضل الرحمن
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
کوئی شک نہیں کہ مولانا فضل الرحمن سمیت پاکستانی قوم کے دل مظلوم فلسطینیوں کے دلوں کے ساتھ دھڑک رہے ہیں،اگر آج کوئی فلسطینی مسلمانوں تک پہنچنے کے راستے کھول دے ،تو اس قوم کے ہزاروں بیٹے اسرائیلی خناسوں کو جہنم واصل کرنے کے لئے اپنا گھر ،باہر وطن ،مال جان قربان کرنے سے گریز نہ کریں، پاکستانی قوم کے ہیرو امیرالمجاہدین مولا نا محمد مسعود ازہر فرمایا کرتے تھے کہ بھارت اور اسرائیل لاتوں کے بھوت ہیں اور لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں،بلکہ جہادی ضربوں سے قابو آیا کرتے ہیں۔’’اسرائیل‘‘کا وجود امت مسلمہ کے جوانوں کی جہادی ضربوں کا منتظر ہے ،جہادی ضربوں کی بدولت جب اسرائیل کا وجود بکھرے گا تو پھر امریکہ سمیت دنیا کی کوئی طاقت اسے بچا نہیں سکے گی،مولانا فضل الرحمن اپنے ایک ویڈیو پیغام میں مسلم ممالک کے ’’غیرت مند‘‘ حکمرانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرتے ہو ئے کہتے ہیں کہ ’’ اسلامی دنیا کے حکمرانوں!تمہیں کیا ہوگیا ہے، اقتدار اور عزت اللہ کے ہاتھ میں ہے، پھر امریکہ کے سامنے کیوں سرنگوں ہو؟ کیا تم نے کلمہ توحید پڑھا ہے؟ توحید کا تقاضا صرف اللہ کے سامنے جھکنا ہے لیکن اسلامی دنیا کا حکمران امریکہ اور مغرب کے سامنے جھک رہا ہے، اللہ کے سامنے یہ ایمان کیسے قبول ہوگا؟ توحید کا یہ دعویٰ کیونکر اللہ کے حضور جھوٹا نہیں ہوگا، وقت ہے کہ سنبھل کر امت مسلمہ کی آواز بن جا، امت مسلمہ آج بھی ایک صف میں ہے لیکن حکمران جذبات کی ترجمانی نہیں کررہے۔
مسلمان حکمران امریکہ اور یورپ کی کٹھ پتلی بن چکے ہیں، امت مسلمہ کی نمائندگی کا حق ادا نہیں کر رہے، اسرائیل اپنے مذموم عزائم کی طرف بڑھ رہا ہے، گریٹر اسرائیل کی طرف بڑھتے قدموں سے کوئی عرب ملک نہیں بچ سکے گا، یہ مسئلہ ہمارے حرمین شریفین تک آئے گا،حرمین شریفین کا تحفظ کیا مسلمان حکمرانوں کا فریضہ نہیں ہوگا؟ یقین ہے کہ تمام تر سفاکیت اور عالمی قوتوں کی مضبوط پشت پناہی کے باوجود فلسطینیوں کی آزادی کا عزم نہیں ٹوٹے گا نہ مزاحمت کمزور ہوگی، امت مسلمہ ان کی پشت پناہ ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اللہ کی مدد اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ہے، ان شا اللہ کفر شکست کھائے گا، ذلیل و رسوا ہوگا اور اس کے عزائم ناکام ہوں گے، آج فلسطین میں غزہ کے مسلمانوں پر اسرائیلی صیہونی قوتوں کے ہاتھوں جو بیت رہی ہے یا بیت چکی ہے وہ تاریخ کے صفحات پر سیاہ دھبوں کے سوا کچھ نہیں، اسرائیل نے امن معاہدہ توڑ کر غزہ پر شب خون مارا ہے، اسرائیل کی یہ بزدلی تاریخ کا حصہ ہے، اسے بہادری کا عنوان کبھی نہیں دیا جاسکتا، اس قوم کی بزدلی پر قرآن کریم گواہ ہے، انہوں نے انبیا ء تک کو قتل کیا، انہوں نے رسول اللہ ﷺکے زمانے میں بھی معاہدات توڑے ہیں، یہ آج بھی اسی روش پر قائم اور ناقابل اعتماد قوم ہیں، فلسطین میں غزہ کے مسلمانوں کا خون پیا اور گوشت نوچا جا رہا ہے، ان کی ہڈیاں چبائی جارہی ہیں ،شیر خوار بچے زندگی اور موت کی کشمکش میں تڑپ رہے ہیں جو کچھ ہوا اسے انسانی عمل سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا یہ سفاکیت اور درندگی ہے نیتن یاہو جنگی مجرم ہے اسے عالمی عدالت انصاف نے گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے عالمی عدالت نے صیہونی قوتوں کی بمباریوں کو خلاف قانون اور جرم قرار دیا ہے، نہ عدالتوں کی سنی جارہی ہے اور نہ قانون کا احترام ہورہا ہے نہ اخلاقیات کا دائرہ موجود ہے نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار امریکہ اور یورپ انسانیت کے قتل پر صہیونیت کا ساتھ دے رہے ہیں ان کو حالیہ مہینوں میں ذلت آمیزشکست ہوئی، امن معاہدہ فلسطین اور غزہ کی عزت کا ذریعہ بنا، اسرائیل نے خفت مٹانے کے لئے شرمناک کردار کا آغاز کیا، گردن کٹ جانا شکست نہیں گردن جھک جانا شکست ہے، فلسطینیوں کے سر تو کٹ گئے لیکن جھکے نہیں، نہ سرنگوں ہوئے اور نہ ہجرت کی، آج وہاں انسانی سانحہ رونما ہے ،ساٹھ ہزار مسلمان شہید ہوچکے ہیں جن میں اٹھارہ ہزار بچے اور بارہ ہزار خواتین شامل ہیں، ڈیڑھ لاکھ زخمی ہیں تین لاکھ سے زائد عمارتیں تباہ، کوئی ایک کمرہ نہیں جہاں سر چھپایا جاسکے۔
عید الفطر بھی کھنڈرات بنے گھروں میں منائی، انہوں نے پیغام دیا ہے کہ ان حالات میں دنیائے اسلام کے شانہ بشانہ عید منا رہے ہیں، ان حالات میں معصوم بچوں کے بیانات سن کر شاباش دیتے ہیں کہ وہ ہمالیہ سے بلند ہمتوں والے ہیں، وہاں نہ ادویات ہیں نہ کھانے پینے کی کوئی چیز لیکن مسلمان حکمران خاموش ہیں، قرآن کریم میں جرم کرنے والے اور جرم پر خاموش رہنے والے برابر کے مجرم تصور کئے گئے ہیں، امت مسلمہ اپنے ملکوں میں اپنے حکمرانوں پر سیاسی دبا بڑھائے، یہ حکمرانوں کا ضمیر جھنجھوڑنے کا وقت ہے، ان کے اندر ذمہ داری کا احساس بڑھائیں، کیا پیسے کمانا،امریکہ و یورپ کی مدد حاصل کرنا، تجارت بڑھانا یہودیوں کے ساتھ تجارتی معاہدات کرنا تمہارے اہداف ہیں؟ یہی اہداف مسلمان حکمرانوں کی غلامی کا سبب ہیں، مسلمان آزاد پیدا ہوا ہے کوئی طاقت اسے غلام نہیں بنا سکتی، مولانا کہتے ہیں کہ پاکستان کے علماء کرام سے رابطہ کیا ہے، 10اپریل کو تمام مکاتب فکر کا کنونشن منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، کنونشن میں مشترکہ حکمت عملی اور موقف اپنایا جائے گا، 13 اپریل کو کراچی میں عظیم الشان اسرائیل مردہ باد مظاہرہ ہوگا۔
ابن اثیر نے اپنی کتاب ’’الکامل فی التاریخ‘‘ میں روایت کی ہے کہ جب منگولوں نے چنگیز خان کی قیادت میں بخارا پر حملہ کیا تو بخارا میں داخل نہ ہو سکے اس مرحلہ پر چنگیز خان نے بخارا کے لوگوں کو خط لکھا کہ جو ہمارے ساتھ مل جائے گا اس کو امان دی جائے گی اس پیغام پر شہر کے لوگ دو حصوں میں تقسیم ہو گئے ایک نے انکار کیا اور اپنی خون اور عزت کے دفاع کے لئے لڑنے کو ترجیح دی جب کہ دوسرے نے امان کی خاطر منگولوں کے خوف سے ان کی پیشکش قبول کر لی جب چنگیز خان کو دوسرے گروہ کی طرف سے اس پر جواب ملا تو اس نے کہا کہ اگر تم پہلے گروہ کے ساتھ لڑنے کے لئے ہماری مدد کرو تو ہم تمہیں نہ صرف امان دیں گے بلکہ شہر کا حاکم بنا دیں گے اور نظم و نسق تمہارے حوالے کر دیں گے پھر دونوں گروہ آپس میں صف آراء ہوئے اور چنگیز خان کا حامی گروہ فتح یاب ہوا اور مغلوں کے لئے شہر کے دروازے کھول دئیے چنگیز خان نے شہر میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے جو کام کیا وہ فاتح گروہ کو غیر مسلح کرنا تھا پھر اپنے لشکر کو حکم دیا کہ ان سب کو ذبح کر دیا جائے اور اپنا مشہور جملہ بولا کہ جو ہم اجنبیوں کے لئے اپنے بھائیوں سے غداری کر سکتے ہیں وہ ہمارے وفادار کیسے ہو سکتے ہیں۔اگر آپ لوگ مقاومہ کی عقیدے اور دین کی وجہ سے مدد نہیں کرنا چاہتے تو مصلح اور سیاس ان کی مدد کرو کیونکہ انہوں نے تمہارے دشمن کو مصروف کر رکھا ہے اور عقلمند آدمی جب اپنے دشمن کے شر سے بچنا چاہتا ہے تو دشمن کے دشمن کو مضبوط کرتا ہے کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ میرے دشمن کا دشمن میرا دوست ہونا چاہیے اور اگر دشمن کا دشمن آپ کا بھائی ہو اور دین اور عقیدے میں آپ کا ہم نوا ہو تو کیا اس کی مددآاپ پر واجب نہیں ہے اللہ کی قسم اگر مقامہ دم توڑ گئی تو خاکم بدہن تم دشمن کے ہاتھوں سے وہی بربادی دیکھو گے جو اہل غزا کے حصے میں آئی اور تم اہل غزہ کی حالت دیکھ چکے ہو۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: چنگیز خان کے سامنے انہوں نے کے ساتھ رہے ہیں اللہ کے کے لئے ہیں کہ کی مدد
پڑھیں:
آغا راحت نے پورے گلگت بلتستان کے عوام کی ترجمانی کی ہے، عطاء اللہ
سینئر رہنماء پاکستان پیپلزپارٹی گلگت بلتستان و امیدوار گلگت بلتستان اسمبلی حلقہ 2 چلاس نے ایک بیان میں کہا کہ سیکریٹری ثناء اللہ نے گلگت بلتستان کے ہر محکمے میں جہاں انکی پوسٹنگ ہوئی ہیں تباہی کے دانے پر پہنچا دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سینئر رہنماء پاکستان پیپلزپارٹی گلگت بلتستان و امیدوار گلگت بلتستان اسمبلی حلقہ 2 چلاس عطاء اللہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آغا راحت الحسینی کے گزشتہ جمعہ کے بیان پر صوبائی وزیر زراعت انجینئر محمد انور کے ردعمل پر حیرانگی ہوئی ہے، صوبائی وزیر موصوف نے ہمیشہ ایک کرپٹ اقرباء پرور تعصبی سیکریٹری کی پشت پناہی کی ہے، سیکریٹری ثناء اللہ نے گلگت بلتستان کے ہر محکمے میں جہاں انکی پوسٹنگ ہوئی ہیں تباہی کے دانے پر پہنچا دیا ہے۔ حاجی ثناء اللہ جب سیکریٹری تعلیم تھے تو محکمہ تعلیم میں غیر قانونی اور جعلی سرٹیفکیٹس پر بھرتیوں کی بھرمار کر کے نظام تعلیم کو مکمل طور پر تباہ کر دیا تھا، خاص طور پر ضلع دیامر میں تعلیمی نظام انکی وجہ سے برباد ہوا جس کی واضح مثال ایلیمنٹری بورڈ کا رزلٹ ہے اور جب محکمہ صحت میں سیکریٹری تعینات ہوئے تو اربوں کی مشینری کی خرید و فروخت میں کرپشن کا بازار گرم کر دیا، ابھی سیکرٹری برقیات ہیں تو خالی کاغذی اسسٹیمینٹس کی ایڈمن اپروول دے کر کروڑوں روپے کی کرپشن میں مصروف عمل ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سیکریٹری ثناء اللہ نے اپنے ساتھ مختلف ڈیلینگ کیلئے اپنے چھوٹے بھائی جو سرکاری ملازم بھی ہے ان کے ساتھ اپنے رشتہ داروں پر مشتمل ایک مخصوص ٹیم بنا رکھی ہے جو مختلف ٹھیکیداروں سے ٹھیکوں کی مد میں اور آفیسروں سے پوسٹنگ ٹرانسفری کی ڈیل کر کے گارنٹی پہ غیر قانونی کام کروانے کے ساتھ پیسے بھی بٹور رہے ہیں، ان کی دو نمبری سے گلگت بلتستان واقف ہے، صوبائی وزیر اور سیکریٹری ثناء اللہ کے خاندان نے ہمیشہ فرقہ واریت اور لسانیت کی سوچ کو فروغ دے کر پورے گلگت بلتستان کو اپنے نرغے میں رکھنے کی کوشش کی ہے، ان کی باتوں سے دیامر کے عوام کو کوئی سروکار نہیں، اب دیامر کے عوام یہ جان چکے ہیں اب یہ مافیا پورے گلگت بلتستان کو نگلنے پر تلا ہوا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ آغا راحت نے جو کچھ کہا ہے ہم اس کی مکمل تائید کرتے ہوئے متعلقہ اداروں سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ سید راحت نے جو باتیں کی ہیں ان پر بلاتفریق مکمل تحقیقات کر کے ملوث سیکریٹری اور وزیر اعلیٰ کو قرار واقعی سزا دی جائے، آغا راحت نے پورے گلگت بلتستان کے مظلوم عوام کی ترجمانی کی ہے جو ان سے ان کے ممبر و محراب کا تقاضا بھی ہے۔