زندگی کے روشن اور تاریک پہلوئوں کی حقیقت
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
زندگی ایک متنوع اور خوبصورت ترین احساس ہے۔ زندگی مشکلات، ناکامیوں اور تکالیف وغیرہ کی وجہ سے جتنی بھی تلخ اور کٹھن ہو، وہ بہرکیف جان لیوا اور تکلیف دہ موت سے بدرجہا بہتر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی دن اور رات کی مانند ہے جس میں جتنی اہمیت روشنی کی ہے اتنی ہی افادیت اندھیرے کی ہے۔ دنیا میں کتنے ہی ایسے پرامید اور روشن خیال (Optimistic) لوگ موجود ہیں جو مشکل حالات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں۔ دراصل زندگی کی حقیقت یہ ہے کہ یہ روشنی اور اندھیرے جیسی ہے یعنی زندگی کے دو رخ ہیں اس کا ایک رخ روشنی ہے اور دوسرا رخ اندھیرا ہے جس میں زندگی کے روشن حصے کو زندگی اور اندھیرے حصے کو موت کہا جاتا ہے۔ اس بنیاد پر انسانی معاشرے کے حوصلہ مند، بہادر اور جری افراد درد اور تکلیف سے بھی اتنا ہی بھرپور لطف اٹھاتے ہیں جتنا وہ وہ آرام اور آسائش کے دوران محسوس کرتے ہیں۔ اسی لئے وہ زندگی سے گزر بھی جائیں تو بعض لوگ دنیا میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے وہ زندگی اور موت کو برابر اہمیت دیتے ہیں۔ غم و آلام کے بغیر آسائشات اور خوشیوں کو محسوس کرنا تقریباً محال ہے۔ ایسے لوگ مقاصد کے لئے جیتے ہیں اور مقاصد کے حصول کے لئے مرتے ہیں۔
دنیا کے چند ترقی یافتہ ممالک میں کچھ صورتوں میں خودکشی کرنے کی قانونا اجازت ہے۔ لیکن یہ ایسا قانون ہے جو زندگی کے تاریک پہلوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ جو لوگ غمگین اور ناامید ہوتے ہیں وہ قنوطیت پسند (Sadist) کہلاتے ہیں۔ ناامیدی یا مایوسی کو اسی لئے “گناہ” قرار دیا گیا ہے کہ یہ زندگی کے بارے ناشکران نعمت ہے۔ انسانی زندگی میں غمزدگی کا ایسا انداز اور رویہ ’’ظلم پسندی‘‘ کے ضمرے میں آتا ہے۔ اس فلسفہ زندگی کا ہی نتیجہ ہے کہ دنیا کے جرائم پیشہ افراد برائی کرنے، دوسروں کا حق کھانے، جھوٹ بولنے اور یہاں تک کہ ’’منافقت‘‘ جیسے بدترین اعمال کو جاری رکھنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔ اس کے برعکس دنیا بھر میں تعلیم یافتہ اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا حامل ایک کثیر طبقہ ایسا موجود ہے جو غم اور خوشی کو برابر اہمیت دیتا ہے۔ اس طبقے میں شامل افراد مشکلات میں گھبراتے ہیں اور نہ ہی جدوجہد کرنا ترک کرتے ہیں۔ ایسے مثبت اور تعمیری کردار رکھنے والے لوگ کامیابیاں ملنے پر تفاخر محسوس نہیں کرتے ہیں بلکہ اس سے وہ احساس تشکر سے سرشار ہو جاتے ہیں جس سے وہ مزید مضبوط اور طاقتور بن جاتے ہیں۔
زندگی کے اس تعمیری نقطہ نظر کے مطابق جیسے روشنی کی اہمیت کا احساس اندھیرے کے بغیر ناممکن ہے اسی طرح غم برداشت کیے بغیر خوشی کو محسوس کرنا محال ہے۔ اصل بات یہ یے کہ ہمارے ناخوشگوار اور تکلیف دہ لمحات ہمارے اندر خوشی کے جذبات کو بیدار کرنے اور ابھارنے کے لئے آتے ہیں تاکہ ہم زندگی کے تاریک اور روشن دونوں پہلوں سے زندگی کا بھرپور لطف اٹھا سکیں۔ انگریزی زبان میں اسے Live life to its full extent کہتے ہیں یعنی زندگی جیسی یے اور جس حالت میں بھی یے اس سے مکمل استفادہ کر کے خوش و خرم زندگی گزاری جائے۔
دنیا میں بے شمار ایسے عظیم افراد گزرے ہیں اور اب بھی ہیں جنہوں نے جسمانی معذوری کے باوجود نہ صرف کامیاب اور بھرپور زندگی گزاری بلکہ دولت و ذرائع بھی جمع کیے اور پوری دنیا میں اپنی بلند استقامت اور جدوجہد کی وجہ سے نام بھی کمایا۔ ہمارے نظام شمسی کا سورج روزانہ نئی روشنی اور مواقع لے کر ابھرتا ہے۔ کچھ لوگ تکلیف دہ حالات و واقعات سے گزرتے ہیں تو زندگی سے تنگ آ کر ان کے منہ سے نکل جاتا ہے کہ، “اس زندگی سے تو موت بہتر ہے۔ لیکن یہ زندگی کے بارے میں ایک قنوطی اور پژمردہ نقطہ نظر ہے حالانکہ زندگی سے تنگ لوگ بھی اندر سے بہتر زندگی جینا چاہتے ہیں۔دنیا میں ایسا کونسا انسان ہے جو کامیاب، بہتر اور خوبصورت زندگی گزارنے کا متمنی نہیں ہے؟ زندگی کا تو مطلب ہی ’’دیکھئیے جا کر ٹھہرتی ہے نظر کہاں‘‘ کے مصداق حسن اور آسائش کی بہتر سے بہتر تلاش ہے۔ زندگی جیسی اور جیسے بھی حالات میں ہو اسے بھرپور طریقے سے جینا اور لطف اندوز ہونا آ جائے تو یہ ایسی عالیشان نعمت ہے کہ جسے لفظوں میں بیان کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ ہم عام انسانوں کا واسطہ عموما زندگی کے عام معمولات سے رہتا ہے اور ہم روزمرہ کی مصروفیات میں اتنے مگن ہو جاتے ہیں کہ ہم زندگی سے لطف تو اٹھاتے ہیں مگر اس طرف ہمارا دھیان ہی نہیں جاتا کہ زندگی کے ہر لمحہ میں ہم کیسی متنوع اور خوبصورت کیفیات سے گزرتے ہیں چہ جائیکہ ابھی تک انسان یہ تک معلوم نہیں کر سکا ہے کہ خود زندگی کیا چیز ہے یا اس کے قائم ہونے سے انسان یا دیگر جانداروں میں جو شعور پیدا ہوتا ہے وہ کیا چیز ہے؟
زندگی ایسی حسین اور یادگار ہے کہ اس کی ایک ایک کیفیت میں جاں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے۔ اس بات کو وہی محسوس کر سکتا ہے جس کا علم، ادراک اور شعور بدرجہا بیدار ہو جاتا ہے۔ زندگی کا یہ معیار ہر انسان کے تفکر اور آگہی کے لیول پر منحصر ہے۔ ایک یونانی فلسفی اور دانشور کا قول ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی بھی بڑے کام کو انجام دینے کے لئے تھوڑے بہت پاگل پن کا ہونا لازمی ہے۔ اس مقولے کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ کوئی بڑا کام یا کارنامہ پاگل پن کے بغیر کیا ہی نہیں جا سکتا ہے۔
یہ 1929 ء کی بات ہے جب برلن کے ایک ہسپتال میں ایک نوجوان جرمن ڈاکٹر نے ایک ایسا تجربہ کیا جس نے طب کی دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔ اس کا نام تھا: ڈاکٹر ورنر فورسمین (Werner Forssmann) تھا۔ تب تک میڈیکل ڈاکٹروں کا ماننا تھا کہ دل تک کوئی نلکی (کیتھیٹر) پہنچانا جان لیوا ہو سکتا ہے، لیکن فورسمین کے دل میں ایک اور ہی جستجو دھڑک رہی تھی۔ اس کو محاورتا یقین تھا کہ جان بچانے کے لئے پہلے خود جان دینا پڑتی ہے۔ہسپتال کی انتظامیہ نے اسے اس تجربے کی اجازت نہ دی، مگر وہ رکا نہیں۔ اس نے اپنی نرس کو قائل کیا کہ وہ اس پر یہ تجربہ کرے۔ جب وہ نرس نلکی لے کر پلٹی، تو فورسمین نے کہا، ’’نہیں، میں خود پر یہ تجربہ کروں گا۔‘‘ اور پھر اس نے خود اپنی کہنی کی رگ میں ایک لمبی نلکی داخل کی اور اسے دل کی طرف بڑھایا۔ وہ ہسپتال کے ایکسرے روم تک چلا گیا، جہاں اس نے خود اپنے سینے کا ایکسرے کروایا۔
تصویر میں صاف نظر آیا کہ نلکی سیدھی اس کے دل کے قریب پہنچ چکی تھی۔تصور کیجیے کہ ایک نوجوان ڈاکٹر، اپنے جسم پر تجربہ کر رہا ہے، صرف اس لئے کہ آنے والے وقتوں میں دل کی بیماریاں بغیر چاک کئے دیکھی اور سمجھی جا سکیں۔ اسے پاگل کہا گیا۔ ہسپتال سے نکال دیا گیا۔ برسوں تک کسی نے اس کی بات نہ مانی۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ وہ پاگل نہیں بلکہ پیش رو تھا۔ کئی سال بعد، اس کے تجربے کو بنیاد بنا کر کارڈیک کیتھیٹرائزیشن عام ہو گئی، وہی عمل جس سے آج لاکھوں جانیں بچائی جاتی ہیں۔اور پھر اسے وہ اعزاز ملا جس کا ہر سائنسدان خواب دیکھتا ہے یعنی اسے 1956 ء میں ’’نوبیل انعام‘‘ برائے طب سے نواز گیا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کرتے ہیں دنیا میں زندگی سے زندگی کے زندگی کا ہیں اور میں ایک سکتا ہے کی وجہ کے لئے
پڑھیں:
غزہ، امن کا منظر نامہ دھندلا رہا ہے
غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے بعد 62 ویں دن شدید موسم اور بارش نے خیموں میں قیام پذیر فلسطینیوں کی مصیبتیں مزید بڑھا دیں۔ المواصی میں پانی خیموں میں داخل ہوگیا، انسانی حالات مزید ابتر ہوگئے۔ دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ نے غزہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے آغاز کو موخرکردیا اورکہا کہ ’’ غزہ امن بورڈ‘‘ کا اعلان فی الحال روک دیا گیا ہے۔ میڈیا کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوج نے 29 فلسطینی صحافیوں کو قتل کیا جو کہ اس سال دنیا بھر میں قتل ہونے والے صحافیوں کے مجموعی اعداد و شمار کا 43 فیصد بنتا ہے۔
غزہ کی سرزمین اس وقت انسانی المیے کی ایسی گواہ بن چکی ہے جس کی مثال جدید تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ جنگ بندی کے اعلان کو دو ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، مگر جس امن کی امید اس وقفے سے وابستہ کی گئی تھی وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید دھندلا رہا ہے۔ حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ جنگ کے شعلوں سے بچ کر خیموں میں پناہ لینے والے فلسطینی اب بارش، سردی، بیماری اور بھوک کے دوسرے جہنم میں دھکیل دیے گئے ہیں۔ المواصی جیسے نسبتاً محفوظ سمجھے جانے والے علاقوں میں بارش کا پانی خیموں میں داخل ہو چکا ہے، جس نے نہ صرف رہائش کو ناممکن بنا دیا ہے بلکہ خوراک اور ادویات کی بچی کھچی فراہمی کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ غزہ کے لاکھوں بے گھر افراد کے لیے یہ موسم محض ایک موسمی تبدیلی نہیں بلکہ موت کا دوسرا چہرہ بن کر ابھرا ہے۔ شدید سردی، آلودہ پانی، دلدلی زمین، بیماریوں کے تیز رفتار پھیلاؤ اور خوراک کی کمی نے انسانی بحران کو اس حد تک بڑھا دیا ہے کہ عالمی ادارے اسے ’’ ناقابلِ تصور‘‘ اور ’’ناقابلِ قبول‘‘ قرار دے رہے ہیں۔
جنگ بندی کے دعوئوں کے باوجود اسرائیلی فوج کی کارروائیاں رکی نہیں۔ معاہدے کے 62 ویں دن بھی مزید چار فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا، اور مجموعی طور پر اس وقفے کے دوران 386 سے زیادہ افراد اپنی جان سے گئے۔ اس صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ جس چیز کو جنگ بندی کہا جا رہا ہے وہ در حقیقت ایک خطرناک فریب ہے۔ ہتھیاروں کی آواز بظاہر دھیمی پڑی ہے مگر فلسطینیوں کی قبروں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ دنیا کی اخلاقی ذمے داری ہے کہ وہ اس تضاد کو سمجھے اور اسے ایک ’’سیاسی اصطلاح‘‘ کے بجائے ’’انسانی تباہی‘‘ کے تناظر میں دیکھے۔دراصل فلسطینیوں کی زندگیوں کا معاملہ عالمی سیاست کے بڑے کھیل میں ایک قابلِ استعمال مہرے سے زیادہ کچھ نہیں۔
اقوامِ متحدہ میں امریکا کی سفیر کا یہ کہنا کہ ’’ٹرمپ کی سربراہی میں امن کونسل معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی کرے گی‘‘ دراصل ایک ایسا بیان ہے جس کی بنیاد پر کوئی فریق بھی حقیقی اطمینان محسوس نہیں کر سکتا۔ پچھلے کئی عشروں نے ثابت کردیا ہے کہ امریکا کی ’’نگرانی‘‘ اکثر طاقت کے پلڑے کو مزید جھکا دیتی ہے، نہ کہ انصاف کے توازن کو۔ عالمی برادری کو یہ سمجھنا ہوگا کہ امن صرف نعرے اور بریفنگ کی زبان میں قائم نہیں ہوتا، بلکہ عملی غیر جانب داری اور انسانی وقار کی پاسداری سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔اسی پس منظر میں اسرائیل نہ صرف جنگ کے قوانین بلکہ اطلاعات کی آزادی اور صحافت کے بنیادی اصولوں کو بھی مسلسل پامال کر رہا ہے۔
یہ حقیقت بھی انتہائی تشویش ناک ہے کہ غزہ پر اسرائیلی یلغار کے آغاز یعنی اکتوبر 2023 سے اب تک تقریباً 220 صحافی قتل کیے جا چکے ہیں۔ یہ مسلسل تیسرا سال ہے جب اسرائیل دنیا کے لیے سب سے خطرناک ملک ثابت ہوا ہے، جہاں صحافیوں کا قتل محض ’’حادثہ‘‘ نہیں بلکہ ایک منظم حکمتِ عملی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ عالمی میڈیا اور حقوقِ انسانی کی تنظیمیں بارہا یہ مطالبہ کر چکی ہیں کہ صحافیوں کو جنگی نشانہ بنانے کو جنگی جرم قرار دیا جائے۔ مگر بدقسمتی سے طاقتور ملکوں کے سیاسی مفادات نے ہمیشہ انصاف کی راہ میں دیوار بن کر کھڑے رہنے کا کردار ادا کیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ صحافیوں کے قتل پر اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرایا جانا ضروری ہے، اگر دنیا اس قتلِ حقیقت پر بھی خاموش رہے تو آنے والی نسلیں اس عصر کو ایک ایسے دور کے طور پر یاد کریں گی جہاں طاقت نے سچ کو شکست دینے کی کوشش کی اور دنیا نے تماشائی بن کر یہ ظلم دیکھا۔
غزہ کے اسپتالوں اور رہائشی علاقوں پر حملے محض عسکری تنصیبات ’’سمجھنے‘‘ کی غلطی نہیں بلکہ گہری منصوبہ بندی کا نتیجہ ہیں۔ آر ایس ایف کی رپورٹ کے مطابق رواں سال 25 اگست کو جنوبی غزہ کے ایک اسپتال پر کیا جانے والا حملہ ’’سب سے خوفناک واقعہ‘‘ تھا جس میں پانچ صحافی ایک ہی دن میں جاں بحق ہوگئے۔ اس تمام منظر نامے میں اسرائیل کی جانب سے مسلسل یہ دعوے بھی کیے جا رہے ہیں کہ ’’حماس کو غیر مسلح کیا جائے گا۔‘‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ جنگی جرائم، محاصروں، بھوک، بیماری اور مسموم حالات نے جس نسل کی پرورش کی ہے، وہ ہتھیاروں سے زیادہ مظلومیت کی تاریخ رکھتی ہے۔ دنیا کی طاقتیں یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مزاحمت کا خاتمہ بمباری سے نہیں بلکہ انصاف سے ہوتا ہے۔ اور جب انصاف مسلسل غیر حاضر ہو تو مزاحمت نہ ختم ہوتی ہے نہ اس کی مثالیں مٹتی ہیں۔
غزہ کی موجودہ نسل نے اپنی زندگی صرف بمباری، محاصروں، بھوک، خوف اور بے گھر ہونے میں گزاری ہے۔ وہ دنیا کی ان پالیسیوں کو اچھی طرح سمجھتی ہے جن میں طاقتور ملکوں کے سیاسی اور معاشی مفادات انسانی زندگی سے زیادہ اہم ہیں۔ جب ایک پوری نسل اپنے اردگرد صرف ملبہ، جنازے اور ظلم دیکھتی ہے تو وہ بے حسی کا شکار نہیں ہوتی بلکہ اپنی شناخت دوبارہ تعمیر کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی نوجوان مزاحمت کی نئی شکلیں اختیار کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت عالمی برادری کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے کہ ظلم کے خلاف مزاحمت صرف اسلحہ نہیں بلکہ شعور، کلمہ سچ اور مسلسل جدوجہد سے بھی پروان چڑھتی ہے۔
دنیا کی تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں انسانی ضمیر کا امتحان لیا گیا، مگر گزشتہ برسوں میں اور بالخصوص حالیہ مہینوں میں غزہ میں جاری تباہی نے اس امتحان کو ایک ایسے موڑ پر پہنچا دیا ہے جہاں اب خاموشی بھی جرم ہے اور لاتعلقی بھی ظلم کا ساتھ تصور ہوتی ہے۔ غزہ کے بچے، عورتیں، مرد، صحافی، معلم، ڈاکٹر اور عام شہری مسلسل بمباری، محاصرے، بھوک، پیاس اور بے گھر ہونے کے اذیت ناک مراحل سے گزر رہے ہیں۔ مگر اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ ظلم کا شکار صرف انسان نہیں بلکہ سچائی، انصاف، صحافت اور عالمی ضمیر بھی اس بربریت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔غزہ کا مسئلہ محض فلسطینیوں تک محدود نہیں، یہ وہ آئینہ ہے جس میں پوری دنیا کی اخلاقی سمت، سیاسی ترجیحات اور انسانی قدریں واضح طور پر دکھائی دیتی ہیں۔ روزانہ مرنے والے بچوں کا سوال صرف فلسطین کا سوال نہیں، بلکہ یہ انسانیت کے اجتماعی ضمیر کا سوال ہے۔
کیا دنیا اپنی آنکھوں کے سامنے انسانیت کے قتلِ عام پر خاموش رہے گی؟ کیا عالمی ادارے، اقوامِ متحدہ سے لے کر انسانی حقوق کی تنظیموں تک، اپنی بے بسی یا بے عملی کو ’’غیر جانبداری‘‘ کا نام دیتے رہیں گے؟ یا پھر دنیا قومیت، نسل، مذہب اور جغرافیے سے بالاتر ہو کر انسان کی بنیادی حرمت کو مقدم رکھے گی؟
غزہ کا مسئلہ سب سے پہلے انصاف کا مسئلہ ہے۔ انصاف کا اصول یہ ہے کہ طاقتور اور کمزور دونوں کو یکساں حق دیا جائے، مگر زمین پر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دنیا کا نظام اُس وقت تلخ سچائی بیان کرتا ہے جب عالمی عدالتیں صرف کمزور ممالک یا غیر ہم نوا ریاستوں کے خلاف تو سرگرم دکھائی دیتی ہیں، مگر جب ایک ایسی طاقت ظلم ڈھائے جو بڑی قوتوں کی حلیف ہو، اُس کے خلاف زبانیں گنگ اور قلم مفلوج ہوجاتے ہیں۔ غزہ میں لاکھوں انسانوں کو اجتماعی سزا دینا، بنیادی ضرورتوں کا محاصرہ، پانی اور خوراک کی بندش، اسپتالوں کی تباہی، پناہ گاہوں پر حملے، یہ سب کچھ بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزیاں ہیں، مگر انصاف کے علمبردار اداروں کی خاموشی خود ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے۔
یہ معاملہ انسانیت کا بھی ہے۔ دنیا میں اگر کہیں بھی کوئی بچہ بھوک سے مرتا ہے، کوئی عورت ملبے تلے سسک رہی ہے، کوئی بیمار دوا کے بغیر جان دے رہا ہے، تو انسانیت کا دعویٰ رکھنے والی دنیا کو اُس کا دکھ محسوس کرنا چاہیے، لیکن غزہ کے معاملے میں دنیا کی اکثریت نے بچوں کی چیخوں کو پس منظر کا شور سمجھ کر نظر انداز کردیا۔ بعض ممالک نے تو یہ بے حسی اختیار کی کہ جنگی مشینری کو مزید ایندھن فراہم کرنے لگے۔ انسانیت کی حرمت کا تقاضا تھا کہ دنیا متحد ہو کر ظلم کو روکتی، مگر افسوس کہ اکثر طاقتیں سیاسی مفادات کی غلام بن کر رہ گئیں۔
غزہ کا مسئلہ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں، یہ انصاف، انسانیت، صحافت، سچائی اور عالمی امن کا مسئلہ ہے۔ دنیا کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کس طرف کھڑی ہے۔ مظلوم کے ساتھ یا طاقت کے نشے میں بدمست جارحیت کے ساتھ؟ اگر عالمی ضمیر نے اب بھی جاگنے سے انکار کیا تو تاریخ کے صفحات پر اس دور کی قیادت کے لیے صرف ایک ہی جملہ لکھا جائے گا:’’انھوں نے ظلم دیکھا، مگر خاموش رہے۔‘‘