علحیدگی پسند اور مزاحمتی تحریکیں کیا ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں یا ایک دوسرے سے قطعی الگ؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
علیحدگی پسند تحریک
علیحدگی پسند تحریکوں کا مقصد کسی مخصوص علاقے، قوم، نسل، یا مذہبی گروہ کے لیے ایک علیحدہ خودمختار ریاست کا قیام یا کسی دوسرے ملک سے الحاق ہوتا ہے۔ موجودہ ریاست سے علیحدگی ان کا بنیادی مقصد ہوتا ہے۔ یہ تحریکیں بعض اوقات سیاسی مذاکرات، ریفرنڈم اور دیگر قانونی ذرائع اپناتی ہیں، جبکہ بعض صورتوں میں مسلح جدوجہد ان کا نصب العین ہوتی ہے۔
مزاحمتی تحریکدوسری جانب مزاحمتی تحریکیں ریاستی جبر، قبضے، یا ناانصافی کے خلاف جدوجہد کے لیے چلائی جاتی ہیں۔ ان کا مقصد علیحدگی نہیں بلکہ آزادی، حقوق کی بحالی یا غیر پسندیدہ عناصر کے خلاف مزاحمت کرنا ہوتا ہے۔
مزاحمتی تحریکیں عام طور پر اس بنیاد پر عوامی پذیرائی پاتی ہیں کہ متعلقہ قوم یا نسل کو اپنے سیاسی، ثقافتی، لسانی یا معاشی حقوق پورے طور پر نہیں مل رہے ہوتے یا موجودہ ریاستی ڈھانچے میں وہ خود کو کمتر یا غیر مطمئن محسوس کرتے ہیں۔
(جاری ہے)
دنیا میں علیحدگی پسند اور مزاحمتی تحریکوں کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ اگرچہ ان کی شکل اور مقاصد وقت کے ساتھ بدلتے رہے ہیں، لیکن بنیادی اصول ہمیشہ ایک جیسے رہے ہیں، یعنی سیاسی خودمختاری، آزادی، اور ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت۔
زمانہ قدیم میں رومی سلطنت کے خلاف اسپارٹیکس جیسی بغاوتیں ہوں یا چین اور دیگر علاقوں میں قبائلی بغاوتیں۔
13ویں صدی میں اسکاٹ لینڈ کی آزادی کی تحریک ہو یا صلیبی جنگوں کے خلاف مزاحمت، امریکہ کی برطانوی تسلط سے آزادی یا فرانسیسی انقلاب کا برپا ہونا۔ ویت نام کی آزادی کے لیے جنگیں ہوں یا فلسطین و کشمیر میں جاری مزاحمتی تحریکیں،1857 کی جنگِ آزادی یا برطانوی سامراجیت کے خلاف برصغیر کی تحریک آزادی کا ڈنکا بجنا ہو۔ ہر تحریک کے پیچھے طاقت ور حلقوں کا جبر، ملکی وسائل پر قبضہ، مقتدرہ حلقوں کی عوام کے پیسے پر عیاشیاں اور بدمعاشیاں اور غیرانسانی سلوک نمایاں محرکات ہوتے ہیں۔حال ہی میں "بلوچ یکجہتی کمیٹی" کی دو رہنماؤں ماہ رنگ بلوچ اور سمی بلوچ کی گرفتاری کے بعد بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کا المناک مسئلہ ایک بار پھر شدت اختیار کر گیا ہے۔ سمی بلوچ کو ایک ہفتے کی قید کے بعد رہا کر دیا گیا، مگر ڈاکٹر ماہ رنگ تاحال ریاستی تحویل میں ہیں۔ ریاستِ پاکستان ان خواتین کو بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) سے منسلک کرنے پر مُصر ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں نوجوان خواتین بلوچستان کی ان ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی آواز ہیں، جن کے بھائی، شوہر اور بیٹے یا تو لاپتا کر دیے گئے ہیں یا ان کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہو چکی ہیں۔
یہ خواتین درحقیقت انسانی حقوق کی وہ علمبردار ہیں جو انصاف اور بنیادی حقوق کی بحالی کا مطالبہ کر رہی ہیں کیونکہ دونوں ہی المناک حادثات سے گزر چکی ہیں۔ سن 80 میں رسول بخش پلیجو کی سربراہی میں جنرل ضیاء کی آمریت کے خلاف ''سندھیانی تحریک‘‘ پاکستانی خواتین کی پہلی ایسی تحریک تھی، جس میں ہزاروں عورتوں نے حصہ لیا اور اب بلوچ خواتین کی یہ مزاحمتی تحریک اپنے پیاروں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف پاکستان کی سب سے بڑی تحریک بن کر ابھری ہے، جس میں 10 سال کی بچیوں سے لے کر 80 سال کی عمر رسیدہ خواتین تک شامل ہیں۔
جب کسی ریاست کے کسی خطے میں علیحدگی پسند یا مزاحمتی تحریک جنم لیتی ہے، تو یہ ایک واضح اشارہ ہوتا ہے کہ ریاست وہاں کے عوام کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بلوچستان کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ یہ خطہ، جو زیرزمین معدنیات سے مالا مال ملک کا سب سے خوش حال صوبہ ہو سکتا تھا لیکن پچھلے 75 سال سے بدترین معاشی حالات، غربت اور بنیادی سہولتوں کے فقدان کا شکار ہے۔
بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک، جو روز بروز پرتشدد ہوتی جا رہی ہے اس کی شروعات کب، کیسے اور کیوں ہوئی اسے سمجھنا بے حد ضروری ہے ـجیسا کہ عمومی طور پر یہ رائے پائی جاتی ہے کہ بلوچستان کی پسماندگی کا اصل سبب وہاں کے سردار ہیں، تو بظاہر یہ جواز کسی حد تک درست محسوس ہوتا ہے مگر یہ مکمل حقیقت ہرگز نہیں۔ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو برطانوی سامراج نے بھی اپنی عمل داری اور مفادات کو مستحکم رکھنے کے لیے انہی سرداروں، وڈیروں اور زمینداروں سے مفاہمت کی اور یوں اقتدار کی گاڑی کو آگے بڑھایا۔
بدقسمتی سے وہی نوآبادیاتی طرزِ حکمرانی آج بھی جاری و ساری ہے۔یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ بلوچستان کے کہنہ مشق، صاحبِ بصیرت سیاست دان میر غوث بخش بزنجو پاکستان کے ساتھ الحاق کے حامی نہ تھے تاہم جب بلوچستان کو پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا تو انہوں نے نہایت دیانت داری سے جمہوری عمل کا احترام کیا اور کسی علیحدگی پسند تحریک کا حصہ بننے سے گریز کیا اور مرتے دم تک اس موقف پر قائم رہے۔
بلوچستان میں پنجابیوں یا دیگر غیر مقامی اقوام کے خلاف پائے جانے والے ردِ عمل کو سمجھنے کے لیے لازم ہے کہ 'ون یونٹ‘ کا ذکر کریں۔ 1955 میں ون یونٹ کے قیام نے جہاں مغربی پاکستان میں بسنے والی چھوٹی قوموں کو بے حد نقصان پہنچایا وہیں بلوچستان میں بھی احساسِ محرومی کو جنم دیا۔ اس سے قبل بلوچستان ایک مکمل صوبہ نہ تھا بلکہ برطانوی اور ریاستی بلوچستان پر مشتمل ایک نیم خودمختار خطہ تھا۔
ون یونٹ کے قیام کے بعد جب مغربی پاکستان کا دارالحکومت لاہور قرار پایا تو بلوچستان کے عوام کو اپنے مسائل کے حل کے لیے مقامی نمائندوں کی بجائے دور دراز مرکز کی جانب دیکھنا پڑا۔اسی دوران ریاستی مشینری میں غیر مقامی افراد، بالخصوص پنجاب اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھرتی شروع ہوئی، جو بعد ازاں بلوچستان کے ہر شعبے پر حاوی ہو گئے۔
جب سکیورٹی کے اداروں یعنی سول و عسکری بیوروکریسی، پولیس اور دیگر ایجنسیوں میں بھی مقامی افراد کی جگہ باہر سے آئے ہوئے لوگ تعینات ہونے لگے، تو بلوچ عوام کے دلوں میں اجنبیت اور محرومی کا احساس مزید گہرا ہوتا گیا۔ آج بلوچستان کے ہر شہر، ہر گلی، ہر موڑ پر سکیورٹی کے نام پر قائم چیک پوسٹوں پر تعینات غیر مقامی اہلکار جب مقامی بلوچوں سے ان کی شناخت طلب کرتے ہیں، تو یہ نہ صرف ان کی قومی شناخت بلکہ ان کی عزتِ نفس پر بھی سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔بلوچستان کی مزاحمتی تحریک کی جڑیں بھی اسی عدم مساوات، اجنبیت اور استحصال میں پیوست ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ جس سرزمین سے گیس نکلی، وہاں کے باسی آج بھی لکڑیاں جلا کر چولہا گرم کرتے ہیں۔ سوئی کی گیس نے بڑے شہروں کو تو توانائی دی، مگر سوئی خود توانائی کی کمی کا شکار رہا ۔
بلوچستان کے قدرتی وسائل، خصوصاً ریکوڈک اور سیندک، مقامی ترقی کا ذریعہ بننے کے بجائے استحصالی پالیسیوں کی نذر ہو گئے۔
جب وسائل پر قابض قوتیں مقامی آبادی کو اعتماد میں لیے بغیر خفیہ معاہدے کرتی ہیں، تو یہ منصوبے عوامی فلاح نہیں بلکہ ریاستی جبر کی علامت بن جاتے ہیں تاہم، ان منصوبوں میں مقامی شرکت کے فقدان اور ریاستی سطح پر شفافیت کی کمی پر جب بلوچ عوام نے آواز اٹھائی تو انھیں لاپتا کر کے یا مسخ شدہ لاشیں پھینک کر ان آوازوں کو دبانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن اب ماہ رنگ بلوچ اور سمی بلوچ کی صورت میں بلوچوں کو عوامی رہمنا میسر آئیں ہیں اور یہ تحریک اب بلوچستان ہی نہیں پاکستان میں عورتوں کی سب سے بڑی مزاحمتی تحریک بن چکی ہے، جس کے آگے ریاستی ہتھکنڈے بھی اب کوئی بند نہیں باندھ پارہے ہیں۔وقت کا تقاضا ہے کہ ریاستی و حکومتی ادارے بلوچستان کے حقیقی عوامی و سیاسی نمائندوں کو قومی سیاسی دھارے میں شامل کریں اور ان کے ساتھ سنجیدہ و بامقصد گفت و شنید کا آغاز کریں۔
بلوچستان کے عوام طویل عرصے سے محرومیوں کا شکار ہیں، جنہیں دور کرنے کے لیے بنیادی انسانی، سماجی و اقتصادی حقوق کی فوری اور منصفانہ فراہمی ناگزیر ہے۔حالات کا تقاضا ہے کہ لاپتا افراد کے مسئلے کو شفاف قانونی طریقے سے حل کیا جائے۔ اگر کوئی فرد کسی تخریبی یا دہشت گردانہ سرگرمی میں ملوث ہے تو اسے قانون کے مطابق عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ عدالتی عمل کے ذریعے سچ سامنے آ سکے۔
امن و امان کی بحالی اور دیرپا استحکام کے لیے ضروری ہے کہ طاقت کے استعمال کے بجائے مفاہمت، مکالمے اور سیاسی شعور کو فروغ دیا جائے۔ بلوچستان کے مسائل کا حل طاقت سے نہیں، بلکہ افہام و تفہیم اور سنجیدہ سیاسی عمل کے ذریعے ہی ممکن ہے اور یہی ملک میں پائیدار امن اور ترقی کی بنیاد بن سکتا ہے۔دوسری اہم ضرورت دہشتگردی کا خاتمہ ہے چاہے وہ مذہبی بنیاد پر ہو یا قومیت کے نام پر۔
عام شہریوں کی ہلاکت اور دہشت گردی کی مذمت بلوچ عوام اور ان کے رہنماؤں کو بھی کرنی چاہیے کیونکہ دشت گردی کا شکار ہمیشہ معصوم اور بے قصور لوگ ہی بنتے ہیں۔ بی ایل اے کی حالیہ دہشت گردانہ کارروائیوں کی یک زبان ہو کر مذمت کرنا بھی ضروری ہے۔امن و امان کی بحالی اور دیرپا استحکام کے لیے ضروری ہے کہ طاقت کے استعمال کے بجائے مفاہمت، مکالمے اور سیاسی شعور کو فروغ دیا جائے۔
بلوچستان کے مسائل کا حل طاقت سے نہیں، بلکہ افہام و تفہیم اور سنجیدہ سیاسی عمل کے ذریعے ہی ممکن ہے اور یہی ملک میں پائیدار امن اور ترقی کی بنیاد بن سکتا ہے۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے علیحدگی پسند تحریک مزاحمتی تحریکیں مزاحمتی تحریک بلوچستان میں بلوچستان کے کی بحالی ضروری ہے ہوتا ہے کا شکار کے خلاف حقوق کی کے لیے
پڑھیں:
کسی صوبے کا پانی دوسرے صوبے کے حصے میں نہیں جاسکتا: رانا ثناء اللّٰہ
وزیرِ اعظم شہباز شریف کے مشیر برائے بین الصوبائی رابطہ رانا ثناء اللّٰہ—فائل فوٹووزیرِ اعظم شہباز شریف کے مشیر برائے بین الصوبائی رابطہ رانا ثناء اللّٰہ نے کہا ہے کہ کسی صوبے کا پانی دوسرے صوبے کے حصے میں نہیں جاسکتا، اس امر کو یقینی بنانے کے لیے ملک میں آئینی طریقہ کار اور قوانین موجود ہیں۔
ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ پانی کے مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے، معاملات میز پر بیٹھ کر حل کرنے چاہئیں۔
رانا ثناء اللّٰہ کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے پیپلز پارٹی سے بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
کراچی جیوکے پروگرام’نیا پاکستان شہزاد اقبال کے...
مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا کہ اکائیوں کے پانی سمیت وسائل کی منصفانہ تقسیم پر مکمل یقین رکھتے ہیں، پیپلز پارٹی وفاق کا حصہ ہے، آئینی عہدوں پر رہتے ہوئے بات زیادہ ذمہ داری سے کرنی چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمیں پیپلز پارٹی کی قیادت کا بہت احترام ہے، 1991ء میں صوبوں کے درمیان ہونے والے معاہدے اور ارسا ایکٹ کی موجودگی میں کسی سے ناانصافی نہیں ہو سکتی۔
انہوں نے کہا کہ اکائیوں کی مضبوطی کو وفاق کی مضبوطی سمجھتے ہیں، ماضی کی طرح اسی طرز عمل پر چلتے رہیں گے۔
رانا ثناء اللّٰہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اکائیوں اور اس میں رہنے والے عوام کے حقوق کے تحفظ پر سمجھوتا کیا نہ کریں گے، بات چیت اور مشاورت ہی ہر مسئلے کا حل ہے۔