PTI ٹاپ لیڈرشپ آمنے سامنے،کارکن تذبذب کاشکار
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
اسلام آباد(طارق محمودسمیر)بانی پی ٹی آئی عمران خان سے بیرسٹرگوہر اور بیرسٹرعلی ظفرسمیت دیگروکلاء کی ملاقات کو پارٹی سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجاکی طرف سے متنازع بنانے اور پارٹی کے اہم رہنماؤں کا نام لئے بغیرانہیں مقتدرہ کا مہرہ قراردینے کے سخت بیان کے بعد تحریک انصاف میں چپقلش اور دھڑے بندی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ پارٹی چیئرمین بیرسٹرگوہراور سینیٹ میں پارلیمانی لیڈرعلی ظفرنے بھی سخت ردعمل کااظہارکردیاہیاور پارٹی کے سیکرٹری جنرل کے الزامات کو مستردکرکے انہیں اپنی حدود میں رہنے کامشورہ بھی دے دیاہے،گزشتہ روزعمران خان سے اڈیالہ جیل میں بیرسٹرگوہر،بیرسٹرعلی ظفرسمیت چھ وکلاء کی ملاقات کرائی گئی جب کہ علیمہ خان سمیت تین بہنوں اور کزن قاسم نیاز ی کی عمران خان سے ملاقات نہیں ہونے دی گئی،سلمان اکرم راجاکو پولیس نے ایک ناکے پرروکے رکھا،ان واقعات کے بعد خیبرپختونخواہاوس میں ایک پریس کانفرنس منعقد کی گئی لیکن حیران کن طور پر حکومت اور اداروں پرتنقید کرتے ہوئے سلمان اکرم راجانے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے پارٹی چیئرمین بیرسٹرگوہراور بیرسٹرعلی ظفر کو نہ صرف شدید تنقیدکانشانہ بنایا بلکہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کامہرہ بھی قراردے دیااور یہ موقف اپنایاکہ بیرسٹرگوہرکانام توانہوں نے لیاہی نہیں تھاوہ کیسے ملنے چلے گئے؟عمران خان کی بہنون کو ملنے نہیںدیاجارہا،سلمان اکرم راجاکے اس بیان کی سوشل میڈیاپربہت تشہیرہوئی اور تحریک انصاف کے حامیوں نے سلمان اکرم راجاکو بہادراور جرات مند لیڈرقراردیاجب کہ بیرسٹرگوہر،بیرسٹرعلی ظفراورپارٹی کے دیگررہنماوں جن میں اعظم سواتی بھی شامل ہیں ان کی ٹرولنگ کی گئی اور انہیں اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ قراددیاگیا،بدھ کو پارلیمنٹ ہاوس میں بات چیت کرتیہوئے بیرسٹرگوہرنے بھی سخت ردعمل دیااور انہوںنے سلمان اکرم راجاکو کڑاجواب دیااور کہاکہ اس سے پہلے وہ ہم پرتنقیدکریں اس بات کو جواب د ے دیں کہ جب ماضی میں عمران خان کی بہنوں کو ملاقات سے روکاگیاتوسلمان خود کیوں عمران سے ملنے چلے گئے تھے؟ان کااندازاورلب ولہجہ نامناسب تھابیرسٹرعلی ظفرقابل احترام ہیں اور ان پر تنقیددرست نہیں ہے،بیرسٹرگوہرنے سلمان اکرم راجاکی طرف سے مقتدرہ کامہرہ قراردیئے جانے کے الزام کا جواب اس اندازمیں دیاکہ گزشتہ روزعمران خان نے خود کہاہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کادروازہ بندنہیں کیاجب کہ بیرسٹرعلی ظفر بھی کہہ چکے ہیں کہ اعظم سواتی کو عمران خان نے خود اسٹیبلشمنٹ مذاکرات کا راستہ نکالنے کی ہدایت کی تھی ،لگتاہے کہ سلمان اکرم راجااور دیگروکلاء عمران خان کے نام اور ان کی مقبولیت سے فائدہ اٹھاکرنہ صرف پارٹی میں اہم عہدے لے چکے بلکہ اسمبلیوں میں پہنچے ہیں ان کا فوکس عمران خان کی رہائی ہوناچاہئے نہ کہ آپس میں ہروقت الجھتے رہیں،سلمان اکرم راجاکالب ولہجہ ایساتھاجیسے کوئی ڈکٹیٹربول رہاہو،سلمان اکرم راجااور بیرسٹرعلی ظفرکے ماضی میں بھی اختلافات رہے ہیں ،ایک موقع پر جب جوڈیشل کمیشن کے ارکان کے لئے بیرسٹرگوہراور علی ظفرکانام لینے کافیصلہ ہواتو سلمان اکرم راجانے عمران خان کے پاس جاکریہ فیصلہ تبدیل کرادیااور ان کی جگہ عمرایوب اور شبلی فراز کو نامزدکرایامگر چند ہفتے بعدہی عمران خان نے سلمان اکرم راجاکی تجویز کو ختم کرتے ہوئے دوبارہ جوڈیشل کمیشن کے لئے دونوں سینئروکلاء کو نامزدکردیا،بہرحال پی ٹی آئی کی قیادت کو آپس میں لڑائیاں بڑھانے کی بجائے عدالتوں میں مؤثراندازمیں قانونی اور میدان میں سیاسی جنگ لڑنے کی حکمت عملی بنانی چاہئے،دوسری جانب بلوچستان کے معاملے پر نیشنل پارٹی کے صدراور سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے ن لیگ کے صدرسابق وزیراعظم نوازشریف سے اہم ملاقات کی ہے جس میں بلوچستان میں حالات بہتربنانے کے لئے نوازشریف کو سیاسی کرداراداکرنے کی درخواست کی گئی ہیاور نوازشریف نے وعدہ کیاہے کہ غیرملکی دورے سے واپسی کے بعدوہ کوئٹہ کادورہ کریں گے اور بلوچستان کے حالات بہتربنانے کے لئے جلدوزیراعظم شہبازشریف سے بھی بات کریں گے ،اخترمینگل کا دھرناختم کرانے کامعاملہ بھی زیربحث آیانوازشریف نیماہرنگ بلوچ کے معاملے پر ڈاکٹرعبدالمالک کو کسی بات کاجواب نہیں دیانوازشریف کے دوسرے اورتیسرے دورحکومت کو دیکھاجائے تو انہوں نے بلوچستان میں حالات بہتربنانے اور تحفظات دورکرنے کیلئے عملی اقدامات کئے تھے 1997میں نوازشریف نے ن لیگ کی اکثریت کے باوجود قوم پرست رہنمااخترمینگل کو وزیراعلیٰ بنوانے میں مدد کی جب کہ 2013 میں ڈاکٹرعبدالمالک کو ن لیگ کی حمایت سے وزیراعلیٰ بنوایااور2018 تک بلوچستان کے حالات کافی بہترہوگئے تھے لیکن بعدازاں باپ پارٹی کی تشکیل کے بعد جو حالات بنے وہ بھی بلوچستان میں حالات خراب کرنے کی ایک وجہ ہے جب کہ بیرونی مداخلت ،بھارت کی طرف سے بی ایل اے اور دیگرکالعدم تنظیموں کی مدد کرنے سے صورتحال خراب ہوئی ہے،حکومت اور سکیورٹی ادارے بلوچستان میں امن کیلئے انتھک کوششیں کررہے ہیں،ٹارگٹڈآپریشن بھی جاری ہیں،بلوچستان میں جو سیاسی رہنما پاکستان کے آئین کے مطابق اپنے حقوق کے لئے مطالبات کررہے ہیں ان کے ساتھ مذاکرات کئے جانے چاہئیں لیکن جو تنظیمیں غیرملکی طاقتوں کی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹاجاناچاہئے۔
Post Views: 3.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: نے سلمان اکرم بلوچستان میں پارٹی کے کے لئے اور ان ہیں ان
پڑھیں:
پاکستان کی بقا کے لئے کھوئی ہوئی لیڈرشپ کو تلاش کر نے کی ضرورت ہے، وزیر دفاع
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاکستان کی بقا کے لئے کھوئی ہوئی لیڈر شپ کو تلاش کر نے کی ضرورت ہے
سیالکوٹ میں ریڈی میڈ گارمنٹس ایسوسی ایشن کے صنعتکاروں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صنعتکاروں کو ویزہ مسائل کی بڑی وجہ فقیروں کی بھرمار ہے، مانگنے والے بیرون ملک جا کر مانگتے ہیں، دیگر ممالک ان وجوہات کے باعث متاثر کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دو کروڑ سے زائد مانگنے والے فقیر موجود ہیں، ہم سیالکوٹ سے دو بار ان کو سویپ کر چکے ہیں لیکن اب بھی ان کی بھرمار ہے، ہمیں دوسرے ممالک کیسے فیسلیٹیشن کرسکتے ہیں، سعودی ارب میں چھ ہزار افراد وزیر لے کے وہاں مانگ رہے ہیں۔
وزیر دفاع نے کہا کہ کراچی میں دہشت گردی کا خاتمہ کیا گیا، ملک میں معاشی استحکام اور نئے پراجیکٹ کو لانچ کیا گیا، ایک نا تجربہ کار حکومت نے اس ملک کی معاشیات کو تباہ کر کے رکھ دیا، عدم اعتماد کے بعد 1 اپریل 2022 کو وزارت خزانہ نے ہمیں کہہ دیا تھا کہ ایک کوارٹر کے لئے ہمارے پاس کوئی رقم نہیں تھی۔
خواجہ آصف نے کہا کہ اس وقت لیڈر شپ نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا، آج ملک میں اسباب پیدا ہوئے ہیں کہ پاکستان چوتھی اڑان بھرنے کو تیار ہے، پاکستان کی بقا کے لئے کھوئی ہوئی لیڈر شپ کو تلاش کر نے کی ضرورت ہے، ہم نے معاشی خامیوں کی جانچا ہے ایکسپورٹ کو قومی ایمرجنسی بنا کر پیداواری سیکٹر کو اس جانب راغب کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ آج ہماری اسٹاک ایکسچینج کے 533 کمپنی ہیں ان میں 70 کمپنیاں ہیں جو دس ہزار ڈالر سے اوپر کام کر رہی ہیں، ہمیں ایکسپورٹ کی جانب آنا چاہئے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ہماری امپورٹ پر 4 بلین ڈالر کا خسارہ ہے، ہمارے ملک کے لئے ان چار بلین ڈالرز کی بہت اہمیت ہے، 2015 میں ہم نے پلانٹ لگانے شروع کئے ہمارے پاور پلانٹ والوں نے ہر گرام پر چونا لگایا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ہے کہ اس ملک کو کتنا نقصان ہو چکا ہے، بزنس کمیونٹی اس ملک کے محسن ہے، ایمانداری سے اپنے ملک میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں، 90 کی دہائی کی آئی پی پیز کنٹریکٹ ختم ہو جائیں گے، مشرف دور میں ہونے والے آئی پی پیز معاہدے تقریبا 2035 میں ختم ہوں گے۔