پچھلے کالم میں مسئلہ بلوچستان کے تناظر میں قوم، قبیلے اور کلچر کا ذکر ہوا۔ اس موضوع کو بلوچستان سے ہٹ کر بھی قدرے تفصیل سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ ہمارے کلچر کو دو اطراف سے یلغار کا سامنا ہے۔ ایک تو لبرل دانشوروں کی جانب سے جن کا پرچار ہے کہ اپنا کلچر سرنڈر کرکے مغربی کلچر اختیار کرنا ترقی کی ضمانت ہے۔ دوسرا مذہبی طبقہ جس نے مذہب کے فروغ کے لیے ایسی دھول اڑائی ہے جس میں کلچر کی اہمیت ہی مشکوک کر دی گئی ہے۔ حالانکہ خدائی نظام تشکیل ہونے کے سبب اس کی بھرپور مگر تعمیری موجودگی لازم ہے۔ یہ نظام کمزور ہوگا تو ہم اپنی اجتماعی شناخت کھوتے چلے جائیں گے، جو ایک بڑا بحران ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں:ہم، وجاہت مسعود اور ٹرک کی بتی
ہمارے ہاں ماحول کچھ ایسا بن گیا ہے کہ اگر کسی چیز کی ترغیب یہ کہہ کر دی جائے کہ گوری اقوام ایسا کرتی ہیں تو لوگ قبول کرنے سے ہچکچاتے نہیں۔ بلکہ پھٹی جینز پہننے جیسی نہایت احمقانہ حرکت بھی محض اس لیے اختیار کر لیتے ہیں کہ گورے ایسا کرتے ہیں۔ عقل کے ہر پیمانے پر یہ ایک احمقانہ حرکت ہے مگر چونکہ یہ حرکت گوروں سے سرزد ہوئی ہے لہٰذا اسے اپنانا ہے۔ سو قوم قبیلے کی نسبت سے اپنی شناخت کے معاملے میں ترقی یافتہ اقوام میں اس کے باوجود پوری سنجیدگی نظر آتی ہے کہ وہ گلوبلزم کے نام پر عالمی یک رنگی کے بھی قائل ہیں۔ مثلاً آپ یہ دیکھیے کہ زبان وہ اساس ہے جس پر کوئی بھی کلچر کھڑا ہوتا ہے۔ زبان کی حیثیت اساسی یوں ہے کہ جب بھی کوئی شخص اپنی زبان ترک کرتا ہے، کلچر بھی خود کار طور پر کوچ کر جاتا ہے۔ ملتان اس کی سب سے نمایاں مثال ہے۔ اپنی تاریخ میں یہ ایک پشتون شہر ہے۔ آج بھی وہاں خاکوانیوں اور گردیزیوں سمیت کئی پشتون قبائل موجود ہیں۔ مگر یہ پشتون قوم سے کٹ چکے۔ صورت اس کی یہ بنی کہ ملتان ایک اہم تجارتی شہر تھا۔ صورتحال یہ تھی کہ تاجر پشتون تھے اور کسٹمرز سرائیکی۔ سو تاجروں نے کسٹمرز کی زبان سیکھ لی۔ وہ سرائیکی زبان کو صرف بازار تک رکھتے تو کوئی مسئلہ نہ تھا۔ مگر غلطی انہوں نے یہ کی کہ یہ زبان گھروں تک لے گئے۔ سو اپنی زبان چھوڑتے ہی ان کے ہاں سے پشتون کلچر بھی کوچ کرگیا۔ محض بلڈ لائن کے بل پر وہ اپنی قوم کا حصہ نہیں رہ سکتے تھے۔ یوں اب یہ سب وسیب کلچر کا حصہ ہیں۔ چنانچہ مغربی اقوام اپنی زبان کے معاملے میں اس اصول پر قائم ہیں کہ یہ کسی صورت ترک نہیں کی جائے گی، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ زبان گئی تو کلچر بھی جائے گا۔ کلچر گیا تو شناخت ہی ختم ہو جائے گی۔
آپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاسوں میں دیکھا ہوگا کہ چین، روس، فرانس، بھارت، اور جرمنی سمیت اکثر ممالک کے سربراہان اپنی قومی زبان میں تقاریر کرتے ہیں۔ ہمیں چونکہ علی گڑھ کالج والی اسکیم کی تحت بہت منظم انداز سے اس احساس کمتری کا شکار کیا گیا ہے کہ ہمارا مشرقی کلچر ایک نہایت پست درجے کی چیز ہے۔ لہٰذا ہم بھی ایک پست مخلوق ہی ہیں۔ اعلیٰ مخلوق بننے کے لیے ہمیں 2 کام کرنے ہوں گے۔ ایک یہ کہ اپنے کلچر پر لعنت بھیج کر ہمیں مغربی کلچر اختیار کرنا ہوگا۔ اور دوسرا یہ کہ اپنی زبان کی جگہ ہمیں انگریزی زبان میں گفتگو کو ترجیح دینی ہوگی۔ چنانچہ ہمارا وزیر اعظم ہو یا صدر، اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ ثابت کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ وہ ایسی قوم کا نمائندہ ہے جو اپنا کلچر سرنڈر کرچکی۔ چینی، روسی، یا فرانسیسی صدر کو یہ ٹینشن بالکل نہیں ہوتی کہ اس کی زبان تو برطانوی، امریکی یا دیگر اقوام کو سمجھ نہ آئے گی۔ حالانکہ یہ وہ صدور ہیں جن کا کہا عالمی سطح کا اثر رکھتا ہے۔ ہمارے وزیراعظم کے ارشادات عالمی چھوڑیے علاقائی سطح کا اثر بھی کب کا کھو چکے، مگر یہ اپنی بات انگریزی میں کرکے گورے کو پتا نہیں کس چیز سے متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گورا اگر آپ کے خیالات اپنی زبان میں سن بھی لے تو اس سے اسے کیا فرق پڑتا ہے؟ اہمیت کیا ہے آپ کے خیالات کی؟
یہ بھی پڑھیں:’انقلابی فیلنگز‘
علی گڑھ تحریک کے نتیجے میں ہمارے ہاں ایک عجیب طرح کا مسخرا پن رونما ہوا۔ سرسید انکل نے سبق یہ پڑھایا تھا کہ جب تم اپنے کلچر اور زبان کی جگہ گورے کی زبان و کلچر اپنا لوگے تو تم بھی ترقی یافتہ ہوجاؤگے۔ کسی کو بھی یہ خیال نہ آیا کہ ترقی کلچر نہیں علم کی مدد سے ہوتی ہے۔ علم ترقی دیتا ہے اور ترقی کلچر کو ارتقا سے گزارتی ہے۔ اور علم کی صورتحال یہ ہے کہ اس ضمن میں سرسید کالج نے جتنے بھی انڈے بچے دیے، ان کی کارکردگی جاننے کے لیے سب سے موزوں ہستی پروفیسر ہودبائی ہیں۔ ذرا ان سے پوچھ لیجیے کہ ہمارا تعلیمی نظام کیسا ہے۔ پروفیسر پوری شام غریباں نہ برپا کر دیں تو کہیے۔ مگر اس شام غریباں کے بعد بات انہوں نے بھی وہی کرنی ہے جو سرسید نے کہی تھی کہ ہمیں مزید مغربی ہونا پڑے گا۔ گویا ہمارے ساتھ پچھلے ڈیڑھ سو سال سے فراڈ ہی یہ ہو رہا ہے کہ ترقی کے لیے درکار علم کی فراہمی کی جگہ ہمیں مزید گورا کرنے کی محنت جاری ہے۔
اب ذرا یہ ستم ظریفی بھی دیکھیے کہ برطانوی قوم اپنے بچے کو اپنی قومی زبان میں تعلیم فراہم کر رہی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بچہ کوئی بھی نئی چیز اپنی زبان میں زیادہ آسانی سے سیکھتا ہے۔ چنانچہ برطانوی ہی نہیں جرمن، فرانسیسی، روسی اور چائنیز سمیت تمام اقوام کے بچے اپنی ہی زبان میں علم حاصل کر رہے ہیں۔ اور ہم ؟ ہم اپنے بچوں کو غیرملکی زبان میں پڑھانے پر فخر کر رہے ہیں۔ اس اسکول کی فیس کئی گنا زیادہ ہوتی ہے جو یہ حماقت زیادہ زور و شور سے کر رہا ہو۔ اب اس طرح کے ماحول میں تو بس اتنی ہی قابلیت پیدا ہوسکتی ہے کہ اس نظام تعلیم کا پڑھا ہوا ہمیں اپنی پھٹی جینز اور انگریزی کمنٹس ہی سے متاثر کرنے کوشش کرسکتا ہے، علم سے نہیں۔
کیا ہمارا لبرل دانشور اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے کہ سمجھدار قومیں کبھی بھی اپنا کلچر سرنڈر نہیں کرتیں؟ وہ تو اس مسئلے پر مسلح تصادم پر اتر آتی ہیں۔ ویلادیمیر پیوٹن نے 20 سال قبل یہ کیوں کہا تھا کہ سوویت زوال کا سب سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ 40 ملین روسی اپنے وطن سے باہر رہ گئے؟ کیونکہ قوم ہی اصل اجتماعی وحدت ہے۔ چنانچہ جب یوکرینی بحران کے دوران یہ صورتحال پیدا ہوگئی کہ یوکرین میں آباد روسی قوم سے ان کی زبان اور کلچر چھیننے کا فیصلہ ہوا، اور خود زلنسکی نے ان روسیوں کو ٹی وی پر کیڑے مکوڑے قرار دیدیا تو جنگ کی نوبت آئی کہ نہیں؟ یوں یوکرین کے وہ پانچوں ریجن روس کا حصہ بنتے چلے جا رہے ہیں جہاں روسی آباد ہیں۔
اپنے کلچر کے معاملے میں ہمارے ساتھ ظلم صرف علی گڑھ تحریک یا اس سے پیدا ہونے والے ایک موسم کے کمیونسٹ، اور دوسرے موسم کے لبرل ہی نے نہیں کیا۔ بلکہ مولوی نے بھی ہمارے کلچر کی ایسی کی تیسی پھیرنے میں پورا پورا حصہ لیا ہے۔ مثلاً جب گورے نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو وہ جبری آقا اور ہم غلام ہوگئے۔ اس ماحول میں ایک کلچرل نوعیت کا فیصلہ آیا اور وہ یہ کہ ’انگریزی بال‘ یعنی ہیئر اسٹائل رکھنا ناجائز ہے۔ اس ماحول میں یہ ایک درست اقدام تھا۔ کیونکہ غلام کا اپنے آقا کی نقالی اختیار کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ گورے سے آزادی اختیار کرنے کی بجائے اس کے کلچر کو پسند کرنے لگا ہے۔ گویا اس کی حاکمیت کو دل و جان سے قبول کر رہا ہے۔ ایک دن آیا اور برٹش سرکار کوچ کر گئی۔ اس کے کوچ کو لگ بھگ 70 سال ہوگئے۔ اور ہمارا مولوی آج بھی قوم کو یہ فتوے دے رہا ہے کہ انگریزی ہیئر اسٹائل ناجائز ہے۔ مولوی کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ برٹش دور کا وہ فتویٰ مذہبی نہیں سیاسی تھا۔ مذہب کی رو سے تو انگریزی ہیئر اسٹائل تب ناجائز ہوگا جب دین اسلام نے کوئی ہیئر اسٹائل دیا ہو۔ ہے قرآن مجید کی کوئی آیت جس میں بتایا گیا ہو کہ مسلمان کا ہیئر اسٹائل کیسا ہوگا؟ یا کوئی حدیث جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہیئر اسٹائل کے حوالے سے کوئی حکم دیا ہو؟ حکم تو بس 2 ہی بالوں کا آیا ہے۔ ایک وہ جو بغلوں میں ہیں اور دوسرے وہ جو زی ناف ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:کون جنتی کون دوزخی؟
اسی طرح آپ کھڑے ہو کر کھانے پینے کا معاملہ دیکھ لیجیے۔ اگر آپ غور کریں تو دنیا کی تمام اقوام کھانا بیٹھ کر کھاتی ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ کچھ قومیں ڈائیننگ ٹیبل پر تو کچھ فرشی دسترخوان پر بیٹھ کر کھاتی ہیں۔ بیشتر ایشین قومیں تاریخی طور پر فرشی نشست جبکہ مغربی قومیں ڈائیننگ ٹیبل کا کلچر رکھتی ہیں۔ اصل مسئلہ تب پیش آتا جب کوئی تقریب ہوتی۔ تقریب میں شامل ہر شخص کو درجنوں لوگوں سے ملنا پڑتا ہے۔ سو قدرتی سی بات ہے کہ بار بار اٹھنا بیٹھنا پڑتا تھا۔ گوروں نے اس کا حل یہ ڈھونڈ لیا کہ تقریب میں کھانا ہی کھڑے ہوکر کھاؤ تاکہ یہ بار بار کی اٹھک بیٹھک سے جان چھوٹے۔ اس نے صرف تقریب کے لیے یہ ترکیب اختیار کی۔ ورنہ گھر پر روز کا کھانا پینا اس کا اب بھی بیٹھ کر ہی ہوتا ہے۔ فرشی نشست والی اقوام نے جب یہ دیکھا تو ترکیب معقول لگی۔ یوں ہمارے ہاں بھی اس کا رواج یوں آسانی سے پڑ گیا کہ ہم تو سرسید کے نسخے کے مطابق انسانی تاریخ میں یہ کارنامہ کرنے جا رہے تھے کہ محض گورا کلچر اختیار کرکے ہی ترقی یافتہ ہونے کا پلان تھا۔ سو یہ کھڑے ہو کر کھانے کا سوال مولوی صاحب کے پاس بھی پہنچ گیا۔ دیدیا انہوں نے فتویٰ کہ کھڑے ہوکر کھانا پینا ناجائز ہے۔ حالانکہ ہیئر اسٹائل کی طرح یہاں بھی اسلام نے کوئی آرڈر پاس نہیں کیا کہ کھانا کھانے کے لیے بیٹھنا ضروری ہے۔ اگر کوئی نہ بیٹھا تو اس کا ٹھکانا جہنم کے فلاں فلور پر ہوگا۔
ہمارا مولوی کلچر میں مداخلت والی یہ وارداتیں ایک روایت کی مدد سے کرتا ہے۔ روایت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ جو شخص جس قوم سے مشابہت اختیار کرتا ہے وہ اسی میں سے ہو جاتا ہے۔ اس روایت کی تشریح مولوی یہ کرتا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی غیر مسلم قوم کی مشابہت اختیار کرے گا تو وہ غیر مسلم ہوجائے گا۔ حالانکہ یہ روایت جو بات کہہ رہی ہے اس کی تو ہمارے ہاں سب سے بڑی مثال وہی ملتان کے خاکوانی اور گردیزی ہیں۔ یہ روایت یہ بیان کر رہی ہے کہ جب کوئی شخص اپنا کلچر چھوڑ کر دوسری قوم کی مشابہت یعنی کلچر اختیار کرتا ہے تو وہ اپنی شناخت کھو دیتا ہے اور اس نئی قوم میں سے ہو جاتا ہے۔ مثلاً خاکوانی اور گردیزی اب پشتون نہیں وسیب کلچر کا حصہ بن چکے۔ جو اس حدیث کی صداقت کی دلیل ہے۔ اس کے برخلاف اگر آپ مذہبی پہلو سے دیکھیں تو اتاترک کے جبر کے نتیجے میں ترک قوم نے مکمل طور پر مغربی کلچر اختیار کر لیا۔ کیا اس کے نتیجے میں وہ غیر مسلم بھی ہوئے؟ کسی نے مذہب ترک کیا ؟
سو کلچر کے حوالے سے ہمیں 2 یلغاروں کا سامنا ہے۔ ایک یلغار لبرل طبقے کی ہے جو مغربی کلچر کی فرنچائز کھولے بیٹھا ہے اور اس کی سرتوڑ کوشش ہے کہ ہم اپنا بچا کھچا کلچر بھی ترک کر دیں اور لنڈا اختیار کرلیں۔ جبکہ دوسری یلغار مولوی کی ہے جو اس کے باوجود کلچر میں دخل دیتا ہے کہ اسلام نے کلچر میں کوئی دخل ہی نہیں دیا۔ آپ چارپائی پر سونا چاہتے ہیں، بیڈ پر یا فرشی بستر پر اسلام کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ سو اس نے یہ انتخاب آپ کے کلچر پر چھوڑ دیا ہے۔ وہ مہمان نوازی کی ترغیب دیتا ہے۔ مگر اس کے لیے آپ رواج کیا تشکیل دیتے ہیں اس میں وہ کوئی دخل نہیں دیتا۔ ہر قوم کے کلچر میں آداب میزبانی اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ سو ایک قوم کی بیٹھک فرشی نشست والی ہے اور دوسری کی ڈرائنگ روم صوفوں والی۔ اسلام نے حلال غذا کا تو حکم دیا مگر پکانے کی ریسپی ایک بھی نہیں دی۔ سو ہم کو اپنے بچے کھچے کلچر کو ان دونوں یلغاروں سے بچانا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کلچر ملتان ہیئر اسٹائل مغربی کلچر اپنی زبان ہمارے ہاں کلچر بھی اسلام نے کلچر میں کی زبان کرتا ہے دیتا ہے کھڑے ہو کلچر کو نے کلچر ہے اور کے لیے یہ ایک کا حصہ
پڑھیں:
میرٹ کی جنگ میں کراچی کے طلبہ تنہا؛ کیا کوئی سنے گا؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251212-03-3
کراچی کے تعلیمی مستقبل کے ساتھ یہ مسلسل ناانصافی کب ختم ہوگی؟ یہ شہر جو پورے ملک کی معاشی ریڑھ کی ہڈی ہے، جہاں کے بچے روزانہ ہزاروں مشکلات، ٹریفک، شور، اکیڈمک پریشر، مہنگی کوچنگ، اور محدود تعلیمی سہولتوں کے باوجود شب و روز محنت کرتے ہیں، انہیں ہر سال صرف اس لیے دھکیل دیا جاتا ہے کہ ان کے پاس نہ طاقت ہے نہ سفارش۔ کراچی کے تعلیمی ادارے برسوں سے زبوں حالی کا شکار ہیں، سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی کمی، لیب اور لائبریری کا فقدان، اور امتحانی سسٹم کی سختی کے باوجود یہاں کے طلبہ بہتر سے بہتر کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ جب بات سب سے اہم مرحلے میڈیکل داخلوں پر آتی ہے تو ان کی محنت کو بیرونی امیدواروں کی جعلی رپورٹس، غیر منصفانہ میرٹ، اور کمزور نظام کے نیچے دفن کر دیا جاتا ہے۔ کراچی کے بچوں سے صرف اکیڈمک نہیں بلکہ بنیادی انصاف بھی چھینا جا رہا ہے، اور یہ ظلم اب ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔
کراچی کے سرکاری تعلیمی بورڈ سے انٹر کرنے والے طلبہ و طالبات ایک بار پھر میڈیکل کالجوں میں داخلوں سے محروم رہے اور یہ المیہ نئی بات نہیں بلکہ کئی برسوں سے جاری حقیقت ہے۔ ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کی 3 دسمبر 2025 کو جاری کردہ ایم بی بی ایس داخلہ فہرست نے شہر بھر میں شدید بے چینی پیدا کی ہے، کیونکہ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی کراچی بورڈ کے طلبہ بڑے پیمانے پر نظرانداز ہوئے ہیں۔ میرٹ پالیسی کی شفافیت، انتظامی ساکھ اور داخلہ طریقہ کار پر سنگین سوالات نے نہ صرف والدین کو پریشان کیا ہے بلکہ کراچی کے تعلیمی مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
داخلہ فہرست میں ایسے امیدوار شامل ہیں جن کے انٹرمیڈیٹ کے نمبر غیر معمولی حد تک زیادہ ہیں، ایسے نمبر جو کراچی کے سخت امتحانی معیار میں لینا تقریباً ناممکن ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس کراچی کا انٹر نتیجہ اس سال بھی کم رہا جبکہ ایم ڈی کیٹ 2025 کو پورے ملک میں سخت ترین امتحان قرار دیا گیا تھا، مگر حیرت انگیز طور پر وہی امیدوار کراچی کی 860 ایم بی بی ایس سیٹوں میں سے 500 سے زائد سیٹیں لے اڑے۔ یہ توازن خود بخود اس نظام کی شفافیت پر بڑا سوال اُٹھاتا ہے جہاں کراچی کا طالب علم اپنی اصل محنت کے باوجود مقابلے سے باہر کر دیا جاتا ہے۔
تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ اندرونِ سندھ کے درجنوں امیدواروں نے جعلی کراچی ڈومیسائل بنوا کر کراچی کوٹے پر داخلے حاصل کیے۔ یہ صرف ضابطہ جاتی غلطی نہیں بلکہ کراچی کے حق پر براہ راست ڈاکا ہے۔ ڈومیسائل ویریفکیشن بورڈ اور داخلہ کمیٹیاں اپنی بنیادی ذمے داری نبھانے میں بری طرح ناکام رہیں۔ مزید افسوسناک انکشاف یہ ہے کہ کچھ ایسے امیدوار بھی داخلہ فہرست میں شامل ہیں جنہوں نے ایم ڈی کیٹ 2025 کا امتحان ہی نہیں دیا تھا، مگر پھر بھی انہیں میڈیکل کالجوں میں نشستیں الاٹ کر دی گئیں۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ ڈاؤ یونیورسٹی کی انتظامیہ داخلی بے ضابطگیوں، مبینہ کرپشن اور بدترین غفلت میں مبتلا ہے۔ یہ معاملہ صرف ڈاؤ تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل، وفاقی وزیر ِ صحت، اور سندھ کے صوبائی وزیر ِ صحت کی نااہلی کا ثبوت بھی ہے۔ اگر ادارے اپنی نگرانی، اسکروٹنی اور میرٹ پالیسی پر عمل درآمد کو سنجیدگی سے لیتے تو ایسے جعلی ڈومیسائل، مشکوک اسناد اور غلط میرٹ لسٹیں کبھی سامنے نہ آتیں۔ لیکن افسوس کہ کراچی کی آبادی اور اس کے وسائل کو استعمال کرنے والے ادارے جب کراچی کی نوجوان نسل کے مستقبل پر بات آتی ہے تو خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔
کراچی کے عوام کا سب سے بڑا شکوہ یہ ہے کہ شہر سے مینڈیٹ لینے والی سیاسی جماعتیں اس سنگین ناانصافی پر ایک لفظ تک نہیں بول رہیں۔ ہر انتخابی جلسے میں کراچی کے حقوق کا راگ الاپنے والے رہنما آج ان بچوں کی آواز بننے کے لیے تیار نہیں۔ گزشتہ سال بھی یہی مسئلہ سامنے آیا تھا، عدالتوں تک بات گئی، میڈیا نے اُٹھایا، احتجاج ہوئے، مگر اصلاحات نہ ہوئیں اور اس سال دوبارہ وہی معاملہ سامنے آ گیا۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ کراچی کا مینڈیٹ لینے والے اس وقت تو بڑے دعوے کرتے ہیں جب ووٹ چاہیے ہوتا ہے، مگر جب شہر کا مستقبل لٹ رہا ہو تو سب اپنی ذمے داریوں سے نظریں چرا لیتے ہیں۔
کراچی کے طلبہ آج دہائی دے رہے ہیں کہ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو آنے والے برسوں میں صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔ ایسا لگتا ہے جیسے کراچی کے بچوں کے ساتھ ایک منظم ظلم کیا جا رہا ہو، اور ان کی محنت کو کسی منفی نظام کے نیچے روند دیا جاتا ہو۔ طلبہ نے چیف جسٹس آف پاکستان، وزیر ِ اعلیٰ سندھ، اور پی ایم ڈی سی سے فوری شفاف انکوائری کا مطالبہ کیا ہے تاکہ کراچی کے بچوں کو ان کا حق مل سکے۔ یہ صرف داخلوں کا مسئلہ نہیں بلکہ نسلوں کے مستقبل کا سوال ہے۔ اگر اس شہر کے بچوں کے ساتھ یہ ناانصافی اسی طرح جاری رہی تو کراچی کی محنتی نسل مایوسی، بیگانگی، اور عدم اعتماد کا شکار ہوتی چلی جائے گی، اور یہ وہ نقصان ہوگا جس کا ازالہ صرف بہتر پالیسیوں سے نہیں بلکہ مضبوط اور منصفانہ نظام سے ہی ہو سکے گا۔ کراچی صرف احتجاج نہیں چاہتا، کراچی انصاف چاہتا ہے اور وہ بھی اب، اسی وقت، بغیر کسی تاخیر کے۔