پروفیسر اور طالبہ کا مکالمہ ‘چند مزید پہلو
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
بارہا یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ کوئی عزیزہ یا کسی دوست کی بیٹی جب میڈیکل کالج میں داخل ہوتی ہے تو ماڈرن لباس میں ہوتی ہے، آج کل جین پہنے ہوتی ہے اور حجاب کو معیوب سمجھتی ہے، مگر تیسرے اور چوتھے سال وہ اپنے جسمانی اعضاء کو ڈھانپنا شروع کردیتی ہے اور پانچویں سال مکمّل حجاب میں نظر آتی ہے۔
طالبات سے اس کی وجہ پوچھیں تو وہ بتاتی ہیں کہ طبّی تعلیم کے مراحل طے کرتے ہوئے جب انسانی جسم کے اندر چلنے والی فیکٹریوں کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور جب ہم مختلف اعضاء کے اغراض ومقاصد اور فنکشنز کا مطالعہ کرتی ہیں تو یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ انسانی جسم کا ایسا پیچیدہ نظام اپنے آپ evolution) کے ذریعے) وجود میں نہیں آسکتا۔
یہ کسی بہت طاقتور ہستی کے حسنِ تخلیق کا کمال ہے۔ ایک ایسی عظیم اور حکیم ہستی جو فزکس، ریاضی، انجینئرنگ، بیالوجی وغیرہ کے تمام تر اصولوں کی نہ صرف ماہر ہے بلکہ خود خالق ہے۔ لہٰذا میڈیکل کے اسٹوڈنٹس جب انسانوں کے خالق کے اس حیرت انگیز تخلیقی کارنامے کا مشاہدہ کرتے ہیں تو وہ اُس عظیم الشّان ہستی کے قائل ہوکر مذہب کی جانب راغب ہوجاتے ہیں اور لڑکیاں بے پردگی ترک کرکے حجاب اختیار کرنے لگتی ہیں۔
خدا کا وجود اور مذہب صدیوں سے موضوعِ بحث رہا ہے۔ اس ضمن میں کوریا کی ایک معروف یُونیورسٹی کے ایک پروفیسر اور ان کی ایک طالبہ کا مکالمہ یا مباحثہ شیئر کررہا ہوں جس کی تفصیل ایک پاکستانی طالبہ نے بھیجی ہے۔ پچاس سالہ پروفیسر اینڈریو بینٹ جنوبی کوریا کی انتہائی معتبر یونیورسٹی میں فلاسفی کے پروفیسر تھے جو اپنی ذہانت اور حاضر جوابی میں بہت مشہور تھے۔ کوئی بھی ان کے ساتھ بحث میں الجھنے کی جرات نہ کرتا ۔ پروفیسر اینڈریو کی کلاس میں ایک اٹھارہ سالہ طالبہ عائشہ بھی تھی جس نے دو سال پہلے اسلام قبول کیا تھا۔
عائشہ ایک خاموش طبع لڑکی تھی اور کلاس میں ہونے والے بحث مباحثوں میں کبھی حصّہ نہیں لیتی تھی۔پروفیسر اینڈریو سے سینگ پھنسانے سے تو بڑے بڑے باتونی اور تیزطرار اسٹوڈنٹ بھی گھبراتے تھے۔ مگر اُس روز کلاس نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ایک ایسا منظر جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔ پروفیسراینڈریو نے کلاس میں آتے ہی خدا اور مذہب کی مخالفت (جو پروفیسر صاحب کا پسندیدہ موضوع تھا) میں بولنا شروع کردیا۔ انھوں نے کلاس پر نظریں جماتے ہوئے بڑے زور دار انداز میں کہا کہ خدا کا تصوّر اور تمام مذاہب، یہ سب انسانوں کی اپنی ایجاد ہیں۔ اپنے خوف پر قابو پانے کے لیے انسانوں نے خدا کا تصوّر تخلیق کرلیا ہے۔
اپنے نظرّئیے کے حق میں بات کرتے ہوئے پروفیسر اینڈریو نے اسٹوڈنٹس سے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ "اگر خدا موجود ہوتا تو دنیا میں اس قدر برائیاں کیوں ہوتیں اور انسان اس قدر تکلیفوں اور مصائب کا شکار کیوں ہوتے؟" اچانک حیرت انگیز طور پر کلاس سے ایک ہاتھ کھڑا ہوا اور اسٹوڈنٹس کو مزید حیرت اس بات پر ہوئی کہ وہ ہاتھ انتہائی خاموش رہنے والی لڑکی عائشہ کا تھا۔
عائشہ ایک ریزرو رہنے والی لڑکی تھی جو اسلام قبول کرنے کے بعد اب صرف قرآن اور اسلامک فلاسفی کے مطالعے میں مشغول رہتی تھی۔ اُس روز خدا کے وجود کا انکار کرتے ہوئے پروفیسر نے اپنا سوال دہرایا کہ "اگر کوئی خداموجود ہوتا تو دنیا میں اتنے دکھ اور مصائب کیوں ہوتے اور اگر خدا اتنا ہی انصاف پسند اور طاقتور ہوتا تو انسانوں کو مصائب کا شکار نہ ہونے دیتا اور دنیا سے جہالت، جرائم اور برائیوں کا خاتمہ کردیتا" سب کی توقع کے برعکس عائشہ نے ہاتھ کھڑا کیا تو پوری کلاس حیران ہو کر اس کی طرف دیکھنے لگی۔
پروفیسر نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور کہا "ہاں عائشہ بتاؤ کیا جواب ہے تمہارا" عائشہ نے کہا "سر! آپ کی بات کا جواب دینے سے پہلے کیا میں آپ سے ایک بات پوچھ سکتی ہوں؟" پروفیسر نے تکبّر اور خوداعتمادی سے گندھی ہوئی آواز میں کہا "ہاں ہاں ضرور پوچھو" اس پر عائشہ بولی "سر! کیا یہ درست ہے کہ ہم انسانوں کو کوئی بھی فعل اور عمل کرنے کی آزادی حاصل ہے؟" پروفیسر نے کہا "ہاں بالکل ہمارے پاس reason and freedom (شعور اور آزادی) ہے اور ہم اسی شعور اور آزادی کے ساتھ کوئی بھی عمل کرنے میں بااختیار ہیں"۔ اب عائشہ نے پورے اعتماد کے ساتھ کہا "سر! آپ نے بالکل درست فرمایا۔ اب یہ بھی بتادیں کہ اگر معاشرے میں پوری سمجھ، شعور اور آزادی کے ساتھ کوئی شخص جرم کرتا ہے، کسی کو قتل کردیتا ہے یا بہت بڑا فراڈ کرکے کسی کو نقصان پہنچاتا ہے تو کیا ہم اس جرم یا برائی کا ذمّے دار اُس شخص کو قراردیں گے یا وہاں کے لیگل سسٹم پر ذمّے داری ڈال دیں گے؟" پروفیسر نے بلاتوقّف جواب دیا "سسٹم ذمے دار نہیں ہوگا، جرم کرنے والا فرد ہی ذمے دار ہوگا۔ لیگل سسٹم تو ہمیں راہنمائی فراہم کرتا ہے۔
جرم کا ارتکاب تو ہم اپنی چوائس سے کرتے ہیں" اب عائشہ کے چہرے پر خوداعتمادی کی چمک مزید نکھر گئی۔ اس نے پراعتماد چہرے کے ساتھ کہا "سر! اگر معاشرے میں ہونے والے جرائم کی ذمّے داری ہم جرم کا ارتکاب کرنے والے شخص پر ڈالتے ہیں اور سسٹم کو اس کا ذمّے دار قرار نہیں دیتے تو دنیا میں ہونے والی برائیوں کی ذمّے داری برائیوں کا ارتکاب کرنے والے افراد کے بجائے خدا پر کیوں ڈال دیتے ہیں؟ کیا اس کے ذمے دار برائیوں کا ارتکاب کرنے والے افراد نہیں ہیں؟ عائشہ کی بات سن کر کلاس میں مکمل خاموشی طاری ہوگئی۔
اسٹوڈنٹس اس مکالمے کو پوری توّجہ سے سننے کے لیے آگے کو جھک گئے اور پروفیسر اینڈریو کی خوداعتمادی پہلی بار تھوڑی سی ڈگمگاگئی۔ مگر اس نے اپنا اعتماد اور توانائی قائم رکھتے ہوئے ایک اور سوال داغ دیا۔ "مگر یہ کیسا خدا ہے جس نے دنیا کو اچھائیوں کے بجائے برائیوں (evils) سے بھر دیا ہے" عائشہ نے کہا "پروفیسر صاحب! ہم برائیوں کو نہ دیکھتے تو اچھائیوں سے لاعلم رہتے، ہمیں اچھائیوں کی اہمیّت کا اندازہ ہی برائیاں دیکھ کر ہوا ہے" یہ سن کر پروفیسر بولا "ٹھیک ہے مگر یہ وبائیں، طوفان، زلزلے اور آسمانی آفتیں جن سے ہزاروں انسان ہلاک ہوجاتے ہیں، یہ ہلاکتیں اور تباہ کاریاں تو انسانوں کی لائی ہوئی نہیں ہیں۔
اگر کوئی خدا ہوتا تو انسانوں کو ان ہلاکتوں اور مصائب میں کیوں مبتلا کرتا؟" اس پر عائشہ نے ایک لمحے کے لیے سانس درست کیا اور بولی "پروفیسر صاحب آپ جانتے ہوں گے کہ بہت سے ڈاکٹر مریضوں کے لیے ایسی دوائیاں تجویز کرتے ہیں جو بہت کڑوی ہوتی ہیں اور بعض اوقات ایسے انجکشن دیتے ہیں جو بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں" پروفیسر نے کہا "ہاں میں خود بہت کڑوی دوائیاں کھاتا رہا ہوں اور بہت ہی تکلیف دہ ٹیکے لگواتا رہا ہوں" عائشہ نے ہلکا سا مسکرا کر کہا "پروفیسر صاحب آپ تسلیم کریں گے کہ ڈاکٹر کڑوی دوائیاں اور تکلیف دہ ٹیکے اپنے مریضوں کو تکلیف پہنچانے کے لیے نہیں دیتے بلکہ ان کے علاج اور صحت یابی کے لیے تجویز کرتے ہیں۔ یہ ابتلائیں، مصائب، اور صدمے ڈاکٹر کے تکلیف دہ ٹیکوں کی طرح انسانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے نہیں ہوتے۔ تکلیف انسان کو صبر اور حوصلہ سکھاتی ہے، دکھ انسانی شخصیّت کی نشوونما کرتے ہیں اور مصائب سے انسانوں کی تکمیل ہوتی ہے۔ کلاس کے چند اسٹوڈنٹس بے اختیار بول اٹھے very strong argument (بڑی مضبوط دلیل ہے) پروفیسر اینڈریو جیسا شخص بھی اپنی ایک طالبہ سے شکست مان لیتاہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پروفیسر صاحب پروفیسر نے انسانوں کو اور مصائب کا ارتکاب تکلیف دہ کلاس میں کرتے ہیں ہوتی ہے ہیں اور کے ساتھ ہوتا تو نے کہا ہے اور
پڑھیں:
اسلام آباد: یونیورسٹی ہاسٹل میں 22 سالہ طالبہ قتل
اسلام آباد میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ہاسٹل میں طالبہ کو فائرنگ کر کے قتل کردیا گیا۔
کراچیجام کنڈو گوٹھ میں نامعلوم ملزمان نے فائرنگ...
پولیس کے مطابق 22 سال کی طالبہ کو 2 روم میٹس کی موجودگی میں فائرنگ کر کے قتل کیا گیا۔
پولیس نے واقعے کا مقدمہ درج کر لیا ہے، مقتولہ کی لاش کو اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ قتل کی وجہ فوری طور پر سامنے نہیں آئی ہے، واقعے کی تفتیش کر رہے ہیں۔