Islam Times:
2025-12-14@09:45:49 GMT

روس ایران معاہدہ ایک نئی پیشرفت

اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT

روس ایران معاہدہ ایک نئی پیشرفت

اسلام ٹائمز: دونوں ممالک اسوقت مغربی پابندیوں کی زد میں ہیں اور ان پابندیوں نے انہیں ایک دوسرے کے قریب لایا ہے، لیکن اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے اقتصادی اور تجارتی مراحل آسانی سے طے ہو جائیں گے۔ آخری نکتہ یہ ہے کہ ایران روس جامع معاہدے کے نفاذ میں درپیش چیلنجوں کے باوجود دونوں ممالک کیجانب سے تعلقات کو مضبوط اور وسعت دینے کا عزم پایا جاتا ہے اور دوسری طرف شنگھائی تعاون تنظیم، یوریشین اکنامک یونین اور بریکس جیسے علاقائی اتحادوں میں تہران اور ماسکو کی رکنیت، اس معاہدے کے نفاذ میں ممد و معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ تحریر: رضا عمادی

روسی پارلیمنٹ ڈوما نے منگل (8 اپریل) کو روس اور ایران کے درمیان جامع اسٹریٹجک پارٹنرشپ معاہدے کا جائزہ لینے کے بعد اس کی باقاعدہ منظوری دے دی ہے۔ ماسکو اور تہران کے درمیان جامع اسٹریٹجک پارٹنرشپ معاہدے کی منظوری کا بل روسی صدر ولادیمیر پوتن نے 27 مارچ کو ڈوما میں پیش کیا تھا۔ اس معاہدے پر دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان گزشتہ موسم سرما میں ایرانی صدر مسعود پزشکیان کے ماسکو کے دورے کے دوران دستخط کیے گئے تھے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور روس کے تعلقات متعدد اندرونی اور بیرونی عوامل کی وجہ سے متاثر ہوتے رہتے ہیں۔ ملکی طور پر ایران اور روس دو پڑوسی ممالک ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ایران اور روس کے دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے دونوں ممالک کے اندر منفی خیالات موجود ہیں، تاہم حکومتیں ہمیشہ تعلقات کو وسعت دینے کے لئے کوشاں رہی ہیں۔

موجودہ غیر منصفانہ عالمی نظام کے بارے میں ماسکو اور تہران کا نظریہ اور ساتھ ہی ساتھ مغربی طاقتوں بالخصوص امریکہ سے درپیش مشترکہ خطرات نے دونوں کو اس بات پر تیار کیا ہے کہ وہ باہمی تعلقات کو وسعت دینے پر توجہ مرکوز رکھیں۔ بہرحال دونوں ممالک مغربی دباؤ بالخصوص امریکی پابندیوں کے تناظر میں باہمی تعاون کو مضبوط بنانے کے خواہاں ہیں۔ ماسکو اور تہران کے درمیان جامع اسٹریٹجک پارٹنرشپ معاہدے کو مغربی پابندیوں اور اقتصادی اور سیاسی دباؤ کے جواب کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور یہ دونوں ممالک کی مشترکہ چیلنجوں کے خلاف ایک متحدہ محاذ بنانے پر آمادگی کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔

 ماسکو اور تہران کے درمیان جامع اسٹریٹجک پارٹنرشپ معاہدہ دیگر کئی پہلوؤں کے حوالے سے بھی اہم ہے۔ اس معاہدے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانے کا باعث بن سکتا ہے۔ ایران توانائی، صنعت اور زراعت سمیت مختلف شعبوں میں روسی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کو راغب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسری طرف روس ایران کے قدرتی وسائل اور مارکیٹ سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ایران روس جامع معاہدہ اپنی سیاسی اور اقتصادی اہمیت کے ساتھ ساتھ فوجی اور سکیورٹی کے حوالے سے بھی اہم ہے۔ یہ معاہدہ ایران اور روس کے درمیان فوجی اور سکیورٹی تعاون کو مضبوط کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

اس تعاون میں معلومات کا تبادلہ، فوجی تربیت اور حتیٰ ہتھیاروں کی فروخت کو بھی شامل کرسکتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب دونوں ممالک کو دہشت گرد گروپوں کے مشترکہ خطرات کے ساتھ ساتھ مغرب کے فوجی دباؤ کا سامنا ہے، یہ تعاون دونوں ممالک کی قومی سلامتی کو مستحکم بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ روسی پارلیمنٹ کی جانب سے معاہدے کی منظوری اور اس کے نفاذ کے لیے زمینی تیاری کے باوجود ابھی آگے بڑھنے کے راستے میں کئی چیلنجز موجود ہیں۔ ایک اہم چیلنج دونوں ممالک کی معیشتوں میں مماثلت ہے۔ دونوں ممالک کے معاشی ڈھانچے زیادہ اوورلیپ نہیں ہوتے، کیونکہ دونوں ممالک تیل برآمد کرنے والے اور جدید ٹیکنالوجی کے درآمد کنندگان ہیں۔

دونوں ممالک کی متعلقہ برآمدی منڈیوں میں توانائی اور خام مال درآمد کرنے والے ممالک شامل ہیں۔ دونوں ممالک اس وقت مغربی پابندیوں کی زد میں ہیں اور ان پابندیوں نے انہیں ایک دوسرے کے قریب لایا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے اقتصادی اور تجارتی مراحل آسانی سے طے ہو جائیں گے۔ آخری نکتہ یہ ہے کہ ایران روس جامع معاہدے کے نفاذ میں درپیش چیلنجوں کے باوجود دونوں ممالک کی جانب سے تعلقات کو مضبوط اور وسعت دینے کا عزم پایا جاتا ہے اور دوسری طرف شنگھائی تعاون تنظیم، یوریشین اکنامک یونین اور بریکس جیسے علاقائی اتحادوں میں تہران اور ماسکو کی رکنیت، اس معاہدے کے نفاذ میں ممد و معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کے درمیان جامع اسٹریٹجک پارٹنرشپ معاہدے کے نفاذ میں ماسکو اور تہران دونوں ممالک کی دونوں ممالک کے ایران اور روس اس معاہدے تعلقات کو کے باوجود کو مضبوط یہ ہے کہ سکتا ہے

پڑھیں:

پاکستان اور انڈونیشیا: تعاون کی نئی جہتیں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251212-03-4
پاکستان اور انڈونیشیا کے تعلقات ہمیشہ سے باہمی احترام، مشترکہ مذہبی و تہذیبی رشتوں اور علاقائی ہم آہنگی کی بنیادوں پر استوار رہے ہیں۔ دونوں ممالک مسلم دنیا کی بڑی آبادی رکھنے والے، جغرافیائی طور پر اسٹرٹیجک اہمیت کے حامل اور ترقی کے سفر میں اہم کردار ادا کرنے والے ملک ہیں۔ اگرچہ دونوں ریاستیں مختلف خطوں میں واقع ہیں، لیکن ان کے درمیان تعاون کے مواقع ہمیشہ وسیع رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں انڈونیشیا کے صدر پرابووو سوبیانتو کے دورۂ پاکستان نے ان تعلقات میں ایک نئی روح پھونک دی ہے، جس کے اثرات نہ صرف دونوں ممالک کی دوطرفہ شراکت داری بلکہ پورے خطے کی سیاسی و معاشی صورت حال پر بھی مرتب ہوں گے۔ صدر پرابووو سوبیانتو کے دورے کے دوران پاکستان اور انڈونیشیا نے اعلیٰ تعلیم، صحت، حلال تجارت، انسدادِ دہشت گردی، اسمگلنگ کی روک تھام اور دیگر شعبوں میں تعاون پر مبنی سات بڑے معاہدوں اور مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط کیے۔ یہ معاہدے محض رسمی اقدامات نہیں بلکہ دو ممالک کے درمیان باہمی اعتماد، اقتصادی ہم آہنگی اور مستقبل کے مشترکہ وژن کا واضح اظہار ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس موقع پر کہا کہ انڈونیشیائی صدر کا یہ دورہ دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جائے گا۔ دوسری جانب صدر پرابووو سوبیانتو نے بھی تجارت، تعلیم، زراعت، آئی ٹی اور دفاع سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ اس سطح کے بیانات سفارتی آداب کا حصہ ضرور ہوتے ہیں، لیکن موجودہ عالمی سیاسی ماحول میں ان کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔

پاکستان اور انڈونیشیا کے درمیان تجارتی حجم تقریباً چار ارب ڈالر ہے، تاہم فریقین اس بات پر متفق ہیں کہ معاشی شراکت داری میں مزید اضافے کی گنجائش بہت زیادہ ہے۔ اسی مقصد کے تحت انڈونیشیا پاکستان ترجیحی تجارتی معاہدے (IP-PTA) پر نظرثانی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ اس امر کا غماز ہے کہ دونوں حکومتیں تجارت کو صرف رسمی تعلق نہیں بلکہ معاشی ترقی کا بنیادی ستون سمجھتی ہیں۔ پاکستان کی جانب سے حلال صنعت، زرعی اجناس، آئی ٹی اور پیشہ ورانہ تعلیم میں تعاون بڑھانے پر خصوصی زور دینا خوش آئند ہے۔ یہی وہ شعبے ہیں جہاں پاکستان کے پاس انسانی وسائل، جغرافیائی حیثیت اور مارکیٹ کی رسائی کے لحاظ سے نہایت مؤثر امکانات موجود ہیں۔ انڈونیشیا کی ان شعبوں میں دلچسپی دراصل دونوں ممالک کے درمیان طویل مدتی اقتصادی منصوبہ بندی کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔ دونوں ممالک نے دفاع اور سلامتی کے شعبوں میں بھی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ عالمی سیاست کا رُخ تیزی سے بدل رہا ہے اور خطہ ایشیا پیسیفک عالمی طاقتوں کی نئی کشمکش کا محور بنتا جا رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان اور انڈونیشیا جیسے اہم ممالک کا باہمی تعاون ایک دوسرے کے لیے اسٹرٹیجک سپورٹ کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ انسدادِ دہشت گردی، اسمگلنگ کی روک تھام اور دفاعی صلاحیتوں کے تبادلے جیسے اقدامات نہ صرف دونوں ممالک کی اندرونی سلامتی کے لیے اہم ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک واضح پیغام دیتے ہیں کہ مسلم دنیا کے ممالک اپنے مسائل کے حل کے لیے باہمی اشتراک کو فروغ دے رہے ہیں۔

صحت کا شعبہ ہمیشہ سے دونوں ممالک کے لیے ایک اہم ضرورت رہا ہے۔ انڈونیشیا نے طبی ماہرین کے تبادلے، قابلیت کی باہمی شناخت اور خصوصی تربیتی پروگراموں میں تعاون کی خواہش ظاہر کی ہے۔ یہ اقدامات پاکستان کے لیے خاص طور کے اس تناظر میں اہم ہیں کہ ملک میں صحت کا انفرا اسٹرکچر اپنی پوری استعداد کے مطابق کام نہیں کر پا رہا۔ عالمی معیار کے تربیتی پروگرام اور ماہرین کے تبادلے پاکستان کی طبی استعداد میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ اسی طرح اعلیٰ تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تعاون کا فروغ پاکستان کے نوجوانوں کے لیے ایک روشن مستقبل کی جانب قدم ہے۔ انڈونیشیا کی یونیورسٹیاں عالمی سطح پر اچھی شہرت رکھتی ہیں، اور علمی تبادلے دونوں ممالک کی تعلیمی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ دورے کے دوران خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) اور انڈونیشیا کے خودمختار دولت فنڈ کے درمیان تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔ یہ پیش رفت بذاتِ خود پاکستان کے لیے بہت اہم ہے۔ SIFC اس وقت پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے نمایاں اقدامات کر رہا ہے، اور انڈونیشیا جیسے بڑے ملک کی شمولیت اس کے دائرہ کار کو مزید وسیع کر سکتی ہے۔ مشترکہ سرمایہ کاری اور مشترکہ منصوبوں کا قیام پاکستان کی صنعت، ٹیکنالوجی اور زراعت کے شعبوں میں حقیقی تبدیلی لا سکتا ہے۔ اگر ان معاہدوں پر سنجیدگی سے عمل کیا گیا تو یہ تعاون دونوں ممالک کی معاشی ترقی کے لیے سنگ ِ میل ثابت ہو سکتا ہے۔

اگرچہ دو طرفہ دورے اور معاہدے سفارتی دنیا میں معمول کی بات سمجھے جاتے ہیں، لیکن پاکستان کی موجودہ اقتصادی صورتِ حال میں اس دورے کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ پاکستان کو اس وقت معاشی استحکام، غیر ملکی سرمایہ کاری اور برآمدات میں اضافے کی سخت ضرورت ہے۔ انڈونیشیا کے ساتھ اسٹرٹیجک تعاون نہ صرف پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ میں اضافہ کرے گا بلکہ معاشی بحران سے نکلنے کے لیے بھی ایک مضبوط راستہ فراہم کرے گا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر دونوں ممالک اعلان کردہ معاہدوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔

ترجیحی تجارتی معاہدے کی نظرثانی کو عملی جامہ پہنائیں اور مشترکہ سرمایہ کاری کے منصوبوں کو وقت پر آگے بڑھائیں، تو یہ دوطرفہ تعلقات محض سفارتی بیانات تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ ان کا نتیجہ حقیقی معاشی و سماجی بہتری کی صورت میں سامنے آئے گا۔

پاکستان اور انڈونیشیا کے درمیان حالیہ معاہدے اور مفاہمتی یادداشتیں دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نئے دور کی بنیاد رکھتی ہیں۔ یہ تعلقات صرف تجارت یا سفارت تک محدود نہیں بلکہ تعلیم، صحت، سیکورٹی، سرمایہ کاری، زراعت اور ٹیکنالوجی جیسے اہم شعبوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے اور نئے اقتصادی بلاکس وجود میں آ رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان اور انڈونیشیا کی شراکت داری نہ صرف دونوں قوموں کی ترقی بلکہ مسلم دنیا کے لیے بھی ایک مثبت مثال بن سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک اپنے فیصلوں کو محض کاغذی معاہدوں تک محدود نہ رکھیں بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے انہیں حقیقی کامیابیوں میں تبدیل کریں۔ مستقبل کی پیش رفت اسی وقت ممکن ہے جب سیاسی قیادت، کاروباری برادری اور ادارے مل کر ان اہداف کے حصول کے لیے سنجیدگی سے کوشش کریں۔

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • برکس رکن ممالک کے درمیان تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے ایک نیا رابطہ ماڈل پیش کر سکتا ہے، ایران
  • طالبان اور روس کے درمیان زرعی مصنوعات کی برآمدات میں توسیع کا معاہدہ
  • تہران اور بیجنگ کے تعلقات کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے، چینی سفیر
  • پاک انڈونیشیا معاہدے اور تعاون
  • وفاقی وزیر داخلہ کی عراقی ہم منصب سے ملاقات، دونوں ممالک کے درمیان تعاون مضبوط کرنے پر اتفاق
  • وفاقی وزیر داخلہ کی عراقی ہم منصب سے ملاقات، دونوں ممالک کے درمیان تعاون مضبوط کرنے پر اتفاق
  • پاکستان اور انڈونیشیا: تعاون کی نئی جہتیں
  • بنگلہ دیش اور نیدرلینڈز کے درمیان بحری دفاع کے تعاون کے نئے مفاہمتی معاہدے پر دستخط
  • ایران اور قزاقستان کے درمیان 14 دستاویزات اور دوطرفہ تعاون کی یادداشتوں پر دستخط
  • ایران قزاقستان تجارتی روڈ میپ تیار ہے، صدر مسعود پزیشکیان