غزہ پٹی میں اسرائیلی حملے، جنگ بندی کی اُمیدیں معدوم
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 اپریل 2025ء) غزہ پٹی میں حماس کے طبی ذرائع نے کہا ہے کہ اسرائیلی طیاروں نے بدھ کے روز شمالی غزہ کے ایک رہائشی بلاک پر حملہ کیا، جس میں کم از کم 23 افراد مارے گئے۔ ہلاک شدگان میں آٹھ خواتین اور اتنے ہی بچے بھی شامل تھے۔
یہ تازہ حملہ ایک اس وقت میں کیا گیا گیا ہے، جب غزہ پٹی میں کسی نئی جنگ بندی کی امیدیں دم توڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔
الاحلی ہسپتال کے مطابق اس حملے میں مارے جانے والوں کی تعداد کم از کم 23 ہے۔ حماس کی وزارت صحت نے ان اعداد و شمار کی تصدیق کی ہے۔
یہ تازہ حملہ غزہ شہر کے شجاعیہ نامی علاقے میں ایک چار منزلہ عمارت پر کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق امدادی ٹیمیں ملبے تلے پھنسے افراد کو نکالنے کی کوشش میں ہیں۔
(جاری ہے)
حماس کے زیرانتظام سول ڈیفنس کا کہنا ہے کہ یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ اس سے قریبی عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
حملے کا نشانہ کسے بنایا گیا؟اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ حملے کا نشانہ حماس کا ایک سینیئر عسکریت پسند تھا، جو شجاعیہ سے کیے گئے حملوں میں ملوث تھا۔ تاہم اسرائیلی حکام نے اس مشتبہ عسکریت پسند کا نام یا مزید تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں۔
اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ حماس کے جنگجو شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، اس لیے عام شہریوں کی ہلاکتوں کا الزام حماس پر ہی عائد ہوتا ہے۔
اسرائیل نے حماس پر دباؤ ڈالنے کے لیے غزہ کے کئی علاقوں، بشمول شجاعیہ میں انخلاء کے احکامات جاری کر رکھے ہیں۔ ساتھ ہی اس علاقے کے لیے خوراک، ایندھن و دیگر انسانی امداد کی ترسیل پر بھی پابندی عائد ہے۔
اس پابندی کی وجہ سے عام شہریوں کو اشیائے خوردونوش اور ادویات کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ اسرائیل نے یہ اعلان بھی کر رکھا ہے کہ وہ غزہ کے کچھ حصوں پر قبضہ کرے گا اور وہاں ایک نیا سکیورٹی کوریڈور قائم کرے گا۔
حماس نے جنگ بندی کے خاتمے کے بعد ہفتے کے آغاز پر ہی اب تک کا سب سے بڑا راکٹ حملہ کیا تھا۔ اس کارروائی میں جنوبی اسرائیل کی طرف دس راکٹ داغے گئے۔
آٹھ ہفتے تک نافذ العمل رہنے والی جنگ بندی کی ناکامی کے بعد گزشتہ ماہ اسرائیل نے حماس کے جنگجوؤں کے خلاف اپنی مسلح کارروائیاں بحال کر دی تھیں۔
اس جنگ بندی نے غزہ کے جنگ زدہ عوام کو کچھ سکون فراہم کیا تھا جبکہ امدادی سامان کی ترسیل بھی ممکن ہوئی تھی۔
اس ڈیل کے تحت پچیس اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا بھی کیا گیا جبکہ آٹھ افراد کی باقیات بھی واپس کی گئی تھیں۔ اسرائیل نے بدلے میں سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا تھا۔ مذاکرات کا سلسلہ جاریمذاکرات کار ایک نئی جنگ بندی کے لیے فریقین کے درمیان معاہدے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ جنگ دوبارہ روکی جا سکے۔
اس مقصد کے لیے اسرائیلی عوام حکومت پر دباؤ بھی بڑھا رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ حماس کی قید میں موجود باقی یرغمالیوں کی واپسی بھی ممکن بنائی جائے اور ساتھ ہی اس جنگ کے مکمل خاتمے کی کوششوں کو تیز تر کیا جائے۔تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک کسی معاہدے پر راضی نہیں ہوں گے جب تک حماس کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاتا۔
دوسری طرف حماس کے جنگجوؤں کا مؤقف ہے کہ وہ باقی 59 یرغمالیوں (جن میں سے 24 کے زندہ ہونے کا یقین ہے) کو تب تک رہا نہیں کرے گا، جب تک جنگ ختم نہیں ہو جاتی۔
یورپی یونین، امریکہ اور متعدد مغربی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔یہ جنگ سات اکتوبر سن 2023 کو حماس کے جنوبی اسرائیل پر حملے کے نتیجے میں شروع ہوئی تھی۔ حماس کے عسکریت پسندوں نے اسرائیلی سرزمین پر دہشت گردانہ حملہ کرتے ہوئے 1,200 افراد کو ہلاک کر دیا تھا اور 250 افراد کو یرغمال بنا کر غزہ پٹی لے گئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر کو جنگ بندی کے معاہدوں کے تحت رہا کیا جا چکا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم پر دباؤ بڑھتا ہوایہ تازہ مسلح تنازعہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان تاریخ کی سب سے ہلاکت خیز جنگ بن چکی ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں پہلے سے ہی غربت کے شکار غزہ پٹی کے باسی مزید مشکلات میں گھر چکے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اسی ہفتے واشنگٹن کا دورہ کیا تھا، جس دوران انہوں نے امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی۔
دونوں رہنماؤں نے یرغمالیوں کی حالت پر ہمدردی ظاہر تو کی لیکن جنگ بندی کے کسی ممکنہ معاہدے پر کوئی واضح بات نہیں کی۔صدر ٹرمپ جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں تاہم ان کا منصوبہ ہے کہ وہ جنگ کے بعد غزہ پٹی سے فلسطینیوں کو کہیں اور منتقل کرتے ہوئے اس علاقے کو امریکہ کے زیر انتظام لے آئیں گے۔ اس تجویز پر متعدد یورپی اور عرب ممالک نے سخت تنقید کی ہے۔
یہ ممالک اس طرح کی کسی بھی ''جبری یا رضا کارانہ‘‘ منتقلی کو ناقابل قبول قرار دے رہے ہیں۔ تاہم اسرائیل نے اس تجویز کی حمایت کی ہے۔نیتن یاہو کو اپنے انتہائی دائیں بازو کے سیاسی اتحادیوں کی طرف سے جنگ جاری رکھنے کے لیے دباؤ کا سامنا ہے، جو حماس کی مکمل تباہی تک جنگ ختم نہیں کرنا چاہتے۔ یہ امر اہم ہے کہ اس جنگ کے اٹھارہ ماہ بعد بھی اسرائیل یہ ہدف حاصل نہیں کر سکا۔
غزہ میں حماس کی وزارت صحت کے مطابق اس جنگ میں اب تک مجموعی طور پر 50,000 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ وزارت کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں سے نصف سے زیادہ خواتین اور بچے تھے۔
ادارت: کشور مصطفیٰ، رابعہ بگٹی
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے اسرائیل نے کے مطابق ہے کہ وہ کیا تھا بندی کی حماس کی حماس کے غزہ پٹی رہے ہیں کے جنگ کے لیے جنگ کے غزہ کے
پڑھیں:
غزہ: اسرائیلی بمباری سے مزید 54 فلسطینی شہید، نیتن یاہو کا حماس پر دباؤ بڑھانے کا حکم
غزہ: اسرائیلی بمباری سے مزید 54 فلسطینی شہید، نیتن یاہو کا حماس پر دباؤ بڑھانے کا حکم WhatsAppFacebookTwitter 0 20 April, 2025 سب نیوز
اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ پر بمباری کا سلسلہ جاری ہے جس کے نتیجے میں کم از کم 54 فلسطینی شہید ہو گئے ہیں۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کے خلاف جنگ کو تیز کرنے کا وعدہ کیا ہے، کیونکہ حماس نے ایک اور عارضی جنگ بندی کی اسرائیلی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے قیدیوں کے بدلے تنازع کے خاتمے کے لیے معاہدے کا مطالبہ کیا ہے۔
حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی نژاد امریکی قیدی ایڈن الیگزینڈر کی قسمت کا پتہ نہیں چل سکا، کیوں کہ اسے پکڑنے والے محافظ کی لاش برآمد ہوئی ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ 18 ماہ قبل غزہ پر اسرائیل کی جنگ میں کم از کم 51 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 16 ہزار 505 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔
غزہ حکومت کے میڈیا آفس نے شہادتوں کی تعداد 61 ہزار 700 سے زائد بتائی ہے اور کہا ہے کہ ملبے تلے دبے ہزاروں افراد کو مردہ تصور کیا جارہا ہے۔
حماس کی زیر قیادت 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل میں ہونے والے حملوں میں کم از کم ایک ہزار 139 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے، اور 200 سے زائد افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
الجزیرہ کو موصول ہونے والی ایک ویڈیو میں اس لمحے کو دکھایا گیا ہے، جب اسرائیلی فضائی حملے نے غزہ شہر کے جنوب میں زیتون کے پڑوس میں ایک گھر کو نشانہ بنایا تھا۔
موقع پر موجود الجزیرہ کے صحافیوں کے مطابق، ہفتے کی شام کو ہونے والی بمباری میں نصر خاندان کی رہائش گاہ کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں کم از کم پانچ افراد شہید اور متعدد زخمی ہو گئے، جن میں سے کچھ کی حالت نازک ہے۔
ہند رجب فاؤنڈیشن (ایچ آر ایف) نے امریکی محکمہ انصاف اور ہوم لینڈ سیکیورٹی انویسٹی گیشن ز پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں ’جنگی جرائم‘ کے ارتکاب پر اسرائیلی فوجی یوول شٹل کو گرفتار کریں اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں۔
ایچ آر ایف کا کہنا ہے کہ یہ فوجی آخری بار جنوبی ریاست ٹیکساس میں دیکھا گیا تھا، اور وہ اسرائیلی فوج کی جیوتی بریگیڈ میں سارجنٹ کے طور پر خدمات انجام دے رہا تھا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں تعیناتی کے دوران اس اہلکار نے مبینہ طور پر شہریوں کے گھروں، اسکولوں اور عبادت گاہوں کو جان بوجھ کر تباہ کرنے میں حصہ لیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ شٹل کے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ سے عوامی طور پر پوسٹ کی جانے والی ویڈیوز میں انہیں خان یونس میں ایک اپارٹمنٹ بلاک کو توڑتے ہوئے اور اس کی تباہی کا جشن مناتے ہوئے دکھایا گیا ہے، دیگر فوٹیج میں انہیں تیبریاس پرائمری اسکول اور حسن البنا مسجد کے انہدام میں ملوث دکھایا گیا ہے۔
یہ این جی او بیلجیئم میں گزشتہ سال قائم کی گئی تھی، اور اس نے دنیا بھر سے وکلا اور کارکنوں کو اکٹھا کیا ہے، تاکہ اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے خود شیئر کیے جانے والے سوشل میڈیا مواد کی بنیاد پر ان کے خلاف مقدمات تیار کیے جاسکیں۔