اپریل پاکستان کی جمہوریت کا سیاہ دن ہے، حلیم عادل شیخ
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 اپریل2025ء)پاکستان تحریک انصاف سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ نے اپنے وڈیو بیان میں کہا ہے کہ آج سے تین سال قبل 9 اپریل 2022 کو پاکستان کی جمہوری تاریخ کا سیاہ ترین دن رقم ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی دن ایک بیرونی سازش کے تحت پاکستان کی خودمختار حکومت کو ختم کر کے، ملک کو ایک نیا بحران دے دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس دن ملک کی ترقی، خودداری اور عوامی مینڈیٹ کا سودا کیا گیا۔ رجیم چینج کے بعد نہ صرف آئین و قانون کی بالادستی کو روند ڈالا گیا بلکہ پاکستان کو فسطائیت کے اندھیروں میں دھکیل دیا گیا۔پی ٹی آئی سندھ کے صدر نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کو کمزور کیا گیا، جب کہ پیکا ایکٹ کے ذریعے میڈیا پر قدغن لگائی گئی اور آزادی اظہار کو سلب کر کے صحافت کو زیر کرنے کی کوشش کی گئی۔(جاری ہے)
حلیم عادل شیخ نے دعوی کیا کہ تین سال قبل آج ہی کے دن ملک کو چوروں کے حوالے کیا گیا۔ اس کے بعد ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو دیوار سے لگانے کی منظم کوشش کی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ رجیم چینج کے بعد پاکستان میں سیاسی و معاشی استحکام ختم ہو گیا اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انتشار کی فضا پیدا کی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ ان تین برسوں میں غیر جمہوری فیصلے کئے گئے، جس کی وجہ سے ملک کو کمزور کیا گیا جس کی وجہ سے عوام کا نظامِ عدل و انصاف پر سے اعتماد اٹھ گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عوامی فیصلوں کو روندا گیا اور عام انتخابات میں عوامی مینڈیٹ کو چوری کیا گیا۔حلیم عادل شیخ نے الزام لگایا کہ پاکستان کے عظیم لیڈر عمران خان کو بے گناہ قید کر کے جمہوریت کا گلا گھونٹا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کے ایک عظیم رہنما ہیں جنہیں جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر عوام سے دور کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ رجیم چینج کے بعد ملک میں فسطائیت کو فروغ ملا، بنیادی انسانی حقوق معطل کیے گئے اور عوام کی امنگوں کے برخلاف فیصلے کیے گئے۔انہوں نے کہا آج کا دن پورے ملک میں یوم سیاہ کے طور پر منایا جارہا ہے جس دن ایک سازش کے تحت پروان چڑھتی ہوئی حکومت کو رخصت کیا گیا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے حلیم عادل شیخ انہوں نے کیا گیا کے بعد نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے:وزارت داخلہ
وزارت داخلہ نے بتایا ہے کہ افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز (اے سی سی) کے ملک چھوڑنے کی حکومتی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد گزشتہ 3 ہفتوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد افغان شہری پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق پاکستان میں حالیہ دنوں میں سینکڑوں افغان شہریوں کو اپنے سامان کے ساتھ طورخم اور چمن بارڈر عبور کرتے دیکھا گیا۔حکومت پاکستان کی جانب سے 31 مارچ سے ان افغان شہریوں کی ملک بدری کی دوسری مہم کا آغاز کیا تھا جن کے پاس افغان سٹیزن کارڈ تھا (ایک شناختی دستاویز جو 2017 میں پاکستانی اور افغان حکومتوں نے مشترکہ طور پر جاری کی تھی)۔
دراصل یہ 2023 میں شروع کی گئی مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں کی وطن واپسی تھا جس کے تحت پہلے مرحلے میں ان تمام افغان باشندوں کو ملک بدر کیا گیا جن کے پاس شناختی ثبوت موجود نہیں تھے۔تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی جانب سے کی جانے والی یہ ملک بدریاں افغانستان میں طالبان حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے، جنہیں اسلام آباد کی جانب سے سرحد پار حملوں میں اضافے کا ذمہ دار ٹہراتا جاتا ہے۔وزارت داخلہ کے مطابق ’اپریل 2025 کے دوران ایک لاکھ 529 افغان شہری پاکستان سے واپس اپنے ملک جاچکے ہیں۔27 سالہ اللہ رحمٰن نے ہفتے کے روز طورخم بارڈر پر اے ایف پی کے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے کہا ’میں پاکستان میں پیدا ہوا اور کبھی افغانستان نہیں گیا، مجھے ڈر تھا کہ کہیں پولیس مجھے اور میرے خاندان کو ذلیل نہ کرے اور اب ہم بے بسی کے عالم میں افغانستان واپس جا رہے ہیں‘۔افغانستان کے وزیر اعظم حسن اخوند نے ہفتے کے روز پڑوسی ملک پاکستان کے ’یک طرفہ اقدامات‘ کی سخت مذمت کی جب کہ اس سے ایک روز قبل وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے افغان شہریوں کی واپسی کے معاملے پر کابل کا دورہ کیا تھا۔افغان شہریوں کی اکثریت رضاکارانہ طور پر واپس جارہی ہے تاکہ زبردستی ملک بدری سے بچ سکیں، لیکن اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے مطابق صرف اپریل میں پاکستان میں 12 ہزار 948 گرفتاریاں کی گئی جو گزشتہ پورے سال کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران لاکھوں افغان شہری اپنے ملک کی صورتحال سے فرار ہوکر پاکستان میں داخل ہوئے جب کہ 2021 میں طالبان حکومت کی واپسی کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری پاکستان آئے۔افغان شہریوں کی ملک بدری کی اس مہم کو وسیع پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہے کیوں کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد افغان آبادی کی میزبانی سے اکتاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔41 سالہ حجام تنویر احمد نے اے ایف پی کو بتایا کہ افغانی یہاں پناہ لینے آئے تھے لیکن پھر نوکریاں کرنے لگے، انہوں نے کاروبار کھول لیے اور پاکستانیوں سے نوکریاں چھین لیں جو پہلے ہی جدوجہد کر رہے ہیں۔دوسری جانب یو این ایچ سی آر نے کا کہنا ہے کہ ملک بدر کیے جانے والے افغان شہریوں میں نصف سے زائد بچے ہیں جب کہ سرحد عبور کرنے والوں میں خواتین اور لڑکیاں بھی شامل ہیں جو ایک ایسے ملک میں داخل ہورہی ہیں جہاں انہیں سیکنڈری تعلیم کے بعد تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے اور انہیں کئی شعبوں میں کام کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔
2023 میں واپسی کے پہلے مرحلے کے دوران، دستاویزات نہ رکھنے والے لاکھوں افغانوں کو زبردستی سرحد پار بھیج دیا گیا تھا۔مارچ میں اعلان کردہ دوسرے مرحلے میں حکومت پاکستان نے 8 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کے رہائشی پرمٹ منسوخ کر دیے اور ان ہزاروں افراد کو بھی خبردار کیا جو کسی تیسرے ملک میں منتقلی کے منتظر ہیں کہ وہ اپریل کے آخر تک ملک چھوڑ دیں۔ایک دکاندار نے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغان وہ کام کرتے ہیں جسے کرتے ہوئے پاکستانیوں کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے، جیسے کچرا اٹھانا وغیر لیکن جب وہ چلے جائیں گے تو یہ کام کون کرے گا؟