Islam Times:
2025-04-22@01:50:14 GMT

مائیکروسافٹ یا اسرائیل سافٹ؟

اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT

مائیکروسافٹ یا اسرائیل سافٹ؟

اسلام ٹائمز: اسرائیلی فوج اور مائیکروسافٹ کے درمیان تعاون کا سلسلہ گذشتہ کئی عشروں سے جاری ہے۔ 2002ء میں اس کمپنی نے 35 ملین ڈالر کا ایک معاہدہ طے کیا تھا جس کے تحت اسرائیل کو جدید ٹیکنالوجیز اور محصولات فراہم کیے گئے تھے۔ اس کا ایک حصہ امریکہ کی فوجی امداد کی شکل میں فراہم کیا گیا تھا۔ اگرچہ مائیکروسافٹ 2021ء میں ایمازون اور گوگل کے مقابلے میں نمبس نامی کلاوڈ پراجیکٹ کا ٹھیکہ ہار گئی لیکن وہ بدستور اسرائیلی فوج کو ٹیکنالوجیز فراہم کرتی رہی۔ مائیکروسافٹ کے کارکنوں کی جانب سے اس کمپنی کے خلاف حالیہ احتجاج ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس تعاون سے ناخوش ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ تعاون بالواسطہ طور پر انسانی حقوق کی وسیع خلاف ورزی اور نسل کشی میں استعمال ہو رہا ہے۔ تحریر: مصطفی نصری
 
حال ہی میں مائیکروسافٹ کمپنی کی جانب سے ایک جشن کی تقریب منعقد ہو رہی تھی جس میں اس کمپنی کے اپنے ہی افراد نے اس کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔ وہ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں مائیکروسافٹ کی جانب سے اسرائیل کو معاونت فراہم کرنے پر اعتراض کر رہے تھے۔ انہوں نے کمپنی کے سربراہان سے مطالبہ کیا کہ وہ غاصب صیہونی رژیم کو فراہم کی گئی معاونت کی وضاحت کریں اور اسے ختم کر دیں۔ ان کے بقول یہ کمپنی اسرائیلی فوج کو غزہ میں عام شہریوں کے قتل عام میں معاونت فراہم کرنے میں مصروف ہے۔ یہ احتجاج اس وسیع پیمانے پر تنقید کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جس سے اسرائیلی فوج کی معاونت کے باعث مائیکروسافٹ کمپنی روبرو ہے۔ مائیکروسافٹ اگرچہ براہ راست طور پر صیہونی فوج کو اسلحہ اور فوجی سازوسامان فراہم نہیں کر رہی لیکن جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے بالواسطہ طور پر اسے فوجی کاروائیوں میں معاونت فراہم کر رہی ہے۔
 
Azure نامی کلاوڈ سروس کی فراہمی
مائیکروسافٹ نے اسرائیلی فوج کو ایزورے نامی کلاوڈ پلیٹ فارم کی سہولت فراہم کر رکھی ہے جسے اسرائیلی فوج وسیع پیمانے پر ایسا ڈیٹا ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے جو مختلف فوجی سافٹ ویئرز میں استعمال ہوتا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کے بعد غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد اسرائیلی فوج نے بڑے پیمانے پر اس سہولت کا استعمال کیا ہے۔ رہورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جون 2023ء سے اپریل 2024ء تک اس پلیٹ فارم پر اسرائیلی فوج کی جانب سے ذخیرہ ہونے والے ڈیٹا کی مقدار میں 155 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح آزورے کلاوڈ پلیٹ فارم کی مدد سے کام کرنے والے مصنوعی ذہانت کے آلات کا استعمال بھی مارچ 2024ء تک ستمبر 2023ء کے مقابلے میں 64 گنا بڑھ گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں فوجی کاروائیوں کے دوران اس ٹیکنالوجی کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا ہے۔
 
مصنوعی ذہانت اور جی پی ٹی 4 ماڈلز
مائیکروسافٹ نے اوپن اے آئی، جو بذات خود اس کمپنی میں سرمایہ لگانے والی بڑی کمپنی ہے، کے تعاون سے مصنوعی ذہانت کے ترقی یافتہ ماڈلز جیسے جی پی ٹی 4 بھی اسرائیلی فوج کو فراہم کیے ہیں۔ یہ ماڈلز دستاویزات کا ترجمہ کرنے، ڈیٹا کا آٹومیٹک تجزیہ کرنے، آواز کو متن میں تبدیل کرنے اور فوجی اہداف کی شناخت کرنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ فاش ہونے والی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ پر فضائی حملے کرنے کے لیے ان ماڈلز کا استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر Lavender نامی سسٹم غزہ میں فوجی اہداف کی شناخت کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ یاد رہے مائیکروسافٹ بھی اس سسٹم کو اپنے انفرااسٹرکچر کے لیے استعمال کرتی ہے۔
 
فنی اور تکنیکی معاونت
اکتوبر 2023ء سے لے کر جون 2024ء کے درمیان مائیکروسافٹ نے 10 ملین ڈالر لاگت پر مبنی 19 ہزار گھنٹے تک اسرائیل کی وزارت جنگ کو فنی معاونت فراہم کی تھی۔ اس معاونت میں air gapped  سسٹمز سمیت حساس فوجی سسٹمز کی اپ گریڈنگ بھی شامل تھی جو خفیہ اور سیکورٹی سرگرمیوں میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اسے سے مائیکروسافٹ اور اسرائیلی فوج کے درمیان تعاون کی گہرائی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مخصوص فوجی یونٹس سے تعاون
اسرائیل کی متعدد فوجی اور سیکورٹی یونٹس جیسے سائبر انٹیلی جنس یونٹ 8200 اور ایئرفورس کی یونٹ افک نے اپنا ڈیٹا وسیع کرنے، فوجی اہداف کی نشاندہی اور آپریشنل پروگرامز میں وسیع پیمانے پر مائیکروسافٹ سے مدد حاصل کی ہے۔ یہ تعاون بالواسطہ طور پر غزہ پر فضائی بمباری سمیت ایسی جنگی کاروائیوں میں استعمال ہوا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔
 
تعاون کا تاریخی سابقہ
اسرائیلی فوج اور مائیکروسافٹ کے درمیان تعاون کا سلسلہ گذشتہ کئی عشروں سے جاری ہے۔ 2002ء میں اس کمپنی نے 35 ملین ڈالر کا ایک معاہدہ طے کیا تھا جس کے تحت اسرائیل کو جدید ٹیکنالوجیز اور محصولات فراہم کیے گئے تھے۔ اس کا ایک حصہ امریکہ کی فوجی امداد کی شکل میں فراہم کیا گیا تھا۔ اگرچہ مائیکروسافٹ 2021ء میں ایمازون اور گوگل کے مقابلے میں نمبس نامی کلاوڈ پراجیکٹ کا ٹھیکہ ہار گئی لیکن وہ بدستور اسرائیلی فوج کو ٹیکنالوجیز فراہم کرتی رہی۔ مائیکروسافٹ کے کارکنوں کی جانب سے اس کمپنی کے خلاف حالیہ احتجاج ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس تعاون سے ناخوش ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ تعاون بالواسطہ طور پر انسانی حقوق کی وسیع خلاف ورزی اور نسل کشی میں استعمال ہو رہا ہے۔
مائیکروسافٹ اور صیہونزم کا عالمی منصوبہ
مائیکروسافٹ کے بانی کے طور پر بل گیٹس ہمیشہ سے عالمی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اگرچہ اس نے گذشتہ چند برس سے مائیکروسافٹ سے دوری اختیار کر لی ہے لیکن اس کمپنی میں اس کے تاریخی اور نظریاتی اثرورسوخ کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔
 
اسرائیل سے مائیکروسافٹ کا تعاون دراصل ایک ایسے عالمی صیہونی منصوبے کا حصہ ہے جس کی تشکیل میں بل گیٹس نے بھی بالواسطہ طور پر کردار ادا کیا ہے۔ 2002ء میں مائیکروسافٹ نے بل گیٹس کی سربراہی میں اسرائیل آرمی سے 35 ملین ڈالر کا معاہدہ کیا تھا۔ یہاں سے دونوں کے درمیان اسٹریٹجک تعاون کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔ بل گیٹس نے یہ معاہدہ طے کر کے مائیکروسافٹ کو اسرائیل کی فوجی مشینری میں شامل کر دیا تھا۔ بل گیٹس نے غزہ جنگ کے بارے میں چپ سادھ رکھی ہے جبکہ کارکنوں کے حالیہ احتجاج پر بھی خاموش ہے جو اس کے دیگر انسانی حقوق کے دعووں سے تضاد رکھتا ہے۔ گذشتہ چند عشروں کے دوران اسرائیلی حکمرانوں سے متعدد ملاقاتوں اور اسرائیل کی جانب سے منعقدہ ٹیکنالوجی کانفرنسز میں اس کی شرکت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی عالمی صیہونزم کے حامیوں پر مشتمل وسیع نیٹ ورک کا حصہ ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: بالواسطہ طور پر اسرائیلی فوج کو مائیکروسافٹ نے مائیکروسافٹ کے کے لیے استعمال میں استعمال ہو معاونت فراہم استعمال کیا اسرائیل کی کی جانب سے پیمانے پر ملین ڈالر کے درمیان یہ احتجاج فراہم کر فراہم کی تعاون کا کمپنی کے بل گیٹس کیا ہے کا ایک

پڑھیں:

اسرائیل کی غزہ میں گھروں اور خیمہ بستیوں پر بمباری، 70 فلسطینی شہید، خوراک کی شدید قلت

غزہ پر اسرائیلی فورسز کی وحشیانہ بمباری میں 24 گھنٹوں کے دوران کم از کم 70 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، اور مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ جاری ہے۔

قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق طبی ذرائع نے بتایا کہ جمعے کی صبح سے اب تک اسرائیلی فورسز نے متعدد گھروں، خیمہ بستیوں اور پناہ گزین کیمپوں کو نشانہ بنایا ہے۔

اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے فوری انتباہ جاری کیا ہے کہ غزہ کو اب خوراک کی ضرورت ہے، کیوں کہ لاکھوں افراد کو بھوک کا خطرہ ہے۔

غزہ میں الجزیرہ کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ اسرائیلی بمباری کی وجہ سے لوگ ’نفسیاتی طور پر ٹوٹ چکے‘ ہیں، اور امدادی سامان کی فراہمی پر اسرائیلی ناکہ بندی کی وجہ سے اپنے بچوں کو کھانا کھلانے سے قاصر ہیں۔

غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ 18 ماہ قبل غزہ پر مسلط کردہ اسرائیل کی جنگ کے نتیجے میں کم از کم 51 ہزار 65 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 16 ہزار 505 زخمی ہوئے ہیں۔

غزہ حکومت کے میڈیا آفس نے شہادتوں کی تعداد 61 ہزار 700 سے زائد بتائی ہے، اور کہا ہے کہ ملبے تلے دبے ہزاروں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔

حماس کی زیر قیادت 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل میں ہونے والے حملوں میں کم از کم ایک ہزار 139 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے، اور 200 سے زائد افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

پناہ گزین کیمپ پر ڈرون حملہ
تازہ ترین ڈرون حملہ وسطی غزہ میں بریج پناہ گزین کیمپ پر کیا گیا۔

فلسطین انفارمیشن سینٹر کے مطابق ایک نوجوان جس کی شناخت اکرم الحواجری کے نام سے ہوئی ہے، بریج کیمپ کے داخلی راستے کے شمال میں واقع الفزب مارکیٹ کے قریب ڈرون حملے میں شہید ہوا۔

اطلاعات کے مطابق اسرائیلی توپ خانے نے وسطی غزہ میں بریج کیمپ کے جنوب میں واقع قریب واقع مغازی پناہ گزین کیمپ پر گولہ باری کی ہے۔

مغربی کنارے سے 60 سے زائد فلسطینی گرفتار
حبرون کے جنوب میں فووار پناہ گزین کیمپ میں بڑے پیمانے پر اسرائیلی فوج کی بمباری میں تقریباً 30 فلسطینی شہید ہوئے تھے۔

مقامی فلسطینی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی فورسز نے فوجی آپریشن کے دوران 60 سے زائد فلسطینیوں کو حراست میں لیا ہے، اور ان کی حراست کے مقام پر فوج کی جانب سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے، کچھ قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔

آن لائن شیئر کی جانے والے ویڈیو کلپس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینی مردوں کو بندوق کی نوک پر بھاگنے پر بھی مجبور کیا۔

فلسطین میں عالمی ثقافتی ورثہ بھی نشانہ
انسانی حقوق کے گروپ ’الحق‘ نے عالمی ثقافتی ورثے کے دن کے موقع پر کہا کہ اسرائیل نے فلسطینی ثقافت اور ورثے کو دبانے کی جاری کوشش میں متعدد فلسطینی مقامات کو نشانہ بنایا ، جن میں یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل مقامات بھی شامل ہیں۔

الحق نے کہا کہ مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی بیت لحم گورنری میں واقع المخرور کا علاقہ 2014 میں اقوام متحدہ کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا، جسے اسرائیلی آباد کاروں کی جانب سے زمین پر قبضے کے بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ فلسطینی طویل عرصے سے المخرور اور بطیر کے علاقے کی تاریخی قدیم سیڑھیوں والی ڈھلوانوں پر سبزیوں، پھلوں کے درختوں، زیتون اور بیلوں کے ساتھ کھیتی کرتے رہے ہیں، یہ علاقہ اپنے منفرد ثقافتی اور زرعی منظر نامے، آبپاشی کے نظام اور آثار قدیمہ کی باقیات کے لیے نمایاں ہے۔

المخرور میں غیر قانونی بستیوں اور متعلقہ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور توسیع کے ساتھ، اسرائیل کا آبادکاری کا کاروبار علاقے کی حیاتیاتی تنوع اور ناقابل یقین صلاحیت کو متاثر کر رہا ہے۔

یہودی آبادکاروں کا فصلوں پر حملہ
الجزیرہ عربی کے ساتھیوں نے مقامی ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ اسرائیلی آبادکاروں نے مقبوضہ مغربی کنارے کے مشرق میں شمالی وادی اردن کے خربت الدیر میں فلسطینی آبادیوں میں پانی کے پمپ چوری کرلیے، اور فصلوں کو نقصان پہنچایا ہے۔

فلسطین میں ایسٹر کے معنی
مسیحی فلسطینیوں کے لیے ایسٹر خاص معنی رکھتا ہے۔

گڈ فرائیڈے کے موقع پر الجزیرہ نے بیت اللحم میں پرورش پانے والے ایک فلسطینی پادری سے بات کی، جس نے اپنے لوگوں پر اسرائیلی جبر اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنے عقیدے کے مرکز میں مصلوب کیے جانے کے درمیان مماثلت پر روشنی ڈالی۔

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • لاہور، آئی ایس او کی اسرائیلی بربریت کیخلاف احتجاجی ریلی
  • اسرائیلی فوج کا غزہ میں پروفیشنل ناکامیوں کا اعتراف
  • آئی ایس او کا "شراکہ" کی سرگرمیوں و اسرائیل کیخلاف کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ
  • اسرائیل کی جانب سے لبنان میں ایک گاڑی پر ڈرون حملہ
  • اسرائیل کی غزہ میں جنگ روکنے کے لیے ناقابلِ قبول شرائط
  • القسام بریگیڈ کا ایک اور مہلک حملہ، اسرائیلی فوجی ہلاک و زخمی، ٹینکس تباہ
  • ہم جنگ کا خاتمہ اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک حماس کو ختم نہ کردیں: نیتن یاہو
  • غزہ پٹی: اسرائیلی حملوں میں مزید نوے افراد ہلاک
  • حکومت فیشن اور تخلیقی انڈسٹری کی ترقی کیلئے ہر ممکن تعاون فراہم کریگی، جام کمال
  • اسرائیل کی غزہ میں گھروں اور خیمہ بستیوں پر بمباری، 70 فلسطینی شہید، خوراک کی شدید قلت