Express News:
2025-04-22@14:43:37 GMT

اداروں میں سیاست

اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT

کیا اداروں میں سیاست ہوتی ہے؟ سیاست ہر اس جگہ ہوتی ہے جہاں انسان رہتے ہیں یا کام کرتے ہیں اور ادارے اس سے مستثنٰی نہیں ہے۔ حالانکہ اداروں میں کام کرنے والے تمام لوگوں کےلیے انسان کا لفظ استعمال کرنا بھی مبالغہ آرائی میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

اگر کوئی شخص نوکری کے سلسلے میں ہونے والی ملاقات (انٹرویو) میں یہ کہے کہ اسے پچھلی نوکری محض اس لیے چھوڑنی پڑی تھی کہ وہ سیاست کا شکار ہوگیا تھا تو اس کا یہ جواب کسی بھی طور پر مثبت انداز میں نہیں لیا جائے گا، چاہے ملاقات کرنے والے خود بھی دفتری سیاست کا شکار کیوں نہ ہوئے ہوں۔

اعلیٰ انتظامی عہدوں پر پہنچنے والے عموماً اپنی نوکری کے ابتدائی دور میں سیاست کا شکار ہوئے ہوتے ہیں اور پھر باقی عمر وہ خود لوگوں کا شکار کھیلتے ہیں۔ جواب دینے والے کا یہ جواب کہ وہ سیاست کا شکار ہوا کیوں مثبت انداز میں نہیں لیا جاتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ دفتری سیاست میں آپ ہمیشہ حزب اقتدار کے ساتھ رہے گے اور دفاتر میں حزب اختلاف کا کوئی تصور ہی نہیں ہوتا چاہے معاملہ یا وجہ اصولی، مالی، تہذیبی، یا اخلاقی ہی کیوں نہ ہو۔

آج کل کاروباری دنیا میں نوکری کے کیا حال ہے؟ اس کو سمجھنے کےلیے کسی اجیر کا یہ جواب کافی ہے جو انھوں نے اپنے آجر کی شان میں دیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ میں حاجی رجاق بھائی یعنی آجر کا نوکر نہیں بلکہ ’’چاکر‘‘ ہوں۔ اب جن لوگوں کو نوکر اور چاکر کا فرق معلوم نہ ہو تو انھیں یہ فرق جناب مختار مسعود کی کتاب ’’لوح ایام‘‘ میں صفحہ نمبر اٹھاون پر مل جائے گا۔

ویسے اس وقت پورے ملک میں نوکری کا یہی حال ہے اور اس میں نجی اور سرکاری اداروں میں کوئی خاص تفریق نہیں ہے۔ پہلے یہ صرف سرکاری اداروں میں ہوتا تھا کہ یہ نہیں دیکھا جاتا تھا کہ کیا کہا جارہا ہے بلکہ صرف یہ دیکھا جاتا تھا کہ کون کہہ رہا ہے۔ اگر اپنا آدمی کہہ رہا ہے تو غلط بھی صحیح ہے اور اگر دوسری پارٹی کا آدمی کہہ رہا ہے تو پہلی پارٹی پر لازم ہے کہ اس کی درست بات کو بھی غلط قرار دے اور اس کی پوری قوت سے مخالفت کرے، چاہے اس میں ملک کا دیوالیہ ہی کیوں نہ نکل جائے۔ یہ جھوٹ ہے کہ اداروں کو قابل لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اداروں کی قیادت کو ’’صرف‘‘ مقلدین کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے علاوہ باقی سب خطرہ ہوتے ہیں۔ 

میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا زیادہ حصہ نجی اداروں میں گزارا ہے اور کچھ حصہ ایسے اداروں میں بھی کام کیا ہے جہاں ریاست کے حصص اکثریت میں تھے۔ نجی اداروں میں تو مزاج نہ ملنے پر ’’سیٹھ‘‘ جنبش ابرو سے ملازم کو ملازمت سے فارغ کر دیتا ہے کیونکہ نجی اداروں میں قابلیت سے زیادہ وفاداری کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ بھی ایسی وفاداری کہ جس کےلیے پطرس کو ایک پورا مضمون لکھنا پڑا تھا، ہرچند کہ وہ اس جاندار کی وفاداری پر نہ تھا۔ جبکہ سرکاری اداروں میں ایسے ملازمین سے نمٹنے کا مجرب نسخہ ’’افسر بکار خاص‘‘ بنایا جانا ہوتا ہے۔ اس میں سب سے دلچسپ کردار ادارے کے دیگر ملازمین کا ہوتا ہے کہ جو بیک وقت افسر بکار خاص بنائے جانے والے افسر سے ہمدردی کرتے ہیں اور نئے آنے والے افسر کو باور کرواتے ہیں کہ پہلی دفعہ انتظامیہ نے کوئی فیصلہ میرٹ پر کیا ہے اور اس عہدے پر ان سے بہتر تقرر کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ کسی میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہوتی کہ غلط کو غلط کہہ سکے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے جیسے ملک میں چناؤ سفارش کی جنگ ہوتی ہے اور جو یہ جنگ جیت جائے اس چناؤ کو میرٹ پر چناؤ یا شفافیت کہا جاتا ہے۔

میں نے تمام زندگی وفاداری کے مقابلے میں ایمانداری سے نوکری کرنے کو ترجیح دی اور عمر بھر اس کا پرچار بھی کیا لیکن آج کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ میں نے خود تو اپنے مستقبل سے جو کہ اب ماضی ہوچکا ہے، کھلواڑ ہی کیا بلکہ اوروں کو بھی غلط ہی نصیحت کی، حالانکہ یہ غلطی دانستہ نہیں کی تھی بلکہ اپنی طرف سے تو صحیح نصیحت کی کوشش تھی، بس ملک کی صورتحال کو پیش نظر رکھنا بھول گیا تھا۔ یہ ملک ایک مخصوص طبقے کے لوگوں کے من و رنجن کےلیے بنا ہے۔ یقین نہ آئے تو کرکٹ ٹیم سے لے کر کوئی بھی ٹیم دیکھ لیجئے، آپ کو وہ ٹیم بھانجے، بھتیجے، داماد اور بیٹوں پر مشتمل نظر آئے گی اور ٹیم میں داخلے کےلیے ہم میرٹ کے اشتہار سے اخبار بھر دیں گے۔

آخر میں ایک کہانی اور اختتام۔ یہ کہانی بھی باتصویر سماجی ذرائع ابلاغ پر دیکھی اور پڑھی تھی۔ ایک نوکری کےلیے آخر میں دو امیدوار رہ گئے تھے اور ادارے کا دعوٰی ہے کہ وہ اپنے ادارے میں انتخاب شفاف طریقے سے کرتے ہیں۔ دونوں امیدواروں کو ایک تصویر دکھائی جاتی ہے۔ تصویر میں سیکڑوں گاجریں زمین پر پڑی ہوتی ہیں۔ پہلے امیدوار سے پوچھا جاتا ہے کہ تصویر میں کون سی سبزی دکھائی گئی ہے؟ اور دوسرے امیدوار سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کتنی گاجریں ہیں؟ آپ جیسا کہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ادارے کا ریکارڈ کسی بھی داغ سے محفوظ رہتا ہے کہ وہاں صرف میرٹ پر ہی انتخاب ہوتا ہے۔ اس کہانی کی ایک سے زیادہ اداروں سے مماثلت محض اتفاقی ہے اور اس کو سنجیدہ لینے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیاست کا شکار ہے اور اس نوکری کے ہوتی ہے

پڑھیں:

جارحانہ انداز اپنانا کرکٹ کی ایک خوبصورتی ہوتی تھی، بیٹر کو ذہنی طور پر تنگ کرنا پڑتا ہے: محمد عامر

پاکستان سپر لیگ  10  کی ٹیم کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے فاسٹ بولر محمد عامر کا کہنا ہے کہ گراؤنڈ میں کسی سے یاری دوستی نہیں ہوتی اور نہ کوئی سینئر جو نیئر ہوتا ہے۔ایک انٹرویو میں محمد عامر نے کہا کہ ’ کوئی مجھے پہلے بال پر شاٹ مار دے  تو میں اسے جا کر جپھی تو نہیں ڈال سکتا میں اسے  جا کر کچھ بولوں گا ہی نا تاکہ اس کا فوکس ہٹے۔ محمد عامر نے بتایا کہ ’ ماضی میں خونخوار کرکٹ ہوا کرتا تھی ، سر ویوین رچرڈز ہمارے ساتھ ہیں، ان سے اس بارے پوچھیں ، ماضی میں ایسے لگتا تھا کہ بلا گراؤنڈ میں مار دیں گے، جارحانہ انداز اپنانا کرکٹ کی ایک خوبصورتی ہوتی تھی،  بیٹر کو ذہنی طور پر تنگ کرنا پڑتا ہے جس  کا مقصد اس کا فوکس ہٹانا ہوتا ہے، کسی کو ڈسٹرب کرنے کا مطلب کسی کو عزت نہ دینا نہیں ، گراؤنڈ سے باہر ہم سب گپیں مار رہے ہوتے ہیں۔محمد عامر کا ماننا ہے کہ’ کنٹرول میں رہ کر جارحانہ انداز اپنائیں، اگر نامناسب زبان استعمال کرتا ہوں تو امپائر پکڑے گا،  میچ ریفری جرمانہ کرے گا اگر کوئی مجھے جرمانہ نہیں کر رہا تو اس کا مطلب میں کنٹرول جارحانہ انداز اپنا رہا ہوں۔کرکٹر کا کہنا تھا کہ ’ ورلڈکپ جب کھیلنے آیاتھا تو کاؤنٹی کا معاہدہ چھوڑ کر آیا تھا  جتنا میں ورلڈ کپ میں کھیلا اس دوران میرے پیسے ہی زیادہ لگے ہیں، میرے ٹرینر نے میرے ساتھ سفر کیا اس کا سارا خرچ میں نے خود اٹھایا،   خیر وہ ایک الگ بات ہے لیکن ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ختم ہونے کے بعد کسی نے مجھ سے بات ہی نہیں کی،  کسی نے مجھے پلان کا نہیں بتایا عقل مند کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے ، جب میں پلان میں نہیں تو پھر میں نے اپنا تو سوچنا ہے اب میں نے سوچ لیا ہے کہ انٹر نیشنل کرکٹ سے تھینک یو ویری مچ ‘۔بابر اعظم کو اپنا حریف سمجھے جانے کے سوال پر  محمد عامر کا کہنا تھا کہ ’ بابر اعظم پاکستان کا بہترین کرکٹر ہے ، اس میں کوئی شک نہیں لیکن اس وقت اس کا بیڈ پیچ چل رہا ہے  اور یہ کچھ زیادہ لمبا ہوگیا ہے،   ہر کھلاڑی پر بیڈ پیچ آتا ہے ، جب بابر اس سے نکلے گا تو لمبے رنز کرے گا، میں نے نوٹ کیا ہے کہ بابر اعظم بال پر کچھ لیٹ آ رہا ہے اور اس وجہ سے بابر  شاٹ سلیکشن کے بارے میں فیصلہ نہیں کر پا رہا۔محمد عامر نے مزید کہا کہ’  ٹی ٹوئنٹی لیگ میں 2 ، 3 میچز سے نہ تو ٹیم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے  اور نہ کسی کھلاڑی کی پرفارمنس کا ، میرا یہ ماننا ہے کہ لیگ کے10  میچز میں سے3،  4 میچز ہی بہت اچھے جاتے ہیں، 2، 3  درمیانے ہوتے ہیں اور 2، 3 میچز خراب ہوتے ہی ہیں یہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا حسن ہے‘۔انہوں نے کہا کہ ’کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم متوازن ہے اور تمام شعبے مکمل ہیں ، مارک چمپن کے آنے سے مڈل آرڈر مزید متوازن ہو گا،   بیٹنگ میں تھوڑا مسئلہ آیا ہے ، 6 اوورز میں وکٹیں دیتے رہے ہیں، بولنگ میں ہماری بہترین کارکردگی ہے،  ہم بولنگ میں مزید اچھا کرسکتے ہیں‘۔لاہور میں ہونے والے میچز کے حوالے سے محمد عامر نے کہا کہ ‘ لاہور کا کراؤڈ بہت مزے کا ہے،  بہت شور کرتا ہے، لاہوریوں کی خوبصورتی ہے کہ دونوں ٹیموں کو سپورٹ کرتے ہیں،  لاہور کی کنڈیشنز ہمیں راس آئیں گی، اگر پچز بیٹنگ ہوں گی تو ہماری بیٹنگ رنز کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، عثمان طارق اسی ہفتے امید ہے کہ بولنگ ٹیسٹ بھی کلیئر کریں گے تو انکے آنے سے اور  بہتر ہوجائے گا ‘۔

متعلقہ مضامین

  • جارحانہ انداز اپنانا کرکٹ کی ایک خوبصورتی ہوتی تھی، بیٹر کو ذہنی طور پر تنگ کرنا پڑتا ہے: محمد عامر
  • ریاست کا حصہ ہیں، عقل کے اندھے آئین پڑھیں: عمر ایوب 
  • علیمہ خان کو سیاست میں گھسیٹنا ناجائز ہے، عمر ایوب
  •  قانون کی حکمرانی ہوتی تو ہمارے رہنما جیل میں نہ ہوتے :  عمرایوب
  • پانی کے مسئلے پر ہمیں سیاست نہیں کرنی چاہیے: احسن اقبال
  •   دیکھتے ہیں گنڈا پور منرلز بل پاس کرائیں گے، یا اپنی نوکری بچائیں گے: گورنر
  •  کینالز ، سیاست نہیں ہونی چاہئے، اتحادیوں سے ملکر مسائل حل کریں گے: عطاء تارڑ 
  • سندھ کے تعلیمی اداروں میں کیا ہورہا ہے؟
  • نہروں کا معاملہ افہام و تفہیم سے حل کرلیں گے، اس پر سیاست نہیں ہونی چاہیے، وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ
  • نکیال آزاد کشمیر۔۔۔ بچیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں