امریکی ٹیرف، پاکستان کا وفد امریکا بھیجنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
ویب ڈیسک: وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت امریکی نئے ٹیرف پر جائزہ اجلاس منعقد ہوا۔اس اجلاس کے حوالے سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق پاکستان نے نئے ٹیرف سے متعلق مذاکرات کے لیے اعلیٰ سطح کا وفد امریکا بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستانی وفد امریکا کے ساتھ تجارتی تعلقات کے فروغ اور نئے ٹیرف پر بات کرے گا، وزیرِ اعظم کی ہدایت پر وفد میں معروف کاروباری شخصیات اور برآمد کنندگان شامل ہیں۔
پی آئی اے بورڈ نے 2024 کے مالیاتی نتائج کی منظوری دے دی
وزیرِ اعظم نے وفد کو امریکی نئے ٹیرف پر مذاکرات کے بعد لائحہ عمل طے کرنے کا ٹاسک سونپ دیا ہے۔
آج ہونے والے اجلاس میں نائب وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار، وفاقی وزراء احد خان چیمہ، محمد اورنگزیب، علی پرویز ملک، مشیر وزیرِ اعظم سید توقیر شاہ، طارق فاطمی، ہارون اختر شریک تھے۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ امریکا اور پاکستان کے تجارتی تعلقات دہائیوں پر محیط ہیں، حکومت امریکا کے ساتھ تجارتی شراکت داری کو مزید مضبوط بنانے کی خواہاں ہے۔
پی ایس ایل 10: افتتاحی تقریب 11 اپریل کو راولپنڈی سٹیڈیم میں ہوگی
اعلامیے کے مطابق وزیرِ اعظم کو امریکی نئے ٹیرف پر اسٹیئرنگ کمیٹی، ورکنگ گروپ کی رپورٹ اور مستقبل کا مجوزہ لائحہ عمل پیش کیا گیا۔
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: نئے ٹیرف پر
پڑھیں:
امریکی کانگریس میں بھارت سے تعلقات میں جمود، پاکستان کو کلیدی شراکت دار قرار دینے پر بحث
واشنگٹن میں اس ہفتے امریکی ایوانِ نمائندگان کی فارن افیئرز سب کمیٹی برائے جنوبی و وسطی ایشیا کی سماعت میں یہ بات نمایاں رہی کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسلسل پاکستان کو ‘کلیدی علاقائی شراکت دار’ قرار دیتے آ رہے ہیں، جبکہ ان کی انتظامیہ بھارت کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
سماعت کے دوران ارکانِ کانگریس اور ماہرین نے واشنگٹن کی بھارت پالیسی پر سخت اختلافات کا اظہار کیا۔ گواہوں نے خبردار کیا کہ ٹرمپ کی جانب سے 50 فیصد ٹیرف، ویزا پابندیوں اور سیاسی بداعتمادی نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو ‘سیاسی جمود’ کا شکار کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان میں دہشتگردی کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے، دفتر خارجہ
کنزرویٹو تھنک ٹینک ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے ماہر جیف اسمتھ نے اعتراف کیا کہ تعلقات ‘گہرے پانیوں’ میں داخل ہو چکے ہیں۔ ان کے مطابق اس تناؤ کی وجہ ایک جانب ٹرمپ کے بھاری ٹیرف ہیں، تو دوسری جانب پاکستان کے ساتھ امریکی رابطوں پر بھارت کی بےچینی۔
ڈیموکریٹ رکن کانگریس سِڈنی کاملاگر ڈَو نے سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے ساتھ ایک تجارتی معاہدہ جولائی میں دستخط کے قریب تھا مگر وائٹ ہاؤس نے اسے اچانک واپس لے لیا، اور اس کے بجائے بھارت پر 50 فیصد ٹیرف اور روسی تیل کی درآمد پر 25 فیصد نیا ٹیرف نافذ کیا گیا۔
ان کے مطابق یہ تاثر بڑھ رہا ہے کہ بھارت بدلتی عالمی سیاست میں ابھی بھی روس اور چین کے قریب رہنے کی حکمتِ عملی پر گامزن ہے۔
انہوں نے نئے ایچ ون بی ویزا فیس پر بھی تنقید کی، جس سے بھارتی آئی ٹی اور میڈیکل پروفیشنلز سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ ان پالیسیوں سے اعلیٰ سطحی مصروفیات منجمد ہو گئیں اور کوآڈ لیڈرز سمٹ بھی مؤخر کرنی پڑی۔
یہ بھی پڑھیے: بھارت کی دوہری پالیسی مہنگی پڑ گئی، امریکا نے 50 فیصد تک ٹیکس لگا دیا
واشنگٹن اسٹیٹ کے ری پبلکن رکن کانگریس مائیک باؤمگارٹنر نے سوال اٹھایا کہ کیا بھارت واقعی امریکا کے ساتھ دفاعی تعاون بڑھانے میں سنجیدہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ بھارتی فوج پر ایک کتاب میں روس کے ساتھ بھارتی مشقوں کی نمایاں تصاویر تھیں، جبکہ امریکا کے ساتھ مشقیں محض ایک چھوٹے خانے میں دکھائی گئیں۔
سماعت میں یہ نکتہ بھی ابھرا کہ کانگریس کے سخت بیانیے کے برعکس صدر ٹرمپ پاکستان کے بارے میں پورے سال نرم لہجہ اختیار کیے رہے۔ انہوں نے 30 سے زائد بار پاکستان کی تعریف کی، اسے ‘کلیدی علاقائی شراکت دار’ کہا اور بھارت پاکستان کشیدگی کے بعد کسی ایک فریق کو ذمہ دار ٹھہرانے سے گریز کیا۔
تحلیل کاروں نےاعتراف کیا کہ ٹرمپ کے بیانات نے بھارت میں سیاسی دباؤ بڑھا دیا ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب بھارت اور پاکستان نے طیاروں کی تباہی کے دعوؤں اور جوابی بیانات کی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔
اوبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن امریکا کے دھروَہ جیشَنکر نے کہا کہ پاکستان کی عسکری قیادت کے ساتھ حالیہ امریکی رابطے بھارت کے لیے تشویشناک ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حل طلب تجارتی تنازعات بھارت میں ‘سیاسی مخاصمت’ کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: امریکی کانگریس کا مبینہ خط: پی ٹی آئی کی کہانی جھوٹ کا پلندہ ثابت، امریکی حکام کی تردید
جیشَنکر نے باور کرایا کہ امریکا بھارت تعلقات آگے بڑھ سکتے ہیں، مگر اس کے لیے پاکستان سے متعلق پالیسی اور تجارتی تنازعات کو درست طریقے سے سنبھالنا ہوگا۔ ساتھ ہی انہوں نے دفاعی تعاون میں جاری پیش رفت 10 سالہ تعاون فریم ورک، مشترکہ پیداوار، ناسا اسرو سیٹلائٹ، اور بھارت کے انسانی خلائی مشن میں امریکی معاونت کو اہم قرار دیا۔
جرمن مارشل فنڈ کے سمیر لالواِنی نے کہا کہ بھارت عالمی نظام میں ایک ‘خودمختار قطب’ بننے کی کوشش کر رہا ہے، نہ کہ امریکی اتحاد کا حصہ بننے کی۔ جبکہ جیف اسمتھ کے مطابق پاکستان کی عسکری قیادت کے ساتھ امریکی روابط نے بھارت میں سیاسی بےچینی بڑھائی ہے۔
سماعت نے واضح کر دیا کہ امریکا بھارت تعلقات کا اصل ستون سیاسی اعتماد اس وقت دباؤ کا شکار ہے۔ اور جیسے جیسے واشنگٹن جنوبی ایشیا میں اپنے تزویراتی آپشنز پر نظرِ ثانی کر رہا ہے، پاکستان کا کردار دوبارہ امریکی بحث کا اہم حصہ بنتا جا رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا بھارت پاکستان تعلقات کانگریس