طالبان حکومت کی بگرام ائیربیس کا کنٹرول امریکا کے حوالے کرنے کی تردید
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
کابل(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔09 اپریل ۔2025 )افغانستان کی طالبان حکومت نے بگرام ائیربیس کا کنٹرول امریکا کے حوالے کرنے کی تردیدکرتے ہوئے کہا ہے کہ کابل حکومت کا اڈے پر مکمل کنٹرول ہے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایسی اطلاعات کو پروپیگنڈ اقرار دیا انہوں نے کہا کہ حکومت کا اڈے پر مکمل کنٹرول ہے برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ذبیح اللہ مجاہد نے امریکی فوجی اڈے پر امریکی قبضے کو ناممکن قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت افغانستان میں کسی ملک کی فوجی موجودگی کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور امارت اسلامیہ ایسی کارروائی کی اجازت نہیں دے گی.
(جاری ہے)
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ امریکی فوجی اڈے پر قبضہ ناممکن ہے اور اس وقت افغانستان میں کسی ملک کی فوجی موجودگی کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور امارت اسلامیہ ایسی کارروائی کی اجازت نہیں دے گی ادھرافغانستان کی وزارت خارجہ کے نائب ترجمان ضیا احمد تکل نے بھی اس خبر کی تردید کی ہے انہوں نے بتایا کہ یہ خبر درست نہیں ہے. امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے اب تک ان رپورٹوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ امریکی دفاعی ذرائع نے بتایا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کی کوئی موجودگی نہیں ہے. واضح رہے کہ افغانستان میں گزشتہ ہفتے پرواز کرنے والے ایک امریکی کارگو فوجی طیارے نے قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے کہ امریکا بگرام ایئر بیس کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر سکتا ہے تاہم افغان طالبان نے ان خبروں کو مسترد کردیا ہے نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق طالبان حکومت قائم ہونے کے بعد بیرون ملک کام کرنے والے افغان خبررساں ادارے نے رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ ”سی 17“ طیارے نے اتوار کو قطر کے شہر العدید سے اڑان بھری اور پاکستان کے راستے افغانستان میں بگرام ایئربیس پہنچا. رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھاکہ طیارے میں سی آئی اے کے ڈپٹی چیف مائیکل ایلس سمیت اعلیٰ امریکی انٹیلی جنس حکام سوار تھے رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ طالبان نے یہ اڈا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کے تناظر میں امریکا کے حوالے کیا ہے جس میں انہوں نے کابل کے شمال میں واقع اس تنصیب میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے افغانستان میں نہیں ہے کی فوجی اڈے پر
پڑھیں:
یمن میں امریکہ کو بری طرح شکست کا سامنا ہے، رپورٹ
اسلام ٹائمز: ایران کو تزویراتی گہرائی اور معاشی وسائل کی فراوانی اور ہتھیاروں کی مقدار اور معیار کے لحاظ سے حوثیوں پر برتری حاصل ہے اور اس کے پاس تیز رفتار اینٹی شپ میزائل ہیں جو امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کو ہلاکت خیز دھمکی دینے اور تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ جیسے جیسے امریکہ کی سپر پاور کی حیثیت بتدریج ختم ہوتی جارہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ اب اپنے عالمی مفادات کو پہلے جیسی آسانی کے ساتھ برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہا۔ خصوصی رپورٹ:
چینی ویب سائٹ SOHO کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کو فوجی طاقت اور وسیع فوجی سہولیات کے باوجود یمن کے انصار اللہ کے مقابلے میں بری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جیسا کہ کہاوت ہے کہ کاٹنے والا کتا کبھی نہیں بھونکتا اور حقیقی طاقتور اوچنا نہیں بولتا۔ امریکہ کی موجودہ فوجی طاقت کو دیکھتے ہوئے، اصولی طور پر یہ کہنا ممکن ہے کہ ایران کے ساتھ امریکہ کے تصادم پر یہ مقولہ صادق آتا ہے، جیسا کہ ابتدائی طور پر ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے طاقت کے استعمال کی بات کی، حوثیوں پر تابڑ توڑ حملے ایک ایسی ہی گھن گرج پر مبنی حکمت عملی ہے، جو امریکیوں کو معقول محسوس ہو رہی ہے، لیکن اس کے پیچھے مذکورہ مقولہ ہی سچ لگتا ہے۔
فی الحال، ریاستہائے متحدہ کے پاس دو طیارہ بردار بحری جہاز اور ان کے ساتھ بحیرہ احمر کے علاقے میں اسٹرائیک گروپس موجود ہیں، جن کے چاروں طرف تباہ کن کشتیوں اور اسکارٹ جہازوں کے بیڑے ہیں۔ اس کے علاوہ، واشنگٹن نے بڑی تعداد میں B-2 سٹیلتھ بمبار طیاروں کو اپنی سرزمین سے منتقل کر دیا ہے اور انہیں بحر ہند میں ایک اڈے پر تعینات کر دیا ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر یہ فوجی تعیناتی واضح طور پر حوثیوں کے خلاف ہی ہے۔ لیکن حقیقت میں اس سے امریکہ کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔ ایک ماہ سے زیادہ کی مسلسل فضائی بمباری کے باوجود حوثیوں نے ہتھیار نہیں ڈالے ہیں۔
وہ پہلے کی طرح (غزہ کی حمایت میں) وقتاً فوقتاً جوابی حملے کرتے رہتے ہیں۔ تہران کے ساتھ مذاکرات کے وقت، واشنگٹن نے حوثیوں کے خلاف اپنی جنگ شروع کرنے کو ترجیح دی۔ اگرچہ یہ ایران کو مذاکرات کی شرائط ماننے اور براہ راست جنگ سے بچنے کے لیے مجبور کرنے کے لیے طاقت کا مظاہرہ لگتا ہے، لیکن یہ احتیاط سے تیار کی گئی امریکی چال کارگر ثابت نہیں ہوئی اور بالآخر ایک فسانہ اور جعلی شو میں بدل گئی۔ واشنگٹن کی اعلیٰ فوجی طاقت محدود صلاحیتوں کے ساتھ "یمن کی عوامی فوج" کے خلاف غالب آنے میں ناکام رہی۔ اگر حوثی ایسے ہیں، تو امریکہ ایران سے لڑنے کا فیصلہ کریگا تو حالات کیا ہوں گے؟
ایران کو تزویراتی گہرائی اور معاشی وسائل کی فراوانی سمیت کئی حوالوں سے ہتھیاروں کی مقدار اور معیار کے لحاظ سے حوثیوں پر برتری حاصل ہے اور اس کے پاس تیز رفتار اینٹی شپ میزائل ہیں جو امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کو ہلاکت خیز دھمکی دینے اور تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ جیسے جیسے امریکہ کی سپر پاور کی حیثیت بتدریج ختم ہوتی جارہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ اب اپنے عالمی مفادات کو پہلے جیسی آسانی کے ساتھ برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہا۔ امریکہ نے یوکرین کے بحران میں روس کا سر توڑ مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں اور وہ مشرق وسطیٰ میں یمن کی دلدل میں پھنس گیا۔
"واشنگٹن نے خطے میں اپنے سلسلہ وار اقدامات سے ایک مضبوط قوت کا مظاہرہ کرنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن اس کے بالکل برعکس ہوا، اور آج ایسا لگتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور سب کی نظریں اس طرف لگی ہوئی ہیں کہ کیا واشنگٹن اپنا کام جاری رکھے گا یا ذلت اور مایوسی میں پیچھے ہٹ جائے گا۔"