Express News:
2025-04-22@07:28:23 GMT

برصغیر کا نظام عدل

اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT

برصغیر پاک و ہند میں ہمیشہ سے عدل کا نظام موجود تھا۔ مغلیہ ہندوستان کی تاریخ میں کئی ایسے قاضی گزرے ہیں جنھوں نے بادشاہِ وقت کے خلاف فیصلے دیے مگر مجموعی طور پر مغلوں کے دور میں عدل کا معیار خاصا پسماندہ تھا۔ لوگوں کے انفرادی مقدمات میں تو انصاف مل جاتا تھا مگر بادشاہوں، ان کے گورنروں اور دربار کے دیگر اراکین کے خلاف فیصلوں کی کم مثالیں ملتی ہیں۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے جب اپنی نوآبادیاتی قائم کرنا شروع کی تو پھر برطانوی طرزکا عدالتی نظام قائم ہوا۔ اس نظام میں عدلیہ کی آزادی اور وکیل اور بار ایسوسی ایشن کے کردار کو خصوصی اہمیت حاصل ہوئی، انگریز دور میں پہلے تو صرف انگریز جج مقررکیے جاتے تھے، پھر مقامی وکلاء اور بیوروکریٹس کو جج مقرر کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

برطانوی ہند میں انگریز جج ہوتا تھا یا ہندوستانی جج۔ ہندوستانی شہریوں کے آپس کے تنازعات کے معاملات میں تو انصاف یقینی ہوتا تھا مگر جہاں کہیں انگریز اور مقامی ہندوستانی شہری کے درمیان تنازع ہوتا تو پھر انصاف کا پلڑا انگریز کے حق میں جھک جاتا تھا۔ انگریز دور میں ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے حریت پسندوں کو انگریز حکومت کے خلاف انصاف ملنے کا تصور نہیں تھا۔ پھر انگریز برصغیر سے چلے گئے۔

بھارت اور پاکستان کو آزادی کے ساتھ عدالتی نظام بھی ورثہ میں ملا۔ بھارت نے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہروکی قیادت میں آئین کی تیاری کے تمام مراحل مکمل کیے۔ بھارت کی پارلیمنٹ نے 26 نومبر 1949ء کو نیا آئین منظور کیا۔ آئین دلت رہنما Dr.

Bimrao Ramji Ambedkar کی نگرانی میں تیار ہوا اور 26 جنوری 1956ء کو نافذ ہوا۔ اس آئین کے تحت آزاد عدلیہ کی مکمل ضمانت دی گئی۔ بھارتی عدلیہ نے مختلف ادوار میں انسانی حقوق کی پاسداری اور مظلوم طبقات کے حقوق کے تحفظ اور ان حقوق پرعملدرآمد کے لیے کئی تاریخی فیصلے کیے۔

بھارتی سپریم کورٹ نے Suo Motu اختیارات کے ذریعے طرزِ حکومت کو بہتر بنانے، پسماندہ طبقات کے حقوق کے تحفظ اور ماحولیات کو بچانے کے لیے اہم فیصلے کیے گئے۔ ان فیصلوں کی دنیا کے مختلف ممالک کے جج صاحبان بطور نظیر استعمال کرتے ہیں مگر مودی دور کے آغاز کے ساتھ ہی عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی ۔

بھارت کے ایک سینئر وکیل اور انسانی حقوق کی بالادستی کی تحریک کے کارکن مسٹر Prashand Bhasan نے سوشل میڈیا پر بتایا ہے کہ گزشتہ 10برسوں میں بھارتی سپریم کورٹ کے جن ججوں نے مودی حکومت کے حق میں فیصلے کیے انھیں ریٹائرمنٹ کے بعد اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا۔ ان میں وہ جج صاحبان بھی شامل ہیں جنھوں نے بھارت کی ریاست گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے بنیادی ملزمان وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شا وغیرہ کو قتل، اغواء اور بلوؤں جیسے سنگین مقدمات سے بری کردیا۔ ذکیہ نسیم جعفری بھارتی پارلیمنٹ کے سابق رکن نسیم جعفری کی بیوہ تھیں۔

جعفری اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو گجرات میں ہونے والے فسادات میں قتل کردیا گیا۔ ذکیہ نسیم جعفری نے 2000سے اپنے شوہر کے قاتلوں کو سزا دلوانے کے لیے جدوجہد کرتی رہیں مگر انھیں انصاف نہیں مل سکا۔ ذکیہ گزشتہ دنوں انتقال کرگئیں۔ ذکیہ کا مقدمہ مودی اور امیت شاہ وغیرہ کے خلا ف تھا۔ بھارتی وکیل بھوسن کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے اعلیٰ عدالتوں میں آزاد سوچ رکھنے والے ججوں کے تقرر کے راستے بند کردیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت کے آئین کی شق 124 کے تحت سپریم کورٹ کے 5 سینئر ججوں کا Collision سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کے تقرر کا فیصلہ کرتا ہے۔

یہ Collision سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی آسانی کے لیے مطلوبہ معیار پر پورے اترنے والے فرد کا نام مرکزی حکومت کو بھیجتا ہے مگر بقول مسٹر بھوسن حکومت کئی کئی سال تک سپریم کورٹ کے تجویز کردہ جج کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کرتی، اگر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بار بار حکومت کو یاد دہانی کرائیں تو حکومت کوئی اعتراض بھجوادیتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ایسا کئی دفعہ ہوا کہ بھارتی سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے حکومت کے اعتراض کو مسترد کردیا اور حکومت کو دوبارہ نام بھجوایا گیا مگر حکومت نے پھر بھی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ وزیر قانون اور ان کے سیکریٹری کا عدالتی نظام پر عملدرآمد نہ کرنا توہینِ عدالت کے زمرے میں آجاتا ہے مگر بھارت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ کبھی بھی وزیر قانون اور وزارتِ قانون کے سیکریٹری کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔ انھوں نے بھارتی حکومت کے ججوں کو بلیک میل کرنے کے ایک اور طریقہ کو آشکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کا Dozier تیارکیا جاتا ہے۔

تمام خفیہ ایجنسیوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ جج ، اس کے بیوی بچوں اور قریبی رشتے داروں کے بارے میں معلومات جمع کی جائیں، اگرکسی جج یا اس کے قریبی عزیز کے بارے میں کوئی منفی رپورٹ مل جائے تو پھر اس جج کو بلیک میل کیا جاتا ہے، اگر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے Dozier میں منفی رپورٹیں شامل ہوجائیں تو پھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی ہدایت پر چیف جسٹس نہ صرف حکومت کی پسند کے ججوں کا تقررکرتے ہیں اور ججوں کی ایسی بنچ بناتے ہیں کہ ہر صورت فیصلہ حکومت کے حق میں آئے۔ بھارت کی وکلاء کی تنظیمیں اس صورتحال پر سخت پریشانی کا اظہار کررہی ہیں مگر ہندو انتہاپسندی کا بیانیہ بنا کر ایسوسی ایشن کو بھی تقسیم کیا جارہا ہے۔

 پاکستانی عدلیہ ہمیشہ حکومت کی بالادستی میں کام کرتی رہی مگر سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے دور میں الجہاد ٹرسٹ کیس کے مقدمے کے فیصلے میں عدلیہ کسی حد تک انتظامیہ سے آزاد ہوئی تھی ۔ سپریم کورٹ کے ججوں کی اکثریت اور سجاد علی شاہ کو جونیئر جج ہونے کی بناء پر چیف جسٹس کے عہدے سے معزول کردیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف حکومت نے عبوری آئینی حکم (P.C.O) پر حلف نہ اٹھانے والے ججوں کو ملازمت سے فارغ کردیا اور نئے ججوں کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے پر مجبور کیا گیا۔

2007ء میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تو وکلاء نے تاریخی جدوجہد کی۔ حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں نے اس تحریک کی حمایت کی، یوں چیف جسٹس افتخار چوہدری ایک طرف اپنے عہدے پر دوبارہ فائز ہوئے تو دوسری طرف آئین میں کی گئی 18ویں اور 19ویں ترامیم کے تحت عدلیہ کو نئی آزادی مل گئی ۔ جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت نے منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہینِ عدالت کی سزا دی، یوں وہ اپنے عہدے سے محروم ہوئے۔ جس سے ملک میں ایک نیا سیاسی بحران پیدا ہوا۔ افتخار چوہدری کے بعد سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس کھوسہ، جسٹس گلزار اور جسٹس بندیال وغیرہ کے دور میں بھی عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان فاصلے بڑھ گئے۔

دوسری طرف سپریم کورٹ میں زیرِ التواء مقدمات کی تعداد ہزاروں سے لاکھوں تک پہنچ گئی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ وکلاء بنچ دیکھ کر مقدمہ کا فیصلہ سنادیا کرتے تھے۔ پھر آئین میں 26ویں ترمیم ہوئی۔ اس ترمیم کے تحت ججوں کے تقرر میں پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کا کردار بڑھ گیا ۔تقرری کے لیے سینیارٹی کے بجائے میرٹ کا طریقہ کار رائج ہوا۔ یوں جونیئر ججوں کی تعیناتیاں بھی ہوئیں ۔ اس کے ساتھ یہ ابہام بھی سامنے آیا کہ کون سا مقدمہ کس بنچ کے سامنے پیش ہوگا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں میں سینیارٹی کا مسئلہ ایک نئے تصادم کی طرف لے گیا۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہائی کورٹ کے ججوں افتخار چوہدری حکومت کو حکومت کے بھارت کی ججوں کی اور ان کے لیے تو پھر کے تحت

پڑھیں:

ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ

ویب ڈیسک : صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔

سپریم کورٹ میں  9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی،  جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ  صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔

صوبہ بھر میں انفورسمنٹ سٹیشن قائم کرنے کا فیصلہ، وزیراعلیٰ پنجاب کی زیر صدارت خصوصی اجلاس

جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔

  واٹس ایپ کا ویڈیو کالز کیلئے فلٹرز، ایفیکٹس اور بیک گراؤنڈز تبدیل کرنے کا نیا فیچر

وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین  نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔

صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔

جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آہپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔

لاہور؛ بین الاصوبائی گینگ کا سرغنہ مارا گیا

جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔  بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔

Ansa Awais Content Writer

متعلقہ مضامین

  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
  • ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں،ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ کے صنم جاوید کی بریت فیصلے کیخلاف پنجاب حکومت کی اپیل پرریمارکس
  • سپریم کورٹ: 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید اور شیخ رشید کی بریت پر حکومت کو عدالت کا دو ٹوک پیغام
  • سپریم کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی انتقال کرگئے
  • سابق جج سپریم کورٹ جسٹس سرمد جلال عثمانی انتقال کر گئے
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھالیا
  • سپریم کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈسرمد جلال عثمانی انتقال کرگئے
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائمقام چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھالیا
  • چیف جسٹس نے ججز کے تبادلوں پر رضامندی ظاہر کی تھی: رجسٹرار سپریم کورٹ
  • ججز کے تبادلے چیف جسٹس کی مشاورت سے ہوئے، رجسٹرار سپریم کورٹ کا جواب