امریکااورایران کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے ہی کشیدہ رہے ہیں،لیکن حالیہ بیانات اورعسکری تیاریوں نے اس تناکومزیدبڑھادیاہے اوریہ تنازعہ مزید شدت اختیارکرگیاہے ۔ ٹرمپ کی جانب سے ایران کودی گئی دھمکیاں اورسخت گیررویے ایران کے سپریم لیڈرآیت اللہ علی خامنہ ای کی طرف سے سخت ردِعمل نے خطے میں بے چینی کوبڑھادیاہے۔یوں محسوس ہورہاہے کہ امریکامیں جنگی سازوسامان بنانے والوں نے اپنے کارخانوں کومزیدتیزی سے چلانے کے لئے وائٹ ہاس پراپنی گرفت کواورزیادہ مضبوط کرلیاہے جس کی بناء پر خطے میں ہولناک تباہی کاسلسلہ کبھی بھی کسی بہانے شروع ہوسکتاہے۔
سی بی ایس نیوزکے مطابق اتوارکواین بی سی نیوزکودئیے گئے ایک انٹرویو میں امریکی صدرٹرمپ کاکہناتھاکہ’’اگروہ(ایرانی حکام)معاہدہ نہیں کرتے تو پھر بمباری ہوگی اوربمباری بھی ایسی جوانہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوگی‘‘۔ایرانی خبرایجنسی ارناکے مطابق امریکی صدرکی جانب سے ایران کو12مارچ کوخط لکھاگیاتھاجسے متحدہ عرب امارات کے ایک سفارتکارنے تہران پہنچایا تھا۔یہ پیشکش ایک خط کے ذریعے رواں سال مارچ کے اوائل میں ایرانی قیادت کوبھیجی گئی تھی جس میں تہران کو فیصلہ کرنے کے لئے دو ماہ کاوقت دیا گیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے فاکس نیوزکوبتایاتھاکہ انہوں نے ایران کے رہبرِاعلی آیت اللہ علی خامنہ ای کوایک خط لکھ کرمذاکرات کی دعوت دی ہے۔اس کے بعد ٹرمپ کایہ حالیہ بیان ایران کے خلاف سخت امریکی پالیسی کی عکاسی کرتاہے اوراس نے دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید کشیدگی پیداکردی ہے۔
امریکی صدرڈونلڈٹرمپ کی طرف سے دی گئی بمباری کی دھمکی کے جواب میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے واضح الفاظ میں ٹرمپ کی تجویز کو ظالمانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔انہوں نے کہاہے کہ امریکااوراسرائیل کی ہمیشہ سے ہم سے دشمنی رہی ہے۔وہ ہمیں حملے کی دھمکیاں دیتے ہیں جوہمیں زیادہ ممکنہ نہیں لگتالیکن اگرامریکا یااسرائیل نے کوئی جارحیت یاشرارت کی توایران سخت جواب دے گا۔ایران نے ہمیشہ اپنے دفاعی نظام کومضبوط بنانے پرزوردیاہے اورکسی بھی حملے کے جواب میں سخت کارروائی کاعندیہ دیاہے۔
ٹرمپ نے ایران پرمزیداقتصادی پابندیوں کابھی عندیہ دیاکہ اگرایران معاہدہ نہیں کرتاتواس پراضافی ٹیرف عائدکیے جائیں گے،جیسا کہ ان کی سابقہ حکومت میں کیاگیاتھالیکن ایرانی قیادت کامؤقف ہے کہ مغربی ممالک اقتصادی پابندیوں کے ذریعے ایران کوکمزور کرناچاہتے ہیں،لیکن وہ کسی بھی دباؤکے سامنے جھکنے کوتیارنہیں۔اقتصادی پابندیاں ایران کی معیشت پرپہلے ہی گہرے اثرات مرتب کرچکی ہیں،لیکن ایران نے اب تک ان پابندیوں کوجھیلتے ہوئے اپنی پالیسیوں میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں کی۔ایرانی حکام کاکہناہے کہ 2019ء اوراس کے تین سال بعد2022ء اور 2023ء میں مہساامینی احتجاج اورایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ہونے والے مظاہرے مغربی سازش کاحصہ تھے۔ایران کا مؤقف ہے کہ یہ مظاہرے ایرانی استحکام کونقصان پہنچانے کے لئے ترتیب دئیے گئے تھے۔ امریکا اوراس کے اتحادی ایرانی داخلی سیاست کوغیرمستحکم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ایرانی صدرمسعودپژشکیان کاکہناہے کہ ان کے ملک نے امریکاکومطلع کردیاہے کہ وہ بالواسطہ مذاکرات کے لئے راضی ہے ایران نے کبھی مذاکرات سے انکار نہیں کیالیکن دوسرے فریق کی جانب سے وعدے ٹوٹنے کے سبب اعتمادکوٹھیس پہنچی ہے۔ایرانی صدرکا کابینہ کے اجلاس میں کہناتھاکہ ’’ہم نے اپنے جواب میں فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات کے امکان کوردکردیاہے لیکن بالواسطہ بات چیت کاراستہ کھلاہے۔مذاکرات جاری رہنے کاانحصارامریکاکے برتاؤپرہوگا‘‘۔
ایرانی صدرنے اپنی کابینہ کویہ بھی بتایاکہ ایران نے عمان کے ذریعے امریکاکے خط کاجواب دیتے ہوئے ’’براہ راست مذاکرات مسترد کردئیے گئے ہیں‘‘۔ ایرانی اورامریکی دونوں ممالک کے حکام اس خط میں موجودتفصیلات پربات کرنے سے گریزاں نظرآتے ہیں۔ایران کی وزارتِ خارجہ کاایک بیان میں کہناتھاکہ ایران اورامریکا کے درمیان خطوط کے تبادلے کواس وقت تک صیغہ رازمیں رکھاجائے گاجب تک یہ ملک کے مفادمیں ہے۔
ایرانی وزارتِ خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیاتھاکہ ’’بین الاقوامی مذاکرات،خطوط کے تبادلے اورسفارتی عمل کی تفصیلات کوجاری نہ کرناایک پیشہ وارانہ عمل ہے اورقومی مفاد سے مطابقت رکھتاہے‘‘۔ اس سے قبل ایرانی وزیرِخارجہ عباس عراقچی کہہ چکے ہیں کہ اس(امریکی)خط کے مختلف پہلوہیں اوراس کے ایک حصے میں دھمکیاں بھی موجودہیں۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ایران کے ایران نے ٹرمپ کی کے لئے

پڑھیں:

ایران کا جوہری پروگرام(3)

اسلام ٹائمز: مسقط میں ہونیوالے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟ تحریر: سید نوازش رضا

مسقط مذاکرات سے قبل ایران نے دنیا کو ایک مضبوط پیغام دیا کہ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود سائنسی و جوہری ترقی ممکن ہے اور وہ اس میدان میں خود کفیل ہوچکا ہے۔ اگرچہ جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے، تاہم ساتھ ہی ایک خاموش مگر واضح پیغام بھی دیا کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا جوہری پروگرام اب اُس سطح تک پہنچ چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ مزید برآں، ایران نے یہ انتباہ بھی دیا کہ اگر اس کے خلاف کوئی فوجی کارروائی کی گئی تو اس کا ردعمل نہایت سخت اور سنگین ہوگا، جس کے عالمی سطح پر خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔"

اسرائیل کے لیے پیغام:
"ہم ٹیکنالوجی میں اتنے قریب ہیں کہ اگر چاہیں تو جوہری ہتھیار بنا سکتے ہیں، اس لیے حملے کی غلطی نہ کرنا۔" اسرائیل کے لیے یہ اسٹریٹیجک ڈیٹرنس (Strategic Deterrent) ہے، تاکہ اسرائیل کو باز رکھا جا سکے۔

امریکہ کے لیے پیغام:
ایران نے واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ اگر امریکہ نے باعزت اور برابری کی سطح پر مذاکرات نہ کیے اور عائد پابندیاں ختم نہ کیں، تو وہ اپنے راستے پر بغیر رکے آگے بڑھتا رہے گا۔ ایران نے یہ بھی باور کرا دیا کہ وہ جوہری ٹیکنالوجی میں اُس مقام سے آگے نکل چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔"

اسرائیل اور امریکہ کا ممکنہ ردعمل کیا ہوگا؟
اسرائیل:
ممکنہ طور پر ایران کے سائنسدانوں، تنصیبات یا سپلائی چین کو ہدف بنا سکتا ہے، لیکن: امریکہ براہ راست فوجی کارروائی سے اس وقت گریز کرے گا، کیونکہ: یوکرین کا محاذ ابھی کھلا ہے۔ ایران کا جوابی حملہ مشرق وسطیٰ کو آگ میں جھونک سکتا ہے

اس تمام صورتحال میں امریکہ کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے
-امریکن صدر ٹرمپ اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے صرف جارحانہ بیانات دے سکتا ہے، لیکن امریکہ فوجی کارروائی سے گریز کرے گا۔  
-امریکی اسٹیبلشمنٹ (سی آئی اے، پینٹاگون) سفارتی حل کو ترجیح دے گی۔
یورپ اور امریکہ، خاص طور پر ان کی انٹیلیجنس ایجنسیاں (جیسے CIA ،MI6) ایران کی جوہری پیش رفت پر مسلسل نظر رکھتی آئی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ: ایران یورینیم کو 60% تک افزودہ کر رہا ہے، جبکہ 90 فیصد بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ایران نے جدید IR-6 اور IR-9 سینٹری فیوجز بنائے ہیں۔ ایران نے ریسرچ ری ایکٹرز اور بھاری پانی کی ٹیکنالوجی میں خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔

اس لیے مغربی انٹیلیجنس دائرے میں یہ بات اب ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے کہ ایران جوہری ٹیکنالوجی میں ایک اہم مرحلہ عبور کرچکا ہے۔ البتہ وہ عوامی سطح پر اس کو تسلیم نہیں کرتے، تاکہ ایران پر دباؤ برقرار رکھا جا سکے اور اپنے لاڈلے لونڈے اسرائیلی کے اس مطالبات سے بچا جاسکے کہ "فوری حملہ کرو۔" اب سوال یہ ہے کہ امریکہ مسقط مذاکرات میں کیا حاصل کرنا چاہتا تھا اور کیا حاصل کرنا چاہ رہا ہے۔؟ کیا وہ سفارتی ذرائع کے ذریعے JCPOA جیسے معاہدے کی جانب واپسی کا راستہ اختیار کرے گا، یا پھر اپنی سپر پاور حیثیت کا بھرم قائم رکھنے کے لیے مزید دباؤ، اقتصادی پابندیاں اور خفیہ فوجی اقدامات کا سہارا لے گا؟"

ظاہراً امریکہ کے پاس سفارتی ذرائع کے ذریعے کسی معاہدے تک پہنچنے کے سوا کوئی مؤثر آپشن نظر نہیں آتا، کیونکہ ماضی میں اقتصادی پابندیوں نے ایران پر خاطر خواہ اثر نہیں ڈالا اور فوجی اقدام دنیا کو ایک ممکنہ عالمی جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ "ایران نے جس انداز سے اب تک اپنی فوجی اور جوہری طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے امریکہ کو یہ باور کرا دیا ہے کہ مذاکرات کی میز پر اب ایک طاقتور اور متوازن فریق موجود ہے۔ ٹرمپ چاہے زبان سے سخت لہجہ اختیار کریں، لیکن اندرونی طور پر انہیں لچک دکھانا پڑے گی، کیونکہ ایران اب "دباؤ" کے بجائے "ٹیکنالوجی" کی زبان میں بات کرے گا۔

مسقط میں ہونے والے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
  • امریکہ کے نائب صدر کا دورہ بھارت اور تجارتی امور پر مذاکرات
  • تہران یورینیم افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار
  • امریکی نائب صدر جے ڈی وینس تجارتی مذاکرات کے لیے بھارت پہنچ گئے
  • ایران امریکا مذاکرات
  • سینئر امریکی عہدیدار کی امریکا، ایران جوہری مذاکرات میں 'بہت مثبت پیش رفت' کی تصدیق
  • ایران کا جوہری پروگرام(3)
  • ایران کیساتھ مذاکرات میں اہم پیشرفت ہوئی ہے، امریکی محکمہ خارجہ
  • امریکا-ایران مذاکرات؛ ماہرین جوہری معاہدے کا فریم ورک تیار کریں گے، ایرانی وزیرخارجہ
  • ٹرمپ کی تنبیہ کے باوجود اسرائیل کا ایرانی جوہری پروگرام پر حملے کا امکان