Daily Ausaf:
2025-04-22@01:25:47 GMT

خلافت عثمانیہ کے خاتمہ میں یہودی کردار

اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT

2003 میں اسرائیل کے وزیر دفاع جنرل موفاذ نے کہا تھا کہ چند روز تک عراق پر ہمارا قبضہ ہوگا اور ہمارے راستے میں جو بھی رکاوٹ بنے گا اس کا حشر عراق جیسا ہی ہوگا۔ جنرل موفاذ نے خلافت عثمانیہ کا حوالہ بھی دیا ہے کہ عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید نے ہمیں فلسطین میں جگہ دینے سے انکار کیا تھا جس کی وجہ سے ہم نے نہ صرف ان کی حکومت ختم کر دی بلکہ عثمانی خلافت کا بستر ہی گول کر دیا۔ اب جو اسرائیل کی راہ میں مزاحم ہوگا اسے اسی انجام سے دو چار ہونا پڑے گا۔اسرائیلی وزیر دفاع کے اس بیان سے یہ حقیقت ایک بار پھر واضح ہوگئی ہے کہ عراق پر امریکی حملے کا منصوبہ در اصل صیہونی عزائم کی تکمیل کے لیے ہے اور اس عالمی پروگرام کا حصہ ہے جو عالم اسلام کے وسائل پر قبضہ اور اسرائیلی سرحدوں کو وسیع اور مستحکم کرنے کے لیے گزشتہ ایک صدی سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور اس میں امریکہ، برطانیہ اور ان کے اتحادی مسلسل سرگرم عمل ہیں۔آج سے ایک صدی قبل سلطان عبدالحمید خلافت عثمانیہ کے تاجدار تھے جن کا تذکرہ جنرل موفاذ نے اپنے مذکورہ بیان میں کیا ہے۔ خلافت عثمانیہ کا دار السلطنت استنبول ( قسطنطنیہ) تھا اور فلسطین، اردن، عراق، شام، مصر اور حجاز سمیت اکثر عرب علاقے ایک عرصہ سے خلافت عثمانیہ کے زیر نگین تھے۔ فلسطین خلافت عثمانیہ کا صوبہ تھا اور بیت المقدس کا شہر بھی عثمانی سلطنت کے اہم شہروں شمار ہوتا تھا۔ یہودی عالمی سطح پر فلسطین میں آباد ہونے اور اسرائیلی ریاست کے قیام کے ساتھ ساتھ بیت المقدس پر قبضہ کر کے مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیرکرنے کا پروگرام بنا چکے تھے اور اس کے لیے مختلف حوالوں سے راہ ہموار کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ سلطان عبدالحمید مرحوم نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ یہودیوں کی عالمی تنظیم کا وفد ان کے پاس آیا اور ان سے درخواست کی کہ انہیں فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دی جائے۔ چونکہ عثمانی سلطنت کے قانون کے مطابق یہودیوں کو فلسطین میں آنے کی اور بیت المقدس کی زیارت کی اجازت تو تھی مگر وہاں زمین خریدنے اور آباد ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ چنانچہ بیسویں صدی کے آغاز تک پورے فلسطین میں یہودیوں کی کوئی بستی نہیں تھی، یہودی دنیا کے مختلف ممالک میں بکھرے ہوئے تھے اور کسی ایک جگہ بھی ان کی ریاست یا مستقل شہر نہیں تھا۔ سلطان عبدالحمید مرحوم نے یہ درخواست منظور کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ اسرائیل، بیت المقدس اور فلسطین کے بارے میں یہودیوں کا عالمی منصوبہ ان کے علم میں آچکا تھا اس لیے ان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اس صورتحال میں یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دیتے۔سلطان مرحوم کا کہنا ہے کہ دوسری بار یہودی لیڈروں کا وفد ان سے ملا تو یہ پیشکش کی کہ ہم سلطنت عثمانیہ کے لیے ایک بڑی یونیورسٹی بنانے کے لیے تیار ہیں جس میں دنیا بھر سے یہودی سائنس دانوں کو اکٹھا کیا جائے گا اور سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے لیے یہودی سائنسدان خلافت عثمانیہ کا ہاتھ بٹائیں گے، اس کے لیے انہیں جگہ فراہم کی جائے اور مناسب سہولتیں مہیا کی جائیں۔ سلطان عبدالحمید مرحوم نے وفد کو جواب دیا کہ وہ یونیورسٹی کے لیے جگہ فراہم کرنے اور ہر ممکن سہولتیں دینے کو تیار ہیں بشرطیکہ یہ یونیورسٹی فلسطین کی بجائے کسی اور علاقہ میں قائم کی جائے۔ یونیورسٹی کے نام پر وہ یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت نہیں دیں گے لیکن وفد نے یہ بات قبول نہ کی۔سلطان عبدالحمید مرحوم نے لکھا ہے کہ تیسری بار پھر یہودی لیڈروں کا وفد ان سے ملا اور یہ پیشکش کی کہ وہ جتنی رقم چاہیں انہیں دے دی جائے گی مگر وہ صرف یہودیوں کی ایک محدود تعداد کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دے دیں۔ سلطان مرحوم نے اس پر سخت غیظ و غضب کا اظہار کیا اور وفد کو ملاقات کے کمرے سے فوراً نکل جانے کی ہدایت کی نیز اپنے عملہ سے کہا کہ آئندہ اس وفد کو دوبارہ ان سے ملاقات کا وقت نہ دیا جائے۔اس کے بعد ترکی میں خلافت عثمانیہ کے فرمانروا سلطان عبد الحمید مرحوم کے خلاف سیاسی تحریک کی آبیاری کی گئی اور مختلف الزامات کے تحت عوام کو ان کے خلاف بھڑکا کر ان کی حکومت کو ختم کرا دیا گیا۔ چنانچہ حکومت کے خاتمہ کے بعد انہوں نے بقیہ زندگی نظر بندی کی حالت میں بسر کی اور اسی دوران مذکورہ یادداشتیں تحریر کیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ انہیں خلافت سے برطرنی کا پروانہ دینے کے لیے جو وفد آیا اس میں ترکی پارلیمنٹ کا یہودی ممبر قرہ صو بھی شامل تھا جو اس سے قبل مذکورہ یہودی وفد میں بھی شریک تھا۔ اور یہ اس بات کی علامت تھی کہ سلطان مرحوم کے خلاف سیاسی تحریک اور ان کی برطرنی کی یہ ساری کارروائی یہودی سازشوں کا شاخسانہ تھی جس کی تصدیق اب تقریباً ایک صدی گزر جانے کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع جنرل موفاذ نے بھی مذکورہ بیان میں کر دی۔سلطان عبد الحمید مرحوم ایک باغیرت اور باخبر حکمران تھے جنہوں نے اپنی ہمت کی حد تک خلافت کا دفاع کیا اور یہودی سازشوں کا راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے لیکن ان کے بعد بننے والے عثمانی خلفاء کٹھ پتلی حکمران ثابت ہوئے جن کی آڑ میں مغربی ممالک اور یہودی اداروں نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے ایجنڈے کی تکمیل کی اور ۱۹۲۴ء میں خلافت کا خاتمہ ہو گیا۔ ترکوں نے عرب دنیا سے لاتعلقی اختیار کر کے ترک نیشنلزم کی بنیاد پر سیکولر حکومت قائم کرلی، جبکہ مکہ مکرمہ کے گورنر حسین شریف مکہ نے، جو اردن کے موجودہ حکمران شاہ عبد اللہ کے پردادا تھے، خلافت عثمانیہ کے خلاف مسلح بغاوت کر کے عرب خطہ کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ انہیں یہ چکمہ دیا گیا تھا کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد ان کی خلافت عالم اسلام میں قائم ہو جائے گی مگر ان کے ایک بیٹے کو عراق اور دوسرے بیٹے کو اردن کا بادشاہ بنا کر ان کی عرب خلافت کا خواب سبو تاژ کر دیا گیا۔ حجاز مقدس پر آل سعود کے قبضہ کی راہ ہموار کر کے حسین شریف کو نظر بند کر دیا گیا جنہوں نے باقی زندگی اسی حالت میں گزاری۔اس دوران فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر کے اپنا گورنر بٹھا دیا جس نے یہودیوں کو اجازت دے دی کہ وہ فلسطین میں آکر جگہ خرید سکتے ہیں اور آباد ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ دنیا کے مختلف ممالک سے منظم پروگرام کے تحت یہودیوں نے فلسطین میں آکر آباد ہونا شروع کیا۔ وہ فلسطین میں جگہ خریدتے تھے اور اس کی دوگنی چوگنی قیمت ادا کرتے تھے۔ فلسطینی عوام نے اس لالچ میں جگہیں فروخت کیں اور علماء کرام کے منع کرنے کے با وجود محض دگنی قیمت کی لالچ میں یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کا موقع فراہم کیا۔ اس وقت عالم اسلام کے سرکردہ علماء کرام نے فتویٰ صادر کیا کہ چونکہ یہودی فلسطین میں آباد ہو کر اسرائیلی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں اور بیت المقدس پر قبضہ ان کا اصل پروگرام ہے اس لیے یہودیوں کو فلسطین کی زمین فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ یہ فتویٰ دیگر بڑے علماء کرام کی طرح حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بھی جاری کیا جو ان کی کتاب ’’ بوادر النوادر‘‘ میں موجود ہے۔ مگر فلسطینیوں نے اس کی کوئی پروا نہ کی اور دنیا کے مختلف اطراف سے آنے والے یہودی فلسطین میں بہت سی زمینیں خرید کر اپنی بستیاں
بنانے اور آباد ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ حتیٰ کہ ۱۹۴۷ء میں اقوام متحدہ نے یہودیوں کو فلسطین کے ایک حصے کا حقدار تسلیم کر کے ان کی ریاست کے حق کو جائز قرار دے دیا اور فلسطین میں اسرائیل اور فلسطین کے نام سے دو الگ الگ ریاستوں کے قیام کی منظوری دے دی جس کے بعد برطانوی گورنر نے اقتدار یہودی حکومت کے حوالہ کر دیا۔
یہ اس بیان کا مختصر سا پس منظر تھا جس میں اسرائیلی وزیر دفاع کے جنرل موفاذ نے خلافت عثمانیہ کے فرمانروا سلطان عبد الحمید مرحوم کی معزولی اور خلافت عثمانیہ کے خاتمہ میں یہودی کردار کا ذکر کیا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عالم اسلام کے دشمن کس قدر چوکنا، با خبر اور مستعد ہیں۔ اور اس کے مقابلہ میں ہماری بے حسی، بے خبری اور نا عاقبت اندیشی کی سطح کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں،آمین یا رب العالمین۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: فلسطین میں ا باد ہونے کی اجازت سلطان عبدالحمید مرحوم نے کو فلسطین میں ا باد ہونے یہودیوں کو فلسطین میں ا سلطان عبد الحمید جنرل موفاذ نے میں یہودیوں عالم اسلام اور فلسطین بیت المقدس میں یہودی وزیر دفاع کے خاتمہ کے خلاف دیا گیا کی اور اور یہ کے لیے کر دیا اور اس کے بعد

پڑھیں:

بلوچستان کا بحران اور نواز شریف

بلوچستان کے حالات میں بہتر تبدیلی لانے کے لیے غیر معمولی اقدامات درکار ہیں ۔ حکمت عملی کا تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ طاقت کے ساتھ ساتھ سیاسی حکمت عملی کا بھی بھرپور استعمال کیا جائے۔ بلوچستان کے حالات اسی صورت میں بہتر ہوں گے جب ہم سیاسی حکمت عملی کو بالادستی دیں گے ، یہ ہی حکمت عملی ریاستی رٹ کو بھی مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوگی۔

پچھلے دنوں سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کی اس تناظرمیں ہونے والی ملاقات ایک اہم پیش رفت سمجھی جا سکتی ہے۔بہت سے سیاسی افراد اور اہل دانش نے یہ تجویز دی تھی کہ اگر نواز شریف آگے بڑھیں اور اپنا کردار ادا کریں تو حالات میں بہتری کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے۔خود نواز شریف نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ بلوچستان کے حالات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف ایک بڑی سیاسی شخصیت ہیں اور ان کو بلوچستان میں احترام کے طور پر دیکھا بھی جاتا ہے۔

 بلوچستان کے حالات میں خرابیاں چند دنوں یا ہفتوں میں نہیں ہوئی ہیں بلکہ یہ برسوں کی کہانی ہے۔ بلوچستان کے حالات کی بہتری میں جو بڑا کردار بڑی سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کو ادا کرنا چاہیے تھا ، اس کا فقدان دیکھنے کو ملا ہے۔اس وقت بھی بلوچستان میں دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی و مسلم لیگ ن کی مشترکہ حکومت ہے ۔اس مشترکہ حکومت کا بھی کوئی بڑا کردار ہمیں حالات کی بہتری میں دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔

 موجودہ حالات میں صوبائی حکومت کا کردار محدود نظر آتا ہے۔اصل میں بلوچستان میں موجود سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں موجودہ حالات میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں سے بھی مایوس نظر آتی ہیں۔ان کے بقول بلوچستان کے حالات کی خرابی میں جہاں دیگر عوامل موجود ہیں وہیں بڑی سیاسی جماعتوں کا صوبے کے حوالے سے لاتعلقی کا پہلو بھی ہے۔

بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتیں یہ بھی سمجھتی ہیں کہ بلوچستان کے صوبے میں حقیقی سیاسی لوگوں کی بجائے نمائشی سیاسی لوگوں کی بالادستی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں نے بلوچستان کے حالات کی درستگی میں کب عملی اقدامات اٹھائے ہیں اور ان کوعملی اقدامات کرنے سے کب روکا گیا ہے۔اصل میں ہماری بڑی سیاسی جماعتوں نے خود سے بھی بلوچستان کے حالات میں کچھ بھی نہ کرنے کی پالیسی اختیار کر لی ہے اور اس کا عملی نتیجہ بلوچستان کے حالات کی خرابی کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔

 پاکستان میں جو پاپولر سیاست ہو رہی ہے، اس میں نواز شریف سرگرم نظر نہیں آرہے۔ قومی سیاست ایک طرف وہ مسلم لیگ ن ہی نہیں بلکہ پارلیمانی سیاست میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لے رہے اور نہ ہی وہ پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں۔اسی طرح پارٹی کے اجلاس ہوں یا پارلیمانی میٹنگز میں بھی ان کی غیر حاضری واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔مسلم لیگ ن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اہم افراد اور دانش وروں و تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نواز شریف موجودہ حالات سے مطمئین نظر نہیں آتے ہیں۔

اسی بنیاد پر جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ نواز شریف بلوچستان میں کوئی بڑا مفاہمانہ کردار ادا کرسکیں گے اس پر بہت سے سوالیہ نشان موجود ہیں۔ نواز شریف 8فروری کے انتخابات کے بعد بڑے بہت زیادہ فعالیت یا متحرک ہونے کی بجائے بیک ڈور بیٹھ کرخاموشی کے کردار کو ہی اپنے لیے بہتر سمجھتے ہیں تاکہ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کو کسی بڑی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

 اس وقت وزیراعظم میاں شہباز شریف بھی بلوچستان کے حالات کی بہتری میں کوئی بڑا بریک تھرو نہیں کراسکے ہیں۔جس انداز سے قومی سیاست میں سیاست دانوں،سیاسی جماعتوں سمیت سیاست وجمہوریت کی جگہ محدود ہوئی ہے وہاں ایک بڑے مجموعی سیاسی کردار کی جنگ بھی محدود ہی نظر آتی ہے۔ماضی میں نواز شریف کئی بار بلوچستان کے حالات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور اسی تناظر میں سابق وزیر اعلی ڈاکٹر عبدالمالک نے نواز شریف سے ملاقات بھی کی ہے۔

اگر ان تمام تر حالات کے باوجود نواز شریف خود سے آگے بڑھ کر بلوچستان کے حالات کی درستگی میں عملی طور پر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی یقیناً سیاسی قدر کی جانی چاہیے۔اسی طرح یہ سوال بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کیا نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور منشا کے بغیر بلوچستان کے حالات میں کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں یا ان کو اس تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہوگی۔

کیونکہ مسلم لیگ ن اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر آگے بڑھ سکے ۔بلوچستان کی بیشتر قوم پرست سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت بلوچستان کے تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی سیاست پر تحفظات رکھتی ہیں۔ایسے میں نواز شریف کیا اسٹیبلشمنٹ اور بلوچستان کے قوم پرستوں کے درمیان غلط فہمیوں پر ایک بڑے پل کا کردار ادا کر سکیں گے۔ان حالات میںجب بلوچستان کی سنگینی کافی حساس نوعیت کی ہے تو نواز شریف نے بلوچستان جانے کی بجائے اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ بیلا روس اور لندن کے دورے پر جانے کو ترجیح دی اور اب وہ اپنے علاج کے سلسلے میں لندن میں موجود ہیں۔اس دورے سے ان کی ترجیحات کو سمجھا جاسکتا ہے۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس وقت بلوچستان میں شرپسندوں کے خلاف طاقت کی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اگر یہ درست ہے تو پھر سیاسی آپشن واقعی محدود ہو جاتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ نواز شریف کے بھی سیاسی آپشن محدود ہیں ۔ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں ،سیاسی قیادت اور اسٹیبلیشمنٹ کو مل کر سیاسی اور انتظامی حکمت عملی اختیارکرنا ہوگی تاکہ اس بحران کا حقیقی اور پائیدار حل سامنے آسکے۔بلوچستان کے مسائل کا بہتر حل قومی سیاست اور ایک بڑے سیاسی،معاشی اور سیکیورٹی استحکام کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے ۔

اس لیے ایک ایسے موقع پر جب خارجی یا علاقائی ممالک بالخصوص بھارت اور افغانستان کی مداخلت موجود ہے توایسے میں ہمیں داخلی سطح کے مسائل کا حل تلاش کرکے ایک بڑے سیاسی اتفاق رائے کو پیدا کرنا ہوگا اور اسی حکمت عملی کی بنیاد پر سیاسی حل تلاش کرکے ہمیں بلوچستان کا حل تلاش کرنا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین : بندر کی بلا طویلے کے سر ( حصہ پنجم )
  • بلوچستان کا بحران اور نواز شریف
  • ملک میں نفرت انگیز مہمات؛ یہودی، یہودیوں کو ماریں گے، اسرائیلی اپوزیشن لیڈر نے خبردار کردیا
  • بچوں کے روشن مستقبل کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائیگا :  پولیو کے مکمل خاتمہ تک چین سے نہیں بیٹھیں گے : وزیراعظم : لاہور سے باکو پیآئی اے کی براہ ست پر وازوں کا آگاز سفارتی فتح قرار
  • مربوط حکمت عملی اور مشترکہ کاوشوں سے پولیو کا خاتمہ کرنا ہے، وزیراعظم
  • مربوط حکمت عملی اورمشترکہ کاوشوں سے پولیو کا خاتمہ کرنا ہے، وزیراعظم
  • بچوں کے محفوظ مستقبل کیلئے پولیو کا خاتمہ ضروری ہے: وزیراعظم
  • مربوط حکمت عملی اورمشترکہ کاوشوں سے پولیو کا خاتمہ کرنا ہے: وزیراعظم
  • یہودیوں کا انجام
  • ہم جنگ کا خاتمہ اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک حماس کو ختم نہ کردیں: نیتن یاہو