تاریخ ہمیشہ گواہ رہتی ہے۔ یہ وہ خاموش مرخ ہے جو کسی قوم کی ترقی، زوال، کردار اور بے حسی کو بغیر کسی تعصب کے قلم بند کرتی ہے۔ یہ خوشامد نہیں کرتی، صرف سچ بولتی ہے اور یہی سچ امت مسلمہ کے چہرے سے نقاب نوچ کر رکھ دے گا۔ آنے والی نسلیں جب یہ تاریخ پڑھیں گی تو وہ ہم سے سوال کریں گی۔ ’’جب غزہ جل رہا تھا، تب آپ کہاں تھے؟‘‘ تاریخ لکھے گی کہ مصر کے پاس دریائے نیل تھا۔ وہی نیل جو فرعونوں کے عہد سے مصری تمدن کی علامت رہا۔ لیکن جب فلسطین کی بیٹیاں پیاس سے تڑپ رہی تھیں، جب غزہ کے معصوم بچے گندے جوہڑوں سے پانی پینے پر مجبور تھے، تب یہی مصر اپنی سرحد بند کئے کھڑا تھا۔ رفح کراسنگ جو غزہ کا دنیا سے واحد انسانی رابطہ ہے، بند تھی۔ مصر نے اپنے مظلوم پڑوسیوں کی مدد کرنے کے بجائے اسرائیلی بیانیے کو ترجیح دی۔ کیا یہی عرب اخوت ہے جس کا دعویٰ کیا جاتا ہے؟تاریخ یہ بھی لکھے گی کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے پاس تیل کے سمندر تھے، اتنی دولت کہ دنیا کی سب سے بڑی عمارات، مصنوعی جزیرے اور سونے سے مزین محلات تعمیر کئے گئے۔ لیکن اسی وقت غزہ کے ہسپتالوں میں جنریٹر بند ہو رہے تھے، آپریشن کے دوران بجلی چلی جاتی تھی، ایمبولینسوں میں ایندھن نہ ہونے کے باعث زخمی تڑپ تڑپ کر دم توڑ دیتے تھے۔ ایک طرف دولت کی ریل پیل دوسری طرف موت کی وادی۔ انسانیت کہاں تھی؟تاریخ لکھے گی کہ امت مسلمہ کے پاس پچاس لاکھ سے زائد فوجی تھے۔ پاکستان، ترکی، ایران، مصر اور دیگر ممالک جدید ہتھیاروں، میزائلوں، ٹینکوں اور ڈرونز سے لیس تھے۔ لیکن جب ایک لاکھ سے بھی کم افراد پر مشتمل غزہ کی پٹی پر دنیا کی سب سے طاقتور جنگی مشینری حملہ آور تھی تو یہ طاقتور امت صرف تماشائی بنی رہی۔ صرف بیانات، مذمتیں اور تعزیتیں۔ نہ کوئی فوجی بھیجا گیا اور نہ کسی نے حملہ روکنے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھایا۔تاریخ لکھے گی کہ سعودی عرب میں اربوں ڈالر کے کنسرٹس، فیشن شوز، ناچ گانے کی محفلیں ہو رہی تھیں۔
ٹیلر سوئفٹ، بیونسے اور دیگر مغربی فنکاروں کو بلایا جا رہا تھا، مگر غزہ میں لوگ روٹی کے ایک نوالے کو ترس رہے تھے۔ کیا یہی نیا اسلام ہے جسے روشن خیالی کا نام دیا جا رہا ہے؟اور تاریخ لکھے گی کہ پاکستان جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا، جو ہمیشہ فلسطین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتا رہا مگر عملی طور پر کچھ بھی نہ کر سکا۔ نہ عالمی سطح پر موثر سفارتی کردار ادا کیا گیا نہ کوئی معاشی یا عسکری دبا ڈالا گیا، نہ عوامی سطح پر کوئی بڑی تحریک چلائی گئی۔ فقط قراردادیں، تقاریر اور ’’یومِ فلسطین‘‘منانے کی حد تک محدود رہے۔تاریخ لکھے گی کہ عرب صرف سفید چغے پہن کر تلواریں لہرا کر صرف تصویری شو کرتے رہے۔ ترک صرف ڈرامے بنا کر خلافت کا خواب بیچ کر خود کو ہیرو بناتے رہے۔ پاکستانی سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگاتے رہے۔ایرانی اپنے ہی گھر میں فلسطینی مجاہدوں کے عظیم لیڈر اسماعیل ہانیہ کو اسرائیلی حملے سے نہ بچا سکے۔ عمل کے میدان میں شاید ایک وفادار کتا بھی سب سے بہتر ہو، کیونکہ وہ کم از کم اخلاص اور وفا تو جانتا ہے۔ ہماری یہی خاموشی یہی اندھی عقیدت، قیامت کے دن ہمارے گلے کا پھندا بن جائے گی۔تاریخ یہ بھی لکھے گی کہ ایران اور ترکی نے اسلام کا نام بہت استعمال کیا۔ ایران نے خود کو ’’مدافعینِ حرم‘‘قرار دیا، ترکی نے امت کی قیادت کا دعوی کیا، لیکن جب غزہ میں نسل کشی ہو رہی تھی، تب دونوں ممالک بھی اپنے مفادات کی سیاست میں الجھے رہے۔ ایران نے خاموشی اختیار کی اور بعض اوقات اپنے حمایت یافتہ گروہوں کے ذریعے حالات کو مزید بگاڑنے میں کردار ادا کیا۔
دور عثمانیہ کے وارث ترکی کے حکمرانوں نے اسرائیل سے تجارت جاری رکھی، سفارتی تعلقات بہتر کیے، اور اپنے کلمہ گو بھائیوں کے لئے اسرائیل کو براہ راست کچھ بھی نہ کہا۔تاریخ یہ بھی لکھے گی کہ عوام جو سوشل میڈیا پر جذباتی پوسٹس تو کرتے رہے، لیکن خود اپنی زندگی میں کوئی تبدیلی نہ لا سکے۔ پیپسی، کوک، سٹنگ، میکڈونلڈز، کے ایف سی، نیسلے اور دیگر مغربی برانڈز بدستور استعمال کرتے رہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ان کمپنیوں کی کمائی سے اسرائیل کو فنڈز ملتے ہیں مگر ہم نے اپنی عادتیں نہیں بدلیں۔ بائیکاٹ صرف نعروں تک محدود رہا۔اور حیرت انگیز طور پر تاریخ یہ بھی لکھے گی کہ جب غزہ کے بچے چیخ رہے تھے تب لندن، پیرس، نیویارک، شکاگو اور دیگر مغربی شہروں میں لاکھوں لوگ اسرائیلی ظلم کے خلاف سڑکوں پر نکلے۔ وہ جو نہ عرب تھے، نہ مسلمان لیکن انسان ضرور تھے۔ انہوں نے غزہ کے لیے آواز بلند کی جبکہ مسلمان ممالک کے عوام صرف سوشل میڈیا پر دل کا بوجھ ہلکا کرتے رہے۔تاریخ یہ بھی لکھے گی کہ فلسطینی مائیں اپنے بچوں کو رب رحمان کا نام لے کر، قرآن کی تلاوت کرتے کرتے دفناتی رہیں لیکن ان کے آنکھوں میں آنسو نہیں عزم تھا۔ وہ کہہ رہی تھیں: ’’ہم مر رہے ہیں، مگر سر جھکایا نہیں!‘‘
غزہ کے بچوں کے جنازے گواہی دیں گے کہ انہوں نے اپنا حق ادا کر دیا لیکن باقی امت نے ان کا ساتھ نہ دیا۔تاریخ لکھے گی کہ کچھ لوگ فخر سے کہتے رہے کہ ہم نے دعائیں کیں، صدقہ دیا یا پوسٹ شیئر کی، مگر وہ یہ بھول گئے کہ اسلام صرف دعا، صدقہ یا سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کا نام نہیں ، اسلام عمل کا دین ہے، قربانی، جہد مسلسل اور غیرت ایمانی کا نام ہے۔تاریخ ہمیشہ گواہ رہتی ہے اور وہ گواہی دیتی ہے جو قوموں کے عروج و زوال ان کے کردار اور ان کی بے حسی کی داستانوں پر مبنی ہوتی ہے۔ یہ وہ خاموش مرخ ہے جو صرف سچ بولتا ہے، اور یہ وہ سچ ہوتا ہے جو کسی بھی تاثر یا مصلحت سے آزاد ہوتا ہے اور بالآخر، تاریخ لکھے گی کہ قیامت کے دن حساب سب سے ہوگا۔ غزہ کے بچوں کا خون گواہی دے گا۔ وہ پوچھیں گے۔ ’’جب ہم مرتے رہے، تم کہاں تھے؟‘‘ تب شائد کوئی جواب نہ دے سکے۔اللھم انصر اخواننا فی غزہ وفلسطین نصرا عزیزا،اللھم اکشف کربہم، واشف جرحاھم، وارحم موتاھم، وانصرھم علی عدوک وعدوھم، آمین یا رب العالمین۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کرتے رہے ہے تاریخ اور دیگر رہی تھی کا نام ہے اور غزہ کے
پڑھیں:
عالمی تنازعات، تاریخ کا نازک موڑ
روس اور یوکرین نے ایک دوسرے پر صدر ولادیمیر پوتن کی طرف سے اعلان کردہ ایسٹرکی ایک روزہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔ فریقین نے کہا کہ اس دوران سیکڑوں حملے کیے گئے ہیں۔ اس سے قبل رواں ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ یوکرین اور روس کے مابین جنگ بندی مذاکرات کا وقت آن پہنچا ہے۔
روس، یوکرین جنگ چوتھے برس میں داخل ہوچکی ہے، جس میں60ہزار سے زاید یوکرینی اور روسی شہری اور فوجی ہلاک، جب کہ یوکرین میں شہرکے شہرکھنڈرات میں تبدیل ہوچُکے ہیں۔ اس جنگ کے نتیجے میں دنیا میں مہنگائی کا ایک طوفان آیا۔ غریب ممالک کے عوام تو اِس تباہی میں پِسے ہی لیکن امیر ممالک کے شہری بھی توانائی، خوراک اور دوسری اشیائے صَرف کی آسمان سے چُھوتی قیمتوں سے اب تک نجات نہیں پاسکے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ رواں ہفتے روس اور یوکرین کے درمیان امن معاہدے کے لیے پرامید ہیں۔صدر ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ ’’اگر جنگ بندی ہوجاتی ہے تو دونوں ممالک کے لیے امریکا کے ساتھ بڑے تجارتی مواقع دستیاب ہوں گے۔‘‘ تاہم انھوں نے ان امن مذاکرات کی تفصیلات نہیں بتائیں جنھیں امریکا جنوری میں ان کے صدارت سنبھالنے کے بعد سے آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے روس کے ساتھ جنگ ختم کرنے کے لیے مذاکرات شروع کرنے کے فیصلے کے بعد یورپی طاقتیں بھی شامل ہونے کی کوشش کررہی ہیں۔ دوسری جانب ٹرمپ کی امن کی کوششوں کو جھٹکا لگا ہے،کیونکہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے مکمل جنگ بندی کی تجویزکو مسترد کردیا ہے۔ دراصل ٹرمپ یوکرین کے مسئلے سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، وہ روس کے ساتھ اسٹرٹیجک شراکت داری بحال کرنا چاہتے ہیں، اور وہ نہیں چاہتے کہ یوکرین جیسا ’چھوٹا مسئلہ‘ ان کی راہ میں رکاوٹ بنے۔
عالمی امور کے ماہرین کے مطابق، روس، یوکرین جنگ میں توانائی کی ڈیمانڈ، سپلائی اور قیمتوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان بھی بری طرح متاثر ہوا ، آئی ایم ایف کے قرضوں کے مسلسل پروگرام اِسی جنگ کی براہِ راست مہربانی ہے۔ جب روس نے جنگ کے بعد تیل اورگیس کی سپلائی پر پابندی لگائی، تو یورپی ممالک تڑپ اُٹھے۔
یوکرین کا بیشتر رقبہ سرسبز و شاداب ہے۔ اس میں کوئی ایسا بڑا پہاڑ نہیں جو برف پوش ہو۔یہاں برف باری تو ہوتی ہے لیکن اس کی وجہ سطح سمندر سے بلندی ہے جیسا کہ براعظم ایشیاء کے بعض ملکوں میں ہم دیکھتے ہیں۔ یوکرین کے پہاڑی سلسلے کم بلند ہیں، زیادہ علاقہ میدانی ہے۔ اس کی مٹی اتنی زرخیز ہے کہ اس میں اگنے والی گندم پاکستان سمیت دوسرے ملکوں کو بھی برآمد کی جاتی ہے۔ پاکستان کا رقبہ تقریباً ساڑھے تین لاکھ مربع میل ہے اور ہماری آبادی 24کروڑ نفوس سے زیادہ ہے جبکہ یوکرین کا رقبہ تقریباً اڑھائی لاکھ مربع میل ہے اور اس کی آبادی ساڑھے تین کروڑ ہے اور وہ تین برس سے دنیاکی دوسری بڑی سپرپاور (روس) سے نبرد آزما ہے۔
اس کی اسلحہ ساز فیکٹریاں بھی دن رات چل رہی ہیں اور دوسرے ممالک بھی اس کو دھڑا دھڑ اسلحہ برآمد کررہے ہیں۔ اب تک طرفین کے لاکھوں سولجرز اور سویلینز اس جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، لیکن یوکرین کو نیٹو ممالک کی طرف سے جو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم ہو رہا ہے، یوکرینی سولجرز اس کو استعمال کرکے روس کو بھی اتنا ہی جانی نقصان پہنچا چکے ہیں جتنا روس، یوکرین کو پہنچا چکا ہے ، یعنی چوٹ برابرکی ہے۔ جنگوں میں صرف گولہ بارود اور چھوٹے بڑے ہتھیار ہی کام نہیں آتے۔ ان ہتھیاروں کے باعث ماحول کی جو تباہی دیکھنے کو ملتی ہے، وہ حیرت انگیز بھی ہے اور حسرت ناک بھی۔جیسا کہ باور کیا جا رہا ہے، امریکی صدر ٹرمپ کی مداخلت سے یہ روس یوکرین تنازعہ شاید آنے والے چند ہفتوں میں ختم ہو جائے، لیکن توپوں، ڈرونوں، بارودی سرنگوں اور میزائلوں سے جو بربادی اس سرزمین کا مقدر بن چکی ہے وہ آنے والے کئی برسوں تک بھی برقرار رہے گی۔ یوکرین، روس کے بعد، یورپ کا سب سے بڑا ملک ہے۔
اس پر جو بربادی اس جنگ کی وجہ سے وارد ہو چکی اس کے اثرات شاید آنے والے کئی عشروں تک بھی برقرار رہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی، پولینڈ اور اردگرد کے ممالک میں چھے برسوں میں جو تباہی مچی، اس کو امریکا نے دو تین برسوں ہی میں ختم کردیا تھا، لیکن اگر یوکرین میں یہ جنگ بند بھی ہوگئی تو اس کی زمین، اس کی بندرگاہوں بحیرہ اسود اور بحیرہ آزوف اور اس کی آب و ہوا کی تباہی کو معمول پر آنے کے لیے کئی برس درکار ہوں گے۔ آج یوکرین کے میدان ہائے جنگ کا حال یہ ہے کہ وہاں کی زمینوں میں توپوں کے گولوں سے پڑنے والے گڑھوں کی تعداد، لاتعداد ہو چکی ہے، تمام فضا زہرآلود ہے اور بارود کی بُو یوکرین کے طول و عرض میں پھیل چکی ہے۔
صدر ٹرمپ کے اقدامات، بیانیے اور مطالبات کو جوڑیں تو ایک پریشان کن منظر ابھرتا ہے۔ وہ احساس جوکبھی قومی ذمے داری کو نبھانے یا اس عالمی نظام برقرار رکھنے یا اس کی مرمت کے لیے تھا، جس کے قیام میں کبھی امریکا اور برطانیہ نے مدد کی، اب مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ روایتی اتحادیوں اور اتحادوں سے وفاداری ختم ہوچکی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی تجارتی تنظیم جیسے اداروں کی مفلوج حالت، عالمی معیشت کے زوال کو تیزکر رہی ہے۔ صدر ٹرمپ ایک نئے دورکا آغاز دیکھ رہے ہیں جہاں ہر ملک اپنی بقا کی جنگ خود لڑے گا۔ اس تصور میں پرانے بین الاقوامی نظام کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ بریٹن ووڈز سسٹم کو فرسودہ بوجھ سمجھا جا رہا ہے اور طاقت کو علاقائی اثر و رسوخ کے دائروں میں دوبارہ تقسیم کیا جا رہا ہے۔ اس منطق کے تحت گرین لینڈ اور پانامہ امریکا کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں جب کہ یوکرین کو روس کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اسی دوران یورپ،کینیڈا اور میکسیکو اب معاشی حریف سمجھے جاتے ہیں۔
اگر تجارتی معاہدے ایسے شرائط پر نہ ہو سکیں جو مکمل طور پر امریکا کے حق میں ہوں، تو پھر جوابی محصولات کے لیے تیار رہیں۔ اس نئے عالمی انتشار کو کارآمد بنانے کے لیے پوتن کو بحال کرنا ضروری ہے اور روس کو دوبارہ بین الاقوامی نظام میں شامل کرنا ہوگا۔ پابندیاں ختم کرنی ہوں گی، اور معاہدے کرنے ہوں گے۔وسیع تر تناظر میں، دنیا پہلے ہی دو مخالف کیمپوں میں بٹ رہی ہے۔ مغرب کے مقابلے میں چین، جسے بڑھتی ہوئی تعداد میں ریاستوں کی حمایت حاصل ہے، جو کھلم کھلا اس نازک عالمی نظام کو مسترد کر رہی ہیں جسے ہم نے طویل عرصے سے یقینی سمجھ رکھا تھا، اگر یورپ اور امریکا ایک پیج پر نہ ہوئے، جب چین ٹیکنالوجی، معیشت اور عسکری برتری کے لیے امریکا کو چیلنج کر رہا ہے، تو یہ خارج از امکان نہیں کہ دنیا ایک بار پھر جنگ کی دہلیز پر پہنچ جائے۔
ہم تاریخ کے ایک نازک موڑ کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ جتنی دیر ہم امریکا میں جاری اس خطرناک سیاسی تجربے سے نظریں چراتے رہیں گے، اتنا ہی کم وقت ہمارے پاس اس کا جواب دینے کے لیے باقی بچے گا۔ ایک عالمی طاقت کی جانب سے بین الاقوامی معاملات پر توجہ نہ دینے کا ایک نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ باقی دنیا کے تنازعات اسی طرح برقرار رہیں اور ان کی شدت میں اضافہ ہوتا جائے جیسا کہ غزہ میں حماس اور اسرائیل کی جنگ جو فی الحال ایک معاہدے کے تحت جنگ بندی پر منتج ہوئی تھی لیکن اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کی پاسداری نہیں کی گئی۔ اسرائیلی مغویوں کی رہائی میں کچھ تاخیر ہونے کی وجہ سے اسرائیل نے غزہ پر پھر بمباری شروع کر دی ہے، وہاں یہ کیسے ممکن ہوگا کہ معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے معاملات تھوڑے بھی آگے پیچھے ہوئے تو اسرائیلی قیادت آپے سے باہر نہیں ہو جائے گی؟
دوسری جانب اسرائیل اور ایران کے تعلقات میں بھی کشیدگی پہلے سے زیادہ پائی جاتی ہے اور ٹرمپ ایران کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں یہ بھی سب پر واضح ہے، چنانچہ اگر خدانخواستہ اسرائیل اور ایران کے مابین غزہ یا لبنان کے تنازع اور شام کی جنگ کو لے کر اختلافات بڑھے تو امریکی صدر خاموش تماشائی کے سوا کوئی اور کردار ادا نہیں کرسکیں گے، البتہ صدر ٹرمپ یوکرین کی جنگ بند کرانے میں سرگرم کردار ادا کرنے کی ضرور کوشش کریں گے، وجہ یہ ہے کہ اس جنگ کی وجہ سے امریکی معیشت براہ راست متاثر ہو رہی ہے۔
یہ جنگ یوکرین کے نیٹو میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے تنازع پر شروع ہوئی تھی جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ امریکا کو نیٹو اتحاد سے نکل جانا چاہیے۔ امریکا کے نیٹو اتحاد سے نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ نیٹو کا خاتمہ ، جب نیٹو تنظیم موجود ہی نہیں ہوگی یا مکمل غیر فعال ہو جائے گی تو اس کو وسعت دینے کی بنیاد پر شروع ہونے والی جنگ کے جاری رہنے کا بھی کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ لگتا یہی ہے کہ ٹرمپ دور میں بھی بین الاقوامی تنازعات کا ’اسٹیٹس کو‘ برقرار رہے گا۔