Juraat:
2025-04-22@14:33:34 GMT

پاکستان کا ایٹم بم آنکھوں کا کانٹا

اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT

پاکستان کا ایٹم بم آنکھوں کا کانٹا

جاوید محمود

پاکستان کے بننے کے ساتھ ہی پاکستان دشمن طاقتوں نے پاکستان کے محسنوں کو ایک ایک کر کے اپنے راستے سے ہٹانا شروع کر دیا، ان شخصیات میں لیاقت علی خان کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر عبدالقدیر کا نام بھی آتا ہے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ گزشتہ نصف صدی میں عالمی سلامتی کے حوالے سے عبدالقدیر خان ایک اہم ترین شخصیت تھے ۔ ان کی ذات دنیا کی خطرناک ترین ٹیکنالوجی کے حوالے سے جاری لڑائی جہاں یہ ٹیکنالوجی رکھنے والے اور اس کے حاصل کرنے والے خواہشمند آمنے سامنے ہیں اس کہانی کا ایک اہم محور تھی۔ سابق سی آئی اے ڈائریکٹر جارج ٹیننٹ نے اے کیو خان کو کم از کم اسامہ بن لادن جتنا خطرناک قرار دیا تھا ۔انہوں نے یہ موازنہ اس وقت پیش کیا تھا جب یہ پتہ لگ چکا تھا کہ اسامہ بن لادن 911 حملوں کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ ڈاکٹراے کیو خان کو مغربی جاسوس دنیا کا سب سے خطرناک انسان قرار دیتے ہیں لیکن اپنے وطن پاکستان میں انہیں ایک قومی ہیرو کے طور پر سراہا جاتا ہے۔ یہ چیز آپ کو نہ صرف ان کی شخصیت کی پیچیدگی کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ دنیا ایٹمی ہتھیاروں کو کس نظر سے دیکھتی ہے ۔70کی دہائی میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان یورپ میں ایٹمی جاسوس بن کر نہیں آئے تھے لیکن وہ ایک جاسوس بن گئے تھے ۔وہ 1970 کی دہائی میں نیدرلینڈ میں کام کر رہے تھے جب ان کے ملک پاکستان نے 1971 کی جنگ میں شکست کے بعد اور انڈیا کی ایٹمی ترقی سے خوفزدہ ہو کر ایٹم یم بنانے کی مہم شروع کی تھی۔ ڈاکٹر خان ایک یورپی کمپنی میں یورینیم افزودگی کے لیے سینٹری فیوجز بنانے کے کام میں شامل تھے۔ افزودہ یورینیم کو ایٹمی تونائی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور اگر اسے ایک حد سے زیادہ افزودہ کیا جائے تو اس سے ایٹمی بم بنایا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس دور کے جدید سینٹری فیوجز کے ڈیزائن نقل کرنے میں کامیاب ہوئے اور اپنے ملک واپس لوٹ آئے ،جہاں انہوں نے ایک خفیہ نیٹ ورک تشکیل دیا جس میں بیشتر یورپی کاروباری افراد تھے جو انہیں ایٹمی بم اور سینٹری فیوجز کی تیاری کے لیے اہم ترین اجزاء سپلائی کرتے تھے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اکثر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن درحقیقت وہ اس پروگرام کے انتہائی اہم ارکان میں سے ایک تھے مگر انہوں نے نہایت احتیاط کے ساتھ اپنی ایک کہانی تیار کی جس نے انہیں انڈیا کے خطرے کے خلاف پاکستان کی حفاظت کے لیے ایٹم بم تیار کرنے والے قومی ہیرو کا درجہ دیا ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر اور کیا کام کرتے تھے جس نے انہیں اتنا اہم بنا دیا۔ انہوں نے ایٹمی ہتھیاروں کے اجزاء فراہم کرنے والے اپنے خفیہ نیٹ ورک کو درآمد سے برآمد کی طرف موڑ دیا اور وہ دنیا بھر میں گھومنے والی ایک شخصیت بن گئے اور انہوں نے کئی ممالک کے ساتھ معاہدے اور سودے کیے۔ ان میں سے بہت سے ممالک کو مغربی ممالک باغی ریاستیں سمجھتے تھے۔ ایران کے شہر نطنز میں ایٹمی پروگرام کے لیے سینٹری فیوجز کی تیاری کا پروگرام جو حالیہ برسوں میں شدید عالمی سفارت کاری کی ایک وجہ بنا رہا ہے اس کا نمایاں حصہ عبدالقدیر کے فراہم کردہ ڈیزائن اور مواد سے بنایا گیا تھا۔ ڈاکٹرعبدالقدیرخان ئے ایک درجن سے زائد شمالی کوریا کے بھی دورے کیے تھے ان تمام دوروں کے ساتھ ایک راز ہمیشہ رہا کہ کیا عبدالقدیر خان یہ سب کچھ اکیلے کر رہے تھے یا وہ اپنی حکومت کے احکامات کے تحت کام کررہے تھے خاص طور پر شمالی کوریا کے ساتھ معاہدہ کے معاملے میں کبھی یہ بھی کہا گیا کہ عبدالقدیر خان یہ سب کچھ پیسوں کی لالچ میں کر رہے تھے لیکن یہ اتنا سادہ نہیں ہے وہ اپنے ملک کی قیادت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے ساتھ ساتھ جوہری ہتھیاروں پر مغربی ممالک کی اجارہ داری کو توڑنا چاہتے تھے۔ انہوں نے ایٹمی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی پر مغربی ممالک کی اجارہ داری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے مغربی منافقت قرار دیا تھا اور سوال کیا تھا کہ چند ممالک کو اپنے تحفظ و دفاع کے لیے یہ ہتھیار رکھنے کی اجازت کیوں دی جانی چاہیے اور دوسروں کو کیوں نہیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے کہا تھا کہ میں پاگل یا بے وقوف انسان نہیں وہ مجھے ناپسند کرتے ہیں اور وہ میرے خلاف ہر طرح کے من گھڑت اور بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں کیونکہ میں نے ان کے اسٹریٹیجک منصوبوں کو خراب کر دیا ہے۔ برطانوی انٹیلی جنس ایجنسی ایم آئی سکس اور امریکی سی آئی اے نے عبدالقدیر خان کی نگرانی شروع کر دی تھی۔ انہوں نے ان کے بین الاقوامی دوروں پر نظر رکھنا شروع کر دی۔ ان کی فون کالز کوٹیپ اور پکڑنا شروع کر دیا اور ان کے نیٹ ورک میں گھس گئے اور اس کے لیے انہوں نے اے کیو خان کے نیٹ ورک میں شامل افراد کو بھاری رقوم کی پیشکش بھی کی بعض مواقع پر کم از کم 10 لاکھ ڈالرز تک رقم کی پیشکش کی گئی تاکہ ان کے نیٹ ورک کے ارکان کو اپنا ایجنٹ بنایا جا سکے اور ان کے رازوں کو حاصل کیا جا سکے۔
ایک سی آئی اے اہلکار کا کہنا تھا کہ ہم ان کے گھر کے اندر تھے۔ ہم ان کے دفاتر میں تھے۔ ہم ان کے کمروں میں تھے۔ 911 کے حملوں کے بعد خطرہ بڑھ گیا تھا کہ دہشت گرد بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور یہ بھی مشکل اور پیچیدگی پاکستان سے لپٹنے اور اسے ڈاکٹر قدیر خان کے خلاف کارروائی کرنے پر آمادہ کرنے میں تھی ۔مارچ 2003 میں جب برطانیہ اور امریکہ عراق پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی وجہ سے حملہ کر رہے تھے جن کا بعد ازاں کوئی وجود نہیں نکلا۔ لیبیا کے رہنما کرنل قذافی نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ انہیں اپنے ایٹمی پروگرام کے منصوبے سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ منصوبہ ایم آئی سکس اور سی آئی اے کے خفیہ دورے کی وجہ بنا اور جلد ہی اس معاہدے کے عوامی اعلان کے بعد اس نے امریکہ کو ایک اہم موقع فراہم کیا کہ وہ پاکستان پر زور دے کہ وہ عبدالقدیر خان کے خلاف کاروائی کرے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اس کے نتیجے میں گھر میں نظر بند کر دیا گیا اور انہیں ٹی وی پرا کر اعتراف جرم کرنے پر بھی مجبور کیا گیا ۔انہوں نے اپنی بقیہ زندگی ایک عجیب صورتحال میں بسر کی جہاں وہ نہ آزاد تھے نہ ہی قید ۔انہیں آج بھی پاکستانی عوام کے جانب سے ایٹم بم بنانے پر ملکی ہیرو قرار دیا جاتا ہے۔ انہیں بیرونی دنیا کا سفر کرنے اور بات کرنے سے روک دیا گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا کر وہ کارنامہ انجام دیا جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا لیکن اس کے بدلے میں انہیں جو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی پاکستانی قوم کو اس کا رنج ہے۔ پاکستان کا ایٹم بم بھارت سمیت پاکستان کے دشمنوںکی آنکھوں کا کانٹا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: ڈاکٹر عبدالقدیر خان سینٹری فیوجز پاکستان کے کر رہے تھے سی آئی اے انہوں نے ایٹم بم کے ساتھ نیٹ ورک خان کو کر دیا تھا کہ کام کر کے لیے خان کے اور ان

پڑھیں:

افغانستان پولیو ختم کرنے کے لیے پاکستان سے بہتر کوششیں کر رہا ہے، مصطفی کمال

افغانستان پولیو ختم کرنے کے لیے پاکستان سے بہتر کوششیں کر رہا ہے، مصطفی کمال WhatsAppFacebookTwitter 0 20 April, 2025 سب نیوز

مصطفی کمال(آئی پی ایس )وفاقی وزیر صحت سید مصطفی کمال نے کہا ہے کہ پاکستان میں صحت کے شعبے میں کافی تحقیق ہو رہی ہے تاہم عمل درآمد نہیں ہو رہا جب کہ افغانستان پولیو ختم کرنے کے لیے پاکستان سے بہتر کوششیں کر رہا ہے۔ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر صحت مصطفی کمال نے کراچی میں ہیلتھ ریسرچ ایڈوائزری بورڈ کی تقریب سے خطاب کے دوران کیا۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ افغانستان پولیو ختم کرنے کے لیے پاکستان سے بہتر کوششیں کر رہا ہے، ڈر ہے کہ کہیں افغانستان پولیو کا خاتمہ پاکستان سے پہلے نہ کر لے، چاہتا ہوں کہ پاکستان اور افغانستان پولیو کا ایک ساتھ خاتمہ کریں۔مصطفی کمال نے کہا کہ پاکستان کے صحت کے مسائل کا حل ٹیکنالوجی اور موبائل فون کے استعمال میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ بڑے ہسپتال 70 فیصد مریضوں کا بوجھ اٹھا رہے ہیں، پرائمری اور سیکنڈری ہیلتھ کیئر کافقدان ہے۔مصطفی کمال نے مزید کہا کہ ہر شہری کا قومی شناختی کارڈ نمبر اس کا میڈیکل ریکارڈ نمبر بننے جا رہا ہے،اسلام آباد جا کر ہیلتھ ریسرچ ایڈوائزری بورڈز کی رپورٹس اور ریسرچ منگوا کر عمل درآمد کرواں گا۔انہوں نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزارت صحت اور تعلیم وفاقی صحت کے ادارے لوگوں کا درد کم نہیں کر رہے بلکہ بڑھا رہے ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ سی ای او ڈریپ ڈاکٹر عبید اللہ کی صورت میں فارماسوٹیکل انڈسٹری محفوظ ہاتھوں میں ہے۔سید مصطفی کمال نے کہا کہ وزارت صحت ایک مشکل منسٹری ہے، انسانوںپ کو ڈیل کرتے ہوئے غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔واضح رہے کہ چھٹی انٹرنیشنل میڈیکل ریسرچ کانفرنس گیٹس فارما کراچی کے اڈیٹوریم میں منعقد ہو رہی ہے ،کانفرنس میں ڈریپ، قومی ادارہ صحت اسلام اباد سمیت سرکاری اور غیر سرکاری اسپتالوں اور یونیورسٹیوں کے حکام شریک ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • معیشت، ڈرائیونگ فورس جو پاک افغان تعلقات بہتر کر رہی ہے
  • تہران یورینیم افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار
  • جے یو آئی کا پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ
  • جے یو آئی کا پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ
  • راشد لطیف کی پاکستان کرکٹ میں میچ فکسنگ کے راز فاش کرنے کی دھمکی
  • راشد لطیف کا پاکستان کرکٹ میں میچ فکسنگ کے راز فاش کرنے کا اعلان
  • مرکزی مسلم لیگ کے تحت کراچی میں شہدائے غزہ کانفرنس
  • پاکستان بطور ایٹمی طاقت مسلم ممالک کی قیادت کرے، اسرائیلی مظالم روکے جائیں، شہدائے غزہ کانفرنس
  • افغانستان پولیو ختم کرنے کے لیے پاکستان سے بہتر کوششیں کر رہا ہے، مصطفی کمال
  • اناڑی ڈرائیور کو گاڑی دیتے نہیں، ایٹمی ملک حوالے کر دیا، احسن اقبال: قوم امیج بہتر بنائے، خواجہ آصف