Express News:
2025-04-22@01:25:46 GMT

فلسطین : بندر کی بلا طویلے کے سر( حصہ اول )

اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT

اگر میں کہوں کہ اسرائیل صیہونیوں نے نہیں بلکہ مغرب نے پیدا کیا اور لاکھوں یہودیوں کو ہٹلر نے نہیں بلکہ یہودیوں کے دوستوں نے گیس چیمبرز میں بجھوایا تو آپ ان دونوں دعووں پر یقین کر لیں گے ؟ کوشش کروں گا کہ آپ خود کسی نتیجے پر پہنچیں۔

ہٹلر تیس جنوری انیس سو تینتیس کو جرمن چانسلر بنا۔ دوسری عالمی جنگ شروع ہونے تک تمام اہم سرمایہ دار اور غیر سرمایہ دار ممالک کے نازی جرمنی سے سفارتی تعلقات رہے۔ان سب نے اگست انیس سو چھتیس میں ہونے والے برلن اولمپکس میں ٹیمیں بھیجیں۔ فرانس اور برطانیہ نے انیس سو اڑتیس میں آسٹریا اور چیکو سلوواکیہ ہٹلر کو تحفے میں دے دیے اور سوویت یونین نے انیس سو چالیس میں نازی جرمنی سے مل کے پولینڈ کو کیک سمجھ کے آدھا آدھا بانٹ لیا۔

 تمام ممالک برلن میں اپنے اپنے سفارت خانوں کے ذریعے بخوبی آگاہ تھے کہ ہٹلر نے کس طرح پہلی عالمی جنگ کے بعد ہونے والے ذلت آمیز معاہدہ ورسائی کو پھاڑ کے ہوا میں پھینک دیا ہے اور جرمنی کو دوبارہ ایک جنگجو عسکری ریاست میں بدلا جا رہا ہے۔کس طرح خالص نسلی برتری کا نازی اژدھا جرمن اقلیتوں کو امتیازی قوانین میں جکڑ رہا ہے۔مگر دنیا شترمرغ ڈپلومیسی پر عمل کرتی رہی۔

جب ہٹلر برسرِ اقتدار آیا تو اس وقت جرمنی میں ساڑھے پانچ لاکھ یہودی ( آبادی کا ایک فیصد) بستے تھے۔اگر جپسی خانہ بدوشوں ، سیاہ فاموں اور ملی جلی نسلوں کے غیر سفید فام غیر آریائی جرمنوں کو بھی شمار کر لیا جائے تو مجموعی تعداد نو لاکھ سے زیادہ نہیں تھی ( یعنی جرمن آبادی کا پونے دو فیصد )۔

ہٹلر نے چانسلر بننے کے نوے روز بعد یکم اپریل انیس سو تینتیس کو یہودیوں کے معاشی بائیکاٹ کی قومی اپیل کی۔اس کے ایک ہفتے بعد ایک حکم نامے کے ذریعے قانون ، تدریس ، طب اور سرکاری نوکریوں کے دروازے یہودیوں سمیت اقلیتوں پر بند ہو گئے۔دس مئی انیس سو تینتیس کی شب پورے جرمنی میں ان کتابوں کو لائبریریوں اور گھروں سے نکال کر جلایا گیا جن کے مصنفین یہودی تھے۔

 اگلے دو برس میں لگ بھگ اڑتیس ہزار یہودیوں نے جرمنی چھوڑ کر ہمسایہ ممالک ( فرانس ، بلجئیم ، نیدرلینڈز ، ڈنمارک ، چیکوسلوواکیہ اور سوئٹزرلینڈ ) میں سکونت اختیار کی۔مگر ان میں سے اکثر اس وقت پکڑ کے کنسنٹریشن کیمپوں میں بھیج دیے گئے جب نازیوں نے سوائے سوئٹزرزلینڈ کے دیگر ممالک پر قبضہ کر لیا۔

پندرہ ستمبر انیس سو پینتیس کو جرمن پارلیمنٹ کے نورمبرگ میں ہونے والے اجلاس نے امتیازی قوانین کے پیکیج کی منظوری دی جنھیں تاریخ میں نورمبرگ قوانین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ان کے تحت نازی جرمنی نے نسل پرستی کو قانونی شکل دینے کے لیے آبادی کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔خالص جرمن نسل ، مخلوط النسل شہری اور اجنبی۔یہودیوں ، جپسیوں ، رنگداروں اور سیاہ فاموں کو مکمل شہری کے بجائے رعایا ( سبجیکٹ ) کے درجے میں ڈالا گیا۔یعنی وہ غیر آریائی ہونے کے جرم میں سرکاری سہولتوں اور ووٹ کے حق سے محروم کر دیے گئے ۔

ان اجنبیوں کی آریائی جرمن نسل سے شادی بیاہ یا میل ملاپ جرم قرار پایا۔یہودیوں پر پابندی لگائی گئی کہ وہ اپنے نام میں کسی ایسے لاحقے کا اضافہ کریں جس سے وہ پہچانے جائیں ۔سرکار نے ناموں کی ایک فہرست بھی جاری کی جس میں سے جرمن یہودی اپنے لیے کوئی بھی نام چن سکتے تھے۔ ان کی شناختی و سفری دستاویزات پر لفظ جے (یوڈن یعنی جیو ) کا ٹھپہ لگانا لازمی قرار پایا۔

پینتالیس برس سے کم عمر کی کوئی بھی جرمن خاتون کسی یہودی گھر، دوکان یا کمپنی میں قانوناً ملازمت نہیں کر سکتی تھی۔

نورمبرگ قوانین سے ہزاروں یہودی کاروبار سماجی مقاطع کے سبب بند ہو گئے۔اگر کوئی یہودی خاندان ملک چھوڑنا چاہتا تو اسے اجازت تھی بشرطیکہ وہ اپنی ذاتی و کاروباری املاک کی مالیت کا نوے فیصد بطور امیگریشن ٹیکس سرکاری خزانے میں جمع کروا دے۔گویا تمام املاک آپ ایک سوٹ کیس میں بھر کے بخوشی ملک چھوڑ سکتے تھے۔جو کاروباری لوگ ہجرت سے قبل اپنا پیسہ بیرونِ ملک بھیجتے ہوئے پکڑے جاتے انھیں معاشی تخریب کاری کے جرم میں سزا کا سامنا کرنا پڑتا۔

البتہ فلسطین جانے والے یہودیوں کو محدود تعداد میں مال و اسباب ساتھ لے جانے کی اجازت تھی۔یہ رعائیت ’’ ہوارا ایگریمنٹ ‘‘ ( تبادلہ سمجھوتہ ) کا نتیجہ تھی جو پچیس اگست انیس سو تینتیس کو نازی جرمنی کی وزارتِ اقتصادیات ، جرمن صیہونی فیڈریشن اور جیوش ایجنسی کے اینگلو فلسطین بینک کے درمیان ہوا۔

اس سہہ فریقی معاہدے کے سبب انیس سو تینتیس تا اگست انیس سو انتالیس لگ بھگ ساٹھ ہزار جرمن یہودی فلسطین منتقل ہونے میں کامیاب ہوئے۔فلسطین کی برطانوی انتظامیہ نے پیسے والے جرمن یہودیوں کی آمد کا خیرمقدم کیا۔انھیں پانچ ہزار ڈالر کے عوض فوری سکونت سرٹیفکیٹ جاری کر دیا جاتا۔( جیسے آج کل امریکا اور امارات سمیت متعدد ممالک مخصوص مقدار میں پیسہ لانے پر گولڈ کارڈ جاری کر کے شہریت دیتے ہیں )۔

اس تبادلے سے فلسطین کی آبادکار معیشت میں نہ صرف جرمن یہودیوں کا پیسہ آیا بلکہ ہنرمند افرادی قوت میں بھی اضافہ ہوا ۔جب کہ جرمن تو ویسے بھی جتنے یہودیوں سے ممکن ہو جان چھڑانا چاہ رہے تھے۔

انیس سو تینتیس تا اگست انیس سو انتالیس لگ بھگ ڈھائی لاکھ جرمن یہودیوں نے امریکا ہجرت کی۔جیسے ہی یکم ستمبر کو دوسری عالمگیر جنگ شروع ہوئی تو یہ کھڑکی بھی بند ہو گئی۔

جرمنی کی دیکھا دیکھی اس کے اتحادیوں نے بھی امتیازی قانون سازی کی۔انیس سو اڑتیس میں مسولینی کے فاشسٹ اٹلی نے اطالوی یہودیوں کو شہریت سے محروم کر کے سبجیکٹ ( رعایا ) قرار دے دیا اور خالص اطالویوں سے ان کے رشتے ناتوں پر پابندی لگا دی۔انیس سو چالیس میں رومانیہ ، انیس سو اکتالیس میں چیکو سلوواکیہ ، بلغاریہ اور کروشیا کی فاشسٹ حکومتوں نے بھی اسی طرح کے امتیازی قوانین نافذ کر دیے۔

ان تمام اقدامات و واقعات کی مکمل تفصیلات ہر اس حکومت کو مسلسل مل رہی تھیں جو نازیوں کے عزائم کے آگے بند باندھنا چاہتے تھے اور جرمنی اور اس کے ہم خیال ممالک میں آباد اقلیتوں سے ہونے والی زیادتیوں پر مختلف بین الاقوامی فورمز پر آب دیدہ ہونے کی اداکاری بھی کر رہے تھے۔

ایسے تمام ممالک امریکی صدر روزویلٹ کے زور دینے پر چھ تا پندرہ جولائی انیس سو اڑتیس فرانس کے صحت افزا مقام ایویان میں جمع ہوئے تاکہ نازی پالیسیوں کے نتیجے میں یورپ میں پناہ گزینوں کے بڑھتے ہوئے بحران کا کوئی انسانی حل نکالا جا سکے۔بتیس ممالک سر جوڑ کے بیٹھے۔ ایویان کانفرنس کا کیا نتیجہ نکلا اور پھر نازیوں کے رویے میں کیا بدلاؤ آیا۔ اگلے مضمون میں دیکھیں گے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: انیس سو تینتیس اگست انیس سو جرمن یہودی

پڑھیں:

پاک افغان تعلقات کا نیا آغاز

پاکستان اور افغانستان نے باہمی فائدہ مند تعلقات کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے اعلیٰ سطح کے روابط کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحق ڈار نے افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند اور افغان وزیرخارجہ امیر خان متقی کے ساتھ تفصیلی ملاقاتیں کی۔ ان ملاقاتوں میں دوطرفہ تعلقات، باہمی دلچسپی کے مختلف شعبوں بشمول سیکیورٹی، تجارت، ٹرانزٹ تعاون، کنکٹیویٹی اور عوامی سطح پر رابطوں سمیت تعاون بڑھانے کے لیے حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

طویل سرد مہری اور باہمی بد اعتمادی کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں ایک نئی رمق پیدا ہوئی ہے، جہاں کابل میں دونوں ممالک کے اعلیٰ سطح کے سیکیورٹی مذاکرات شروع ہوچکے ہیں۔ اس تاریخی موقع پر دونوں ملکوں کے وفود سیکیورٹی، تجارت اور عوامی رابطوں جیسے اہم مسائل پر مذاکرات میں مصروف ہیں۔

سیاسی مبصرین اس دورے کو دوطرفہ تعلقات میں جمود کو توڑنے کی سنجیدہ کوشش قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ معاشی و تجارتی سرگرمیوں کو سیاسی تناؤ سے متاثر ہونے سے بچانے کے لیے سیاست اور تجارت کو الگ الگ معاملات کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ پیچیدگیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس مقصد کے حصول کے لیے دونوں ممالک کو غیر معمولی سفارت کاری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ تجارت اور معاشی تعاون کو درپیش سیاسی چیلنجز کے باوجود مسابقتی صلاحیت بڑھانے، ٹرانزٹ ٹریڈ کے مسائل حل کرنے اور تجارتی سہولیات کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ایک منظم طریقہ کار کے تحت جاری رکھنا ہوگا،دونوں ممالک کو ایک ڈیجیٹل دستاویزی نظام اپنانا چاہیے جو کاروباری مقاصد کے لیے نقل و حرکت کو آسان بنائے۔ سرحد کے ساتھ تجارتی زون قائم کیے جاسکتے ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان ڈیوٹی فری تجارت کی اجازت دیتے ہوں۔

پاکستان کو یو این ایچ سی آر اورکابل کے تعاون سے وطن واپسی کی ہم آہنگ پالیسی اپنانے کی بھی ضرورت ہے جو غیر امتیازی اور انسانیت پسند ہو۔کابل کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ٹی ٹی پی پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ تجارت کے فروغ میں رکاوٹ دونوں ممالک کے درمیان بارڈرز تنازعات ہیں، اچانک راستے بند ہوجاتے ہیں،کنٹینرزکو پورٹ پر روک دیا جاتا ہے، گزشتہ برس ساڑھے 4 ہزارکنٹینرز کراچی کے پورٹ پر کھڑے رہے۔ تاجروں کا مال ایسے پڑا رہے تو بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے، دراصل دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے جو بگڑتا جا رہا ہے۔

سرحد کی بندش سے روزانہ تقریباً 15 لاکھ ڈالر سے زائد کا نقصان ہوتا ہے۔ اسی طرح ڈیورنڈ لائن پر کشیدگی برقرار رہی ہے، جس کی وجہ سے اکثر سرحدیں بند کی جاتی رہی ہیں۔ طالبان نے باڑ کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر کے اور ہٹا کر پاکستان کی جانب سے سرحد پر باڑ لگانے کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد سے، افغان طالبان نے جان بوجھ کر سرحدی مسئلے پر توجہ مرکوز رکھی ہے تاکہ قوم پرست جذبات کو بھڑکایا جاسکے، خود کو پاکستان سے دور رکھا جاسکے اور مذہبی اور قوم پرست دونوں خطوط پر عوامی قانونی حیثیت حاصل کی جاسکے۔

صوبہ بلوچستان کو دو ممالک افغانستان اور ایران کی سرحدیں لگتی ہیں۔ یہ دونوں ممالک تجارتی طور پر وطن عزیز کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ وسطی ایشیائی ممالک سے تجارتی معاملات میں افغانستان اور ایران سے ترکی و یورپ تک رسائی ممکن ہے۔ اس وقت بلوچستان تجارت کے حوالے سے اپنی ایک الگ اہمیت رکھتا ہے، صوبے کو علاقائی سطح پر جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے متعدد ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا جارہا ہے، جس کا مقصد وطن عزیز سمیت صوبائی ترقی میں ایک نئی تبدیلی کا تعین ہے۔ دوسری طرف بادینی ٹریڈٹرمینل جس جگہ واقع ہے، وہاں تجارتی سرگرمیاں بڑھانے کے لیے سب سے پہلے انفرا اسٹرکچر کی تعمیر انتہائی ضروری ہے، جسے ہنگامی بنیادوں پر شروع کیا جانا چاہیے، چونکہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے یہ علاقہ انتہائی طویل فاصلے (تقریباً گیارہ گھنٹے) کی مسافت پر ہے اور موجودہ صورتحال کے پیش نظر سڑکوں کی تعمیر بھی اس طرح نہیں کہ فوری طور پر تجارتی سرگرمیاں شروع کی جائیں۔

تجارتی سرگرمیوں کا انحصار اس کی لوازمات پر ہوتا ہے، افغانستان سے منسلک یہ سرحدی علاقہ بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ کے علاقے میں واقع ہے اور اس پوائنٹ سے افغانستان چمن سرحدی علاقے سے قریب پڑتا ہے، تاہم ضروری لوازمات کے بغیر تجارتی سرگرمیوں کی بحالی میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس تجارتی ٹرمینل کے روٹ کے لیے ایک خطیر رقم جلد فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی تمام متعلقہ اداروں کو آن بورڈ لیتے ہوئے اس پر ہنگامی بنیادوں پر فیصلے کرنے اور اِن فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تو یقینا دونوں ممالک کے مابین تجارت کو نہ صرف فروغ ملے گا بلکہ اس علاقے سے جڑے ہوئے لوگوں کی زندگی میں بھی بڑی تبدیلی آئے گی۔

پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ تعلقات سے متعلق معاملات میں بات چیت کو ترجیح دی ہے، پاکستان افغانستان کی سالمیت اور خود مختاری کا احترام کرتا ہے تاہم اپنے شہریوں کا تحفظ اولین ترجیح ہے۔ پاکستان کا موقف اس معاملے میں خاصا واضح ہے، چونکہ افغان حکومت دہشت گردوں کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کر رہی ہے، اس لیے وہ مکمل آزادی کے ساتھ افغانستان سے پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کر تے ہیں اور حملہ کر کے واپس اپنی پناہ گاہوں میں لوٹ جاتے ہیں۔ یہ بات سب کے سامنے ہے کہ جب سے افغانستان میں طالبان نے کنٹرول سنبھالا ہے تب سے پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے، اعداد و شمار بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کی توقعات کے برعکس کابل میں طالبان حکومت آنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردوں کے حملوں میں کمی کے بجائے اِن میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اس وقت پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج افغانستان کی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے کئی واقعات ہوئے، جن کے تانے بانے افغانستان میں موجود تنظیموں سے ملتے ہیں۔ اگرچہ طالبان حکومت نے بارہا یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گی، مگر عملی طور پر صورتحال مختلف نظر آتی ہے۔ ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی افغانستان میں موجودگی پاکستان کے لیے ایک مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہے۔

افغانستان کے معاملے میں ایک اور اہم پیش رفت امریکا کی حکمت عملی میں تبدیلی ہے۔ ماضی میں امریکا نے طالبان کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے پاکستان کو انگیج کیا، لیکن اب وہ خلیجی ممالک کے ذریعے طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے۔ اپنا ایک یرغمالی بھی امریکا خلیجی ممالک کے توسط سے رہا کروا کے لے گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا پاکستان پر اپنا انحصار کم کر رہا ہے، جو کہ پاکستان کے لیے ایک سفارتی چیلنج ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو مزید موثر بنائے اور افغانستان کے ساتھ براہ راست تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔

اگر پاکستان، افغانستان تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو اس کے مثبت اثرات پورے خطے پر پڑیں گے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے علاوہ، اقتصادی تعاون، راہداری منصوبے، تجارتی معاہدے اور عوامی روابط دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ ایک مستحکم افغانستان کی حمایت کی ہے اور اب یہ طالبان حکومت پر منحصر ہے کہ وہ پاکستان کے تحفظات کو دورکرے اور بھارتی مداخلت سے دور رہے۔ دوسری جانب عالمی طاقتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات بہتر ہوں بلکہ عالمی طاقتیں تو افغانستان پر مسلط ہونا چاہتی تھیں۔ ان حالات میں بیٹھ کر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمارے عوام کے لیے بہترکیا ہوگا۔

 پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سفارتی اور سیکیورٹی کی سطح پر مشترکہ کوششیں ناگزیر ہیں۔ پاکستان نے مثبت قدم اٹھاتے ہوئے افغانستان کے ساتھ دوبارہ بات چیت شروع کی ہے، لیکن یہ یکطرفہ عمل نہیں ہونا چاہیے۔

افغانستان کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان کے تحفظات کو سنجیدگی سے لے اور عملی اقدامات کرے،اگر دونوں ممالک مسائل کا حل نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے ایک خوش آیند پیش رفت ہوگی۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور قومی یکجہتی، دونوں ہی دہشت گردی کے مکمل خاتمے اور پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے ناگزیر ہیں۔ خطے میں امن و امان قائم رکھنے کی ذمے داری سب پر عائد ہوتی ہے، اگر افراتفری کی کیفیت ہوگی تو اس کے اثرات سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہے گا۔ یہ بات طے ہے کہ ہر معاملے کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی نکل سکتا ہے، یہ دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین : بندر کی بلا طویلے کے سر ( حصہ پنجم )
  • ملک میں نفرت انگیز مہمات؛ یہودی، یہودیوں کو ماریں گے، اسرائیلی اپوزیشن لیڈر نے خبردار کردیا
  • پاک افغان تعلقات کا نیا آغاز
  • ایم کیوایم کا گلگت بلتستان انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا فیصلہ
  • پاکستان کی سنگاپور میں منعقد ہونے والے ’’تھنک ایشیا‘‘فورم میں شرکت
  • یہودیوں کا انجام
  • فلسطین: انسانیت دم توڑ رہی ہے
  • غیرمسلم فلسطینیوں کے حق میں احتجاج، مسلمان ممالک چھرا گھونپ رہے ہیں، ہرمیت سنگھ 
  • نئے جرمن چانسلر کروز میزائل فراہم کریں، یوکرینی سفارت کار
  •  56 اسلامی ممالک نے حمیت کا جنازہ نکال دیا، اسرائیل کا ہدف پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام ہے، حافظ نعیم الرحمن