Express News:
2025-04-22@14:47:08 GMT

ریڈیو

اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT

ہر سال کی طرح اِس سال بھی دنیا بھر میں ریڈیو کا عالمی دن منایا گیا۔ جب تک دنیا باقی ہے، مارکونی کا نام باقی رہے گا جس نے ریڈیو ایجاد کر کے کرہ ارض کی طنابیں کھینچ دیں اور فاصلوں کو سمیٹ کر رکھ دیا۔ اِس سے پہلے کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ ایک وقت وہ بھی آئے گا جب دنیا کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک آواز آناً فاناً پہنچ جائے گی، جس زمانے میں ریڈیو اپنی ابتدائی شکل میں تھا اسے لوگ بہت حد تک جادوگری خیال کرتے تھے۔

ایک طویل عرصے تک دیہاتی اور ناخواندہ افراد یہی سمجھتے رہے کہ یہ کوئی جادو کی چیز ہے۔ریڈیو پاکستان کی نشریات کا آغاز 15 اگست 1947 کو ہوا۔ قیامِ پاکستان کے وقت آل انڈیا ریڈیو کے جو تین اسٹیشنز پاکستان کے حصہ میں آئے وہ لاہور (1928)، پشاور (1936) اور ڈھاکا (1939) تھے۔ یہ ہی وہ تین ریڈیو اسٹیشن تھے جن پر 14 اور 15 اگست 1947 کی درمیانی شب، بارہ بجے، قیامِ پاکستان کے اعلانات کیے گئے تھے۔ ان ریڈیو اسٹیشنوں کو ’’ پاکستان براڈکاسٹنگ سروس‘‘ کا نام دیا گیا جسے بعد ازاں بابائے نشریات ذوالفقار علی بخاری نے ترک کر کے’’ ریڈیو پاکستان‘‘ کا خوبصورت نام  دیا۔برصغیر میں پہلا ریڈیو اسٹیشن 23 جولائی 1927 میں بمبئی میں قائم ہوا جسے اب ممبئی کہا جاتا ہے۔

پاکستان میں سب سے پہلے نجی شعبے میں ریڈیو نشریات کا آغاز 1928 میں ایک چھوٹے سے ٹرانسمیٹر کے ذریعے لاہور سے ہوا۔ اپریل 1930میں حکومتِ ہند نے ریڈیو سروس کو براہِ راست سرکاری تحویل میں لے کر اُسے’’ انڈین اسٹیٹ براڈکاسٹنگ سروس‘‘ کا نام دیا جسے بعد ازاں 8 جون 1936 کو تبدیل کر کے ’’آل انڈیا ریڈیو‘‘ رکھ دیا گیا۔ریڈیو پاکستان کا قیام نوزائیدہ مملکت پاکستان کے ساتھ ہی 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب صفر ساعت پر عمل میں آگیا تھا۔

14 اگست 1947 کو رات گیارہ بجے ریڈیو لاہور سے آل انڈیا ریڈیو کا آخری اعلامیہ نشر ہوا۔ رات بارہ بجنے سے کچھ دیر قبل ریڈیو پاکستان کی شناختی دھن بجائی گئی جس کے بعد انگریزی میں ظہور آذرکا یہ اعلان نشر ہوا کہ آدھی رات کے وقت پاکستان کی آزاد اور خود مختار ریاست معرضِ وجود میں آجائے گی۔ٹھیک بارہ بجے یعنی 15 اگست 1947 کو پشاور سے آفتاب احمد بسملؔ نے اردو میں اور عبداللہ جان مغمومؔ نے پشتو میں جب کہ لاہور سے مصطفیٰ علی ہمدانی نے اردو میں اور ظہور آذر نے انگریزی میں’’ یہ پاکستان براڈکاسٹنگ سروس ہے‘‘ کہہ کر نشریات کا آغازکیا اور قوم کو ایک نئی مملکت کی نوید سنائی۔ اِس طرح ریڈیو لاہور، ریڈیو پاکستان لاہور بنا۔روایت ہے کہ صوبہ سرحد کے معروف سیاستدان خان عبدالقیوم خان جب 1931 میں گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے تو وہاں اُن کی ملاقات ریڈیو کے موجد اٹلی نژاد مارکونی سے ہوئی۔

خان صاحب کی خواہش پر مارکونی نے انھیں ایک ٹرانسمیٹر اور تیس ریڈیو سیٹ تحفہ کے  طور پر دیے جنھیں پشاور کے سیکریٹریٹ کی عمارت میں نصب کیا گیا۔ اِس ریڈیو ٹرانسمیٹر کا سنگِ بنیاد یکم جنوری 1935کو اُس وقت صوبہ کے انگریز گورنر نے رکھا۔ 16 جولائی 1936 کو تجرباتی بنیادوں پر نشریات کی ابتدا ہوئی جب کہ باضابطہ آغاز 16جولائی 1942 کو ہوا۔ تقسیمِ کے بعد شہرِ قائد،کراچی کو پاکستان کا دارالخلافہ منتخب کیا گیا۔ اُس وقت تک وہاں کوئی ریڈیو اسٹیشن موجود نہیں تھا۔

حکومتِ پاکستان نے ترجیحی بنیادوں پر سب سے پہلے امریکا سے ساڑھے سات کلو کا ایک اور دس کلو واٹس کے دو ٹرانسمیٹرز خریدے جنھیں کوئنز روڈ (مولوی تمیزالدین روڈ) اور لانڈھی کے علاقے میں نصب کیا گیا۔ پاکستان کی پہلی سالگرہ (14 اگست 1948) کے موقع پر اُس وقت کے وزیرِ اطلاعات و نشریات خواجہ شہاب الدین نے’’ ریڈیو پاکستان کراچی‘‘ کا افتتاح کیا۔ یکم نومبر 1948کو کراچی کے میڈئیم ویو ٹرانسمیٹر کا افتتاح بھی خواجہ صاحب ہی نے کیا تھا۔ 16 جولائی 1951 کو اُس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے بندر روڈ پر (جو اب ایم اے جناح کہلاتا ہے) ریڈیو پاکستان کراچی کے نئے براڈ کاسٹنگ ہاؤس کا افتتاح کیا۔ ریڈیو پاکستان کے انتہائی معروف و مقبول گلوکار احمد رُشدی (مرحوم) کے پہلے مقبول ترین ریڈیو گانے ’’ بندر روڈ سے کیماڑی‘‘ میں اِس کا ذکرکیا گیا ہے۔

ریڈیو پاکستان کی نشریات کا دائرہ انتہائی وسیع رہا ہے، جس میں تیس مختلف زبانیں شامل ہیں جن میں قومی زبان اردو کے علاوہ پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں سندھی، بلوچی، پشتو، پنجابی، سرائیکی، کشمیری، پوٹھاری، ہندکو، کوہستانی، دری، کھوار، گوجری، بروشاسکی، بلتی، شینا، واخی، ہزارگی، براہوی، گجراتی اور بنگالی) کے علاوہ انگریزی، عربی، فارسی، ہندی، تامل، سنہالی، نیپالی، چینی، روسی اور تُرکی زبانیں شامل ہیں۔جولائی 1947 میں حکومت نے ریڈیو اور ٹیلی وژن پر حضور نبی کریم کے نام کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کو لازمی قرار دیا۔ 1977 میں خبرناموں کے آغاز پر اللہ تعالیٰ کا بابرکت نام لینا اور سامعین کو مخاطب کرنے سے پہلے السلام علیکم کہنا لازمی قرار پایا۔ ریڈیو پاکستان کا نصب العین اگست 1951 میں ’’ قولوا للناس حسنا‘‘ ( لوگوں سے بھلی بات کہو، سورہ بقرہ آیت 83) قرار پایا۔ اس کا نشانِ امتیاز مشہورِ زمانہ مصور عبدالرحٰمن چغتائی کا تخلیق کردہ ہے جس میں’’ ریڈیو پاکستان‘‘ لکھا ہوا ہے اور جسے 1951 میں قرآنی الفاظ’’ قولوا للناس حسنا‘‘ سے تبدیل کردیا گیا۔ اس میں ایک شاہین محوِ پرواز ہے گویا نشریات کی روح کو اقبالؔ کے شاہین سے ہم آہنگ کردیا گیا ہے۔

ریڈیو پاکستان نے 12 رمضان المبارک 1418 بمطابق پیر 26 جنوری 1998 کو صوت القرآن چینل کا آغاز کر کے ملک کے ممتاز قاریوں کی آواز میں قرآنِ کریم کی تلاوت اور اس کا ترجمہ روزانہ صبح سوا سات بجے سے دوپہر بارہ بجے تک نشر کرنے کی سعادت حاصل کی۔ ریڈیو پاکستان کراچی کا طویل ترین پروگرام’’ حامد میاں کے ہاں‘‘ 3 جون 1956 سے یکم جنوری 1992 تک جاری رہا۔ریڈیو پاکستان کی سگنیچر ٹیون دو سُروں’’ رے‘‘ اور’’ پا‘‘ کی بنیاد پر تخلیق کی گئی۔ ریڈیو پاکستان کے ابتدائی دو حروف بھی یہی ہیں۔ پاکستان کا بلند ترین ریڈیو اسٹیشن ریڈیو پاکستان اسکردو ہے جس کی اونچائی سطح سمندر سے ساڑھے سات ہزار فٹ ہے۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب ریڈیو کا طوطی بولتا تھا اور ریڈیو گھریلو تفریح و طبع کا واحد اور موثر ذریعہ تھا۔

گھر کے تمام افراد روزانہ اکٹھے بیٹھ کر باقاعدگی سے ریڈیو کی نشریات سنتے اور محظوظ ہوا کرتے تھے۔ریڈیو ایک ایسا ذریعہ رہا ہے جہاں بصارت کی جگہ متخیلہ لے لیتا ہے۔ خبریں ہوں، ڈرامہ ہو یا ادبی نشست سامع تک ہر قسم کا تاثر پہچانے کے لیے مکالموں کے علاوہ صوتی اثرات کا سہارا بھی لیا جاتا ہے۔ فی زمانہ ڈش، کیبل، انٹرنیٹ اور دیگر جدید ذرایع ابلاغ کی ایجاد نے ریڈیو کی شہرت کو بظاہر گہنا دیا ہے لیکن اس کی افادیت آج بھی ایک مسلمہ امر ہے۔ آج بھی دور افتادہ علاقوں میں جہاں بجلی نہیں ہے ریڈیو ہی واحد ذریعہ ابلاغ ہے جس کے ذریعے لوگ اپنے گرد و پیش کے حالات سے با خبر رہتے ہیں۔ وطنِ عزیز میں ریڈیو کی پہنچ 100 فیصد علاقے تک ہے۔ پاکستان کی 67 فیصد دیہی آبادی کے دکھ سکھ کا ساتھی ریڈیو ہی ہے۔ریڈیو پاکستان نے تفریحی، مذہبی، تعلیمی، سماجی، خبروں اور حالاتِ حاضرہ کے موضوعات پر بہترین پروگرام نشرکیے ہیں۔

ریڈیو پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے وطن عزیز کے لوگوں کو 14 اگست 1947 کی شب ٹھیک بارہ بجے یہ تاریخی اعلان ’’ صبح آزادی مبارک ہو‘‘ کر کے پوری قوم کو قیام پاکستان کی نوید سنائی۔ ریڈیو پاکستان کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ اس نے ہر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ اپنے سامعین کے لیے منفرد اور دلچسپ پروگرام ترتیب دے کر ہر لمحہ ان کی خدمت کی ہے۔ جنگ ہو یا امن، سیلاب ہو یا زلزلہ، دکھ کے لمحے ہوں یا خوشی کی ساعتیں ریڈیو پاکستان نے کبھی بھی اپنے لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑا لیکن آج ریڈیو پاکستان عرصہ دراز سے مسلسل بے توجہی کا شکار ہے جس میں مالی مسائل سر ِفہرست ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ریڈیو پاکستان کی ریڈیو اسٹیشن پاکستان کا پاکستان کے پاکستان نے میں ریڈیو نشریات کا نے ریڈیو کا ا غاز سے پہلے کیا گیا اگست 1947 دیا گیا

پڑھیں:

پاک افغان تعلقات کا نیا آغاز

پاکستان اور افغانستان نے باہمی فائدہ مند تعلقات کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے اعلیٰ سطح کے روابط کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحق ڈار نے افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند اور افغان وزیرخارجہ امیر خان متقی کے ساتھ تفصیلی ملاقاتیں کی۔ ان ملاقاتوں میں دوطرفہ تعلقات، باہمی دلچسپی کے مختلف شعبوں بشمول سیکیورٹی، تجارت، ٹرانزٹ تعاون، کنکٹیویٹی اور عوامی سطح پر رابطوں سمیت تعاون بڑھانے کے لیے حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

طویل سرد مہری اور باہمی بد اعتمادی کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں ایک نئی رمق پیدا ہوئی ہے، جہاں کابل میں دونوں ممالک کے اعلیٰ سطح کے سیکیورٹی مذاکرات شروع ہوچکے ہیں۔ اس تاریخی موقع پر دونوں ملکوں کے وفود سیکیورٹی، تجارت اور عوامی رابطوں جیسے اہم مسائل پر مذاکرات میں مصروف ہیں۔

سیاسی مبصرین اس دورے کو دوطرفہ تعلقات میں جمود کو توڑنے کی سنجیدہ کوشش قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ معاشی و تجارتی سرگرمیوں کو سیاسی تناؤ سے متاثر ہونے سے بچانے کے لیے سیاست اور تجارت کو الگ الگ معاملات کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ پیچیدگیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس مقصد کے حصول کے لیے دونوں ممالک کو غیر معمولی سفارت کاری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ تجارت اور معاشی تعاون کو درپیش سیاسی چیلنجز کے باوجود مسابقتی صلاحیت بڑھانے، ٹرانزٹ ٹریڈ کے مسائل حل کرنے اور تجارتی سہولیات کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ایک منظم طریقہ کار کے تحت جاری رکھنا ہوگا،دونوں ممالک کو ایک ڈیجیٹل دستاویزی نظام اپنانا چاہیے جو کاروباری مقاصد کے لیے نقل و حرکت کو آسان بنائے۔ سرحد کے ساتھ تجارتی زون قائم کیے جاسکتے ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان ڈیوٹی فری تجارت کی اجازت دیتے ہوں۔

پاکستان کو یو این ایچ سی آر اورکابل کے تعاون سے وطن واپسی کی ہم آہنگ پالیسی اپنانے کی بھی ضرورت ہے جو غیر امتیازی اور انسانیت پسند ہو۔کابل کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ٹی ٹی پی پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ تجارت کے فروغ میں رکاوٹ دونوں ممالک کے درمیان بارڈرز تنازعات ہیں، اچانک راستے بند ہوجاتے ہیں،کنٹینرزکو پورٹ پر روک دیا جاتا ہے، گزشتہ برس ساڑھے 4 ہزارکنٹینرز کراچی کے پورٹ پر کھڑے رہے۔ تاجروں کا مال ایسے پڑا رہے تو بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے، دراصل دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے جو بگڑتا جا رہا ہے۔

سرحد کی بندش سے روزانہ تقریباً 15 لاکھ ڈالر سے زائد کا نقصان ہوتا ہے۔ اسی طرح ڈیورنڈ لائن پر کشیدگی برقرار رہی ہے، جس کی وجہ سے اکثر سرحدیں بند کی جاتی رہی ہیں۔ طالبان نے باڑ کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر کے اور ہٹا کر پاکستان کی جانب سے سرحد پر باڑ لگانے کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد سے، افغان طالبان نے جان بوجھ کر سرحدی مسئلے پر توجہ مرکوز رکھی ہے تاکہ قوم پرست جذبات کو بھڑکایا جاسکے، خود کو پاکستان سے دور رکھا جاسکے اور مذہبی اور قوم پرست دونوں خطوط پر عوامی قانونی حیثیت حاصل کی جاسکے۔

صوبہ بلوچستان کو دو ممالک افغانستان اور ایران کی سرحدیں لگتی ہیں۔ یہ دونوں ممالک تجارتی طور پر وطن عزیز کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ وسطی ایشیائی ممالک سے تجارتی معاملات میں افغانستان اور ایران سے ترکی و یورپ تک رسائی ممکن ہے۔ اس وقت بلوچستان تجارت کے حوالے سے اپنی ایک الگ اہمیت رکھتا ہے، صوبے کو علاقائی سطح پر جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے متعدد ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا جارہا ہے، جس کا مقصد وطن عزیز سمیت صوبائی ترقی میں ایک نئی تبدیلی کا تعین ہے۔ دوسری طرف بادینی ٹریڈٹرمینل جس جگہ واقع ہے، وہاں تجارتی سرگرمیاں بڑھانے کے لیے سب سے پہلے انفرا اسٹرکچر کی تعمیر انتہائی ضروری ہے، جسے ہنگامی بنیادوں پر شروع کیا جانا چاہیے، چونکہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے یہ علاقہ انتہائی طویل فاصلے (تقریباً گیارہ گھنٹے) کی مسافت پر ہے اور موجودہ صورتحال کے پیش نظر سڑکوں کی تعمیر بھی اس طرح نہیں کہ فوری طور پر تجارتی سرگرمیاں شروع کی جائیں۔

تجارتی سرگرمیوں کا انحصار اس کی لوازمات پر ہوتا ہے، افغانستان سے منسلک یہ سرحدی علاقہ بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ کے علاقے میں واقع ہے اور اس پوائنٹ سے افغانستان چمن سرحدی علاقے سے قریب پڑتا ہے، تاہم ضروری لوازمات کے بغیر تجارتی سرگرمیوں کی بحالی میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس تجارتی ٹرمینل کے روٹ کے لیے ایک خطیر رقم جلد فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی تمام متعلقہ اداروں کو آن بورڈ لیتے ہوئے اس پر ہنگامی بنیادوں پر فیصلے کرنے اور اِن فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تو یقینا دونوں ممالک کے مابین تجارت کو نہ صرف فروغ ملے گا بلکہ اس علاقے سے جڑے ہوئے لوگوں کی زندگی میں بھی بڑی تبدیلی آئے گی۔

پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ تعلقات سے متعلق معاملات میں بات چیت کو ترجیح دی ہے، پاکستان افغانستان کی سالمیت اور خود مختاری کا احترام کرتا ہے تاہم اپنے شہریوں کا تحفظ اولین ترجیح ہے۔ پاکستان کا موقف اس معاملے میں خاصا واضح ہے، چونکہ افغان حکومت دہشت گردوں کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کر رہی ہے، اس لیے وہ مکمل آزادی کے ساتھ افغانستان سے پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کر تے ہیں اور حملہ کر کے واپس اپنی پناہ گاہوں میں لوٹ جاتے ہیں۔ یہ بات سب کے سامنے ہے کہ جب سے افغانستان میں طالبان نے کنٹرول سنبھالا ہے تب سے پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے، اعداد و شمار بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کی توقعات کے برعکس کابل میں طالبان حکومت آنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردوں کے حملوں میں کمی کے بجائے اِن میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اس وقت پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج افغانستان کی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے کئی واقعات ہوئے، جن کے تانے بانے افغانستان میں موجود تنظیموں سے ملتے ہیں۔ اگرچہ طالبان حکومت نے بارہا یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گی، مگر عملی طور پر صورتحال مختلف نظر آتی ہے۔ ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی افغانستان میں موجودگی پاکستان کے لیے ایک مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہے۔

افغانستان کے معاملے میں ایک اور اہم پیش رفت امریکا کی حکمت عملی میں تبدیلی ہے۔ ماضی میں امریکا نے طالبان کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے پاکستان کو انگیج کیا، لیکن اب وہ خلیجی ممالک کے ذریعے طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے۔ اپنا ایک یرغمالی بھی امریکا خلیجی ممالک کے توسط سے رہا کروا کے لے گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا پاکستان پر اپنا انحصار کم کر رہا ہے، جو کہ پاکستان کے لیے ایک سفارتی چیلنج ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو مزید موثر بنائے اور افغانستان کے ساتھ براہ راست تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔

اگر پاکستان، افغانستان تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو اس کے مثبت اثرات پورے خطے پر پڑیں گے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے علاوہ، اقتصادی تعاون، راہداری منصوبے، تجارتی معاہدے اور عوامی روابط دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ ایک مستحکم افغانستان کی حمایت کی ہے اور اب یہ طالبان حکومت پر منحصر ہے کہ وہ پاکستان کے تحفظات کو دورکرے اور بھارتی مداخلت سے دور رہے۔ دوسری جانب عالمی طاقتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات بہتر ہوں بلکہ عالمی طاقتیں تو افغانستان پر مسلط ہونا چاہتی تھیں۔ ان حالات میں بیٹھ کر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمارے عوام کے لیے بہترکیا ہوگا۔

 پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سفارتی اور سیکیورٹی کی سطح پر مشترکہ کوششیں ناگزیر ہیں۔ پاکستان نے مثبت قدم اٹھاتے ہوئے افغانستان کے ساتھ دوبارہ بات چیت شروع کی ہے، لیکن یہ یکطرفہ عمل نہیں ہونا چاہیے۔

افغانستان کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان کے تحفظات کو سنجیدگی سے لے اور عملی اقدامات کرے،اگر دونوں ممالک مسائل کا حل نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے ایک خوش آیند پیش رفت ہوگی۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور قومی یکجہتی، دونوں ہی دہشت گردی کے مکمل خاتمے اور پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے ناگزیر ہیں۔ خطے میں امن و امان قائم رکھنے کی ذمے داری سب پر عائد ہوتی ہے، اگر افراتفری کی کیفیت ہوگی تو اس کے اثرات سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہے گا۔ یہ بات طے ہے کہ ہر معاملے کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی نکل سکتا ہے، یہ دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین، مزاحمت اور عرب دنیا کی خاموشی
  • پاکستان کرکٹ ٹیم کا نیا ہیڈکوچ کون ہوگا، نام سامنے آگیا؟
  • استحکام پاکستان کانفرنس
  • علامہ اقبال اور پاکستان پوسٹ
  • جسٹس منصور علی شاہ نے بطور قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان حلف اٹھا لیا
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس کا حلف اٹھا لیا
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائمقام چیف جسٹس کا حلف اٹھا لیا
  • پاک افغان تعلقات کا نیا آغاز
  • بلوچستان کی ترقی اور کالعدم تنظیم کے آلہ کار
  • پی ٹی اے نے 3 کمپنیوں کو وی پی این لائسنس جاری کر دیے