صنف نازک کی زندگی میں کیرئیر کا انتخاب اور اس کو جاری رکھنا ہی ایک مرحلہ ہوتا ہے، الّا یہ کہ اس میں کوئی تبدیلی کرنی پڑ جائے۔ ہمیں اپنی دفتری زندگیوں میں بعض اوقات اپنی مرضی اور مزاج کے خلاف شعبے سے سمجھوتا کرنا پڑ جاتا ہے۔
ایسے میں کبھی کبھیکچھ وقت گزارنے کے بعد شعبے کی تبدیلی کا معاملہ درپیش ہوتا ہے۔ یہ نہایت اہم اور بعض اوقات مشکل فیصلہ بھی ثابت ہوتا ہے، کیوں کہ آپ نے ایک شعبے میں رہ کر جو تجربہ حاصل کیا ہوتا ہے وہ ایک نئے شعبے میں جانے کے بعد بالکل ایک طرف ہو جاتا ہے۔ نئی جگہ اور نئے کام کے لیے ہمیں پھر سے صفر سے آغاز کرنا ہوتا ہے۔
بالخصوص وہ خواتین جو نہایت مجبوری کے عالم میں ملازمت کر رہی ہوتی ہیں، اس کی متحمل نہیں ہو سکتیں، تاوقتے کہ انھیں بہتر تن خواہ نہ ملے۔ بعض خواتین شروع سے ہی اپنے کام کی نوعیت سے مطمئن نہیں ہوتیں، تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب عملی میدان میں قدم رکھتی ہیں، تو الجھن کا شکار ہو جاتی ہیں۔ وہ خود کو اس ملازمت اور عہدے پر ’’مس فٹ‘‘ محسوس کرتی ہیں یا بعض اوقات حالات، ماحول اور ساتھ کام کرنے والے افراد کے رویے مجبور کر دیتے ہیں کہ اس کام کو چھوڑ دیا جائے اور کسی نئے کیریئر کو اپنایا جائے۔
آج کل تو ڈیجیٹل دور میں بہت تیزی سے نئی ملازمتیں پیدا اور پرانی ختم ہو رہی ہیں۔ پھر خواتین کی کیرئیر کی تبدیلی میں ان کی شادی اور بچوں کے بعد کی مصروفیات بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ گھرداری میں وقت صَرف کرنے کا تقاضا بھی اکثر خواتین کے ایسے فیصلے کا محرک بنتا ہے۔ ایک ملازمت چھوڑ کر دوسری ملازمت اختیار کرنا یوں بھی ایک مشکل کام ہے، ساتھ اگر یک سر مختلف نوعیت کا کام کرنا ہو تو زیادہ مشکل ہو جاتا ہے، لیکن اگر آپ پرعزم ہیں اور ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا چاہتی ہیں تو اس موقع پر ہر چیز کے بارے میں اچھی طرح چھان پھٹک اور صلاح مشورہ کر لیں۔
پہلے اس امر کا جائزہ لیں کہ اس وقت آپ کس شعبے اور کس عہدے پر ہیں؟ آپ کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور اب آپ پیشہ ورانہ طور پر کیا اور کیوں کرنا چاہتی ہیں؟ آپ اپنے موجودہ شعبے سے مطمئن نہیں تو اس امر کا جائزہ لیں کہ نیا شعبے آپ کی بے چینی ختم کر سکے گا؟ نہایت پُرسکون ہو کر اپنے آپ سے یہ سوال کریں اور پوری سچائی کے ساتھ ان کے جواب پر غور کریں، تاکہ اپنی سمت اور منزلکا تعین کر سکیں۔ کسی بھی ایک کام کو چھوڑ کر دوسری مختلف نوعیت کے کام کو کرنے کے لیے سب سے اہم آپ کی لگن اور جذبہ ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اگر آپ کی تعلیم، تربیت اور تجربہ کسی ایک مخصوص پیشے کے متعلق ہیں، تو آپ کسی یک سر مختلف پیشے کو کیسے اپنا سکتی ہیں؟ اعلیٰ سطح کے پیشہ ورانہ شعبوں میں تو یہ ممکن ہی نہیں۔ تاہم کچھ شعبے ایسے ہوتے ہیں جہاں بعض اوقات مجبوراً دیگر شعبے کے افراد بھی طبع آزمائی شروع کر دیتے ہیں۔
یہ چوں کہ سمجھوتے کا سودا ہوتا ہے۔ اس لیے اسے ہمیشہ عارضی حل سمجھنا چاہیے اور ساتھ ہی اپنی تعلیم اور رجحان سے مطابقت رکھنے والے شعبے کی تلاش جاری رکھیے، پھر جب کوئی اسامی آئے تو کسی الجھن اور شش وپنج کے بغیر اس طرف قدم بڑھا دینے چاہیٔں، کیوں کہ یہی راستہ آپ کی منزل کی طرف جاتا ہے۔
جب کہ موجودہ ملازمت کی حیثیت آپ کے کیرئیر میں اس ’’پڑاؤ‘‘ کی سی تھی ، جو اپنی منزل کی طرف جانے والی سواری کا منتظر تھا، اس ضمن میں اپنی توقعات کو بہت بلند بانگ نہ رکھیے، آپ نے جہاں اپنے مزاج کے خلاف شعبہ چُن کر سمجھوتا کیا تھا تواب اپنے اصل شعبے کے لیے لچک پیدا کیوں نہیں کی جا سکتی۔ یاد رکھیے، یہ لچک جلد ہی ثمر آور ثابت ہوگی۔ بہ صورت دیگرآپ کو شاید آگے جا کر پچھتانا پڑ جائے، کیوں کہ بعض اوقات مواقع بار بار بھی نہیں ملتے۔ لہٰذا کیریئر میں ایسی تبدیلی کو بہت مثبت انداز میں فوراً قبول کرنا چاہیے۔
یہ دراصل درست تبدیلی ہوتی ہے، اسے کیرئیر کی تبدیلی کے بہ جائے صحیح معنوں میں کیرئیر کا آغاز خیال کریں۔ دوسری طرف صورت حال اس کے برعکس ہو تو بہت سوچ سمجھ لیجیے۔ جیسے اگر آپ اپنے متعلقہ شعبے کے کسی چھوٹے عہدے پر ہیں اور آپ یک سر ایک مختلف شعبے میں محض زیادہ تن خواہ اور مراعات دیکھ کر دوڑ لگا دیتی ہیں، تو پہلے بہت سوچ سمجھ لیجیے، ایک طرف آپ کی شدید معاشی ضروریات ہو سکتی ہیں، تو دوسری طرف آپ کا تاب ناک مستقبل اور کام یابی اور ناکامی کا بھی سوال ہے۔ اس لیے فیصلہ ہمیشہ سوچ سمجھ کر کیجیے، عارضی فایدے کے پیچھے اپنے مستقبل کو داؤ پر لگا دینا دانش مندی نہیں۔ اکثر خواتین محض فوراً حاصل ہونے والے فایدے کے پیچھے غلط فیصلہ کر لیتی ہیں اور پھر نقصان اٹھاتی ہیں۔
ایک طرف ہمارے یہاں محنت کش خواتین کو تن خواہ کم دی جاتی ہے تو دوسری طرف نئے شعبے کی طرف جانے کے بعد ان سے افسران بالا کا رویہ نوواردان کا سا ہوتا ہے، جس سے کام کرنے والی خواتین کا اعتماد مجروح ہوتا ہے اور انہیں تکلیف ہوتی ہے کہ اتنے عرصے کام کرنے کے باوجود ان سے جونیئرز کا برتاؤ کیا جا رہا ہے، حقیقتاً وہ دوسرے شعبے کے تجربے کار بھی ہوتی ہیں، لیکن ایک نئے شعبے میں تو ان کا تجربہ صفر ہی قرار پاتا ہے۔
خواتین کو اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرتے ہوئے کوشش کرنی چاہیے کہ کم سے کم اپنے متعلقہ شعبے کی نہ سہی کم سے کم اس سے قریب تر جگہ حاصل کی جائے، تاکہ من پسندشعبے کی طرف بڑھنے کے مواقع زیادہ اور جلد ملیں۔ مثلاً ایک ادارے میں آپ کا متعلقہ شعبہ موجود ہے، لیکن اسامی کسی دوسرے شعبے کی ہے۔ ایسے میں کوشش کیجیے کہ بہ جائے کسی دوسرے ادارے میں جانے کے آپ اس ہی ادارے کی دوسری اسامی قبول کرلیجیے، کیرئیر کی یہ تبدیلی آپ کے مستقبل کے لیے بہتر ثابت ہوگی۔ ایسے ادارے سے منسلک ہونے کے بعد اس ادارے میں اپنے متعلقہ شعبے میں دل چسپی کا اظہار کیجیے۔
اس شعبے کے لوگوں سے رابطے میں رہیے اور انہیں اس حوالے سے اپنی مہارت اور استعداد کے بارے میں بتائیے، بعض مواقع پر آپ یہاں عملاً رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات انجام دے سکتی ہیں، تاکہ آپ کی اہلیت کا پتا چلے کہ واقعتاً یہی آپ کا اصل شعبہ ہے۔ اس موقع پر آپ کو کیرئیر تبدیل کرنے کا فیصلہ مشکل نہیں لگے گا، بلکہ آپ کو یوں لگے گا جیسے جدوجہد کرتی ہوئی اپنی سمت کی طرف گام زن ہوگئی ہیں۔
بعض خواتین باقاعدہ کسی شعبے کی اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرتیں، اس لیے ان کی خدمات مختلف شعبوں میں کام آسکتی ہیں۔ اس لیے وہ بس روزگار کی خاطر کوئی بھی شعبہ اختیار کر لیتی ہیں اور درمیان میں جانے کے بعد انہیں کیرئیر تبدیلی کا معاملہ درپیش ہوتا ہے۔ اس کی بڑی وجوہات میں مواقع نہ ہونے کے علاوہ کمزور قوت ارادی اور ابتدا میں مناسب راہ نمائی نہ ملنا ہو سکتا ہے، پھر خواتین خود سے ہی اپنے روزگار کے لیے شعبے منتخب کر لیتی ہیں کہ ان کے مزاج اور میلان کے مطابق صرف یہی میدان ہیں، جہاں انھوں نے مواقع ڈھونڈنے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ خواتین کے لیے سود مند اور بہتر ماحول ہے۔ کام کرنے والی خواتین کو باہر نکلتے ہوئے بالکل الگ مسائل درپیش ہوتے ہیں۔
اس لیے کیرئیر بدلتے ہوئے بھی خیال رکھنا چاہیے، تاکہ آپ کی اپنی ترجیحات بھی برقرار رہیں اور کسی بھی قسم کی دشواریوں اور مسائل سے بچا جا سکے، اس کے ساتھ ساتھ آپ کا حوصلہ بھی بلند رہے اور آپ مثبت طریقے سے اپنی پیشہ وارنہ ذمہ داریوں کو ادا کرسکیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بعض اوقات کام کرنے سکتی ہیں ہوتا ہے شعبے کے شعبے کی جانے کے ہیں اور جاتا ہے کے بعد کے لیے کی طرف اس لیے
پڑھیں:
سپلائی چین میں خامیاں پاکستان کے شہد کے شعبے کی ترقی میں رکاوٹ ہیں. ویلتھ پاک
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 اپریل ۔2025 )زرعی کنسلٹنٹ عمیر پراچہ کا کہنا ہے کہ کئی چیلنجز نے پاکستان کے شہد کے شعبے کی ترقی کو دیرینہ پیداوار اور مختلف اقسام کی برآمدات کے باوجود اس کی مکمل صلاحیت تک پہنچنے سے روکا ہے ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپلائی چین میں ناکامی کی وجہ سے پاکستان کی شہد کی برآمد کی صلاحیت محدود ہے انہوں نے صنعت کی ترقی کو سپورٹ کرنے کے لیے سپلائی چین کے ہر مرحلے پر نمایاں بہتری کی ضرورت پر زور دیا.(جاری ہے)
انہوں نے بتایا کہ شہد کی پاکیزگی اور معیار میں عدم مطابقت پاکستان کو اعلی قدر کی بین الاقوامی منڈیوں میں داخل ہونے سے روکنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے اور فوڈ سیفٹی سرٹیفیکیشنز اور معیار کے معیارات کی عدم موجودگی کی وجہ سے پاکستان کی شہد کی برآمدات زیادہ تر مشرق وسطی کی منڈیوں تک محدود ہیں. انہوںنے کہاکہ شہد کے سرکردہ درآمد کنندگان جیسے یورپی یونین، امریکا اور جاپان کوڈیکس ایلیمینٹیریئس معیارات کی تعمیل کی ضرورت ہے یہ معیار ضرورت سے زیادہ حرارت یا پروسیسنگ کو منع کرتے ہیں جو شہد کی ضروری ساخت کو تبدیل کر دیتے ہیں مقامی طور پر تیار کردہ شہد میں آلودگی، اینٹی بائیوٹکس اور باقیات کی اعلی سطح اسے ان پریمیم خریداروں کے لیے ناقابل قبول بناتی ہے نئی بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی کے لیے انہوں نے پاکستان کی شہد کی جانچ کرنے والی لیبارٹریوں کو عالمی معیارات پر پورا اترنے کی ضرورت پر زور دیا. انہوں نے کہا کہ ملک میں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ جانچ کی سہولیات کا فقدان ہے جس کی وجہ سے برآمد کنندگان کے لیے کوڈیکس ایلیمینٹیریئس اور دیگر ریگولیٹری معیارات کی تعمیل کو محفوظ بنانا مشکل ہو جاتا ہے انہوں نے پیداوار اور معیار کو بڑھانے کے لیے شہد کی مکھیاں پالنے اور شہد نکالنے کے لیے جدید آلات اور آلات کو اپنانے کی سفارش کی انہوں نے کہا کہ سٹینلیس سٹیل کے ایکسٹریکٹرز، فوڈ گریڈ اسٹوریج ٹینک، فلٹرنگ مشینیں، شہد نکالنے کی کٹس، اور ریفریکٹو میٹر کا استعمال نمایاں طور پر نکالنے کے عمل کو بہتر بنا سکتا ہے چونکہ زیادہ تر شہد کی مکھیاں پالنے والے آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں اور ان کے پاس رسمی تربیت کی کمی ہوتی ہے. انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ تربیتی پروگراموں کو بڑھائے اور تحقیقی اداروں کو شہد کی مکھیوں کے پالنے والوں کو شہد کی مکھیوں کے انتظام اور شہد کی کٹائی کے لیے جدید تکنیکوں سے آگاہ کرنے کے لیے صلاحیت بڑھانے کے اقدامات کرنے چاہییں انہوںنے مشاہدہ کیا کہ بیداری اور تربیت کی کمی کی وجہ سے شہد کی ضمنی مصنوعات اکثر ضائع ہوجاتی ہیں یا کم قیمت پر فروخت ہوتی ہیں. انہوں نے مشورہ دیا کہ قومی زرعی تحقیقی مرکز کے شہد کی مکھیوں کے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو شہد کی مکھیوں کے پالنے والوں اور پروسیسرز کے ساتھ مل کر بین الاقوامی بہترین طریقوں کے مطابق ضمنی مصنوعات کو نکالنے اور ان کی مارکیٹنگ پر توجہ دینی چاہیے انہوں نے کہا کہ کھانے کے کاروبار، پروسیسرز، تقسیم کاروں اور برآمد کنندگان کی محدود شمولیت نے بھی صنعت کی ترقی کو روک دیا ہے عمیر پراچہ نے کہا کہ پرائیویٹ سیکٹر کی شرکت سے مارکیٹ کے رابطوں کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے جس سے پروسیسنگ کی سہولیات کو اعلی معیار کے شہد کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے. انہوں نے کہا کہ پاکستان کو چین اور ترکی جیسے ممالک سے متاثر ہونا چاہیے جہاں شہد کی صنعت اچھی طرح سے منظم ہے اور بڑے پیمانے پر کام کرتی ہے انہوں نے تجارتی شوز اور سفارت خانوں اور تجارتی مشیروں کی حمایت سمیت حکومت کی زیر قیادت اقدامات کے ذریعے برانڈنگ، پیکیجنگ اور پروموشنل کوششوں کو بہتر بنانے کی تجویز بھی دی. انہوں نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے اعلی معیار کے سدر شہد کے ساتھ مشرق وسطی کی مارکیٹ میں مزید رسائی حاصل کرے جو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور قطر میں اپنی ساخت، رنگت اور کرسٹلائزیشن کے خلاف مزاحمت کی وجہ سے مقبول ہے اس وقت پاکستان کی شہد کی برآمدات کا تقریبا 80 فیصد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو جاتا ہے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کے لیے مشرق وسطی میں اپنے مارکیٹ شیئر کو بڑھانے کے لیے کافی صلاحیت موجود ہے. انہوں نے کہا کہ پاکستانی سدر شہد کوالٹی کے اعتبار سے جرمنی کے لینگنیز شہد سے موازنہ کیا جا سکتا ہے لیکن غیر متوازن معیار اور ناکافی مارکیٹنگ کی وجہ سے مقابلہ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے انہوں نے کہا کہ جنگلات کی کٹائی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی بے ترتیب بارشوں کی وجہ سے سدر شہد کی پیداوار میں کمی بھی ایک چیلنج ہے. زرعی مشیر نے کہا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو پاکستانی شہد کی زیادہ تر برآمدات بلک پیکنگ میں فروخت کی جاتی ہیں جنہیں بعد میں غیر ملکی کمپنیاں دوبارہ پیک کرکے برانڈڈ کرتی ہیں انہوں نے کہا کہ یہ عمل منافع کے مارجن کو کم کرتا ہے اور پاکستانی برآمد کنندگان کو بین الاقوامی منڈیوں میں اپنی برانڈ شناخت قائم کرنے سے روکتا ہے انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومتی کوششوں کے باوجود، برآمدات کو بڑھانے کے لیے پاکستان کی شہد کی صنعت کی مکمل صلاحیت کو کھولنے کے لیے مزید تعاون کی ضرورت ہے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستان کو نئی بین الاقوامی منڈیوں اور شہد کی اقسام کو بھی تلاش کرنا چاہیے.