Express News:
2025-04-22@07:47:30 GMT

انا کا مسئلہ نہ بنائیں

اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT

کہتے ہیں کہ بچپن سے جو بات دل میں بیٹھ جائے وہ تاعمر برقرار رہتی ہے، اس لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اوائل عمری ہی سے بچوں کے اچھے برے کے معیار کو بلند رکھیں۔ اکثر بچوں کے درمیان کسی نہ کسی بات پر جھگڑا یا تنازع بھی پیدا ہوجاتا ہے۔

کبھی مسابقت اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کا جذبہ مسائل بنا دیتا ہے۔ ایسے میں بچوں کو والدین اور اساتذہ کی خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج کل کے بچوں میں عدم برداشت کا رویہ بھی بڑھ گیا ہے، وہ جب ایک دوسرے کی باتوں سے اتفاق نہیں کرتے، تو سخت ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں، پھر وہ جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں، ان میں عقل اور شعور میں اضافے کے ساتھ  زبانی تلخی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

  بچوں میں دوسروں پر بازی لے جانے اور ان کے برابر ہونے کے جذبے کی اہم وجہ عام طورپر جسمانی طورپر ایک دوسرے سے طاقت وَر ہونا یا پھر جذباتی پن زیادہ ہونا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے ساتھیوں کو نیچا دکھانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ بعض بچے ہر موقع پر خود کو ان سے برتر ثابت کرنے کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، اس سلسلے میں عام طور پر وہ زبانی انداز بھی اپناتے ہیں اور جسمانی طورپر بھی متحرک ہوتے ہیں۔ وہ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ انھیں توجہ ملے، بچوں کا یہ زبانی اور جسمانی انداز بعض اوقات جارحانہ بھی ہوتا ہے۔ ایسے میں دونوں کی مصالحت کے لیے کسی بڑے کی موجودگی انتہائی ضروری ہے، جو سمجھا بجھا کر دونوں کو مطمئن کرے اور کوشش کرے کہ دوبارہ ایسا نہ ہو۔

بعضے وقت بچے اپنے تنازعات خود ہی حل کر لیتے ہیں اور بڑے کی مداخلت کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔ ایسا اس صورت میں ہوتا ہے کہ جب ایک  دوسرے سے نبرد آزما دو بچوں  کے ساتھ دیگر سمجھ دار بچے بھی موجود ہوں، جو اشتعال میں آئے بغیر غیر جانب داری سے دونوں کے درمیان بیچ بچاؤ کرائیں۔ البتہ بعض اوقات بچوں کی لڑائی والدین تک پہنچتی ہے تو وہ بات ختم کرانے کے بہ جائے بڑے خود لڑ پڑتے ہیں اور الزام تراشیوں کا نیا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے بچے کی بے جا حمایت لے رہے ہیں۔

ایسا کرنا نہ صرف دو خاندانوں میں تلخی کا باعث بنتا ہے، بلکہ اس کا براہ راست بچوں پر بھی بہت منفی اثر پڑتا ہے۔ ایسے والدین کو سوچنا چاہیے کہ بچے تو بچے ہیں ان میں لڑائی ناسمجھی کی بنا پر ہوتی ہیں، لہٰذا اسے انا کا مسئلہ بنانا نہایت غیر مناسب عمل ہے۔ والدین کو سمجھ داری سے کام لیتے ہوئے بچوں کے درمیان انصاف کرنا چاہیے، تاکہ حق دار بچے کو حق ملے اور بچوں میں انصاف کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔ اکثر یہ لڑائیاں رشتے داروں کے درمیان بھی اختلافات کی اونچی فصیل کھڑی کردیتی ہیں، پھر بات بچوں کی لڑائی سے نکل کر بڑوں کے تنازعات بن کر خاندان میں بیٹھ جاتی ہے۔

بعض اوقات بچے بڑوں کے پیش کردہ حل کو بھی انصاف نہیں سمجھتے ان کا خیال ہوتاہے کہ ان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے، اس طرح کی صورت حال اکثر والدین کو اپنے ہی بچوں کے معاملے میں بھی پیش آجاتی ہے جب بہن بھائیوں میں کھیلتے ہوئے یا کوئی کام کرتے ہوئے کوئی اختلاف پیدا ہو جائے اور بات ان کے والدین تک پہنچ جائے تو وہ بچوں کے اختلاف کو دور کرنے کے لیے حل پیش کرتے ہیں لیکن بعض اوقات جب ایک بچہ یہ سمجھتاہے کہ اس کے ساتھ انصاف نہیں کیاگیا۔ اس قسم کی صورت حال کو بہت سمجھ داری سے سنبھالنا چاہیے۔

نوجوان بچے اکثر ایسی شکایات کرتے ہیں۔ انھیں مطمئن کرنا بھی ضروری ہے، تاکہ انہیں والدین کی غیر جانب داری پر شبہات نہ رہیں۔اس ضمن میں انھیں زیادہ گہرائی سے ان کا قصور اور اس پر فیصلے کی بابت سمجھانا چاہیے کہ ان کی کیا ذمہ داری ہے۔ نیز یہ فیصلہ کس طرح صحیح ہے اور اس پر اس بچے کے اعتراضات کا کیا جواب ہے وغیرہ۔

اسکول میں بھی بچوں کے درمیان اختلافات ہو جاتے ہیں، وہاں اساتذہ کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

اساتذہ کو بچوں کی خواہشات کا بخوبی علم ہونا چاہیے کہ بچوں کے درمیان اگر اختلاف ہوگیا ہے، تو کیا بچے کسی تنازع کا حل تلاش کرنے کی خواہش کررہے ہیں؟ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کے درمیان اختلافات کا منصفانہ حل تلاش کریں، ساتھ ہی انھیں معاملہ اپنے درمیان ہی حل کرنے کی ترغیب دیں، تاکہ ان کے اندر معاملہ فہمی اور فیصلہ کرنے کی اہلیت پیدا ہو۔

اساتذہ یا والدین کو تنازعات میں مداخلت کرنے سے قبل دونوں طرف کی باتوں کا علم میں لانا بھی بہت ضروری ہوتا ہے کہ وہ کس نوعیت کا تنازع ہے، تاکہ اس کا کوئی ممکنہ حل تلاش کیا جا سکے۔  اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دونوں طرف کی تکرار اس قدر بڑھی ہوتی ہے کہ معاملہ بیان کرتے ہوئے ہی دونوں متضاد باتیں کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر غلط بیانی کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ایسے میں اور بھی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کہ حقیقت حال کا پتا چلا کر فیصلہ کیا جائے۔

بچوں کے تنازعات دراصل ان کے سیکھنے اور آگے بڑھنے کے عمل سے تعلق رکھتے ہیں، یہ تنازعت خوش اسلوبی سے نمٹنا ان کی شخصیت پر بہت مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں اور ان کے سیکھنے کے عمل کو مہمیز لگتا ہے۔ اس لیے یہ بڑوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اس طرح کی صورت حال میں بچوں کی بھرپور راہ نمائی کریں تاکہ تنازعات طویل نہ ہونے پائیں۔ بچے جب مصالحت کے لیے بڑوں پر انحصار کرتے ہیں تو بڑوں کو بھی چاہیے کہ وہ ان کے مسائل پر بھرپور توجہ دے کر معاملہ نمٹائیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بچوں سے زیادہ بچپنہ دکھائیں اور بچوں کی نادانی کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بچوں کے درمیان بعض اوقات والدین کو ایک دوسرے چاہیے کہ کرتے ہیں کے ساتھ ہوتا ہے بچوں کی ہیں اور پیدا ہو کے لیے

پڑھیں:

رانا ثنااللہ اور شرجیل میمن میں ٹیلی فونک رابطہ، کینال مسئلہ بات چیت سے حل کرنے پراتفاق

اسلام آباد:  وزیراعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کی ہدایت پر وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ نے سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن سے ٹیلی فونک رابطہ کیا ہے، دونوں رہنماؤں نے بات چیت سے مسئلہ حل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
سندھ حکومت کے اعلامیے کے مطابق وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن سے فون پر رابطہ کیا، ٹیلیفونک گفتگو میں دونوں رہنماوں کے درمیان ملاقات کرکے کینال مسلہ کو بات چیت سے حل کرنے پر اتفاق کیا۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور میاں نواز شریف نے ہدایت دی ہے کہ سندھ کے تحفظات کا خاتمہ کیا جائے،کینالز کے معاملے پر سندھ کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
شرجیل میمن نے کہا کہ سندھ حکومت کینالز کے معاملے پر ہر فورم پر اپنا موقف پیش کر چکی ہے، پیپلز پارٹی اور سندھ کے عوام کو متنازعہ کینالز پر شدید تحفظات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے عوام کے لیے 1991 کے معاہدے کے تحت پانی کی منصفانہ تقسیم چاہتی ہے، پیپلز پارٹی بھی کینالز کے معاملے پر وفاقی حکومت سے مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) پانی سمیت تمام وسائل کی منصفانہ تقسیم پر مکمل یقین رکھتی ہے، 1991 میں صوبوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے اور 1992 کے ارسا ایکٹ کی موجودگی میں کسی سے ناانصافی نہیں ہو سکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنےکی ہدایت کی ہے، بات چیت اور مشاورت ہی ہر مسئلے کا حل ہے۔
رانا ثنااللہ نے پیپلز پارٹی کو ذمہ داری کے ساتھ بات کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‎پیپلز پارٹی وفاق کا حصہ ہے اور ہم ان کی قیادت کا بہت احترام کرتے ہیں، آئینی عہدوں پر رہتے ہوئے بات زیادہ ذمہ داری سے کرنی چاہیے۔
دوسری جانب، سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے ڈان نیوز سے گفتگو کے دوران رانا ثنااللہ کے بیان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ بات چیت سے ہی مسائل حل کیے جانے چاہئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی کینال معاملے کے حل پر زور دیا ہے، کینال معاملے پر بات چیت کے لیے تیار ہیں اور چاہتے ہیں کینال کے معاملے پر بات چیت کو آگے بڑھائیں۔
واضح رہے کہ 27 مارچ کو ڈان نے اپنی رپورٹ میں صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے دریائے سندھ سے نکالی جانے والی متنازع اسٹریٹجک نہروں کی اصولی منظوری دیے جانےکا انکشاف کیا تھا۔
پیپلز پارٹی دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالے جانے کے معاملے پر مسلسل تحفظات کا اظہار اور احتجاج کررہی ہے، تاہم دوسری طرف صدر مملکت آصف علی زرداری نے تمام اسٹریٹجک نہروں پر بیک وقت عمل درآمد کی اصولی منظوری دی تھی۔
8 جولائی 2024 کو صدر مملکت کی زیر صدارت اجلاس کے منٹس کے مطابق آصف علی زرداری کی زیرصدارت ایوان صدر میں گرین پاکستان انشیٹیو پر اجلاس ہوا تھا۔
دوران اجلاس صدر مملکت کو 6 اسٹریٹجک نہروں کی اہمیت پر بریفنگ دی گئی تھی اور ان نہروں کی بیک وقت تعمیر کی ضرورت پر بریف کیا گیا تھا۔
صدر مملکت کو بریف کیا گیا تھا کہ یہ نہریں گرین پاکستان انیشیٹیو کےتحت اہم حصہ ہیں اور ان نہروں کی تعمیر کو ملکی فوڈ سیکیورٹی بڑھانے اور زرعی ترقی کےلیے ضروری قرار دیا گیا تھا۔
تاہم، 10 مارچ کو صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ کچھ یک طرفہ پالیسیاں وفاق پر شدید دباؤ کا باعث بن رہی ہیں، بطور صدر دریائے سندھ سے مزید نہریں نکالنے کے یک طرفہ حکومتی فیصلے کی حمایت نہیں کرسکتا۔
واضح رہے کہ 4 اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کی 46ویں برسی پر گڑھی خدا بخش میں جلسے سے خطاب کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ پانی کی منصفانہ تقسیم کی جنگ پاکستان تو کیا عالمی سطح پر لڑ کر آیا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی دنیا کو منایا کہ ہمارے دریائے سندھ کو بچانا ہے جب کہ کینالز کے حوالے سے حکومت کے یکطرفہ فیصلے کو پاکستان پیپلزپارٹی سپورٹ نہیں کرتی۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • تھیلیسیمیا مائنر والے والدین کی شادی پر پابندی نہیں لگوا رہے، ٹیسٹ کی بات کر رہے ہیں، شرمیلا فاروقی
  • نوجوان قومی اثاثہ‘ فکر اقبال کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنائیں گے: احسن اقبال
  • پانی معاملہ صرف سندھ نہیں پنجاب کا بھی مسئلہ ہے، نیئر بخاری
  • کینال کا معاملہ صدر زرداری سے ضرور ڈسکس ہوا ہو گا: مصطفیٰ کمال
  • وقف قانون کے خلاف لڑائی میں جیت ہماری ہوگی، ملکارجن کھرگے
  • تمام والدین سے گزارش ہے کہ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائیں، وزیراعظم
  • رانا ثنااللہ اور شرجیل میمن میں ٹیلی فونک رابطہ، کینال مسئلہ بات چیت سے حل کرنے پراتفاق
  • پاکستان اور افریقی ممالک کے درمیان تجارتی حجم بڑھنا چاہیے: شافع حسین
  • رانا ثنا کا شرجیل میمن سے رابطہ، کینالز کا مسئلہ مل بیٹھ کر حل کرنے پر اتفاق
  • آٹزم کیا ہے؟