اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 08 اپریل 2025ء) اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے خبردار کیا ہامدادے کہ غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی پر اسرائیل کی پابندی اور بمباری کے نتیجے میں تکالیف بڑھ رہی ہیں جبکہ انخلا کے احکامات نے ہزاروں لوگوں کو دربدر کر دیا ہے جن کے پاس کوئی محفوظ ٹھکانہ نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ غزہ کی جنگ میں انسانی زندگی سے سنگین لاپروائی برتی جا رہی ہے۔

اسرائیل کی جانب سے کڑے محاصرے کو اب دو ماہ ہو چکے ہیں۔ عالمی رہنماؤں کو چاہیےکہ وہ علاقے میں بین الاقوامی انسانی قانون کے بنیادی اصولوں کا احترام یقینی بنانے کے لیے مضبوط، فوری اور فیصلہ کن قدم اٹھائیں۔ Tweet URL

امدادی اداروں نے کہا ہے کہ شہریوں کی زندگی کو تحفظ ملنا چاہیے، انسانی امداد کی فراہمی میں سہولت دی جانی چاہیے، تمام یرغمالیوں کو رہا کیا جائے اور جنگ بندی کی تجدید عمل میں آنی چاہیے۔

(جاری ہے)

محاصرہ، بھوک اور بمباری

اقوام متحدہ کے حکام نے کہا ہے کہ غزہ کی 21 لاکھ آبادی علاقے میں پھنس چکی ہے جس پر بم برسائے جا رہے ہیں اور انہیں بھوکا مارا جا رہا ہے۔ ایسے مفروضے قطعی غلط ہیں کہ علاقے میں ہر فرد کی ضرورت کے مطابق خوراک موجود ہے۔

گزشتہ ہفتے کے اختتام پر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے بتایا تھا کہ غزہ میں بچوں کو غذائی قلت کا علاج مہیا کرنے والے 12 مراکز بند ہو گئے ہیں جبکہ امداد کی عدم فراہمی کے نتیجے میں 10 لاکھ بچوں کی زندگی بری طرح متاثر ہو گی۔

ادارے کے ترجمان ابو خلف نے امداد کی ترسیل روکے جانے کے اسرائیلی اقدام کی مذمت کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ بڑی مقدار میں امدادی سامان غزہ کی سرحد سے باہر پڑا ہے۔

بچوں کے دودھ کی قلت

مزید برآں، اس وقت غزہ میں صرف 400 بچوں کے لیے ایک ماہ کی ضرورت کا فارمولا دودھ ہی دستیاب ہے۔ اندازوں کے مطابق چھ ماہ سے کم عمر کے تقریباً 10 ہزار بچوں کو اضافی دودھ کی ضرورت ہے۔

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے تمام امدادی و تجارتی اشیا کی غزہ میں آمد پر پابندی کا فیصلہ شہریوں کے لیے سنگین اثرات کا حامل ہو گا۔

غزہ کے طبی حکام کے مطابق، اتوار کو اسرائیل کے حملوں میں کم از کم 32 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں ایک درجن سے زیادہ خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

اسرائیل کی فوج نے مبینہ طور پر رفح میں تمام گھر تباہ کر دیے ہیں اور علاقے کا غزہ کے باقی حصوں سے رابطہ ختم کر دیا ہے۔بڑھتا غذائی بحران

عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے بتایا ہے کہ ضروری سامان کی شدید قلت کے باعث اس نے غزہ میں سستی روٹی فراہم کرنے والے اپنے 25 تنور بند کر دیے ہیں۔ علاقے میں اشیائے ضرورت کی قلت ہونے لگی ہے اور باقیماندہ چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں کیونکہ غذائی مدد یا کھانا بنانے کے لیے استعمال ہونے والی گیس غزہ نہیں پہنچ رہی۔

شمالی غزہ میں پناہ گزینوں کی خیمہ بستی میں رہنے والی جلیلہ ابو لیلیٰ بتاتی ہیں کہ بیچارے بچے دن بھر کھانے کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہتے ہیں لیکن انہیں کچھ نہیں ملتا۔ کبھی کبھار بعض لوگ انہیں کچھ چاول دے دیتے ہیں اور انہیں اسی پر گزاراکرنا پڑتا ہے۔ چونکہ غزہ میں خوراک نہیں پہنچ رہی اس لیے غذائی بحران بھی بڑھتا جا رہا ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسرائیل کی علاقے میں متحدہ کے امداد کی کہ غزہ کے لیے

پڑھیں:

غزہ پٹی: اسرائیلی حملوں میں مزید نوے افراد ہلاک

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 اپریل 2025ء) غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت نے بتایا ہے کہ تازہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں مزید نوے فلسطینی مارے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یہ ہلاکتیں گزشتہ اڑتالیس گھنٹوں کے دوران کیے گئے حملوں کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ اسرائیلی دفاعی افواج حماس کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے۔

ہلاک ہونے والے افراد میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ غزہ پٹی میں وزارت صحت کے مطابق کچھ افراد ایسے علاقوں میں بھی مارے گئے ہیں، جو اقوام متحدہ کی جانب سے انسانی ہمدردی کے زون قرار دیے گئے تھے۔

جنوبی شہر خان یونس میں بھی کم از کم گیارہ افراد ہلاک ہوئے۔ اس شہر کے علاقے مواسی کو اسرائیل نے انسانی ہمدردی کا زون زون قرار دیا ہوا ہے۔

(جاری ہے)

یہاں عارضی بنائی گئی پناہ گاہوں میں لاکھوں بے گھر فسلطینی رہائش پذیر ہیں۔ تاہم اسرائیل کا مؤقف ہے کہ جنگجو شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، اس لیے ان ہلاکتوں کی ذمہ داری عسکریت پسند حماس پر ہی عائد ہوتی ہے۔ انسانی بحرانی المیہ شدید ہوتا ہوا

اکتوبر 2023ء سے جاری جنگ نے غزہ کے بڑے حصے کو تباہ کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں وہاں کے باسی خوراک پیدا کرنے کی صلاحیت سے تقریبا محروم ہو چکے ہیں۔

اس مسلح تنازعے کے باعث غزہ پٹی کی نوے فیصد سے زائد آبادی بے گھر ہو چکی ہے جبکہ لاکھوں افراد خیموں یا تباہ شدہ عمارتوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

نئے اسرائیلی فضائی حملے ایسے وقت میں کیے جا رہے ہیں، جب امدادی تنظیمیں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر عائد مکمل ناکہ بندی پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔ غزہ پٹی میں گزشتہ چھ ہفتوں سے تمام اشیائے خور و نوش اور دیگر ضروریات زندگی کی رسد بند ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق ہزاروں بچے غذائی قلت کا شکار ہو چکے ہیں اور بیشتر افراد بمشکل ایک وقت کا کھانا کھا پا رہے ہیں کیونکہ خوراک کے ذخائر ختم ہوتے جا رہے ہیں۔

محاصرے اور جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار افراد خوراک کی شدید قلت کے باعث سمندری کچھوؤں کا گوشت کھانا شروع ہو گئے ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق کچھ مجبور خاندانوں نے پروٹین کی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر ایسا اقدام اٹھایا ہے۔

جنگ بندی کی جامع ڈیل چاہتے ہیں، حماس

دریں اثنا حماس نے فائر بندی کی اسرائیلی پیشکش مسترد کر دی ہے۔ اس عسکریت پسند تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ کسی جزوی ڈیل کو قبول نہیں کرے گی بلکہ وہ جنگ بندی کا ایک جامع معاہدہ چاہتی ہے۔

غزہ میں جنگ بندی کی نئی کوششیں جاری ہیں لیکن حماس کا کہنا ہے کہ وہ صرف اسی معاہدے کو قبول کرے گی جو جنگ کا مکمل خاتمہ کرے۔

غزہ میں حماس کے سربراہ خلیل الحیہ نے کہا، ''ہماری تحریک (حماس) جنگ بندی کے ایک ایسے معاہدے پر فوری مذاکرات کے لیے تیار ہے، جس کے تحت اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کی طے شدہ تعداد کی رہائی کے بدلے یرغمالیوں کی آزادی ممکن ہو سکے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس نئی ڈیل کے تحت ہماری عوام کے خلاف جنگ کا مکمل خاتمہ ہو، اسرائیلی افواج غزہ سے مکمل طور پر نکل جائیں اور غزہ پٹی کی تعمیر نو کا آغاز ہو۔

‘‘ اسرائیل نے کیا پیشکش کی تھی؟

اسرائیل 45 دن کی جنگ بندی کے بدلے مزید 10 یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ یہ تجویز بھی ہے کہ اس مدت میں فریقین مستقل جنگ بندی کے لیے مذاکرات کریں گے۔

اسرائیلی منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ حماس ہتھیار ڈال دے تاہم یہ عسکری گروہ اس مطالبے کو مسترد کر چکا ہے۔

مذاکرات ابھی تک تعطل کا شکار ہیں جبکہ غزہ میں لڑائی جاری ہے۔

اس صورتحال میں غزہ کے عام شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ تنازعہ کیسے شروع ہوا تھا؟

غزہ پٹی کی وزارت صحت کے مطابق دو ماہ کی جنگ بندی ختم ہونے کے بعد دوبارہ شروع کیے گئے اسرائیلی زمینی اور فضائی حملوں میں اب تک کم از کم 1,691 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سات اکتوبر سن 2023ء سے جاری اس جنگ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد اکاون ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔

سات اکتوبر سن 2023ء کو حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل کی سرزمین پر حملہ کرتے ہوئے اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1,218 افراد کو ہلاک کر دیا تھا جبکہ ڈھائی سو سے زائد افراد کو یرغمال بھی بنا لیا تھا۔ اس دہشت گردانہ حملے کے بعد اسرائیلی دفاعی افواج نے غزہ پٹی میں حماس کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی شروع کر دی تھی۔ یورپی یونین، امریکہ اور متعدد دیگر مغربی ممالک حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔

ادارت: عرفان آفتاب، مریم احمد

متعلقہ مضامین

  • امدادی کارکنوں کی شہادت، غزہ کے شہری دفاع نے اسرائیلی فوج کی تحقیقات مسترد کردیں
  • فلسطینی ریڈ کراس نے طبّی کارکنوں پر حملے کی اسرائیلی رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیدیا
  • اسرائیلی فوج نے فلسطینی امدادی کارکنوں کی ہلاکت کو پیشہ ورانہ ناکامی قرار دیدیا، ڈپٹی کمانڈربرطرف
  • اسرائیلی فوج کا غزہ میں پروفیشنل ناکامیوں کا اعتراف
  • نئی دہلی میں رہائشی عمارت گرنے سے ایک ہی خاندان کے 7 افراد سمیت 11 شہری ہلاک
  • اسرائیل کی غزہ میں جنگ روکنے کے لیے ناقابلِ قبول شرائط
  • القسام بریگیڈ کا ایک اور مہلک حملہ، اسرائیلی فوجی ہلاک و زخمی، ٹینکس تباہ
  • غزہ پر بمباری جاری، اسرائیلی نژاد امریکی یرغمالی عیدان الیگزینڈر بھی لاپتا ہوگیا
  • غزہ پٹی: اسرائیلی حملوں میں مزید نوے افراد ہلاک
  • پاڑہ چنار میں زہریلا کھانا کھانے سے 150 افراد کی حالت غیر