WE News:
2025-04-22@14:15:34 GMT

دنیا میں زچگی کی اموات میں اضافہ، وجوہات کیا ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT

دنیا میں زچگی کی اموات میں اضافہ، وجوہات کیا ہیں؟

اقوام متحدہ کے اداروں نے خبردار کیا ہے کہ امدادی مالی وسائل میں غیرمعمولی کٹوتیوں کے باعث زچگی کی اموات روکنے کی جانب پیش رفت کو خطرات لاحق ہیں۔

سنہ2000  اور 2023 کے درمیانی عرصہ میں ضروری طبی خدمات تک رسائی میں بہتری کے نتیجے میں زچگی کی اموات میں 40 فیصد تک کمی آئی تھی۔ تاہم 2016 کے بعد یہ پیش رفت سست پڑ گئی ہے۔

سنہ 2023 میں تقریباً 260،000 خواتین حمل اور زچگی کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف)، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور جنسی و تولیدی صحت کے لیے ادارے (یو این ایف پی اے) کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں زچگی کی تقریباً 2 تہائی اموات ایسے علاقوں میں ہوتی ہیں جہاں حالات نازک ہیں یا وہ تنازعات اور بحرانوں کا شکار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افریقہ میں زچگی کے دوران خواتین کی اموات، اقوام متحدہ کے چونکا دینے والے اعداد و شمار

اس میں خواتین کو خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات تک رسائی اور انہیں خون کی کمی، ملیریا اور غیرمتعدی بیماریوں جیسے مسائل پر قابو پانے میں مدد دینے پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دیگر بیماریوں کی روک تھام کے نتیجے میں زچگی کے مسائل میں بھی کمی لائی جا سکتی ہے۔

علاوہ ازیں لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا اور خواتین کو اپنی صحت کے بارے میں ضروری معلومات اور وسائل تک رسائی حاصل ہونا بھی ضروری ہے۔

عدم مساوات اور سست پیش رفت

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2000 سے سنہ 2023 تک جن خطوں میں زچگی کی اموات میں کمی کی شرح سب سے زیادہ رہی ان میں ذیلی صحارا افریقہ بھی شامل ہے۔ اس کا شمار اقوام متحدہ کے ان تین خطوں میں ہوتا ہے جہاں سنہ 2015 کے بعد ایسی اموات میں نمایاں کمی آئی۔ دیگر دو میں آسٹریلیا و نیوزی لینڈ اور وسطی و جنوبی ایشیا شامل ہیں۔

مزید پڑھیے: بلوچستان دوران زچگی خواتین کے انتقال کی شرح سب زیادہ، 30 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار

تاہم سنہ 2015 کے بعد پانچ خطوں میں زچگی کی اموات روکنے کی جانب پیش رفت جمود کا شکار رہی جن میں شمالی افریقہ و مغربی ایشیا، مشرقی و جنوب مشرقی ایشیا، اوشیانا (آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل نہیں)، یورپ اور شمالی امریکہ اور لاطینی امریکہ و غرب الہند شامل ہیں۔

محفوظ زچگی پر کوویڈ۔19 کے اثرات

اس رپورٹ میں محفوظ زچگی پر کوویڈ۔19 وبا کے اثرات کا جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ اندازے کے مطابق سنہ 2021 میں مزید 40 ہزار خواتین حمل یا زچگی کے دوران موت کے منہ میں چلی گئیں۔ سنہ 2022 میہں یہ تعداد بڑھ کر 282،000 اور اس سے اگلے سال 322،000 تک جا پہنچی تھی۔

کوویڈ۔19 کے نتیجے میں براہ راست پیدا ہونے والی جسمانی پیچیدگیوں کے علاوہ زچگی کی خدمات میں بڑے پیمانے پر آنے والا خلل بھی ان اموات کا بڑا سبب تھی۔ اس سے وباؤں اور دیگر ہنگامی حالات میں یہ خدمات برقرار رکھنے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔

ہنگامی اقدامات کی ضرورت

امدادی وسائل میں آنے والی کمی کے باعث کئی ممالک میں زچہ بچہ اور چھوٹے بچوں کی صحت کے لیے درکار ضروری خدمات دستیاب نہیں رہیں۔

اقوام متحدہ کے اداروں نے زچگی میں اموات کو روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ بحران زدہ علاقوں میں یہ صورتحال کہیں زیادہ خراب ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا: زچگی کی شرحِ اموات میں دوگنا اضافہ، سیاہ فام خواتین زیادہ متاثر

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ بیک وقت امید اور مایوس کن حالات کی عکاس ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اگرچہ زچگی کی اموات کو روکنے اور اس کا سبب بننے والی طبی پیچیدگیوں پر قابو پانے کے طریقے موجود ہیں لیکن اس کے باوجود آج بھی اس مسئلے کے باعث خواتین کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ زچگی میں اموات کو روکنے کے لیے معیاری طبی خدمات کی فراہمی کے علاوہ خواتین اور لڑکیوں کے طبی و تولیدی حقوق کو بھی تحفظ دینا ہو گا۔

دائیوں اور نرسوں کی اہمیت

یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہا ہے کہ جب کوئی ماں حمل یا زچگی کے دوران موت کا شکار ہو جاتی ہے تو اس کے بچے کو بھی خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بہت سے واقعات میں دونوں ایسی وجوہات کی بنا پر زندہ نہیں رہ پاتے جنہیں روکا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: زچگی کے عمل کا دوسرا فریق

ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں امدادی وسائل کی شدید قلت کے باعث مزید بڑی تعداد میں ماؤں کی زندگی خطرے میں ہے۔ ان کی زندگیاں بچانے کے لیے دائیوں، نرسوں اور مقامی سطح پر کام کرنے والے طبی کارکنوں پر سرمایہ کاری کرنا ہو گی تاکہ ہر ماں اور بچے کو زندہ رہنے اور ترقی پانے کا موقع مل سکے۔

بین الاقوامی ذمہ داری

یو این ایف پی اے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نتالیا کینم نے واضح کیا ہے کہ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے ایسے طبی نظام قائم کرنے ہوں گے جن کے ذریعے زچہ بچہ کی زندگیوں کے تحفظ کی ضمانت ملے۔

انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے طبی سازوسامان کی سپلائی چین کو بہتر بنانا، دائیوں اور نرسوں کی افرادی قوت میں اضافہ اور خطرات کا شکار خواتین کے حوالے سے تفصیلی معلومات اور اعدادوشمار کے حصول کا اہتمام کرنا ضروری ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات کی بدولت زچگی کی قابل انسداد اموات اور ان کے نتیجے میں خاندانوں اور معاشروں کو پہنچنے والے نقصان پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اقوام متحدہ دوران زچگی اموات ڈبلیو ایچ او زچگی کی اموات زچگی کی اموات میں اضافہ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اقوام متحدہ ڈبلیو ایچ او اقوام متحدہ کے زچگی کے دوران کے نتیجے میں کہنا ہے کہ کا شکار کے باعث پیش رفت گیا ہے کے لیے

پڑھیں:

پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان

جب دنیا کی سپر پاورز خاموشی کی دبیز چادر اوڑھے غزہ کی مٹی پر بکھرے معصوم بچوں کے جسموں سے نظریں چرا رہی ہوں، جب عالمِ اسلام کے حکمران بے حسی کی چپ میں اپنی کرسیوں کو مضبوطی سے تھامے بیٹھے ہوں ، ایسے میں ایک بوڑھا پادری جس کے جسم پر بیماریوں کے نشان ہیں، جسے بار بار اسپتال لے جایا جاتا ہے، وہ اپنی تھرتھراتی آواز میں انسانیت کا مقدمہ لڑتا ہے، وہ پوپ فرانسس ہے۔ ویٹیکن کے عالی شان محل میں رہنے والا لیکن دل سے فقیروں کا ساتھی، زبان سے مظلوموں کی آواز اور عمل سے ایک نئی روایت کا آغازکرنے والا۔

اس نے کہا کہ جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، وہ جنگ نہیں قتلِ عام ہے۔ یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ یہ الفاظ کسی جلے ہوئے کیمپ میں پناہ گزین کسی فلسطینی کے نہیں تھے، نہ ہی یہ کسی انقلابی شاعر کے قلم سے نکلے مصرعے تھے۔ یہ ایک ایسے مذہبی ادارے کے سربراہ کے الفاظ تھے جو صدیوں سے طاقتوروں کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ یہ ویٹیکن کے اندر سے آنے والی وہ صدا تھی جو صدیوں کے جمود کو توڑ رہی تھی۔

پوپ فرانسس کا اصل نام خورخے ماریو بیرگولیو ہے۔ وہ ارجنٹینا کے شہر بیونس آئرس میں پیدا ہوا۔ کیتھولک چرچ کے روایتی مزاج سے ہٹ کر وہ پوپ بننے کے بعد پہلی بار چرچ کی فضاؤں میں ایک ایسی روشنی لے کر آیا جس نے اسٹیبلشمنٹ کے اندھیروں میں لرزش پیدا کر دی۔ اُس نے ویٹیکن کی دولت جاہ و جلال اور طاقت کی دنیا کو خیر باد کہہ کر عام انسانوں کے درمیان بیٹھنا پسند کیا۔ اس نے چرچ کے نچلے طبقوں، پسے ہوئے لوگوں اور باہر دھکیلے گئے انسانوں کی آواز بننے کو اپنا منصب سمجھا۔

وہ ایک ایسی دنیا کا داعی ہے جہاں عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانیت کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔ اس نے ہم جنس پرست افراد کے لیے نرم الفاظ استعمال کیے، اس نے موسمیاتی بحران کو ایک مذہبی اور اخلاقی مسئلہ قرار دیا، وہ مہاجرین کے ساتھ بیٹھا، ان کے پاؤں دھوئے ان کے بچوں کو گود میں لیا اور کہا کہ مذہب صرف عبادت نہیں یہ عمل ہے، یہ انصاف ہے۔ اس نے دنیا کو بتایا کہ گرجا ہو یا مسجد جب تک وہ ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائیں، وہ خاموشی کے مجرم ہیں۔

جب وہ پوپ منتخب ہوا تو اس نے اپنا لقب’’ فرانسس‘‘ رکھا جو سینٹ فرانسس آف اسّیسی کی یاد میں تھا، وہ درویش پادری جو فقیری میں جیتا تھا، پرندوں سے بات کرتا تھا اور جنگ کے خلاف کھل کر بولتا تھا۔ پوپ فرانسس نے اسی روایت کو اپنایا۔ اس نے ویٹیکن کے محلات میں رہنے سے انکار کیا، ایک چھوٹے سے کمرے میں قیام کیا، عام گاڑی استعمال کی اور قیمتی جوتوں، گھڑیوں اور زیورات سے گریزکیا۔ اس نے نہ صرف کہا بلکہ عمل سے دکھایا کہ مذہب کی اصل طاقت اخلاقی سچائی میں ہے نہ کہ شان و شوکت میں۔

پھر جب فلسطین کی زمین پر بمباری ہوئی، جب اسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا، جب بچوں کے جسم ملبے تلے دب گئے تو پوپ فرانسس نے اپنے سادہ سے دفتر سے وہ بات کہی جو بڑے بڑے صدر نہ کہہ سکے۔ اس نے کہا ’’ یہ جنگ نہیں، یہ قتلِ عام ہے۔ یہ انسانیت کی توہین ہے۔‘‘

جب مغربی میڈیا اسرائیل کے بیانیے کو آگے بڑھا رہا تھا جب یورپی حکومتیں دفاعِ اسرائیل کو اپنا حق سمجھ رہی تھیں،جب عالمی ادارے بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے، تب اس نے انسانیت کی طرفداری کا علم اٹھایا۔وہ چاہتا تو خاموش رہ سکتا تھا۔

وہ کہہ سکتا تھا کہ یہ ایک پیچیدہ تنازع ہے کہ ہم فریق نہیں بن سکتے کہ ہمیں غیر جانبدار رہنا چاہیے، لیکن اس نے غیرجانبداری کو منافقت قرار دیا۔ اس نے کہا کہ ظلم کے وقت خاموش رہنا ظالم کا ساتھ دینا ہے۔ یہ وہ تعلیم ہے جو ہر مذہب دیتا ہے لیکن کم ہی لوگ اس پر عمل کرتے ہیں۔

ہم مسلم دنیا میں اکثر خود کو مظلوموں کا وکیل سمجھتے ہیں لیکن جب وقت آتا ہے تو ہماری زبانیں سوکھ جاتی ہیں۔ ہم اپنے تجارتی معاہدے اپنے خارجہ تعلقات اور اپنی کرسیوں کو مظلوموں کے خون پر ترجیح دیتے ہیں۔ پوپ فرانسس ہمیں آئینہ دکھاتا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ مذہب کا اصل جوہر کیا ہے۔ وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر ہم ظالم کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے تو ہمارا ایمان محض رسم ہے روح نہیں۔

پوپ فرانسس کی اپنی صحت بھی ان دنوں کمزور ہے۔ اسے کئی بار سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہوا ،اسپتال میں داخل کیا گیا، آپریشن ہوئے لیکن جیسے ہی وہ اسپتال سے باہر نکلا ،اس نے دنیا کے زخموں کو اپنی صحت پر ترجیح دی۔ وہ پھر سے کیمروں کے سامنے آیا اور کہا کہ ہمیں غزہ کے بچوں کے لیے دنیا کے مظلوموں کے لیے اور انسانیت کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔

انھیں زندہ رہنا چاہیے کیونکہ ان جیسے مذہبی رہنما کی دنیا کو ضرورت ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ ایک مذہبی رہنما ہے بلکہ اس لیے کہ وہ ضمیر کی آواز ہے۔ ایسی آوازیں اب کم رہ گئی ہیں۔ ایسی آوازیں جو نہ رنگ دیکھتی ہیں نہ قوم نہ مذہب نہ سرحد۔ جو صرف انسان دیکھتی ہیں اور جو ہر انسان کے لیے انصاف مانگتی ہیں۔

اس دنیا میں جہاں ہر دوسرا مذہبی پیشوا سیاست دانوں کا ترجمان بنا ہوا ہے، جہاں روحانیت طاقت کی غلامی بن چکی ہے، وہاں پوپ فرانسس ایک مختلف روایت کا پرچم بردار ہے۔ وہ جس سوچ کا حامی ہے، اس میں وہ تنہا نہیں ہے مگر وہ سوچ بہت سوں کی نہیں ہے۔

وہ جو ویٹیکن کی دیواروں سے نکل کر مہاجر کیمپوں میں جاتا ہے، وہ جو عبادت گاہوں سے نکل کر میدانِ سچ میں آتا ہے، وہ جو خاموشی کو توڑتا ہے۔اس کی زندگی اس کی زبان اس کا طرزِ قیادت ہمیں بتاتا ہے کہ انسانیت اب بھی زندہ ہے اگر ہم اسے سننا چاہیں اگر ہم اسے اپنانا چاہیں۔ہم سب کے لیے اور خاص طور پر ہمارے مذہبی رہنماؤں کے لیے پوپ فرانسس کی زندگی ایک سبق ہے۔ وہ سبق جو ہمیں مذہب کی اصل روح سے جوڑتا ہے اور بتاتا ہے کہ اگر دل زندہ ہو تو ضمیر بولتا ہے اور جب ضمیر بولتا ہے تو دنیا کی خاموشی ٹوٹتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مفت الیکٹرک اسکوٹی کیسے ملے گی شرائط کیا ہیں؟
  • جامشورو: مسافر وین پہاڑی سے گر گئی، خواتین اور بچوں سمیت 16 افراد جاں بحق
  • افغان باشندوں کی وطن واپسی میں حالیہ کمی، وجوہات کیا ہیں؟
  • ’خواتین کو رات 10 بجے کے بعد کام پر مجبور نہیں کیا جاسکتا‘
  • سعودی عرب میں عمرہ زائرین کی بس کو حادثہ، خواتین سمیت متعدد پاکستانی جاں بحق
  • خواتین مردوں کے مقابلے میں لمبی عمر پاتی ہیں، تحقیقی رپورٹ
  • سعودی عرب میں عمرہ زائرین کی بس کو حادثہ، متعدد پاکستانی خواتین جاں بحق
  • دنیا بھر میں خواتین مردوں کے مقابلے میں لمبی عمر پاتی ہیں: اقوام متحدہ
  • پیرو: جبری نس بندی سے متاثرہ لاکھوں خواتین ازالے کی منتظر
  • پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان