جماعت اسلامی ہند کے امیر نے کہا کہ آج فلسطین کے لوگ استعماری طاقتوں کے سامنے اپنی بقا، وقار اور آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے نئی دہلی میں منعقدہ پریس کانفرنس میں وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کی منظوری پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل جس نے اب قانونی حیثیت حاصل کر لی ہے، مذہبی امتیاز اور جانبداریت پر مبنی ہے، اسے اقلیتی حقوق کے لئے ایک سیاہ باب کے طور پر جانا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون ملک میں مذہبی آزادی اور آئینی حقوق پر براہ راست حملہ ہے، مودی حکومت نے وقف ایکٹ 1995 میں ترمیم کرکے اس قانون کو تیار کیا ہے، جس سے وقف املاک کے انتظام میں حکومتی مداخلت کا راستہ ہموار ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایکٹ آئین کے آرٹیکل 14، 25، 26 اور 29 کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بل پر بحث کے دوران پارلیمنٹ میں برسر اقتدار پارٹی کی طرف سے کئی گمراہ کن دلائل پیش کئے گئے، کہا گیا کہ وقف بورڈ چیریٹی کمشنر کی طرح ہے جبکہ یہ دعویٰ قطعی غلط ہے۔

جماعت اسلامی ہند کے امیر نے کہا کہ ہم اس تفریق پر مبنی قانون کی مخالفت کرنے والی سیاسی پارٹیوں اور ارکان پارلیمنٹ کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ اس قانون کے خلاف ملک گیر احتجاج میں اپنی مکمل حمایت جاری رکھیں گے اور اس غیر منصفانہ قانون کو ختم کرنے کے لئے تمام قانونی اور جمہوری طریقے اختیار کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جہاں تک سیکولرزم کا دعویٰ کرنے والی پارٹیاں جنہوں نے اس قانون کی حمایت کی ہے، کا سوال ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ انہیں اس سیاسی موقع پرستی اور دھوکہ دہی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے حلقوں میں دوبارہ اقتدار کے لئے منتخب نہ کئے جائیں۔

غزہ کی موجودہ صورتحال پر بات کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ ہم غزہ بالخصوص رفح میں اسرائیلی فضائی حملوں کی سخت مذمت کرتے ہیں، وہاں محفوظ علاقوں سیف زون میں خیموں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچوں سمیت عام شہری شہید ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق اور انسانی زندگیوں سے کھلواڑ کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے شمالی غزہ میں قحط کے باعث خوراک، پانی اور طبی سامان کی شدید قلت کی اطلاع دی جا رہی ہے، اس کے باوجود غذائی اجناس کو عوام تک پہنچنے میں اسرائیلی حکومت رخنہ ڈال رہی ہے۔

سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ غزہ میں انسانی تباہی کا یہ عالم ہے کہ اکتوبر 2023ء سے اب تک 50 ہزار سے زیادہ لوگ شہید اور وہاں کی 7 فیصد آبادی ہلاک یا زخمی ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کا مجرم ہے جس کے لئے اسے ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیئے، مگر مغربی ممالک، امریکہ کی قیادت میں اسرائیل کو جوابدہی سے بچانے کی پوری کوشش کررہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب کا انسانی حقوق کی وکالت کرنا محض ایک ڈھونگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج فلسطین کے لوگ استعماری طاقتوں کے سامنے اپنی بقا، وقار اور آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی انہوں نے کہا کہ ا کہا کہ یہ کے لئے

پڑھیں:

پاکستان میں قانون سب کے لیے برابر نہیں!

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251214-03-2

 

پاکستان میں قانون کی بالادستی، مساوات اور انصاف کے تصورات اس وقت شدید سوالات کی زد میں آ جاتے ہیں جب کسی طاقتور یا بااثر خاندان کا فرد ایک سنگین جرم میں ملوث ہو اور معاملہ چند قانونی موشگافیوں یا ’’صلح‘‘ کے نام پر ختم ہوتا دکھائی دے۔ جج کے بیٹے کی گاڑی کی ٹکر سے دو معصوم بچیوں کی ہلاکت کا حالیہ واقعہ بھی اسی تلخ حقیقت کی ایک کڑی بن کر سامنے آیا ہے، جس کا تحریری عدالتی حکم نامہ منظر ِ عام پر آنے کے بعد کئی تشویشناک سوالات جنم لے رہے ہیں۔ جوڈیشل مجسٹریٹ شائستہ کنڈی کی جانب سے جاری کیے گئے حکم نامے کے مطابق دونوں جاں بحق بچیوں کے ورثا عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے اللہ کے نام پر ملزم کو معاف کرنے کا بیان دیا۔ ایک بچی کے بھائی عدنان تجمل اور دوسری کے والد غلام مہدی نے عدالت میں حلفیہ بیانات جمع کرائے اور یہاں تک استدعا کی کہ اگر آئندہ مرحلے میں ملزم کو ضمانت کے بعد بری بھی کر دیا جائے تو انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ بظاہر یہ ایک قانونی عمل ہے جو فوجداری قوانین میں موجود صلح اور معافی کی شقوں کے تحت ممکن ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہر قانونی عمل لازماً اخلاقی اور سماجی انصاف پر بھی پورا اترتا ہے؟ دو معصوم جانوں کے ضیاع کو محض ایک فائل بند کر دینے، چند دستخطوں اور چند رسمی بیانات کے ذریعے ختم کر دینا، ریاستی نظامِ انصاف کی روح پر گہرا حملہ ہے۔ یہاں یہ نکتہ نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ حادثہ ایک عام شہری کے بجائے ایک جج کے بیٹے سے منسوب ہے۔ یہی پہلو عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے، کیا ورثا کی معافی واقعی آزادانہ اور دل کی رضا سے تھی، یا سماجی دباؤ، قانونی پیچیدگیوں اور طاقتور حلقوں کے اثر و رسوخ نے انہیں اس فیصلے پر مجبور کیا؟ پاکستان جیسے معاشرے میں، جہاں غریب اور کمزور شہری برسوں عدالتوں کے چکر کاٹتے رہتے ہیں، وہاں اس نوعیت کی ’’صلح‘‘ انصاف کے دوہرے معیار کا تاثر مضبوط کرتی ہے۔ ایک طرف عام آدمی کے لیے قانون کی سختی اور دوسری جانب بااثر افراد کے لیے نرمی، یہ تضاد ریاست پر عوام کے اعتماد کو کھوکھلا کرتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ٹریفک حادثات میں انسانی جانوں کے ضیاع کو اکثر غیر ارادی کہہ کر معمولی لیا جاتا ہے، حالانکہ غفلت، تیز رفتاری اور قانون شکنی بھی جرم کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ صورتحال اس پورے نظام پر غور و فکر کی دعوت دیتی ہے۔ کیونکہ سوال یہ بنتا ہے کہ کیا ریاست کا فرض صرف مقدمات نمٹانا ہے یا انسانی جان کے احترام اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام بھی اس کی ذمے داری ہے؟ اگر ہر بااثر ملزم صلح کے ذریعے بری ہوتا رہا تو پھر ٹریفک قوانین، احتیاط اور شہری ذمے داری کا تصور محض کتابی بات بن کر رہ جائے گا۔

اداریہ

متعلقہ مضامین

  • امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان شہر میں خونی ڈمپر و ٹینکرز سے بڑھتی اموات ، ای چالان کے نام پر عوام کی جیبوں پر ڈاکے و حکومتی نااہلی و بے حسی کے خلاف نمائش چورنگی پر احتجاجی دھرنے سے خطاب کررہے ہیں
  • اسلام آباد میںوفاقی کونسل بنانے کی تجویز مسترد کرتے ہیں‘رندھاوا
  • پاکستان میں قانون سب کے لیے برابر نہیں!
  • قلعہ سیف اللہ جے یو آئی کا قلعہ ہے، نئی جماعت ہمیں کمزور نہیں کر سکتے، مولانا واسع
  • مولانا حزب اللہ جکھرو کی سربراہی میں وفد کا سکھر اسپتال کا دورہ
  • ٹریفک پولیس کا غیر قانونی پارکنگ کے خلاف کریک ڈاؤن، کاروباری مراکز کو لیگل نوٹسز جاری
  • اسد اللہ بھٹو ،کاشف شیخ و دیگر کی سیف  الدین سے والدہ کی وفات پر تعزیت
  • جماعت اسلامی کا  ہیوی ٹریفک حادثات اور ای چالان کیخلاف 13 دسمبر کو دھرنے کا اعلان
  • کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کے درمیان جھڑپیں جاری، امن معاہدے کیلئے ٹرمپ کی مداخلت آج متوقع ہے
  • نیب قانونی تقاضوں کے ساتھ لوگوں کی عزت نفس کا بھی خیال رکھے: گورنر