بیان بازی کا سلسلہ چلتا رہا تو چپقلش بڑھے گی، عمران خان کی رہائی پر توجہ دینی چاہیے
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
بیان بازی کا سلسلہ چلتا رہا تو چپقلش بڑھے گی، عمران خان کی رہائی پر توجہ دینی چاہیے WhatsAppFacebookTwitter 0 7 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز )پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما عاطف خان نے کہا ہے کہ پارٹی رہنماں کی جانب سے بیان بازی کا سلسلہ جاری رہے گا تو چپقلش بڑھے گی، ہمیں اس وقت عمران خان کی رہائی پر توجہ دینی چاہیے۔پارلیمنٹ ہاوس اسلام آباد میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران عاطف خان کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے پارلیمانی پارٹی کو ٹکٹس کی تقسیم پر اعتماد میں لیا تھا اور عمران خان کا پیغام بھی دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کا پیغام تھا کہ سب ایک ایک سیٹ پر الیکشن لڑیں گے اور ہم 3 سینئر ارکان سے متعلق عمران خان کی رائے تھی کہ ان کی ضرورت مرکز میں ہے۔انہوں نے کہا کیوں کہ اس وقت سینئر قیادت میں سے بہت سے لوگ پارٹی چھوڑ گئے تھے، ہمارے لیے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنا ضروری تھا۔
عاطف خان کا کہنا تھا کہ جب میں بانی پی ٹی آئی سے جب جیل میں ملا تھا تو اس وقت ہمیں بھی انہوں نے یہی کہا تھا، ہم نے بیرسٹر گوہر سے پوچھا کہ یہ سازش والی بات کہاں سے آئی جس پر انہوں نے جواب دیا کہ عمران خان نے سازش جیسی کوئی بات نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ اسد قیصر، شہرام ترکئی اور میں نے پارٹی کے سامنے معاملہ رکھا ہے جب کہ اسد قیصر نے فون پر گفتگو کی۔انہوں نے مزید کہا کہ بیرسٹر گوہر کے مطابق سازش کا لفظ نہ بانی پی ٹی آئی نے مجھے کہا اور نہ میں نے علی امین گنڈا پور سے کہا۔عاطف خان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ایسے بیانات کا سلسلہ چلتا رہا تو چپقلش بڑھے گی، گلے شکوے ہوں گے، ہمیں اس وقت بانی پی ٹی آئی کی رہائی پر توجہ دینی چاہیئے اب مزید اس پر بیان نہیں دیں گے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹرگوہر نے پارٹی میں بڑھتے اختلافات کے پیش نظر رہنماں کو میڈیا میں بیان بازی سے روک دیا تھا۔ذرائع کے مطابق بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ آئندہ پارٹی عہدیدار عوامی سطح پر اختلافات کا اظہار نہیں کریں گے، اور پارٹی اپنے تمام معاملات مناسب فورم پر ہی حل کرے گی جب کہ انہوں نے علی امین گنڈاپور کے بیان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعلی خیبرپختونخوا کو مستقبل میں خاموش رہنے کا مشورہ دیا۔
واضح رہے کہ وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں پی ٹی آئی کے بعض رہنماں پر سازش کرنے کا الزام لگایا تھا جس کے جواب میں پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی شہرام خان ترکئی نے علی امین گنڈا پور کے بیان کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
شہرام ترکئی کا کہنا تھا کہ اس قسم کے بیانات سے عمران خان کی تحریک کو نقصان پہنچے گا، انہوں نے وزیراعلی کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنی توانائیاں امن و امان کی بحالی اور طرز حکومت پر بہتربنانے پر مرکوز رکھیں۔
شہرام ترکئی کے بعد ایک بیان میں عاطف خان نے کہا کہ وزیر اعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کا میرے ساتھ اختلاف ہے تو صحیح ہے، لیکن اسد قیصر اور شکیل خان سمیت سینئر رہنماں کے خلاف باتیں نہیں ہونی چاہیے تھیں۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کی رہائی پر توجہ دینی عمران خان کی کا سلسلہ
پڑھیں:
تحریک انصاف ایک سال میں اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) گزشتہ ایک سال کے دوران نئے عام انتخابات، حکومت کی تبدیلی اور 2024ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی مکمل تحقیقات کے اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔
اب پارٹی کی مکمل توجہ جیل میں قید پارٹی قیادت بشمول سابق وزیر اعظم عمران خان کیلئے ریلیف کے حصول اور مخالفانہ ماحول میں سیاسی مقام کے دوبارہ حصول پر مرکوز ہے۔
پارٹی ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے بیشتر رہنما اب سمجھ چکے ہیں کہ تاریخی لحاظ سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست تصادم فضول ہے۔ پی ٹی آئی کی سینئر شخصیات کے ساتھ پس منظر میں ہونے والی بات چیت سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اعتماد کا گہرا فقدان ٹھیک نہیں ہو سکتا اور پس پردہ کوئی ڈیل ایسی ثابت نہیں ہو سکتی کہ جس سے عمران خان کی اڈیالہ جیل سے رہائی اور اقتدار کے ایوانوں میں دوبارہ واپسی کو ممکن بنایا جا سکے۔
پارٹی کی ایک سینئر شخصیت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس بات کا اعتراف کیا کہ فی الوقت ہمارے لیے سب سے بہتر چیز یہ ہو سکتی ہے کہ اقتدار میں واپسی کی بجائے سیاسی بقاء کی حکمت عملی اختیار کی جائے تاکہ پارٹی کو سانس لینے کا موقع مل سکے اور 2028ء میں منصفانہ الیکشن ملے۔ پارٹی اب سمجھتی ہے کہ موجودہ ’’ہائبرڈ سسٹم’’ (ایک اصطلاح جو اکثر اسٹیبلشمنٹ کے زیر تسلط سیاسی فریم ورک کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے) جاری رہے گا۔
یہ نظام ختم کرنے یا اسے کمزور کرنے کی پی ٹی آئی کی کوششیں ناکام رہی ہیں جس کیلئے پارٹی عوامی تحریکیں، عدالتی دبائو یا بین الاقوامی برادری سے اپیلوں کا راستہ اختیار کر چکی ہے۔ پارٹی کا اپنا تجزیہ یہ ہے کہ عدلیہ اپنی غیر جانبداری کھو چکی ہے، جبکہ غیر ملکی حکومتوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
ملک کے کئی حصوں میں خاص طور پر نوجوانوں اور شہری متوسط طبقے میں پی ٹی آئی کی مقبولیت زیادہ ہے۔ تاہم، پارٹی رہنما مانتے ہیں کہ اس عوامی حمایت سے سیاسی فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکا کیونکہ یہ تسلیم کی گیا ہے کہ فوج کے ساتھ براہِ راست تصادم کی پالیسی غلط رہی۔ پارٹی کی صفوں میں ایک پریشان کن سوال جنم لے رہا ہے کہ اگر کوئی سمجھوتہ ہوا بھی تو کیا اسٹیبلشمنٹ عمران خان پر دوبارہ بھروسہ کرے گی؟ اس کے ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی سیاسی لحاظ سے ناقابل تصور ہے۔
پی ٹی آئی کیلئے پریشان کن بات یہ ہے کہ مفاہمت کی خواہشات کے باوجود پارٹی کے بانی چیئرمین نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کیلئے پارٹی سوشل میڈیا کو بیان بازی میں نرمی لانے یا حکمت عملی تبدیل کرنے کیلئے نہیں کہا۔
اس کے برعکس، پارٹی سوشل میڈیا کا بیانیہ سخت تنقید پر مبنی ہے جس سے حالات مزید خراب ہوتے ہیں۔ آئندہ کے حوالے سے پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کو ایک عملی نقطہ نظر اختیار کرنا چاہئے: اپنے قیدی رہنمائوں کیلئے قلیل مدتی ریلیف حاصل کرنا، نچلی سطح پر دوبارہ منظم ہونا، اور آئندہ عام انتخابات کیلئے تیاری شروع کرنا۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ پارٹی اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے تصادم کی بجائے بقائے باہمی کا راستہ چنتی ہے یا نہیں۔
Post Views: 5