لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے پراسیکیوٹر جنرل پنجاب پر عائد22 لاکھ روپے کا جرمانہ برقرار
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کو کیا گیا 22 لاکھ روپے کا جرمانہ برقرار رکھا ہے۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کو جرمانے اور 9 مئی سے متعلق کیسز کی سماعت کی۔عدالت عظمیٰ نے لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کو کیا گیا 22 لاکھ روپے کا جرمانہ برقرار ہے جب کہ سپریم کورٹ نے 9 مئی سے متعلق کیس میں اے ٹی سی راولپنڈی جج سےمقدمات منتقلی کی اپیلیں نمٹادیں۔چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ہائیکورٹ کا فیصلہ پراسیکیوٹر جنرل اور اے ٹی سی جج کے کیرئیر پر اثرانداز نہیں ہوگا، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نےجج کےخلاف ریفرنس پر حکومت کو پیغام دینا تھا۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہائیکورٹ کے اختیار میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے، جرمانے ادا کر دیں یہ اتنا بڑامسئلہ نہیں ہے۔دوران سماعت پنجاب حکومت کے وکیل نے 9 مئی ٹرائل سے متعلق کہا کہ ٹرائل عدالت نے ضمانت کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں کیا، اس پر چیف جسٹس نے جواب دیا ضمانت کےفیصلوں میں بعض عدالتی فا ئنڈنگز درست نہیں اگر کوئی ملزم ضمانت کا غلط استعمال کرے تو قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا، آپ سوچ لیں ہم 3 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کا آرڈر کر دیتے ہیں۔واضح رہے پنجاب حکومت کی جانب سے سابق اے ٹی سی جج راولپنڈی اعجاز آصف کے خلاف ریفرنس اور مقدمہ منتقلی کی درخواست ہائیکورٹ نے خارج کردی تھی جس پر پنجاب حکومت نے ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
ججز ٹرانسفر و سینیارٹی کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیا
اسلام آباد:ججز ٹرانسفر و سنیارٹی کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کروادیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے ججز ٹرانسفر سنیارٹی کیس میں سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں لکھا گیا ہے کہ ججز ٹرانسفر کی سمری کا آغاز وزارت قانون کی جانب سے کیا گیا۔
جواب میں لکھا گیا ہے کہ وزارت قانون سے وزیراعظم اور پھر صدر کو سمری بھجوائی گئی جس کی مںظوری صدر مملکت نے دی جبکہ اس حوالے سے چیف جسٹس پاکستان اور متعلقہ ہائیکورٹ چیف جسٹسز سے مشاورت کی گئی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے جواب میں لکھا کہ ججز کا ٹرانسفر آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت کیا گیا، جسٹس سرفراز ڈوگر پہلے ہی بطور ایڈیشنل جج اور پھر مستقل جج کے طور پر حلف اٹھا چکے ہیں۔
جواب میں لکھا گیا ہے کہ سابق چیف جسٹس نے ٹرانسفر کے بعد انتظامی کمیٹی تشکیل دی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے جواب کے ہمراہ نئی ججز سنیارٹی فہرست ،ججز ٹرانسفر نوٹیفیکیشنز اور ہائیکورٹ ججز ریپریزنٹیشن بھی جمع کروائی ہے۔
ہائیکورٹ کی جانب سے جواب رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ یار ولانہ نے جمع کروایا ہے۔