اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 اپریل 2025ء) امریکی صدر ٹرمپ کے مختلف ملکوں سے درآمدات پر نافذ کردہ نئے محصولات کے منفی اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ کئی امریکی خریداروں نے فی الحال پاکستان سے جانے والی شپ منٹس اور نئے آرڈرز دونوں روک دیے ہیں۔

سیالکوٹ سے ٹیلی فون پر ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان سپورٹس گڈز مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین خواجہ مسعود اختر نے بتایا کہ یہ درست ہے کہ نئے امریکی ٹیرفس سے پاکستان کی ایکسپورٹ انڈسٹری متاثر ہو رہی ہے۔

ان کے بقول پاکستان سے جو مال بنا کر اس سے پہلے امریکہ بھجوایا جا چکا ہے، اس کی پہلے سے طے شدہ قیمت پر بھی سوال اٹھنا شروع ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''ہمارا خریدار کہہ رہا ہے کہ جو نیا 29 فیصد ٹیرف لگایا گیا ہے، اس کی آدھی رقم بھی پاکستانی ایکسپورٹرز برداشت کریں۔

(جاری ہے)

اس صورتحال میں جو ایکسپورٹرز چار پانچ فیصد کے مارجن پر کام کر رہے تھے، وہ تو گھر بیٹھے ہی اپنی مسابقتی اہلیت کھو بیٹھے ہیں۔

‘‘

پاکستانی ماہر اقتصادیات علی خضر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نئی صورتحال کے اثرات پاکستان کے عوام تک بھی پہنچیں گے۔ لیکن اس کے مختلف لوگوں پر مختلف اثرات ہوں گے۔ ان کے بقول پہلے مرحلے پر سٹاک ایکسچینج کریش کر جانے سے جن لوگوں نے وہاں سرمایہ کاری کر رکھی تھی، ان کا نقصان ہو گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ نئے امریکی ٹیرفس کے بعد کی صورتحال کا عالمی سطح پر کووڈ کی عالمی وبا کے دنوں سے موازنہ کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا، ''اس کے نتیجے میں اگر عالمی سپلائی چین متاثر ہوئی، تو اس کے اثرات بھی عام پاکستانی تک پہنچنے کا امکان ہے۔‘‘

علی خضر کا کہنا تھا کہ وہ ایکسپورٹرز جو 29 فیصد ٹیرف کے متحمل نہیں ہوں گے، ان کے آرڈرز کھو جانے کی صورت میں ان کے پیداواری یونٹ بند ہو سکتے ہیں اور ایسی صورت میں چھانٹیاں بھی ہوں گی اور بے روزگاری میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں فری لانس کے طور پر کام کرنے والے کارکنوں کی درست حتمی تعداد تو دستیاب نہیں، تاہم ایک اندازے کے مطابق یہ تعداد دو ملین سے تین ملین کے درمیان تک ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں فری لانسرز آرٹس اینڈ ڈیزائن، کسٹمر سروسز، آئی ٹی اور کال سینٹرز وغیرہ سمیت مختلف شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ آئی ٹی سیکٹر میں فری لانسر کے طور پر کام کرنے والے ٹیپو نامی ایک نوجوان نے بتایا کہ نئے امریکی ٹیرفس صرف مصنوعات پر لگائے گئے ہیں اور سروسز پر ان کا اطلاق نہیں ہوتا۔

تاہم ان کے خیال میں پاکستان کے فری لانس سیکٹر میں نئے امریکی ٹیرفس کے اعلان کے بعد سے عدم اطمینان کی کیفیت آ گئی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ صدر ٹرمپ کس سروس پر کب کوئی نیا ٹیکس لگا دیں۔ انہیں اس بات پر بھی تشویش تھی کہ آئندہ دنوں میں امریکہ سے آنے والی اشیاء، جن میں آئی فون اور ایپل کے کمپیوٹرز اور دیگر ہارڈ ویئر بھی شامل ہیں، کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔

اس صورتحال نے پاکستان کے مختلف سیکٹرز میں کام کرنے والے کارکنوں کو قطعی غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔

معاشی تجزیہ کار خالد محمود رسول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ابھی یہ واضح نہیں کہاعلان کردہ امریکی ٹیرفس کی حتمی شکل کیا ہوگی؟ ''کیونکہ عالمی تجارت اور ڈپلومیسی میں مذاکرات کی میز پر حتمی طور پر طے پانے والے معاملات ابتدائی صورت حال سے بہت مختلف ہو سکتے ہیں۔

عین ممکن ہے کہ باہمی مذاکرات میں بھاؤ تاؤ، لین دین اور وعدے وعید کے بعد حتمی ٹیرفس کی شکل بہت مختلف ہو۔‘‘

پیر کے روز اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں ملک بھر کے ایکسپورٹرز کے نمائندوں کی مشاورت کے ساتھ حکومت نے ملکی وزیر خزانہ کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی وفد امریکہ بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اس میٹنگ میں آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے چئیرمین کامران ارشد بھی شریک تھے۔

کامران ارشد کا خیال ہے کہ اگر حکومت انڈسٹری کا ساتھ دے، تو یہ صورت حال پاکستان کے لیے ایک شاندار موقع میں بدل سکتی ہے۔

ایک اور ٹیکسٹائل ایکسپورٹر، ڈاکٹر عاصم نے بتایا کہ امریکی صدر کی جانب سے پاکستان کی مصنوعات پر نئے ٹیرفس کے نفاذ کے بعد امریکہ بھیجی جانے والی پاکستانی مصنوعات کی امریکی مارکیٹ میں قیمت زیادہ ہو جائے گی۔

تاہم صرف پاکستانی مصنوعات ہی زیادہ مہنگی نہیں ہوں گی بلکہ بنگلہ دیش، بھارت، چین اور ویت نام کی مصنوعات بھی زیادہ قیمت پر ہی امریکی منڈی میں دستیاب ہوں گی۔

پاکستان کی امریکہ کے ساتھ تجارت کا جائزہ لیا جائے،تو تجارت کا توازن پاکستان کے حق میں ہے۔ یعنی پاکستان کیامریکہ کو برآمدات زیادہ اور وہاں سے درآمدات کم ہیں۔ پاکستان کی امریکہ کے ساتھ تجارت میں امریکہ بھیجی جانے والی پاکستانی مصنوعات میں سب سے بڑا حصہ ٹیکسٹائل مصنوعات کا ہوتا ہے، جو کل تجارت کا نوے فیصد بنتا ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان سے امریکہ چمڑے کی مصنوعات، فرنیچر، پلاسٹک، سلفر، نمک، سیمنٹ، کھیلوں کا سامان، قالین، فٹ ویئر اور دوسری اشیاء بھی برآمد کی جاتی ہیں۔

پاکستان سے امریکہ جانے والی اشیاء کے مقابلے میں امریکہ سے پاکستان درآمد کی جانے والی اشیا کا حجم کم ہے۔ امریکہ سے پاکستان درآمد کی جانے والی اشیاء میں خام کپاس، لوہا اور سٹیل، مشینری، بوائلرز، پرانے کپڑے، کیمیکلز، ادویات اور کچھ دیگر مصنوعات شامل ہیں۔

ایوان صنعت و تجارت لاہور کے سابق صدر پرویز حنیف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ باہر سے لگنے والے ٹیکسوں سے تو صنعتکار نمٹ سکتے ہیں، مگر ''ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہم نے پاکستان کو کاروبار کے قابل کیوں نہیں چھوڑا۔ ہمارے اپنے مسائل اگر حل ہو جائیں تو ہم اپنے لوگوں کو نئے امریکی ٹیرفس کے اثرات سے بچا لیں گے۔‘‘

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نئے امریکی ٹیرفس سے پاکستان پاکستان کے پاکستان سے پاکستان کی جانے والی ٹیرفس کے ڈی ڈبلیو بتایا کہ نے والی کے بعد کام کر

پڑھیں:

امریکہ کے نائب صدر کا دورہ بھارت اور تجارتی امور پر مذاکرات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2025ء) امریکی نائب صدر جے ڈی وینس آج پیر کی صبح نئی دہلی پہنچے جن کی شام کے وقت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات متوقع ہے۔ اس ملاقات میں دیگر اہم امور کے ساتھ ہی دو طرفہ تجارتی معاہدے پر بات چیت توجہ مرکوز رہنے کا امکان ہے۔

امریکی نائب صدر وینس اپنی اہلیہ کے ساتھ بھارت آئے ہیں، جو بھارتی نژاد ہیں اور ان کا تعلق ریاست آندھرا پردیش سے ہے۔

صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ میں اس دورے کو اہم سمجھا جا رہا ہے، یاد رہے کہ یہ امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارتی جنگ کے درمیان ہو رہا ہے۔

بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ دورہ "فریقین کو دو طرفہ تعلقات میں پیش رفت کا جائزہ لینے کا موقع فراہم کرے گا" اور ملاقات کے دوران دونوں رہنما "باہمی دلچسپی کی علاقائی اور عالمی امور کی پیش رفت پر خیالات کا تبادلہ کریں گے۔

(جاری ہے)

"

امریکی ادارے کا بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' پر پابندی کا مطالبہ

وزیر اعظم مودی کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں فروری میں مودی کے دورہ امریکہ کے دوران طے پانے والے دو طرفہ ایجنڈے کی پیش رفت پر توجہ مرکوز کرنے کا امکان ہے۔ اس ایجنڈے میں دو طرفہ تجارت میں "انصاف پسندی" اور دفاعی شراکت داری میں توسیع جیسے امور شامل ہیں۔

بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے، "ہم بہت مثبت ہیں کہ یہ دورہ ہمارے دو طرفہ تعلقات کو مزید فروغ دے گا۔"

بھارت کے لیے اہم کیا ہے؟

امریکہ بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ امریکی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس دونوں ممالک کی باہمی تجارت 129 بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھی، جس میں بھارت کے حق میں 45.7 بلین ڈالر کا سرپلس ہے۔

مودی ان پہلے عالمی رہنماؤں میں شامل ہیں، جنہوں نے دوسری بار اقتدار سنبھالنے کے بعد صدر ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔ بھارتی حکومت نے امریکہ سے برآمد کی جانے نصف سے زیادہ اشیا پر ٹیرف میں کمی کرنے کی تجویز بھی پیش کی ہے۔

ٹرمپ کا بڑے پیمانے پر عالمی ٹیرف کا اعلان، پاکستان بھی متاثر

مودی اور ٹرمپ کے درمیان اچھے تعلقات کا ذکر عام بات ہے، البتہ امریکی صدر نے بھارت کو "ٹیرف کا غلط استعمال کرنے والا" اور "ٹیرف کنگ" تک کہا ہے۔

ٹرمپ نے بھارتی درآمدات پر 26 فیصد ٹیرف کا اعلان کیا ہے، جس پر فی الوقت 90 دنوں تک کے لیے روک لگی ہوئی ہے اور اس سے بھارتی برآمد کنندگان کو عارضی راحت بھی ملی ہے۔

امریکی نائب صدر وینس اس ماہ بھارت کا دورہ کریں گے

وینس کے دورہ بھارت کے ساتھ سے نئی دہلی کو اس بات کی امید ہے کہ 90 دن کے وقفے کے اندر ہی ایک تجارتی معاہدہ ہو جائے گا۔

بھارت رواں برس کواڈ سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے والا ہے اور وینس کے دورے کو اس طرح بھی دیکھا جا رہا ہے کہ اس سے بھارت میں ٹرمپ کی میزبانی کا راستہ بھی ہموار ہو سکتا ہے۔ کواڈ میں امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں۔

ادارت رابعہ بگٹی

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
  • ٹیرف کے اعلان کے بعد تجارتی معاہدے پر مذاکرات، امریکی نائب صدر کا دورہ انڈیا
  • امریکہ کے نائب صدر کا دورہ بھارت اور تجارتی امور پر مذاکرات
  • معاشی استحکام کے مثبت اثرات پاکستان اسٹاک مارکیٹ پر کیسے مرتب ہورہے ہیں؟
  • امریکی ٹیرف مذاکرات میں پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک خوشامد سے باز رہیں، چین کا انتباہ
  • امریکہ اپنے تمام تجارتی شراکت داروں پر اندھا دھند محصولات عائد کر رہا ہے، چینی وزارت تجارت
  • امریکہ کے اندھا دھند محصولات کے اقدامات غلط ہیں،یونیڈو
  • چین پر محصولات عائد کرنے سے پیداہونے والے بحران پر وائٹ ہاؤس ایک ٹاسک فورس تشکیل دے گا
  • عمران خان کیلئے امریکی دبائو؟ فسانہ یا حقیقت
  • یمن میں امریکہ کی برباد ہوتی حیثیت