غزہ لہولہو،پاکستان مرکزی مسلم لیگ کے زیر اہتمام اسرائیلی مظالم کیخلاف احتجاج
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
غزہ لہولہو،پاکستان مرکزی مسلم لیگ کے زیر اہتمام اسرائیلی مظالم کیخلاف احتجاج WhatsAppFacebookTwitter 0 7 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز )پاکستان مرکزی مسلم لیگ کے زیراہتمام غزہ لہو لہو مہم کے تحت مظلوم فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف ملک گیر احتجاج کیا گیا، لاہور،کراچی،اسلام آباد، پشاو،کوئٹہ ملتان، فیصل آباد، سکھر،حیدرآباد ،قصور،گوجرانوالہ ،شیخوپورہ ،نواب شاہ، مٹیاری،ہالا،گولارچی سمیت کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے،مظاہروں میں نوجوانوں، بزرگوں اور بچوں سمیت تمام مکاتب فکر کے ہزاروں افراد شریک ہوئے، شرکا نے اسرائیلی کھلی دہشت گردی پر اقوام متحدہ، او آئی سی، اور عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی پر بھی شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔لاہور پریس کلب کے سامنے ہونے والے مظاہرے میں اسرائیل کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔ شرکا نے فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے لئے پلے کارڈز، بینرز اٹھا رکھے تھے.
مسلم ممالک فوری طور پر اسرائیل سے سفارتی اور تجارتی تعلقات ختم کریں،اسلامی ممالک پر مشتمل دفاعی بلاک تشکیل دیا جائے جو نہ صرف فلسطین بلکہ ہر مظلوم مسلم ملک کا محافظ ہو،عالمی سطح پر اسرائیل کو دہشت گرد ریاست قرار دینے کی مہم چلائی جائے۔ سیف اللہ قصور ی کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو یاد رکھو تمہارے ظلم کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا۔آج غزہ کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے سب کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔اگر اسرائیل کیخلاف کھڑا ہونا چاہتے ہو تو مسلم ممالک کو اپنی صفوں کو اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔اپنی عوام کو پیغام دیتا ہوں کہ اپنی حکومت کیخلاف کھڑا ہونا کسی صورت ٹھیک نہیں ہے۔ پاکستان کی عوام فلسطینیوں کے ساتھ ہے، سب کو کھڑا کریں گے، لوگوں کو شعور،بیداری کی لہر پیدا کریں گے، غزہ کی سسکتی انسانیت کا درد ہر پاکستانی کے دل میں ہے۔مرکزی مسلم لیگ کا غزہ لہو لہو مہم کے تحت ہفتہ یکجتہی فلسطین مہم کے تحت کل منگل کو بھی احتجاجی مظاہرے ہوں گے،بدھ ،جمعرات کو سیمینار و کانفرنسز،جمعہ کو ملک گیر احتجاج ہو گا
نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر احتجاجی مظاہرے سے صدر مرکزی مسلم لیگ خالد مسعوسسندھو و دیگر نے خطاب میں کہا کہ آج دنیا کی آنکھوں کے سامنے غزہ میں ظلم کا جو بازار گرم ہے، وہ انسانی ضمیر، عالمی اداروں اور مسلم حکمرانوں کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے، اسرائیل نے نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا دی ہیں بلکہ انسانیت کو بھی شرمندہ کر دیا ہے،معصوم بچوں کی چیخیں، ماں کی آہیں، اور شہیدوں کے جنازے گواہ ہیں کہ اسرائیل ایک دہشتگرد ریاست، جو زمین سے نیست و نابود کیے جانے کے قابل ہو چکی ہے،ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اب مذمتوں اور قراردادوں کا وقت نہیں ،عملی اقدام اٹھائے جائیں.
کراچی میں مرکزی مسلم لیگ سندھ کے صدر فیصل ندیم، کراچی کے صدر احمد ندیم اعوان،شیر بہادر،شہباز عبدالجبار،اشرف علی، قاضی احمد نورانی،قیس منصور شیخ،صابر ابو مریم و دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل مہذب نہیں قاتل ریاست ہے۔اقوام متحدہ میں جس ملک کی سب سے زیادہ مذمت کی گئی ہے وہ اسرائیل ہے۔کسی بھی ظالم کا وجود دنیا میں برقرار نہیں رہتا۔اسرائیل اور امریکا اپنے ظلم کی وجہ سے مٹ جائیں گے۔غزہ کے شہریوں نے مزاحمت کی تاریخ رقم کر دی۔کراچی کے تاجروں کو داد دیتا ہوں جنہوں نے آج اظہار یکجہتی کے لیے ہڑتال کی۔ہم اپنی مارکیٹوں میں جائیں اور اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائیں،غزہ کے قتل عام میں اسرائیل کے مدد گار نہ بنیں۔جس دکان میں اسرائیلی مصنوعات ہوں گی اس کا بائیکاٹ کریں گے۔
پشاور میں بھی پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور فلسطینی شہدا کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی، شرکا سے خطاب کرتے ہوئے ،خیبرپختونخواجنوبی زون کے صدر یاور آفتاب، صدر پشاور انعام اللہ و دیگر کہنا تھا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ نسل کشی، درندگی اور انسانیت کی تذلیل ہے۔ اسرائیل نے جنگی جرائم کی ہر حد پار کر دی ہے، اور امریکہ اس ظلم کا سب سے بڑا سرپرست ہے،صہیونی ریاست کی خون آشام پالیسیاں عالمی امن کے لیے خطرہ بن چکی ہیں، اسرائیل انسانیت کا چہرہ مسخ کر رہا ہے۔ آج اگر دنیا خاموش رہی، تو کل کوئی محفوظ نہیں رہے گا.
کوئٹہ میں پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرے کیشر کا سے صوبائی صدر حافظ محمد امجد و دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ او آئی سی محض مردہ جسم بن چکی ہے، جو صرف تعزیتی بیانات تک محدود ہے۔او آئی سی کی خاموشی فلسطینیوں کے خون میں شامل ہو چکی ہے، اب اگر تم نہیں جاگو گے، تو تاریخ تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گی،بلوچستان کے باسی، پاکستانی قوم دل سے فلسطینیوں کے ساتھ ہے۔
فیصل آباد،ملتان، گوجرانوالہ، شیخوپورہ، قصور، بہاولنگر ،چیچہ وطنی، حیدرآباد ،پاکپتن،نواب شاہ ،گولارچی و دیگر شہروں میں احتجاجی مظاہروں سے مرکزی مسلم لیگ کے رہنماں حافظ عبدالرف، حافظ ابو الحسن، حافظ محمد اشفاق،ابو طارق ، مفتی زبیر ، حافظ عبدالمنان و دیگرنے خطابات میں کہا کہ اسرائیل ایک ناجائز، غاصب اور قاتل ریاست ہے جو غزہ میں خون کی ہولی کھیل رہا ہے۔ آج غزہ کی گلیوں میں بچوں کی لاشیں ہیں، ماں کی چیخیں ہیں، اور دنیا کا ضمیر بے حس ہو چکا ہے،ہر گرتا ہوا فلسطینی بچہ اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے سوال کر رہا ہے، کیا میرا خون سستا ہے؟،امریکہ، تم اسرائیل کو اسلحہ دیتے ہو، سفارتی تحفظ دیتے ہو، اور پھر انسانی حقوق کی بات کرتے ہو، تم دراصل اس بربریت کے اصل مجرم ہو، تمہاری منافقت اب بینقاب ہو چکی ہے،پاکستان مرکزی مسلم لیگ کی جانب سے گولارچی پریس کلب کے سامنے بھی فلسطین پر اسرائیلی دہشتگردی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: پاکستان مرکزی مسلم لیگ مرکزی مسلم لیگ کے
پڑھیں:
اسرائیلی حکومت اور معاشرے کے درمیان گہری ہوتی تقسیم
اسلام ٹائمز: فوج کے ریزرو کرنل ڈاکٹر عامر بلومین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ہم اب ایسے لمحات میں ہیں جب خاموشی ایک دھوکہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن نازک لمحات کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں وہاں خاموشی یا ہچکچاہٹ کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے لیے کابینہ کے عزم کا فقدان تمام اسرائیلیوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری انجام دیں، جو لوگ جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج میں شرکت نہیں کرتے اور خاموش اور لاتعلق رہتے ہیں وہ درحقیقت غدار ہیں اور انہوں نے باہمی یکجہتی کے اصول کو ترک کر دیا ہے، خاص طور پر جب اسرائیل میں اخلاقی اقدار بتدریج تباہ ہو رہی ہیں، قیدیوں کی واپسی کا مسئلہ فقط اسرائیلی معاشرے میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی تقسیم نہیں، بلکہ اسرائیلی ریاست کی اپنے آباد کاروں کے ساتھ بنیادی وابستگی سے متعلق ہے۔ خصوصی رپورٹ:
غاصب صیہونی ریاست کی فضائیہ کی پائلٹوں سے لے کر موساد کے افسران تک، جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج کی لہر اسرائیل میں اندرونی تقسیم اور دراڑ کی گہرائی کیسے ظاہر کرتی ہے؟ اس بارے میں عبرانی حلقوں کا خیال ہے کہ جنگ کے خلاف مظاہرے اور پٹیشن، جو فضائیہ کے اندر سے شروع کی گئی اور موساد جیسے حساس اداروں کے افسران میں شامل ہوتے گئے، اب نتن یاہو کی جنگی کابینہ کے خلاف اس احتجاج میں سول ملٹری اور سیاسی اشرافیہ بھی شامل ہو چکی ہے۔ یہ احتجاج اسرائیلی معاشرے میں دراڑ کی گہرائی، اسرائیلی آبادکاروں اور جنگی و سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بداعتمادی کے بڑھتے ہوئے بحران کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ صیہونی آبادکاروں کے درمیان بے چینی اور اضطراب کو ظاہر کرنیوالا ایک بے مثال منظرنامہ ہے، جس میں صیہونی حکومت کی جانب سے بڑھتے ہوئے مظاہروں کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ یہ احتجاج حکومتی، فوجی اور سیکورٹی اداروں سے نکل کر ماہرین تعلیم، ڈاکٹروں، مصنفین وغیرہ سمیت اعلیٰ طبقات تک پہنچ گیا ہے، یہ سب غزہ جنگ کے خاتمے اور اسرائیلی قیدیوں کی فوری واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ احتجاج کی یہ لہر 9 اپریل کو شروع ہوئی تھی۔ جب 1200 سے زائد پائلٹوں اور فضائیہ کے ریزرو دستوں نے غزہ جنگ کے جاری رہنے اور غزہ میں اسرائیلی قیدیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے خلاف احتجاج کے طور پر خدمت جاری رکھنے سے انکار کر دیا۔
معاشرے اور ریاست و حکومت کے درمیان عدم اعتماد کی فضا:
ملٹری برانچز کے مختلف افسروں اور اہلکاروں نے بھی پٹیشن پر دستخط کیے، جن میں فوج کے سابق چیف آف اسٹاف اور حکومت کے اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں۔ بین گوریون، تل ابیب اور ایریل یونیورسٹیوں کے سابق ڈینز سمیت 1800 سے زائد افراد نے 11 اپریل کو ایک احتجاجی پٹیشن جاری کی۔ ان مظاہروں کی لہر برف کے گولے کی مانند تھی جس نے پورے صہیونی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور فضائیہ کے یونٹوں کے علاوہ بحریہ کے افسران، بکتر بند فوج، ریزرو فورسز اور ملٹری اکیڈمی کے گریجویٹ، انٹرنل سیکیورٹی وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ہم جنگ کو مسترد کرتے ہیں اور قیدیوں کی فوری واپسی چاہتے ہیں۔
لیکن ان مظاہروں میں صہیونی حکام کو سب سے بڑا جھٹکا یہ لگا کہ موساد کے اندر سے مختلف عناصر بھی جنگ کے خلاف مظاہروں کی تازہ لہر کا حصہ بن گئے۔ جہاں اسپائی سروس کے 250 سابق ملازمین بشمول اس کے تین سابق سربراہان نے ایک احتجاجی پٹیشن تیار کی اور جنگ کی مخالفت کا اعلان کیا۔ ایلیٹ یونٹس جیسے شیلڈگ، شیطت 13، اور ریٹائرڈ پولیس افسران اور سابق کمشنر بھی ان احتجاجی درخواستوں میں شامل ہوئے۔ ان پٹیشنز پر دستخط کرنیوالوں میں سب سے نمایاں موساد کے سابق سربراہان جیسے ڈینی یتوم، ابراہم حلوی اور تمیر پارڈو شامل ہیں۔
اسرائیلی محکمہ صحت کے 3000 سے زائد ملازمین، نوبل انعام یافتہ شخصیات 1700 فنکاروں، اور سینکڑوں ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ، اس سلسلے میں احتجاجی پٹیشنز پر دستخط کر چکی ہیں، جس میں جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کی سطح پر، 3500 ماہرین تعلیم، 3000 تعلیمی شعبے کے ملازمین، اور 1000 طلباء ان احتجاجی درخواستوں میں شامل ہوئے۔ یہ پٹیشنز اب محض علامتی بیانات نہیں ہیں، بلکہ صیہونی حکومت کے لئے کئی دہائیوں سے اس کی بقا کا سب سے اہم عنصر سمجھنے والی اشرافیہ میں عدم اطمینان اور تقسیم اور دراڑ کی عکاسی ہے۔
قیدیوں کی رہائی کے لئے مذاکرات کا اختتام اور جنگ کے خاتمے کے لیے واضح سیاسی نقطہ نظر کی عدم موجودگی صیہونی اشرافیہ کی احتجاجی مظاہروں کی لہر میں شمولیت اسرائیلی معاشرے میں گہری تقسیم کی علامت بن گئی ہے جو اسے اندر سے درہم برہم کر سکتی ہے۔ ان احتجاجی تحریکوں اور مظاہروں کی اہمیت کے حوالے سے عبرانی حلقوں کا کہنا ہے یہ رجحان اسرائیل مقتدرہ، اشرافیہ اور اداروں میں اندرونی تقسیم کی عکاسی کرتا ہے اور گہری ہوتی سماجی تقسیم کے علاوہ سیاسی پولرائزیشن میں اضافے کا سبب ہے، فوجی اور سیکورٹی یونٹس کے ارکان کی جانب سے احتجاجی پٹیشنز پر دستخط اسرائیلی فوجی اسٹیبلشمنٹ میں ایک غیر معمولی تبدیلی کی نمائندگی کرتے ہیں، کیونکہ اسرائیل کے فوجی اور سیکورٹی اداروں کے اندر سے اتنے بڑے پیمانے پر داخلی مظاہرے شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔
سیاسی اور عسکری اداروں میں عدم اعتماد کا بحران:
یہ تجزیہ کار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جنگ کے خلاف احتجاجی پٹیشنز اسرائیل کی سیاسی قیادت اور عسکری کمانڈروں پر اعتماد میں کمی کی عکاسی کرتی ہیں اور معاشرے کے ایک بڑے طبقے خصوصاً اشرافیہ کا کابینہ اور فوج سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ اسرائیلی فوج اور سول اداروں کی طرف سے جاری احتجاجی درخواستیں ڈیڑھ سال سے زائد عرصے کی بے نتیجہ جنگ کے بعد سیاسی ذرائع سے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو مکمل کرنے کے لیے بینجمن نیتن یاہو کی کابینہ پر بڑھتے ہوئے احتجاج اور اندرونی دباؤ کی مثال ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ایک ریزرو جنرل اسرائیل زیو نے اعلان کیا ہے کہ غزہ جنگ کے خاتمے اور قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کرنے والی درخواستیں سول نافرمانی تو نہیں، لیکن یہ اسرائیلی آبادکاروں اور جنگی کابینہ کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں اور بحران کی عکاسی کرتی ہیں۔
اس صہیونی جنرل، جو اس سے قبل انفنٹری اور پیرا ٹروپرز ڈویژن کے کمانڈر، غزہ ڈویژن کے کمانڈر اور اسرائیلی فوج کے آپریشنل شعبے کے سربراہ جیسے اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں، نے اسرائیلی ٹی وی چینل 12 کی سائیٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں تاکید کی ہے کہ جن لوگوں نے احتجاجی درخواستوں پر دستخط کیے ہیں وہ فوجی اور سیکورٹی اداروں کے اشرافیہ کے اہم لوگ ہیں، یہ اس جنگ میں اسرائیل کی سیاسی قیادت کی ناکامی پر گہری تشویش کا اظہار ہے۔ انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان پٹیشنز پر دستخط کرنے والے نیتن یاہو پر بھروسہ نہیں کرتے، کیونکہ وہ اپنے سیاسی ایجنڈے، ذاتی مقاصد اور مفادات کی تکمیل کے لیے اسرائیلیوں کے جذبات کا استحصال کرتے ہیں، اور وہ غزہ سے قیدیوں کی واپسی کے لیے کوشش نہیں کر رہے، اس کا مطلب ہوگا واضح قومی اور فوجی اہداف کے بغیر جنگ جاری رہے گی، جس سے اسرائیل کی سلامتی خطرے میں ہے۔
صیہونی فوج کے ریزرو کرنل ڈاکٹر عامر بلومین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ہم اب ایسے لمحات میں ہیں جب خاموشی ایک دھوکہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن نازک لمحات کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں وہاں خاموشی یا ہچکچاہٹ کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے لیے کابینہ کے عزم کا فقدان تمام اسرائیلیوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری انجام دیں، جو لوگ جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج میں شرکت نہیں کرتے اور خاموش اور لاتعلق رہتے ہیں وہ درحقیقت غدار ہیں اور انہوں نے باہمی یکجہتی کے اصول کو ترک کر دیا ہے، خاص طور پر جب اسرائیل میں اخلاقی اقدار بتدریج تباہ ہو رہی ہیں، قیدیوں کی واپسی کا مسئلہ فقط اسرائیلی معاشرے میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی تقسیم نہیں، بلکہ اسرائیلی ریاست کی اپنے آباد کاروں کے ساتھ بنیادی وابستگی سے متعلق ہے۔