Daily Ausaf:
2025-04-22@01:58:43 GMT

رتیش دیشمکھ نے اپنی 22 سالہ کامیاب شادی کا رازکھول دیا

اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT

ممبئی(شوبز ڈیسک)بالی ووڈ کے معروف اداکار رتیش دیشمکھ نے اپنی اہلیہ جینیلیا ڈسوزا کے ساتھ اپنے 22 سالہ رشتہ کی کامیابی اور شادی کے راز سے پردہ اٹھایا۔

دونوں کو بالی ووڈ کی سب سے پسندیدہ اور کامیاب جوڑی سمجھا جاتا ہے اور ان کا رشتہ کبھی بھی کسی افواہ یا تنازعے کا شکار نہیں ہوا۔

حال ہی میں اپنی شادی اور جینیلیا کے ساتھ گزاری گئی بہترین زندگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے رتیش دیشمکھ نے کہا کہ ان کے درمیان کبھی بھی بحث یا لڑائی نہیں ہوتی۔ اگرچہ بعض اوقات کچھ مسائل پر اختلاف رائے ضرور ہوتا ہے، مگر دونوں میں کبھی کسی بات پر تلخ کلامی یا لڑائی نہیں ہوتی ۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی صورت میں ہم میں سے جو بھی غلطی پر ہوتا ہے وہ اپنی انا کو پس پشت ڈال کر پہل کے لیے آگے بڑھ جاتا ہے۔

رتیش نے وضاحت کی کہ اس 22 سالہ تعلق میں ان کی پالیسی یہ ہے کہ کسی بھی بحث کو اگلے دن تک نہیں بڑھنے دیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب جینیلیا ناراض ہوتی ہیں تو وہ خاموشی سے ان کی بات سنتے ہیں اور اگلے دن تک سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے، اس کے بعد وہ گزرے ہوئے دن کی باتوں کو بھول کر آگے بڑھتے ہیں۔

اداکار نے مزید کہا کہ زیادہ تر معاملات میں وہ خود غلطی کرتے ہیں، اس لئے معافی میں پہل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ شادی کو کامیابی سے چلانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی غلطی تسلیم کریں، معافی مانگیں اور آگے بڑھ جائیں۔

یاد رہے کہ رتیش دیشمکھ اور جینیلیا ڈسوزا نے 2012 میں شادی کی تھی اور ان کا تعلق 2003 میں فلم کے سیٹ پر شروع ہوا تھا۔ یہ جوڑی دوستی سے محبت میں بدل گئی اور آج ان کے دو بیٹے ہیں۔ اور وہ ایک مثالی اور خوشگوار زندگی بسر کر رہے ہیں۔
مزیدپڑھیں:چین کے 6th جنریشن لڑاکا طیارے جے 50 ’‘ خدائی سایہ’’ کی دھوم

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: رتیش دیشمکھ

پڑھیں:

اکادمی ادبیات کا اندھا یدھ

پہلی بار نہ سہی مگر اکادمی ادبیات پاکستان نے ادبی ایوارڈ زکی صورت میں جو اندھا یدھ برپاکیا ہے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی ۔قومی معاملات میں مقتدرہ یا اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر تو ہوہکار کے طوفان تو اٹھتے اور بیٹھ جاتے ہو ئے دیکھے ہیں مگر علم و دانش اور شعر و ادب کے حوالے سے ایسی رستاخیز کبھی برپا نہیں ہوئی تھی۔اس پر مستزاد اہل قلم مداہنت آمیز خاموشی…! اور تو اور جن کا قلم درد و الم کی گنگا بہانے کی’’خیالی نقش گری‘‘ میں کمال مہارت رکھتا ہے ، جن کی زنبیل میں سیاسی بد عنوانیوں اور بداعمالیوں پر ڈالنے کے لئے اطلس و کم خاب کے پارچہ جات کی کمی نہیں ،وہ جو ہر فیصلے اپنی پسند و ناپسندی کی جہت دینے کے وسیع اختیارات رکھتے ہیں ۔جو سفید کو سیاہ اور سیاہ کے سفید ہونے کی تصدیقی مہریں ہر پل اپنی جیبوں میں رکھتے ہیں اور طاقت پرواز ایسی کہ کاغذی بیمانوں پر سوار ہوکر جدہ پیلس پناہ جلینے میں ساعت بھر نہیں لگاتے ۔اپنا یہ حسن ظن بھی خیال خام ثابت ہوا کہ اس بار وہ بچ بچا کر ہونے والے امکانات کی روشنی میں فیصلے صادر کروائیں گے کہ اس پیرانہ سالی میں کفاروں کی ادائیگی کا اہتمام صاف و شفاف دکھائی دے گا ۔مگر وائے افسوس وہ دہکتے ہوئے ادبی ماحول کی بابت کچھ کہنے کی بجائے ’’لق و دق صحرا میں بگولے کی طرح رقص کرتے گھمن گھیریاں کھاتے‘‘
پی ٹی آئی کے وجود کا نوحہ لکھنے ہی میں مست رہے ،کیونکہ ان کے حکم اذاں کی تعمیل کے لئے عمرہ جاتی یا جاتی عمرہ کی جانب رخ انور سجائے رکھنا ضروری ہے ۔ اکادمی ادبیات کی نیاز بانٹنے والوں نے جو ’’یدھ‘‘ مچایا اس کی مثال نہیں ملتی اور مجال کا تو یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ قومی خزانے پر انہیں کا حق ہے جنہیں ان کے اجداد سانپ کی طرح اس کی نگرانی پر مامور کر گئے تھے۔یوں بھی اپنے اپنے خدا گھڑلینے کا رواج اب نہیں پڑا یہ بہت پرانی رسم ہے زمین پر خدا بنالینے والوں کی اپنی احتیاجات اور اپنی ضروریات ہوتی ہیں ۔مورت گری کے فن پر دسترس ہوتو ضمیر آڑے نہیں آتا کہ یہ تو ہنر ہی باد فروشوں ہی کا ہے ۔اب کی بار اکادمی ادبیات کی شہ نشین صنف نازک ہیں نزاکتوں بھرے فیصلے ہی ان کی زبانی سنوائے جانے تھے ،انہیں کیا خبر عدل کیا ہوتا ہے ؟ انصاف کسے کہتے ہیں ؟ کہ ان کے زریں دور میں تو ایسے ہی غیر شفاف فیصلوں کا چلن ہے ،پھر ان پر کیا دوش کہ ان کے گرد بھی تو باد سنجوں کی ایک فوج ظفر موج ہوگی ، جنہیں سچ کہنے اور حق کرنے کا بھلے یارہ ہی کس نے بخشا ہوگا اور وہ بھی لکھے ہوئے فیصلوں پر دستخط کرنے کا اختیار رکھتی ہیں، خط تنسیخ کی اجازت آنہیں کہاں تفویض کی گئی یہ اختیار تو سنا ہے ریاست اور حکومت کے سربراہ کے پاس بھی نہیں ہوتا ،سوائے اس کے کہ فیصلے سارے اسی کے ہیں ہماری بابت اختیار بس اتنا کہ خبر میں رہنا ہے کتنے سخن ساز ہیں ،قلم کار ہیں بھوک رات دن جن کے آنگنوں میں رقص کرتی ہے مگرکسے خبر ہے ہمارے اندر ہر ایک منظر بہ چشم تر ہے کسے خبر ہے (مصدق سانول) ایک نابغہ روزگار نوجوان شاعر تھا عین شباب میں داعی اجل ہوا ۔آج تک کسی کی نظر سے نہیں گزرا ،اس کی نظمیں ،اس کی گائی ہوئی کافیاں ،سرائیکی شعری سرمایہ سب حالات کی بھینٹ چڑھ گیا ۔
سرائیکی وسیب کے منفرد لہجے کے شاعر حبیب فائق کسے یاد ہیں،یاد تو فقیر منش سرائیکی شاعر اسلم جاوید بھی کسی کو نہیں جو ابھی زندہ ہے اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔کس کس کا ذکر کریں کہ یہاں یہ رسم رہی ہے کہ ’’منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے‘‘ مقبول تنویر سرائیکی مشاعروں کی جان ہوا کرتے تھے عین جوانی میں داغ مفارقت دے گئے ۔مرحوم ڈاکٹر مقصود زاہدی اردو رباعی کے بادشاہ کبھی کسی ایوارڈ کے مستحق نہیں ٹھہرائے گئے اور ممتاز اطہر اردوغزل کو نئی جہت اور جدید رنگ عطا کرنے والے ،غربت و افلاس کے اندھیروں میں بھٹکرہے ہیں کسی نے ان کی انگلی نہیں تھامی کہ بے روزگاری کے اندھے کنویں سے نکل آتے ۔ایسے کئی اور رتن ہوں گے جو آسودہ خاک ہوئے اور وہ ہیں کہ ابھی بے سمتی اور بے حکمتی کے لق و دق صحرا میں رقص کرتی، پی ٹی آئی پر ہی سوئی اڑائے ہوئے ہیں ۔

متعلقہ مضامین

  • عورتیں جو جینا چاہتی تھیں
  • اکادمی ادبیات کا اندھا یدھ
  •  قانون کی حکمرانی ہوتی تو ہمارے رہنما جیل میں نہ ہوتے :  عمرایوب
  • شادی کی تقریب سے واپسی پر چلتی کار میں جنسی زیادتی کی کوشش، مزاحمت پر 26 سالہ مہندی آرٹسٹ قتل
  • میں نے کچھ غلط نہیں کیا’ سیریز ایڈولینس پر ایک مختلف نقطہ نظر‘
  • سوشل میڈیا کی ڈگڈگی
  • بھارت؛ 22 سالہ دولھے کے ساتھ دھوکا، دلہن کی والدہ سے شادی کروادی گئی
  • نکیال آزاد کشمیر۔۔۔ بچیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں
  • اسرائیلی حکومت اور معاشرے کے درمیان گہری ہوتی تقسیم
  • پہلی مرتبہ جائیداد منتقلی پر ایڈوانس انکم ٹیکس وصولی لاگو نہیں ہوتی، ہائیکورٹ