اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 اپریل 2025ء) بیلجیم کا ایک غیر روایتی شہزادہ آج بروز پیر یہ جان لے گا کہ آیا اسے اپنے ماہانہ اخراجات کے لیے ملنے والے ریاستی شاہی الاؤنس کے ساتھ سماجی تحفظ کے لیے امدادی رقم لینے کا بھی حق حاصل ہے۔ اکسٹھ سالہ سالہ پرنس لاراں نے سماجی تحفظ کے حصول کے لیے ریاست کے خلاف عدالت میں مقدمہ درج کر رکھا ہے۔

اس یورپی بادشاہت کی دو سو سالہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ شاہی خاندان کے کسی فرد نے ریاست کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے۔ لاراں بیلجیم کے سابق بادشاہ اور ملکہ کے تین بچوں میں سے سب سے چھوٹے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ وہ اپنے خاندان کو ریاست کی جانب سے ملنے والے سماجی تحفظ کا حقدار بنائیں گے اور ان کے بقول وہ یہ اقدام پیسے کے بجائے''اصول‘‘ کے تحت کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

پرنس لاراں کی جانب سے شاہی خاندان کے لیے شرمندگی کا سبب بننا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ان کی ناپسندیدہ حرکات کی طویل فہرست میں 2015 ء میں اپنے رشتہ داروں کو سابقہ مشرقی جرمنی کی بدنام زمانہ خفیہ پولیس شٹازی سے تشبیہ دینا بھی شامل ہے۔

2018 میں ان کے سالانہ ریاستی الاؤنس میں اس وقت 15 فیصد کمی کی گئی تھی جب وہ وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیر غیر ملکی معززین سے ملاقاتیں کرتے رہے تھے۔

یہ ان کی پہلی غلطی نہیں تھی، لیکن سزا بے مثال تھی۔ لاراں نے گزشتہ سال ریاستی خزانے سے 388,000 یورو حاصل کیے تھے اور وہ اپنے گھر میں بغیر کرائے کے رہتے ہیں۔

لاراں کا اصرار ہے کہ وہ پیسے سے متاثر نہیں ہیں۔ انہوں نے بیلجیم کے براڈکاسڑ آر ٹی بی ایف کو بتایا، ''یہ معاملہ مالی ذرائع کے بارے میں نہیں بلکہ اصول کے بارے میں ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''جب کوئی مہاجر یہاں آتا ہے، وہ رجسٹر ہو جاتا ہے، تو اس کا سماجی تحفظ کی رقم پر حق ہوتا ہے۔

میں بھی مہاجر ہو سکتا ہوں، لیکن وہ، جس کے خاندان نے یہ ریاست قائم کی۔‘‘

پرنس لاراں نے طبی اخراجات اور اپنے خاندان کی مالی بہبود کے بارے میں اپنے خدشات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کیونکہ ان کے مرنے پر شاہی الاؤنس کٹ جائے گا۔ اس شہزادے کی ایک اینیمل ویلفیئر فاؤنڈیشن بھی ہے، جو گزشتہ دس سالوں سے کلینکس میں مفت ویٹرنری دیکھ بھال فراہم کرتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ فاؤنڈیشن کے کام اور درجنوں غیر ملکی دوروں اور متعدد بورڈز کے اجلاسوں میں بلیجیم کے نمائندے کے طور پر شرکت کا مطلب ہے کہ ان کا ایک مصروف شیڈول ہے۔ اس شہزادے کا خیال ہے کہ وہ آزاد کاروباری افراد کے زمرے میں آتے ہیں، اس لیے وہ سوشل سکیورٹی کوریج کے بھی حقدار ہیں۔

انہوں نے حکومت کی جانب سے سے سوشل سکیورٹی مہیا کیے جانے کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد قانونی کارروائی شروع کی تھی، جس کی پہلی سماعت نومبر 2024 میں ہوئی تھی۔

لسوا نامی اخبار کے ایک مضمون میں پرنس لاراں کے وکیل اولیویئر رائیکرٹ کا کہنا ہے کہ سماجی تحفظ پر''بیلجیم کے قانون کے ذریعے غریب ترین سے لے کر سب سے بڑے ارب پتی تک، ہر رہائشی کو دیا گیا حق ہے۔‘‘

لاراں اپنے الاؤنس کا صرف 25 فیصد تنخواہ کی مد میں وصول کرتے ہیں، کیونکہ باقی رقم وہ اپنے عملے کے ایک رکن کے سفر اور اجرت کے لیے اور دیگر پیشہ وارانہ اخراجات کے لیے صرف کرتے ہیں۔

ان کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ شہزادہ لاراں کو ماہانہ خالص اجرت کے طور پر 5,000 یورو ملتے ہیں، جو ''بیلجیم میں ایک سینئر ایگزیکٹیو کی اوسط تنخواہ‘‘ ہے، لیکن یہ معمول کے مطابق سب کو مہیا ''مکمل سوشل سکیورٹی کوریج‘‘ کے بغیر ہے۔

پرنس لاراں اور ان کی برطانوی بیوی کلیئر کے تین جوان بچے ہیں۔ لاراں سماجی تحفظ کی کوریج کے بغیر کچھ طبی اخراجات کی واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکتے اور نا ہی وہ بیمار ہونے کی صورت میں تنخواہ کی جگہ معاوضے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔

وہ شاہی خاندان کے واحد فرد نہیں، جو پیسے کے معاملے میں ناخوش ہیں۔ جب بادشاہ البرٹ دوم نے اپنے 20 سالہ اقتدار کے بعد 2013 میں اپنے بیٹے فیلیپ کے حق میں دستبرداری اختیار کی تو سابق بادشاہ نے 923,000 یورو کے سالانہ شاہی الاؤنس کو اپنے لیے ناکافی قرار دیا تھا۔

لاراں سمجھتے ہیں کہ ریاست انہیں ''کنٹرول‘‘ کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے 2023 میں کہا تھا، ''میں نے کبھی الاؤنس نہیں مانگا! میں ہمیشہ کام کرنا چاہتا تھا، لیکن مجھے ایسا کرنے سے روکا گیا۔‘‘

پیر سات اپریل کے روز اس مقدمے کا فیصلہ عوامی طور پر تو نہیں سنایا جائے گا لیکن اس کے فیصلے کی نقول فریقین کو بھجوا دی جائیں گی۔

ش ر⁄ م م (اے ایف پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پرنس لاراں بیلجیم کے انہوں نے کے لیے

پڑھیں:

ایک نہ ایک دن سب کو چلے جانا ہے!

اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ

انتھونی ہاپکنز نے ایک بار کہا تھا: دوسرے میرے بارے میں کیا سوچتے ہیں یا کہتے ہیں اس سے مجھے کوئی سروکار نہیں ہے۔ میں صداقت کے ساتھ جیتا ہوں، اس بات کی بنیاد پر کہ میں کون ہوں اور میری کیا قدر ہے۔ میں توثیق کا پیچھا نہیں کرتا یا دوسروں کی رائے سے چمٹا نہیں رہتا، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ حقیقی سکون زندگی کی نعمتوں اور اس کے چیلنجوں کو کھلے بازوؤں سے قبول کرنے سے حاصل
ہوتا ہے۔ توقعات کو چھوڑ کر اور تمام تجربات کا خیرمقدم کرتے ہوئے، مجھے ایک قسم کی آزادی ملتی ہے جو ہر دن کو ہلکا اور زیادہ پورا کرنے
والا بناتی ہے۔ہم ایک ایسے وقت میں رہتے ہیں جب ظاہری شکل دل سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے، اور تقریبات اکثر ان جذبات سے
کہیں زیادہ ہوتی ہیں جن کا مقصد ان کا احترام کرنا ہوتا ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں لوگ شاندار ڈسپلے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، پھر بھی کنکشن اور موجودگی کی پرسکون، ضروری خوبصورتی کو نظر انداز کرتے ہیں۔ جنازوں کو خراج تحسین کے طور پر تیار کیا جاتا ہے، پھر بھی اکثر منائے جانے والے شخص کے جوہر سے محروم رہتے ہیں۔ شادیاں دو لوگوں کے درمیان محبت سے زیادہ شو کے بارے میں بن جاتی ہیں۔ ہم تصاویر، لیبلز، اور تعریفوں کی قدر کرتے ہیں، جو اکثر اندر کی روح، کردار اور مہربانی کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ظاہری شکل کے اس کلچر میں، واقعی معنی خیز چیز کو نظر انداز کرنا آسان ہے۔لیکن میں مختلف طریقے سے رہنے کا انتخاب کرتا ہوں۔ میں سطح سے آگے جانے، ڈسپلے پر گہرائی کی قدر کرنے، اور ان چیزوں کو ترجیح دینے کے لیے پرعزم ہوں جن کو پسندیدگیوں یا لیبلز سے ماپا نہیں جا سکتا۔
زندگی اس وقت امیر ہو جاتی ہے جب ہم لوگوں کو ان کی روحوں کے لیے، ان کی گرمجوشی کے لیے، اور ان کے حقیقی روابط کے لیے
جو وہ ہماری زندگیوں میں لاتے ہیں۔ دوسروں کے لیے منظوری حاصل کرنے یا پرفارم کرنے کے لامتناہی چکر میں پھنسنے سے بچنے کے
لیے شور سے پیچھے ہٹنا آزاد ہے۔ اس کے بجائے، میں اپنی اقدار کو پروان چڑھانے، بامعنی تعلقات استوار کرنے، اور زندگی کو
خوبصورت بنانے والے چھوٹے، مستند لمحات میں خوشی تلاش کرنے پر توجہ مرکوز کرتا ہوں۔اس طرح زندگی گزارنا ظہور کے جنون میں
مبتلا دنیا میں بغاوت کا خاموش عمل ہے۔ یہ ظاہری نمائش پر اندرونی طاقت، رسم پر محبت، اور معاشرے کے معیارات پر دل کی سچائیوں
کا احترام کرنے کا انتخاب کر رہا ہے۔ میں سادگی اور مادہ کو قبول کرتا ہوں، یہ سمجھتے ہوئے کہ حقیقی قناعت اسپاٹ لائٹ میں نہیں بلکہ
امن، شکرگزاری اور حقیقی تعلق کے لمحات میں پائی جاتی ہے۔لہذا، میں فیصلے کے شور یا موافقت کے دباؤ سے بے نیاز ہوکر اپنے راستے
پر چلتا رہوں گا۔ میں جیسا کہ میں ہوں کافی ہوں، اور میری زندگی اس چیز کی قدر کرنے کے لیے زیادہ امیر ہے جو واقعی اہم ہے۔ ایک
ایسی دنیا میں جو اکثر تحفے سے زیادہ لپیٹنے کو اہمیت دیتی ہے، میں جیسا کہ میں ہوں، مستند طور پر، غیر معذرت کے ساتھ، اور خوشی سے
زندگی گزارنے کا انتخاب کرتا ہوں، یہ جان کر کہ حقیقی دولت ان دیکھی خصوصیات میں پنہاں ہے جو روح کی تشکیل کرتی ہیں۔ہمارے
غصے ، جھنجھلا ہٹ، طیش میں آنے، احساس بربری کا شکار ہوجانے ، نفرت ، اپنے آپ کو ناگزیر سمجھنے، صرف اپنے آپ سے محبت کرنے
کے پیچھے حالات و واقعات نہیں ہوتے بلکہ ہماری ذہنی و جسمانی بیماریاں ہوتی ہیں اگر ہم ذہنی و جسمانی طور صحت مند ہونگے تو ہمارے
روئیے بھی صحت مند ہونگے جب روئیے صحت مند ہونگے تو ان سے صحت مند حالات و واقعات کا جنم ہوگا لیکن اگر ہم ذہنی و جسمانی
طورپر بیمار ہونگے تو ہمارے روئیے بھی بیمار ہونگے اور جب روئیے بیمار ہونگے تو پھر اس سے بیمار حالات و واقعات جنم لیں گے ایسا
ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی صحت مند آدمی غصے، جھنجھلاہٹ، احساس بر تری یا صرف اپنے آپ سے محبت کرنے جیسی بیماریوں کا شکا ر
ہوجائے ۔ اس لیے اگر آپ کو کوئی شخص غصے، جھنجھلاہٹ ، طیش میں بے تکی باتیں یا تقریر کرتے ہوئے نظر آئے تو آپ کارویہ اس کے
ساتھ وہ ہی ہونا چاہیے جو ایک بیمار آدمی کے ساتھ آپ کا ہوتا ہے اس لیے آئیں سب سے پہلے تو ہم اپنے ملک کے سب ذہنی و جسمانی
بیماریوں کے لیے مل کر دعا کریں ۔ یہ اس لیے بھی بہت ضروری ہے کیونکہ بیمار سخت بے سکونی کا شکار ہوتے ہیں ۔ سارتر لکھتاہے کہ ”
میری ماں صرف یہ دعا مانگتی تھی کہ اسے سکون نصیب ہو ‘ ‘ جبکہ سیموئیل جانسن کہتاہے ” اطمینان کے سوتے ذہن سے پھوٹتے ہیں اور
انسانی فطرت کے بارے میں وہ کم علم جو اپنی بجائے دوسری چیزوں کو تبدیل کرکے خو شیوں کے حصول کے متمنی ہوتے ہیں وہ نہ صرف
اپنی تمام کوششوں کو ضائع کرتے ہیں بلکہ ان ہی غموں کو اپنے لیے بڑھا لیتے ہیں جن کو ختم کرنے کے لیے وہ ساری جدو جہد کررہے
ہوتے ہیں ”۔
یاد رہے جب ہم مسائل کا شکار ہوتے ہیں اور یہ سو چتے ہیں کہ مسئلہ کہیں باہر ہے تو دراصل یہ سو چ ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے یہ کہہ کر ہم اپنا کنٹرول اس باہر کے مسئلے کے ہاتھ میں دیتے ہیں لیکن کبھی بھی مسئلہ باہر نہیں ہوتا مسئلہ ہمیشہ اندر ہوتاہے ۔ اسی لیے ایمر سن کہتا تھا کہ ” تم جو کچھ ہو اس ہونے کا شو ر میرے کانوں میں اسی قدر زیادہ ہے کہ تم جو کچھ کہتے ہو وہ مجھے سنائی نہیں دیتا ” ۔اب ہمارے ملک کے اہم کرداروں کو ہی لے لیجئے جو یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ان کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی کی جارہی ہے غصے، طیش اور جھنجھلاہٹ کے عالم میں وہ سب کو برا بھلا کہنے میں مصروف ہیں یہ سو چے سمجھے بغیر کہ مسئلہ باہر نہیں ہے بلکہ مسئلہ خود ان کے اندر ہے اور یہ وہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں حتی کہ انہوں نے نا سمجھی میں اپنی ہر چیز دائو پر لگا دی ہے نتیجے میں مسئلے نے تو کیا ختم ہونا تھا انہوں نے اپنی لیے ان گنت اور نئے مسائل پیدا کردئیے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ یہ نئے مسائل اور نئے مسائل کو جنم دیں گے او ر وہ مسائل اور نئے مسائل کو جنم دیں گے اور پھر وہ وقت آجائے گا کہ وہ اگر چاہیں گے بھی تو کبھی اپنے مسائل سے نکل ہی نہیں پائیں گے اصل میں ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ہم اپنی دنیا کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ اس عینک پر بھی غور کر لیاکریں کہ جس کے ذریعے ہم یہ سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیںدنیا کے بارے میں ہمارے خیالا ت کی ساری تشکیل کا اسی عینک پر انحصار ہے لیکن افسوس ہماری اکثریت ساری زندگی اپنی عینک کے بارے میں بھی سو چتی تک نہیں ہے یاد رکھیں ہم جوکچھ ہیں اس کا سب کو پتہ ہوتا ہے سوائے خود ہمارے ۔نامور ماہر نفسیات اسٹیفن آر کو ۔ کو وے لکھتاہے ” برائے مہربانی کو شش کیجئے کہ اپنے ذہن سے ہر چیز نکال دیں اور اپنی پوری توجہ میری بات پر مرکو ز رکھیں اپنے وقت ، بزنس، خاندان ، احباب وغیرہ کسی کے بارے میں بھی فکر مند نہ ہوں اور اپنے ذہن کو حقیقتاً کھلا رکھیں ۔ اب آپ اپنے ذہن کی آنکھ سے اپنے آپ کو اپنی کسی پیارے کے جنازے پر جاتا دیکھیں خود کو جنازے کی جگہ پر پہنچتا دیکھیں اور اپنی کار سے باہر آتا دیکھیں آپ جب عمارت میں داخل ہوتے ہیں تو پھول دیکھتے ہیں اور دھیمی دھیمی ماتمی موسیقی آپ کے کانوں میں پڑتی ہے آپ جیسے جیسے آگے بڑھتے ہیں آپ کا احساس زیاں وہاں موجود ہر شخص کے دل سے بہہ رہا ہے اور شناسائی کے مہ وسال کی خوش کن یادوں میں بھی بڑھتا جاتا ہے یہ احساس آپ کے دل میں بھر جاتا ہے جب آپ اس کمرے کے آخر پر پہنچتے ہیں اور تابوت میں جھانکتے ہیں تو اچانک آپ خود کو اپنے مقابل پاتے ہیں یہ آپ کی اپنی میت ہے اور آخری رسومات کی تقریب ہے جو کہ آج سے تین سال بعد منعقد ہورہی ہے۔ اور یہ تمام لوگ آپ کے لیے اپنی عزت کا اظہار کرنے اپنی محبت نچھاور کرنے اور آپ کی بھر پور زندگی کی یاد میں یہاں اکٹھے ہوئے ہیں آپ رسومات کے شرو ع ہونے کے انتظار میں جب اپنی نشست پر بیٹھتے ہیں تو آپ کی نظر اپنے ہاتھ میں رسومات کے پروگرام کی کاپی پر پڑتی ہے تقریب میں چار مقرر ہونگے پہلا ، آپ کے خاندان سے قریبی یادور کا، بچوں ،بھائیوں ، بہنوں ، بھانجے ، بھتیجوں ، چچائوں میں سے کوئی جو سارے ملک کے طول و عر ض سے آپ کے جنازے میں شرکت کے لیے جمع ہوئے ہیں دوسر امقرر ،آپ کے دوستوں میں سے کوئی ہوگا جو کہ آپ کی شخصیت پر روشنی ڈال سکے تیسرا مقرر ،آپ کے پیشے سے متعلق ہوگا اور چوتھا آپ کے مذہبی یا پھر ایسے فلاحی ادارے سے کہ جہاں آپ اپنی خدمات پیش کرتے رہے۔ اب آپ ذرا گہرائی سے سوچئے آپ ان تمام مقررین کے منہ سے اپنے اور اپنی زندگی کے بارے میں کیسی باتیں سننا پسند کریں گے؟ تو پھر آپ کو اپنی کامیابی کی تعریف مل جائے گی اور یہ ممکن ہے کہ یہ تعریف آپ کے ذہن میں اس سے پہلے موجود تعریف سے مختلف ہو ہماری تمام جدوجہد کے مطمح ہائے نظر یعنی شہرت، کامیابی، دولت اور ایسی ہی دوسری چیزیں شاید صحیح دیوار کا حصہ بھی نہ نکلیں ۔اس لیے آئیں پہلی فرصت میں اپنی عینک کو بدل دیں تاکہ آپ دیکھ سکیں کہ مسائل باہر نہیں بلکہ آپ کے اندر ہیں اور آخر کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنا آج گذاریں یا درکھیں ایک نہ ایک دن ہم سب نے چلے جانا ہے یہ ہمارے آج پر منحصر ہے کہ کل لوگ ہمیں کس طرح یاد کریں گے ۔

متعلقہ مضامین

  • ایک نہ ایک دن سب کو چلے جانا ہے!
  • حضرت زہرا (س) کی سیرت کو اپنانا ہی نجات، بیداری اور سماجی اصلاح کی بنیاد ہے، شیخ احمد علی نوری 
  • مشعال ملک کا ریاست پاکستان سے بھارت میں قید یاسین ملک کا مقدمہ اقوام متحدہ میں اٹھانے کا مطالبہ
  • ثقافتی اور سماجی امتزاج کے حامل روایتی اطالوی کھانے یونیسکو کے ثقافتی ورثے میں شامل
  • سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی نے سماجی خطرات میں گھرے تین معصوم بچوں کو شیلٹر ہوم منتقل کردیا
  • ہم دشمن کو چھپ کر نہیں للکار کر مارتے ہیں ،فیلڈ مارشل
  • بھارت کا وطیرہ دہشتگردی ہے، پاکستان کھل کر وار کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے: فیلڈ مارشل
  • دشمن کو چھپ کر نہیں للکار کر مارتے ہیں، دہشت گردی پاکستان نہیں بھارت کا وطیرہ: فیلڈ مارشل
  • ہر فرد کی عزت، مساوات اور انصاف کا تحفظ ریاست کی بنیادی ترجیح : صدر  
  • ہم دشمن کو چھپ کے نہیں للکار کر مارتے ہیں، فیلڈ مارشل